Laaltain

خاک ہو جائیں گے ہم ،تم کو خبر ہونے تک

24 دسمبر, 2014
Picture of نصیر جسکانی

نصیر جسکانی

youth-yell

پشاورمیں آرمی پبلک سکول پرہونے والےطالبان دہشتگردوں کےحملےنے پاکستان کےمستقبل کو تاریکی میں دھکیلنے کی مکروہ سازش رچائی اورخون نا حق جس وحشت وبربریت کے ساتھ بہایاگیا اس کی مثال انسانی تاریخ میں تلاش کرنا شایدممکن نہیں۔ ان طالبانی سفاک درندوں نےجس بےرحمی اورجبرکےساتھ معصوم بچوں کا قتل عام کیا، ہرذی شعورانسان اس اندوہناک المیے پرنوحہ کناں نظرآ رہا ہے۔ اس درد ناک سانحے کی تکلیف اس ماں کے کلیجے کوچھلنی کرچکی ہے جس نے ہنستے مسکراتے بچے کو گھرسے سکول کے کیلئے روانہ کیا۔ پوری دنیااوربالخصوص پاکستانی قوم نے درد کی اس گھڑی کو محسوس کیااورجس ملی یکجہتی کاعظیم مظاہرہ کیاوہ یقیناً قابل تحسین ہے۔
پاک فوج کےموجوہ سپہ سالارنےجس دلیری اورجرات کامظاہرہ کیا وہ بھی پاکستان کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس کارروائی میں ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نا اہلی اورناکامی کا بڑا ہاتھ ہےمگریہ نااہلی پچھلے کئی عشروں سےجاری ہے، کسی سربراہ مملکت اور کسی آرمی چیف میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان دہشتگردوں کو للکارتا، اس جرات و شجاعت کا سہرا یقیناً جنرل راحیل شریف کےسرجاتا ہےجنہوں نےحقیقی معنوں میں نوازحکومت کےمذاکراتی ڈرامےکی پراہ نہ کرتے ہوئے پاکستانی عوام کی امنگوں کےعین مطابق آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا جسےچاروناچارحکومت کوتسلیم کرنا پڑا۔ انہی نام نہادمذاکرات کی آڑمیں نوازحکومت نے سرکردہ طالبان دہشگردوں کوجیلوں سےباعزت رہا کیا۔ کیا اسے جمہوریت کہتے ہیں جس میں جمہور کے قاتل دہشتگردوں کودھڑا دھڑآزاد کیا جاتاہےتاکہ وہ دوبارہ منظم ہوکرآرمی بپلک سکول سمیت دیگرعوامی مقامات پرحملہ آورہوں ۔
طالبان کے خلاف کارروائی کی حکمت عملی تیارکرنےوالی حکومتی کمیٹی میں انہی لوگوں کی اکثریت ہےجو طالبان کےساتھ مذاکرات کےحامی تھےاورطالبا ن کیلئےنرم گوشہ رکھتے ہیں۔
یہ بات اب عوام پرآشکارہوچکی ہےکہ اس ملک کےسربراہ اپنی اولادوں کومحفوظ رکھنےکیلئےعوام کی اولادوں کی قربانی دینے پرآمادہ ہوچکےہیں۔ اس اندوہناک سانحہ کے بعد ہونا تویہ چاہیےتھاکہ اقتدارکےایونوں میں بیٹھے وزراء(صوبائی و وفاقی) سب مستعفی ہوجاتے، مگران اندھےاوربہرے حکمرانوں نےفوری راست اقدام کرنےکی بجائےکمیٹیوں کی تشکیل کرکےقوم کوایک بارپھربیوقوف بنانےکوشش کی ہے۔ طالبان کے خلاف کارروائی کی حکمت عملی تیارکرنےوالی حکومتی کمیٹی میں انہی لوگوں کی اکثریت ہےجو طالبان کےساتھ مذاکرات کےحامی تھےاورطالبا ن کیلئےنرم گوشہ رکھتے ہیں۔
اس بارپوری قوم بالخصوص سول سوسائٹی اورمیڈیا نے جس جرات کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے، اسلام آباد کےقلب میں لال مسجد میں بیٹھے طالبانی نمائندےنےاس المناک سانحہ پرجس مریض ذہنیت کا مظاہرہ کیا وہ قابل مذمت ہے۔ طالبان کے حامیوں کےخلاف سول سوسائٹی نے جس عوامی ردعمل کا مظاہرہ کیاوہ یقیناً قابل تحسین ہے۔ مگر حکومت نےان امن پسند، تعلیم یافتہ اور باشعور پاکستانیوں کے خلاف مقدمہ درج کرادیا، جواس حکومت کی طالبان دوستی کی واضح مثال ہے۔
گذشتہ دنوں وفاقی وزیرداخلہ کی مایوس کن پریس کانفرنس نےاس واقعہ کےتناظرمیں حکومتی بے بسی اور بے حسی کو آشکارکر دیاہے۔ اس پریس کانفرنس میں بھی وزیرموصوف کی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ طالبان دہشتگردوں کانام کھل کرلیتےیا دہشتگردوں کےحمایتیوں اوران کواپنی اولادکہنے والوں کی مذمت کرتے۔ اس کے برعکس انہوں نےلال مسجدمیں براجمان طالبانی نمائندوں کی شان میں قصیدہ گوئی گئی اورانکےآباواجداد کے ساتھ یارانوں کا تذکرہ کیا گیا۔ یہ لمحات یقیناً انتہائی تکلیف دہ تھےکہ جس ملک میں صاحب اقتداراس قدربے حسی کامظاہرہ کر رہےہوں وہاں عوام کی جان ومال کی حفاظت ایک خواب سےزیادہ کچھ نہیں ہے۔
طالبان سےجنگ جیتنے کے لیےطالبان کو کھل کو اپنا دشمن تسلیم کرنےاوران کی فکری،اخلاقی اور مالیاتی آبیاری کرنے والوں کے خلاف بھی موثراقدامات کرنےکا وقت آ گیا ہے۔ اسی طرح آرمی چیف کو اپنے محکمہ کی تطہیرکرنی ہوگی، ان تمام کالی بھیڑوں کونکالنا ہوگاجوآستین کےسانپ ہیں۔ تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کواپنےاندازفکراورعمل کا ازسرنوجائزہ لینا ہوگا کہ وہ محب وطن قوتوں کے ساتھ ہیں یا پھران درندہ صفت انسان نمابھیڑیوں کے ساتھ ہیں۔ حکمرانوں کوقوم کی اس یک جہتی کو غنیمت جانتے ہوئےاس ناسورکےخلاف عسکری اورفکری محاذپربھرپورعملی کارروائی کا آغازکر دینا چاہیے، ورنہ ہرمحب وطن پاکستانی پرفرض ہے کہ ان بے حس حکمرانوں کی اس بےعملی کے خلاف احتجاج کریں یا پھرایک اورکڑے امتحان کے لیے تیار ہو جائیں ۔

Cartoon by Sabir Nazar

ہمارے لیے لکھیں۔