“مر گئی بے چاری! سسکیاں لیتی، آہیں بھرتی، آ ہا، افسوس، صد افسوس ! ”
“کون مر گئی بھئی، کیوں اتنے بین کر رہے ہو، کاہے کو اتنا رونا دھونا ڈالا ہوا ہے؟ ”
“ہیں؟ تو کیا تمہیں نہیں معلوم؟ معلوم نہیں آخر کس چیز کا پتہ ہے تمہیں بے خبرے خبردار منٹ موجودے ! ”
“اب بتاؤ گے بھی کہ بس ایسے ہی بجھاہٹیں ہی ڈالتے جاؤ گے چاچا بے ٹائیمے ٹائم پٹاس !”
“اُمّہ خالہ مر گئی !”
“بھئی کون سی اُمّہ خالہ؟”
“کون مر گئی بھئی، کیوں اتنے بین کر رہے ہو، کاہے کو اتنا رونا دھونا ڈالا ہوا ہے؟ ”
“ہیں؟ تو کیا تمہیں نہیں معلوم؟ معلوم نہیں آخر کس چیز کا پتہ ہے تمہیں بے خبرے خبردار منٹ موجودے ! ”
“اب بتاؤ گے بھی کہ بس ایسے ہی بجھاہٹیں ہی ڈالتے جاؤ گے چاچا بے ٹائیمے ٹائم پٹاس !”
“اُمّہ خالہ مر گئی !”
“بھئی کون سی اُمّہ خالہ؟”
دیکھ منٹ موجودے میری ایک بات مضبوطی سے اپنے سافٹ ویئر میں باندھ لو کہ مسلمان ظالم ہو سکتا ہے، حرام ہوتا دیکھ سکتا ہے پر کھاتا وہ حلال کر کے ہی ہے
” لو جی تمہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اُمّہ خالہ کون تھی؟ کھپرے، مجھے ایک چیز کا بتا، آخر تمہیں پتہ کس چیز کا ہے؟ سارا دن وٹس ایپ سے تیری دماغ کی انگلیان فنگلیاں ہٹیں تو تجھے پتہ چلے آس پاس اور اڑوس پڑوس کی فوتگیوں کا؟ ”
“بس تم نے تو چاچا بے ٹائیمے ٹائم پٹاس قسم ہی کھائی ہے کہ سیدھے سبھاؤ بات نہیں کرنی!”
“اور تم نے بھی تو منٹ موجودے کبھی تھوتھنی مارکہ سیلفیوں سے باہر منہ نکال دیکھیا ہو تو تجھے بھی کچھ پتہ چلے نا! ”
“چل آج تیری بھی فوٹو بنا کے، ایڈٹ شیڈٹ مار کے فیس بک پہ چڑھاتا ہوں! اب تو تُو خوش ہو جا۔۔۔۔ اور یہ سسپنس سٹوری اب سب سے پہلے پھوڑ ہی دے! ”
“اچھا منٹ موجودے، او گمشدہ گُڈے بتاتا ہوں تجھے خالہ اُمّہ کون تھی۔ پانی کا گلاس پینے دے ذرا، منہ کو تو تھوڑا گیلا ہو لینے دے!
” پی لو پانی، پانی پینے کے بعد شایدتیرے اندر سے خبر رِس پڑے! پہلے ہی اتنا ٹائم کھا گئے ہو میرا۔۔۔۔ اب پانی سے بات شاید ڈکار کے ساتھ ہی نکل پڑے! ”
“اچھا تو تُو پوچھ رہا تھا کہ خالہ اُمّہ کون ہے۔ ہاں، اس دوشیزہ نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی۔ غریب کی جورو تھی لہٰذا بوقتِ ضرورت اور حسبِ ذائقہ سب کی بھابھی تھی۔ لیکن بہت سارے قریبی رشتے دار اسے غیرت کے نام پر قتل کرنے کےلئے اس کے پیچھے پڑے رہے۔ لیکن یہ بھی کبھی ایک سرحد پار کرکے دوسری سرحد کی حدوں میں پناہ لیتی رہی۔ ہاں یہ یاد رکھنا کہ جوانی میں اس کا نام پان اسلامزم تھا۔۔۔۔او منٹ موجودے یہ سُن ساتھ والی گلی سے قلفیوں والے بابے اللہ رکّھے کی آواز آ رہی ہے، اسے ذرا مس کال مار کے ادھر آئے اس سے قلفیوں کھاتے ہیں! ”
“لے تجھے درمیان میں قلفیوں کیا سوجھی، تیرے کان کدھر کدھر ہوتے ہیں!”
