جنید جمشید نے جب سے گائیکی کو خیرباد کہا ہے وہ متنازعہ بیانات کی وجہ سے خبروں میں ہیں۔ ان کے بیانات سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے "عورت” ان کے پسندیدہ موضوعات میں سے ہے۔ ایک حالیہ ٹیلی وژن پروگرام کے دوران انہوں نے کہا ہے کہ اللہ قرآن میں عورت کا نام لے کر ذکر کرنا پسند نہیں کرتا۔ موصوف فرماتے ہیں کہ قرآن میں صرف ایک عورت حضرت مریم علیہ سلام کا تذکرہ نام لے کر کیا گیا ہے اور وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی نسبت سے۔ اس امر کی توجیہہ وہ یوں پیش کرتے ہیں کہ
اول : اللہ عورت کا ذکر اس کے مرد کی نسبت سے کرتا ہے۔
دوم: اللہ ایسا اس لیے کرتا ہے تاکہ عورت کا پردہ قائم رہے۔

کیا جنید جمشید صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ خدا مذکر ہے؟ کیا وہ یہ جتانا چاہتے ہیں کہ اس دنیا میں جہانبانی اور اقتدار پر مرد کا اختیار خدا کی طرف سے ودیعت کردہ ہے؟
جنید جمشید صاحب کو اپنی توجہ ذرا دیر کے لیے عورت کی ذات سے ہٹا کر اس کائنات کی وسعت پر مرکوز کرنی چاہیئے۔ یہ کائنات ایک اندازے کے مطابق یہ کائنات ایک سو ارب کہکشاوں کا جم غفیر ہے اور ہر کہکشاں دس سے سو ارب شمسی نظاموں کا مسکن ہے۔ ہر کہکشاں میں ہر برس مزید 500 نظام ہائے شمسی کا اضافہ ہوتا ہے۔ جنید جمشید اور ان جیسے مرد جس زمین کے باشندے ہیں وہ اس کائنات کی کھربوں کہکشاوں میں سے ایک کہکشاں کے اربوں نظام ہائے شمسی میں سے ایک نظام شمسی کے ایک سیارے پر بسنے والے محض سات ارب باشندوں میں شامل ہیں۔

جنید جمشید سے میرا سوال یہ ہے(اگرچہ میں ان سے کسی معقول جواب کی توقع نہیں رکھتی) کہ کیا خدائے عظیم و برتر نے یہ پوری کائنات محض مردوں کے لیے تخلیق کی ہے؟اس مرد کے لیے جو اس زمین پر تمام تر رزائل کے ساتھ موجود ہے؟کیا جنید جمشید صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ خدا مذکر ہے؟ کیا وہ یہ جتانا چاہتے ہیں کہ اس دنیا میں جہانبانی اور اقتدار پر مرد کا اختیار خدا کی طرف سے ودیعت کردہ ہے؟ کیا وہ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ خالق کائنات نے عورت کو (نعوذباللہ ) اس دنیا میں محض اپنی مخلوقات میں سے” افضل ترین” (مرد) کا دل بہلانے کے لیے پیدا کرتا ہے؟

عورت اس لیے اور اس وقت تک غیر محفوظ ہے جب تک مرد اسے اپنی ملکیت سمجھتے ہوئے اپنے تسلط میں لاکر چاردیواری میں مقید رکھے گا۔
جنید جمشید کا تصور خدا کیا ہے؟ کیا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ (خاکم بدہن) خدا کو اس وسیع کائنات سے قطع نظر صرف مرد کی پسند ناپسند کا خیال ہے؟یا خدا(نعوذ باللہ) ہمیشہ اس فکر میں رہتا ہےکہ عورت کو مرد کی "پناہ” اور "حفاظت "میں دے کراس کی قدرومنزلت میں اضافہ کرے؟یا مرد کو عورت پر غالب کر کے مرد کی شان و شوکت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے؟ کیا جنید جمشید کا خدا صرف مرد کا خالق ہے جومحض مرد کو شناخت عطا کرنے اور اس کا تذکرہ کرنے کا خواہاں ہے؟

