ایک ماں ہونے کے ناطے میرے لیے یہ بات بے حد تشویشناک ہے کہ میں اور میراخاندان صحت مند تفریح سے محروم ہو چکے ہیں۔ کھانے کی میز سے لے کر تعطیلات تک ہمارے پاس خوش ہونے اور خوشی کا اظہار کرنے کے مواقع اس قدر کم ہوچکے ہیں کہ سوشل میڈیا ویب سائٹس اور ٹی وی پروگرامز کے سوا کوئی تفریح باقی نہیں رہی۔ کبھی کبھار تہواروں پررشتہ داروں سے رسمی ملاقاتوں، خریداری، خاندانی تقریبات یا کہیں باہر کھانا کھانے جیسی سرگرمیوں کے بہانے گھرسے نکلنے کے مواقع کے سواخاندان خصوصاً خواتین کے لئے باہر نکلنا ممکن نہیں رہا۔
میرے بچپن میں گھریلو تقریبات اور ملنے ملانے کے دوران جو خوشی اور اطمینان دیکھنے کو ملتا تھا آج میرے بچوں کے لئے اپنے رشتہ داروں اور ملنے ملانے والوں کے لئے نہ تو وہ خلوص باقی رہا ہے اور نہ کشش۔ میری نسل نے بسنت،کرکٹ میچ، میوزک کنسرٹس، سینما اور شادی کی تقریبات پر جو چہل پہل، رونق اور گہما گہمی دیکھ رکھی ہے وہ آج کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ شدت پسندی، امن و امان کی خراب صورت حال اور اخراجات کے دباو نے ہر شے میں سےخوشی کا عنصر ختم کردیا ہے۔ آنے والی نسل ایک ایسے گھٹن زدہ ماحول میں اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی گزار رہی ہے جہاں خوش ہونے،گیت گانے، ناچنے ، پہننے اور گھر سے نکلنے پر پابندیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ایک جانب ریپ Rapeاور سٹریٹ کرائمز کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں تو دوسری جانب عوامی اجتماعات میں دہشت گرد حملوں کا خوف ہے جس کے باعث گھر سے نکلنا اور کہیں بھی جانا ممکن نہیں رہا۔
میرے بچپن میں گھریلو تقریبات اور ملنے ملانے کے دوران جو خوشی اور اطمینان دیکھنے کو ملتا تھا آج میرے بچوں کے لئے اپنے رشتہ داروں اور ملنے ملانے والوں کے لئے نہ تو وہ خلوص باقی رہا ہے اور نہ کشش۔ میری نسل نے بسنت،کرکٹ میچ، میوزک کنسرٹس، سینما اور شادی کی تقریبات پر جو چہل پہل، رونق اور گہما گہمی دیکھ رکھی ہے وہ آج کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ شدت پسندی، امن و امان کی خراب صورت حال اور اخراجات کے دباو نے ہر شے میں سےخوشی کا عنصر ختم کردیا ہے۔ آنے والی نسل ایک ایسے گھٹن زدہ ماحول میں اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی گزار رہی ہے جہاں خوش ہونے،گیت گانے، ناچنے ، پہننے اور گھر سے نکلنے پر پابندیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ایک جانب ریپ Rapeاور سٹریٹ کرائمز کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں تو دوسری جانب عوامی اجتماعات میں دہشت گرد حملوں کا خوف ہے جس کے باعث گھر سے نکلنا اور کہیں بھی جانا ممکن نہیں رہا۔
ہم اپنے بچوں کو خوش ہونا اورخوشی کا اظہار کرنا نہیں سکھا پائے کیوں کہ ہم نے انہیں پارکوں، کھلی جگہوں، پودوں، درختوں، گیتوں، تصویروں اور کھلونوں کی بجائے مشینوں اور مشینوں جیسے معمولات کا تحفہ دیا ہے۔
ہمارے بچوں پر اس وقت ایک ایسا نظام الاوقات منضبط ہے جس میں ان ذات کے لئے وقت ختم ہوچکا ہے۔ ان بچوں پر سکول، کالج اور یونیورسٹی کے بعد اکیڈمی، ٹیوٹر اور قاری صاحب کے ساتھ ہوم ورک، امتحانات اور اسائمنٹس کا ایک ایسا چکرا دینے والا سلسلہ مسلط ہے کہ یہ سانس لینے، کھیلنے کودنے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار سے محروم ہو چکے ہیں۔آنے والی نسل کی تفریح فیس بک، ٹی وی،خریداری اور کھانے پینے تک محدود ہوگئی ہے ۔ ہم اپنے بچوں کو خوش ہونا اورخوشی کا اظہار کرنا نہیں سکھا پائے کیوں کہ ہم نے انہیں پارکوں، کھلی جگہوں، پودوں، درختوں، گیتوں، تصویروں اور کھلونوں کی بجائے مشینوں اور مشینوں جیسے معمولات کا تحفہ دیا ہے۔ ان بچوں کے لئے فاسٹ فوڈ ریستورانوں اور پان کی دکانوں کے علاوہ نہ تو کوئی مل بیٹھنے کی جگہ ہے اور نہ ہی سیاسی جلسوں، دھماکوں اور موبائل فون ایپس کے سوا گفتگو کا کوئی موضوع ہے۔
