[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
خدا یہاں تو نہیں ہے
[/vc_column_text][vc_column_text]
زمین، موٹی کالی غریب عورت
گرمیوں کی دوپہر میں
جھنجھلا کر
آسمان کی طرف دیکھتی ہے
گرمیوں کی دوپہر میں
جھنجھلا کر
آسمان کی طرف دیکھتی ہے
اس غریب کی بچی کو
سرطان کھا گیا
یہ اپنے بھوکے بیٹوں کے لیے
ناچ رہی ہے
سرطان کھا گیا
یہ اپنے بھوکے بیٹوں کے لیے
ناچ رہی ہے
زندگی کی موٹی تازی بھینس
میرے کندھوں پر چڑھ کر
“جیے سعد منیر!”
کے نعرے لگا رہی ہیں
کتنا بیمار منظر ہے
میرے کندھوں پر چڑھ کر
“جیے سعد منیر!”
کے نعرے لگا رہی ہیں
کتنا بیمار منظر ہے
گوشت منا رہا ہے روحوں کا قحط
آنا(ر) کی انگلی
اور اس پر ناچتی ریت کی روحیں
سورج کا انجن
کونے میں گڑگڑاتا ہوا
اور ادھر سینے میں لگا جگاڑ
اپنی سے ایک کوشش میں
مجھے تمہیں جھونک رہا ہے
کچھ بھی نہیں ہونا
خدا کانٹا مار کر چلا گیا ہے
اور اس پر ناچتی ریت کی روحیں
سورج کا انجن
کونے میں گڑگڑاتا ہوا
اور ادھر سینے میں لگا جگاڑ
اپنی سے ایک کوشش میں
مجھے تمہیں جھونک رہا ہے
کچھ بھی نہیں ہونا
خدا کانٹا مار کر چلا گیا ہے
ایک ہی اندھیرے میں
ایک ہی صحرا ہے
تم یہاں بیٹھے ہو
میں وہاں بیٹھا ہوں
آواز دے کر دیکھ لو
ایک ہی صحرا ہے
تم یہاں بیٹھے ہو
میں وہاں بیٹھا ہوں
آواز دے کر دیکھ لو
خدا البتہ گزر گیا ہے
آگے نکل گیا ہے
آگے نکل گیا ہے
ایک ایک طوفانِ دہشت میں لپٹا ہوا آدمی
خلا کے چوراہے پر بیٹھا
مٹی کو کندھا دے کر
دھاڑیں مار کر رونے دے
خلا کے چوراہے پر بیٹھا
مٹی کو کندھا دے کر
دھاڑیں مار کر رونے دے
ہم مسلسل جنازہ ہیں
بے خدا دعاؤں کی طرح
بے خدائی کے منظر میں
سر پیٹتے ہوئے
دروازہ ڈھونڈتے ہوئے
بے خدا دعاؤں کی طرح
بے خدائی کے منظر میں
سر پیٹتے ہوئے
دروازہ ڈھونڈتے ہوئے
دروازے پر کانٹا لگا ہوا ہے
تم اب مجھے مرتے ہوے دیکھنا
میں تمہیں دیکھ رہا ہوں
لفظ سے لفظ تک پھیلتے ہوئے
آگے کے تمام صفحات پھٹے ہوئے
اندر پڑے ہیں
جیسے سارے لوگ پھٹے ہوئے
باہر پڑے ہیں
لفظ سے لفظ تک پھیلتے ہوئے
آگے کے تمام صفحات پھٹے ہوئے
اندر پڑے ہیں
جیسے سارے لوگ پھٹے ہوئے
باہر پڑے ہیں
تم نے میرا
میں نے تمہارا
خدا کِرکِرا کر دیا ہے
میں نے تمہارا
خدا کِرکِرا کر دیا ہے
میں روح کا کھوٹا سکّہ چلا لوں گا
اپنے چھکے چھٹوا لوں گا
اس سنگترین رستے پر
دل چٹخا لوں گا
تڑخ گئی ہیں بھٹی میں سانسیں
ایک سستا شعلہ بھڑکا ہے
دل سینہ تڑا کر بھاگا
اپنے چھکے چھٹوا لوں گا
اس سنگترین رستے پر
دل چٹخا لوں گا
تڑخ گئی ہیں بھٹی میں سانسیں
ایک سستا شعلہ بھڑکا ہے
دل سینہ تڑا کر بھاگا
تقدیر ہکابکا
کچے کاغذ پر
گھڑی کے تیزاب سے
آپ بیتی لکھے
کچے کاغذ پر
گھڑی کے تیزاب سے
آپ بیتی لکھے
آنکھوں پھٹی ٹھنڈک ہے
اس خاموشی میں
ایک چیخ تنی ہے
بدن
بدن کر
اس خاموشی میں
ایک چیخ تنی ہے
بدن
بدن کر
جسم سجدے تان کر لیٹا ہے
مگر
خدا یہاں تو نہیں ہے
سو
خدارا!
چلو اب تم کچھ بولو
مگر
خدا یہاں تو نہیں ہے
سو
خدارا!
چلو اب تم کچھ بولو
Art work: Aluminum Boys by Gregor Gaida
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]
One Response
ہم مسلسل جنازہ ہیں
بے خدا دعاؤں کی طرح
بے خدائی کے منظر میں
سر پیٹتے ہوئے
دروازہ ڈھونڈتے ہوئے