جنید جمشید کا یہ بیان کہ اللہ نے حضرت مریم علیہ سلام کا تذکرہ محض حضرت عیسی علیہ سلام کی مناسبت سے کیا ہے اللہ کی ذات اور اس کے طرزعمل سے متضاد ہے۔ ان کا یہ دعویٰ غیر عقلی، غیر منطقی اور مزاج ربانی سے متصادم ہے۔ اگر جنید جمشید کا نقطہ نظر درست ہوتا تو اللہ کبھی قرآن کی سورت کا نام "سورہ مریم” نہ رکھتا۔ میں جنید جمشید سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ جس خدا کو عورت کے تجارت کرنے، اپنے فیصلے کرنے اور شادی کا پیغام بھجوانے پر اعتراض نہیں اسے عورت کے تذکرے میں کوئی تامل کیوں کر ہوسکتا ہے؟ جس خدا کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں وہ مرد اور عورت کی تفریق کیوں کر روا رکھ سکتا ہے؟

جنید جمشید کا ماننا ہے کہ خدا نے عورت کی یہ "حیثیت” اس لیے متعین کی ہے کیوں کہ اسے عورت کا پردہ، احترام اور تحفظ مقصود ہے۔ اگر ذرا دیر کو یہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ عورت کو کس سے تحفظ کی ضرورت ہے؟ عورت اپنی ذاتی شناخت ، آزادی یا مرد کے مساوی حیثیت کی وجہ سے اس دنیا میں غیر محفوظ نہیں۔ عورت اس لیے اور اس وقت تک غیر محفوظ ہے جب تک مرد اسے اپنی ملکیت سمجھتے ہوئے اپنے تسلط میں لاکر چاردیواری میں مقید رکھے گا۔ عورت اس وقت تک غیر محفوظ ہے جب تک مرد عورت سے متعلق اپنی حدود سے لاعلم رہے گا۔

جنید جمشید کی موجودہ بیمار ذہنیت یک لخت وجود میں نہیں آئی بلکہ ان کی یہ کیفیت ان کے سابق طرززندگی (جس سے وہ ہمیشہ غیر مطمئن رہے ہوں گے)کے خلاف ایک روکاوٹ اور حریف کی صورت ہمیشہ سے ان کی شخصیت میں موجودرہی ہوگی۔
مردانہ اجارہ داری پر استوار معاشرے میں عورت کے تقدس اور تحفظ کو جواز بناکر اسےاپنی ملکیت ثابت کرنا بجائے خود ایک متناقض (self-contradictory) رائے ہے۔ اپنی تسکین اور تلذذ کے لیے عورت کو اپنا دست نگر رکھنااور اس کی شاخت کو روندنا ایک ناانصافی ہے اور اس ظلم کے لیے خدا کو ذمہ دار قرار دینا صریح گم راہی ہے۔ عورت صرف اُس معاشرے میں محفوظ رہ سکتی ہے جہاں مردوزن انسان آزاد اور خود مختار انسانوں کے طور پر ایک دوسرے کے رفیق ثابت ہوں۔ عورت کا تحفظ تبھی ممکن ہے جب اسے ایک مساوی اور فعال حیثیت میں معاشرے کا رکن تسلیم کیا جائے۔ مرد کو کسی حیثیت میں بھی عورت کی حیثیت اور مقام کے تعین کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔
جنید جمشید کے عورت سے متعلق افکار اور بیانات معاشرے کی عمومی اور خود ان کی ذاتی ذہنی پسماندگی کا اظہار ہیں۔ جنید جمشید کی موجودہ بیمار ذہنیت یک لخت وجود میں نہیں آئی بلکہ ان کی یہ کیفیت ان کے سابق طرززندگی (جس سے وہ ہمیشہ غیر مطمئن رہے ہوں گے)کے خلاف ایک روکاوٹ اور حریف کی صورت ہمیشہ سے ان کی شخصیت میں موجودرہی ہوگی۔ جنید جمشید کو یقیناً کسی عورت نے گانے بجانے جیسے "غیر مذہبی” فعل کے ارتکاب پر مجبور نہیں کیا جس کا کفارہ وہ عورت کوآزادی فکر، آزادی انتخاب اورآزادی رائے جیسے بنیادی حقوق سے محروم کر کے ادا کرنا چاہتے ہیں۔ جنید جمشید کے لیے میرا مشورہ یہی ہے کہ وہ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ اب وہ مشہور زمانہ پاپ سٹار جنید جمشید نہیں رہے۔ سستی شہرت کی وجوہ تلاش کرنا ترک کردینا ہی ان کے مفاد میں ہے۔