گھٹن زدہ گھریلو ماحول کا سب سے برا اثر لڑکیوں پر ہوا ہے جن کی آزادانہ نقل و حرکت اور تفریح کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ سڑکیں، چوراہے اور عوامی مقامات عورت کے لیے کبھی اتنے غیر محفوظ نہیں تھے جتنے آج ہیں۔ اگرچہ آنے والی نسل اپنے حق اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کو تیار ہے اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد اپنے حق کے لیے گھروں سے نکلنے لگی ہے لیکن بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور تنگ نظری نے تفریحی مقامات پر عورتوں کے لیے خطرات میں بے حد اضافہ کیا ہے۔
بچوں اور بڑو ں کی ذہنی ہم آہنگی میں پایا جانے والا فرق بھی خاندان کے گھلنے ملنے میں مزاحم ہے۔ میرے نزدیک خاندان میں ایک دوسرے کے مسائل پر کھل کر بات کرنے کا رحجان نہ ہونے کے باعث بچوں اور بڑوں میں ایک ایسی خلیج حائل جس کے باعث خاندانی اجتماع بے حد بور اور بے مزہ ہو چکے ہیں۔ خاندان کے ارکان کے درمیان غیر ضروری تکلف کے باعث بچے اپنے گھروالوں کی بجائے زیادہ سے زیادہ وقت اپنے دوستوں اور ہم عمروں میں گزارنا چاہتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے بچوں کو اپنے بڑوں کے اثر سے آزاد کردیا ہے اور انہیں اپنی بات کہنے کے مواقع پہلے سے زیادہ حاصل ہیں لیکن گھر میں بات کرنے اور بولنے کی آزادی نہ ہونے کے باعث ان کا حقیقی زندگی کی سرگرمیوں، خوشیوں اور تفریحات سے تعلق کم ہوتا چلا جارہا ہے۔
گھٹن زدہ گھریلو ماحول کا سب سے برا اثر لڑکیوں پر ہوا ہے جن کی آزادانہ نقل و حرکت اور تفریح کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ سڑکیں، چوراہے اور عوامی مقامات عورت کے لیے کبھی اتنے غیر محفوظ نہیں تھے جتنے آج ہیں۔ اگرچہ آنے والی نسل اپنے حق اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کو تیار ہے اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد اپنے حق کے لیے گھروں سے نکلنے لگی ہے لیکن بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور تنگ نظری نے تفریحی مقامات پر عورتوں کے لیے خطرات میں بے حد اضافہ کیا ہے۔
بچوں اور بڑو ں کی ذہنی ہم آہنگی میں پایا جانے والا فرق بھی خاندان کے گھلنے ملنے میں مزاحم ہے۔ میرے نزدیک خاندان میں ایک دوسرے کے مسائل پر کھل کر بات کرنے کا رحجان نہ ہونے کے باعث بچوں اور بڑوں میں ایک ایسی خلیج حائل جس کے باعث خاندانی اجتماع بے حد بور اور بے مزہ ہو چکے ہیں۔ خاندان کے ارکان کے درمیان غیر ضروری تکلف کے باعث بچے اپنے گھروالوں کی بجائے زیادہ سے زیادہ وقت اپنے دوستوں اور ہم عمروں میں گزارنا چاہتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے بچوں کو اپنے بڑوں کے اثر سے آزاد کردیا ہے اور انہیں اپنی بات کہنے کے مواقع پہلے سے زیادہ حاصل ہیں لیکن گھر میں بات کرنے اور بولنے کی آزادی نہ ہونے کے باعث ان کا حقیقی زندگی کی سرگرمیوں، خوشیوں اور تفریحات سے تعلق کم ہوتا چلا جارہا ہے۔
Leave a Reply