بیسویں اور اکیسویں صدی خدا کے لیے بحران کی صدیاں قرار دی جا سکتی ہیں کیوں کہ ان دو صدیوں کے دوران خدا کے وجود کی بحث قطعیت سے نکل کر خدا کے موجود ہونے کے امکان اور مذہبی شخصی خدا کے دائرے سے ایک غیر مذہبی یا غیر شخصی خدا کی موجودگی کے تصورات کی صورت اختیار کر چکی ہے۔
1-ان صدیوں میں خدا کے وجود پر زیادہ شدت سے سوال اٹھائے گئے ہیں۔ مذہب کی سماجی گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے سامی یا غیر سامی مذاہب کے خداؤں پر نہایت شدید سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ان سوالات کی نوعیت شلوار کی لمبائی، داڑھی، برقعے اورشراب کی حرمت کی بجائے وجودِ خدا کی مختلف صورتوں کی شکل میں سامنے آ رہی ہےـ یعنی خدا کے وجود کا معاملہ مذہبی دائرہ کار سے باہر نکل کر غیر مذہبی دائرہ بحث میں آ گیا ہے۔
2- بیسوی صدی کے بڑے داناؤں، فلاسفہ، سائنسدانوں اور منطقیوں نے خدا کے وجود کی حقیقت پر زور آزمائی کی ہےـ سائنس اور مادیت پسند فلسفے سے قریب ہونے والوں کی اکثریت نے خدا کو رد کر دیا یا کم سے کم مذہبی اور شخصی خدا پر تنقید کی۔
رسل، ہاکنگ، ڈاکنز، بوہر جیسے لوگوں نے خدا کو رد کیا ہے اور آئن سٹائن اور دوسرے لوگوں نے خدا کو مانا بھی تو مذہبی نقطہ نگاہ سے اختلاف کیاـ اس کے علاوہ ایک کثیر تعداد لا ادریت کی قائل ہے اور کچھ تعداد باقاعدہ مذہبی نقطہ نظر پر باقی رہی ـ
3- ان صدیوں میں دانشور اور عقلاء خدا کے وجود کی حقیقت پر متضاد نظریات کے ساتھ سامنے آئے اور بذاتِ خود بھی کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکےـ
4- رچرڈ ڈاکنز جو جدید الحاد کے سرخیل ہیں اکثر اوقات خدا کے وجود پر مختلف پروگراموں میں بحث کرتے نظر آتے ہیں ان کے مخالف نظریے کے پیشرو ولیم کریگ ہیں ـ میرا ایک بحث دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں طبعیات دان میچو کاکو نے بھی حصہ لیاـ ملحدین اور مواحدین ایک دوسرے پر دلائل دے رہے تھے کہ اتنے میں میچو کاکو کو دعوت دی گئی میچو کاکو کہتے ہیں:
” ایک گروہ کے نزدیک خدا کی موجودگی سو فیصد یقینی ہے اور دوسرے گروہ کو سو فیصد یقین ہے کہ خدا موجود نہیں ہے ان دونوں میں سے کوئی ایک غلط ہوگا اور کوئی ایک صحیح ہوگا لیکن میرے خیال میں دونوں غلط ہیںـ سائنس کا کام ہے فیصلہ کن نتیجہ دینا، سائنس کا کام ہے ایک تھیوری دینا جسے پرکھا جا سکے مثال کہ طور پر میرے ہاتھ میں جو فون ہے اگر میں چھوڑ دوں تو اس کا اٹل نتیجہ یہی ہے کہ یہ کششِ ثقل کے نتیجے میں زمین پر آئے گا لیکن اگر میں یہ کہوں کہ یونیکورنز Unicorns موجود ہیں یا نہیں؟ تو ہم اس سوال کا فیصلہ ہی نہیں کرسکتے اسی طرح خدا موجود ہے یا کائنات کا کوئی مقصد ہے یا نہیں؟ یہ فیصلہ ہی نہیں کیا جاسکتا! کیا ہم کہ سکتے ہیں کہ یونیکونز موجود نہیں؟ کیا معلوم کسی جزیرے پر موجود ہوں کیا پتہ خلا میں کہیں وجود رکھتے ہوں؟ تو ہم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ “
اتنے میں نظریہ خدا کے قائل مناظر کو موقع دیا جاتا ہے تو وہ واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ:
“خدا کے بارے میں ہمارا نظریہ مطلق نہیں ہے یعنی ہم سو فیصد نہیں کہتے بلکہ اس کی موجودگی کے امکان کو دلیل بناتے ہیں۔ ”
یعنی بحث اب خدا کے موجود ہونے سے خدا کا امکان موجود ہونے تک آ چکی ہےـ
یعنی بحث اب خدا کے موجود ہونے سے خدا کا امکان موجود ہونے تک آ چکی ہےـ
5 ۔ دنیا میں اکثریت مطالعے سے دور ہوتی ہے جو اقلیت مطالعہ کرتی ہے اس میں سے بھی بیشتر افراد کا واسطہ نظریہ خدا کی بحث سے کم ہی پڑتا ہے اور اگر ایک عام قاری دونوں طرف کے نظریات کو تقابلی انداز میں تحقیقی انداز میں پڑھنا شروع کرے تو حتمی نتیجے پر پہنچنے کی بجائے مزید ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہاں ایک بڑا اہم سوال ابھرتا ہے جو میں اپنے قارئین کے لیے چھوڑے جارہا ہوں کہ ہم دو مفروضے قائم کرسکتے ہیں:
پہلا مفروضہ یہ کہ خدا موجود نہیں ہے
اب جب خدا موجود ہی نہیں تو گفتگو ہی عبث اور فضول ہے۔
دوسرا مفروضہ یہ کہ خدا موجود ہے
اب جب خدا موجود ہی نہیں تو گفتگو ہی عبث اور فضول ہے۔
دوسرا مفروضہ یہ کہ خدا موجود ہے
اس مفروضے سے متعلق ایک قابل بحث نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی خدا موجود ہے تو وہ کس قسم کا خدا ہے؟ اور اگر کوئی خدا موجود نہیں تو یہ غیر موجود خدا خدا کے ماننے والوں کو سزا دے سکتا ہے؟ یا کوئی خدا کسی انسان کو خود کو نہ ماننے پر سزا دے سکتا ہے؟ یا یہ کہ کسی ایک قسم کے خدا کو ماننے والوں کو کسی دوسری قسم کا خدا سزا دے سکتا ہے یہ سوالات اس لیے بھی اہم ہیں کہ ایک عام انسان نظریہِ خدا پر گوناگوں اور متضاد نظریات کو دیکھتے ہوئے ذہنی انتشار میں مبتلا ہو جاتا ہے تو کیا وہ انسان جو نظریہ خدا کو پڑھتا ہے اور معاشرے کا صرف دو فیصد ہے وہ بھی سزا کا حقدار ٹھہرے گا؟ باقی لوگ جو جبلی و فطری جبر کی تسکین اور روزی روٹی کے غم میں زندگی گزار چکے ہوتے ہیں ان سے سوال ہونا تو عقلی طور پر بھی غیر درست نہیں ہے؟
خدا کے وجود پر بحث جاری رہے گی اور مذہبی علماء، فلسفی اور سائنس دان خدا کے وجود پر مختلف اور متنوع آراء کا اظہار کرتے رہیں گے۔ لیکن ایک عام آدمی اس بحث سے کس حد تک متاثر ہو گا اور کیا وہ مذہب کے بتائے ہوئے شخصی خدا کے تصور کو ترک کرنے پر کبھی آمادہ ہو گا یہ ایک نہایت مشکل سوال ہے اور اس کا بھی کوئی حتمی جواب دینا ممکن نہیں۔