” اوہ تُو کرتا ہے مس کال کہ میں خود جا کے اس سے لے آؤں قلفیاں ؟ ”
” بڑا جذباتی بلیک میلر ہے چاچے بے ٹائیمے ٹائم پٹاس! چل مس کال نہیں کرتا، کال کر کے ہی بُلا لیتا ہوں قلفیوں والے کو۔ اچھا تُو اب آگے کی سُنا، اس خالہ اُمّہ کی جوانی پہ آ کے تیری قلفی کیوں جم گئی! ”
” یار! منٹ موجودے شارٹ بریک ضروری تھی۔ خالہ اُمّہ کی بھاگا بھاگی میں اک موڑ آگیا ہے۔”
” چل قلفی تجھے مل ہی جائے گی اب، بابا اللہ رکّھا ادھر آ ہی رہا ہے بس میری بات ہو گئی ہے اس سے۔”
“اچھا تو خالہ اُمّہ اسی بھاگا بھاگی میں کئی سال ہوئے بیوہ ہو گئی تھی۔ جب خالہ بیوہ ہوئی تو غیرت کے نام پر اسے قتل کرنے والوں کا غصہ بھی کچھ ٹھنڈا ہو گیا۔ لیکن وہ بہت لاچار ہوگئی۔ عیدوں اور شب برأتوں پہ اس پر ترس کھا کے اس کے رشتے دارکچھ بچا کھچا قربانی کا گوشت اور فطرہ زکوٰہ وغیرہ دے کر اپنی آخرت سنوار تے اور ضمیر کی خلش مٹا لیتے تھے۔ کبھی کبھار پرانے کپڑے دے کر آفات و بلیات سے حفاظت کی سند بہم پہنچا لیتے تھے۔ لیکن پچھلے ایک دو سالوں سے خالہ اُمّہ کے بھائیوں اور بھرجائیوں کی ناجائز اولاد نے تایا سام کے ساتھ نشے میں چُور ہو کے خالہ اُمّہ سے مُلک شام میں چھیڑ چھاڑ شروع کر رکھی تھی۔ کئی دفعہ تو کپڑے تک پھاڑ دئیے۔ لیکن شریر بچے چونکہ خالہ اُمّہ کے بہن بھائیوں کے اپنے ہی تھے اس لئے آنکھیں دوسری طرف کرلینا ہی درست سمجھا گیا کہ مبادا چار عاقل بالغ اور راسخ العقیدہ مردوں کی گواہی پوری نہ ہو جائے۔ دیکھ منٹ موجودے میری ایک بات مضبوطی سے اپنے سافٹ ویئر میں باندھ لو کہ مسلمان ظالم ہو سکتا ہے، حرام ہوتا دیکھ سکتا ہے پر کھاتا وہ حلال کر کے ہی ہے۔”
“بس تم نے تو چاچا بے ٹائیمے ٹائم پٹاس قسم ہی کھائی ہے کہ سیدھے سبھاؤ بات نہیں کرنی!”
“اور تم نے بھی تو منٹ موجودے کبھی تھوتھنی مارکہ سیلفیوں سے باہر منہ نکال دیکھیا ہو تو تجھے بھی کچھ پتہ چلے نا! ”
“چل آج تیری بھی فوٹو بنا کے، ایڈٹ شیڈٹ مار کے فیس بک پہ چڑھاتا ہوں! اب تو تُو خوش ہو جا۔۔۔۔ اور یہ سسپنس سٹوری اب سب سے پہلے پھوڑ ہی دے! ”
“اچھا منٹ موجودے، او گمشدہ گُڈے بتاتا ہوں تجھے خالہ اُمّہ کون تھی۔ پانی کا گلاس پینے دے ذرا، منہ کو تو تھوڑا گیلا ہو لینے دے!
” پی لو پانی، پانی پینے کے بعد شایدتیرے اندر سے خبر رِس پڑے! پہلے ہی اتنا ٹائم کھا گئے ہو میرا۔۔۔۔ اب پانی سے بات شاید ڈکار کے ساتھ ہی نکل پڑے! ”
“اچھا تو تُو پوچھ رہا تھا کہ خالہ اُمّہ کون ہے۔ ہاں، اس دوشیزہ نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی۔ غریب کی جورو تھی لہٰذا بوقتِ ضرورت اور حسبِ ذائقہ سب کی بھابھی تھی۔ لیکن بہت سارے قریبی رشتے دار اسے غیرت کے نام پر قتل کرنے کےلئے اس کے پیچھے پڑے رہے۔ لیکن یہ بھی کبھی ایک سرحد پار کرکے دوسری سرحد کی حدوں میں پناہ لیتی رہی۔ ہاں یہ یاد رکھنا کہ جوانی میں اس کا نام پان اسلامزم تھا۔۔۔۔او منٹ موجودے یہ سُن ساتھ والی گلی سے قلفیوں والے بابے اللہ رکّھے کی آواز آ رہی ہے، اسے ذرا مس کال مار کے ادھر آئے اس سے قلفیوں کھاتے ہیں! ”
“لے تجھے درمیان میں قلفیوں کیا سوجھی، تیرے کان کدھر کدھر ہوتے ہیں!”
” اوہ تُو کرتا ہے مس کال کہ میں خود جا کے اس سے لے آؤں قلفیاں ؟ ”
” بڑا جذباتی بلیک میلر ہے چاچے بے ٹائیمے ٹائم پٹاس! چل مس کال نہیں کرتا، کال کر کے ہی بُلا لیتا ہوں قلفیوں والے کو۔ اچھا تُو اب آگے کی سُنا، اس خالہ اُمّہ کی جوانی پہ آ کے تیری قلفی کیوں جم گئی! ”
” یار! منٹ موجودے شارٹ بریک ضروری تھی۔ خالہ اُمّہ کی بھاگا بھاگی میں اک موڑ آگیا ہے۔”
” چل قلفی تجھے مل ہی جائے گی اب، بابا اللہ رکّھا ادھر آ ہی رہا ہے بس میری بات ہو گئی ہے اس سے۔”
“اچھا تو خالہ اُمّہ اسی بھاگا بھاگی میں کئی سال ہوئے بیوہ ہو گئی تھی۔ جب خالہ بیوہ ہوئی تو غیرت کے نام پر اسے قتل کرنے والوں کا غصہ بھی کچھ ٹھنڈا ہو گیا۔ لیکن وہ بہت لاچار ہوگئی۔ عیدوں اور شب برأتوں پہ اس پر ترس کھا کے اس کے رشتے دارکچھ بچا کھچا قربانی کا گوشت اور فطرہ زکوٰہ وغیرہ دے کر اپنی آخرت سنوار تے اور ضمیر کی خلش مٹا لیتے تھے۔ کبھی کبھار پرانے کپڑے دے کر آفات و بلیات سے حفاظت کی سند بہم پہنچا لیتے تھے۔ لیکن پچھلے ایک دو سالوں سے خالہ اُمّہ کے بھائیوں اور بھرجائیوں کی ناجائز اولاد نے تایا سام کے ساتھ نشے میں چُور ہو کے خالہ اُمّہ سے مُلک شام میں چھیڑ چھاڑ شروع کر رکھی تھی۔ کئی دفعہ تو کپڑے تک پھاڑ دئیے۔ لیکن شریر بچے چونکہ خالہ اُمّہ کے بہن بھائیوں کے اپنے ہی تھے اس لئے آنکھیں دوسری طرف کرلینا ہی درست سمجھا گیا کہ مبادا چار عاقل بالغ اور راسخ العقیدہ مردوں کی گواہی پوری نہ ہو جائے۔ دیکھ منٹ موجودے میری ایک بات مضبوطی سے اپنے سافٹ ویئر میں باندھ لو کہ مسلمان ظالم ہو سکتا ہے، حرام ہوتا دیکھ سکتا ہے پر کھاتا وہ حلال کر کے ہی ہے۔”
اب دیکھو اپنے اپنے مدرسے اور مسجدی کاروبار چالُو رکھنے والے رانگ نمبر خالہ اُمّہ کی لاش کو حنوط کر کے رکھنے کی ‘حلال مشرکانہ’ ہنڈیا کب تک چڑھائے رکھتے ہیں
“چاچا یہ درمیان میں تیری فیلسُوفیاں نا آتیں تو کیا تو بے ٹائیما ٹائم پٹاس نا رہتا! عادت سے مجبور ہو تم بھی بس! دیکھ کتنی دیر سے میں نے اپنی وٹس ایپ کو ہاتھ نہیں لگایا صرف اس لیے کہ خالہ اُمّہ کی بِپتا سن لوں۔ پر تیرا رضائے الٰہی سے شارٹ بریک پہ آنے والا پیر پہلے الطاف حسین ٹیلی فُونیا اور اب صرف پینسٹھ کی جنگ کی کسی خودساختہ خواب آلود فتح کی یادگاری تقریب کے وقت ہی اٹھتا ہے۔ باقی ہر بات پہ تیرے انداز وہی بے ٹائیمے ہی ہیں۔ اب آگے بول بھی نا چاچا! ”
” تھوڑی سانس بھی لے لینے دیا کر بے چین بجلی، سناتا ہوں آخری سانسیں لیتی کچی نیند کی خوابی کہانی! اوہ ہاں ایک بات بتا تُو نے فیس بک پہ وہ فوٹو دیکھی تھی اس چھوٹے سے شامی بچے آئیلان کُردی کی، وہ جو ترکی کے ساحل پہ ملا تھا۔ سرخ رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی، پتہ نہیں اس کی روح سجدے کی حالت میں آسمان تک پہنچی تھی کہ نہیں، اس عقدہ کو آنے والے دنوں میں حل کرنا تو خیر اپنے مجتہدین و فقیہانِ کرام کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے!”
“ہاں، ہاں دیکھی تھی وہ تصویر۔۔۔ بڑا کیُوٹ بچہ تھا پر شِٹ وہ مر گیا تھا۔”
“اس بچے کی موت کے صدمے اور مغربی ملکوں میں کھلنے والے نئے مدینے کے غم میں خالہ اُ مہ مر گئی۔ غیرت کیلئے قتل کرنے والے ریڈی میڈ بھائیوں نے اپنی شرارتوں کے سبب بے گھر ہوئے شامیوں کے لیئے اپنے مدینے کے کواڑ بند کر لیے تھے۔ اس غم میں نڈھال ہو خالہ اُمّہ مرگئی! اب دیکھو اپنے اپنے مدرسے اور مسجدی کاروبار چالُو رکھنے والے رانگ نمبر خالہ اُمّہ کی لاش کو حنوط کر کے رکھنے کی ‘حلال مشرکانہ’ ہنڈیا کب تک چڑھائے رکھتے ہیں۔ پر ماما سعودے نےفوت شدہ خدا کے دیس یعنی نیٹشے کے جرمنی اور اردگرد کی کافر بستیوں کے لیے دو سو مسجدوں کے تحفے کی آفر دے کر وہاں خدا کو آب حیات کا پیالہ پیش کیا ہے جس طرح اس نے وطنِ عزیز پاکستان میں کئی عشروں دریا کے دریا دان کیے تھے۔
” ہونہہ۔۔۔۔ ہوں ں ں”
“اوہ منٹ موجودے! بابا اللہ رکّھا آگیا قلفیوں کا ٹھیلا لے کے، چل آ قلفیاں چوسیں قلفیاں، اصلی کھوئے ملائی والیاں! “
” تھوڑی سانس بھی لے لینے دیا کر بے چین بجلی، سناتا ہوں آخری سانسیں لیتی کچی نیند کی خوابی کہانی! اوہ ہاں ایک بات بتا تُو نے فیس بک پہ وہ فوٹو دیکھی تھی اس چھوٹے سے شامی بچے آئیلان کُردی کی، وہ جو ترکی کے ساحل پہ ملا تھا۔ سرخ رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی، پتہ نہیں اس کی روح سجدے کی حالت میں آسمان تک پہنچی تھی کہ نہیں، اس عقدہ کو آنے والے دنوں میں حل کرنا تو خیر اپنے مجتہدین و فقیہانِ کرام کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے!”
“ہاں، ہاں دیکھی تھی وہ تصویر۔۔۔ بڑا کیُوٹ بچہ تھا پر شِٹ وہ مر گیا تھا۔”
“اس بچے کی موت کے صدمے اور مغربی ملکوں میں کھلنے والے نئے مدینے کے غم میں خالہ اُ مہ مر گئی۔ غیرت کیلئے قتل کرنے والے ریڈی میڈ بھائیوں نے اپنی شرارتوں کے سبب بے گھر ہوئے شامیوں کے لیئے اپنے مدینے کے کواڑ بند کر لیے تھے۔ اس غم میں نڈھال ہو خالہ اُمّہ مرگئی! اب دیکھو اپنے اپنے مدرسے اور مسجدی کاروبار چالُو رکھنے والے رانگ نمبر خالہ اُمّہ کی لاش کو حنوط کر کے رکھنے کی ‘حلال مشرکانہ’ ہنڈیا کب تک چڑھائے رکھتے ہیں۔ پر ماما سعودے نےفوت شدہ خدا کے دیس یعنی نیٹشے کے جرمنی اور اردگرد کی کافر بستیوں کے لیے دو سو مسجدوں کے تحفے کی آفر دے کر وہاں خدا کو آب حیات کا پیالہ پیش کیا ہے جس طرح اس نے وطنِ عزیز پاکستان میں کئی عشروں دریا کے دریا دان کیے تھے۔
” ہونہہ۔۔۔۔ ہوں ں ں”
“اوہ منٹ موجودے! بابا اللہ رکّھا آگیا قلفیوں کا ٹھیلا لے کے، چل آ قلفیاں چوسیں قلفیاں، اصلی کھوئے ملائی والیاں! “