کارٹون بشکریہ صابر نذر

5 Responses

  1. Muhammad aumir

    Its again another thought provoking article. Certainly juniad jamshed can not answer because he belives that God is male. Which in fact denial of God.

    جواب دیں
  2. عثمان خان

    خدائے مرد، مرد و عورت سمیت، ہر جنس و مخلوق کا خدا ہے۔ مگر ہم خدا کے نام پر کتنے غیر منطقی و مذہبی لوگوں پر تنقید کرتے آئے ہیں۔ فرض کیجیے، خدا نے عورت کو مرد کے برابر درجہ دیا ہے، تو پھر جنید کی رائے غیر منطقی و غیر مذہبی ٹھہری۔ عرب جب جنگ کے لیے جاتے تو ان کی عورتیں ساتھ جاتیں، مرہم پٹی کرتیں، زخمیوں کو پانی پلاتیں۔ کچھ خواتین نے لڑائی میں حصہ بھی لیا۔
    نکاح کی بات ہو تو نبی کریم نے اجازت دی:لڑکی کی رضامندی کے بغیر نکاح فاسد ہے۔زندگی کی بات ہو، تو نبی کریم جناب عائشہ کے ساتھ اپنے گھر میں دوڑ لگاتے ہیں، جیت جاتے ہیں۔ پھر عمر گزرتی ہے، آخری وقت میں پھر حضرت عائشہ کے ساتھ: اے عائشہ دوڑ ہو جائے۔۔۔کہا ہاں یا رسول اللہ، تو جناب عائشہ جیت جاتی ہیں۔ نبی کریم فرماتے ہیں: اے عائشہ میں نے حساب برابر کر دیا۔

    امہات المومنین سے ایک بار کچھ ایسا ہوا کہ نبی کریم ناراض ہوئے، ایک مہینے کے لیے علیحدگی اختیار کر لی۔ تو اللہ نے قرآن میں کہا: اے نبی ان سے پوچھ لے، اگر جانا چاہیں تو دے دلا کر رخصت کرو۔
    یہاں بھی عورت کو چوائس دیا گیا، چاہو تو رہو، چاہو تو جائو۔

    خدا پر مرد کی اجارہ داری نہیں، عورتوں میں ایک رابعہ بصریہ بھی ہیں، جن کو (ایک روایت کے مطابق) حس بصری شادی کا پیغام بھیجتے ہیں تو فرماتی ہیں: اے حسن ، مرد کی مرد سے شادی جائز ہے؟ کہا: رابعہ، تم عورت ہو۔ کہنے لگی: نہیں، جو خدا کو چاہے وہ مرد ہے، جو دنیا کو چاہے وہ عورت۔ میں تو خدا کو چاہتی ہوں، ہماری شادی نہیں ہو سکتی۔

    واللہ جنید جمشید کوئی عالم نہیں۔ اسے موضوع بحث بنا کر، غیر منطقی باتوں پر الفاظ ضائع مت کیجیے۔

    جواب دیں
  3. FAIZAN MUSTAFA

    This article seems to me completely biased which just reflect emotional comments on behalf of so called liberals. The person who is writting this article needs a better knowledge of Islamic scriptures , Christine scriptures and scientific research. The women is biologically and Psychologically distinctive creature apart from men. Men is by nature Physically stronger than women by birth now you go and put a case against God that why are they not equal ? It is Law of nature that stronger protects the weaker that is why women is recognized by the name of her’s Father and Husband to exhibit she is not a free meal that everyone can come and use her like a tissue paper which you so called liberals are facing everyday. Try to enlist rape cases in so called liberal societies. justify you ideas scientifically if you really know some knowledge of science.

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: