میں اپنی اولاد کے لئے
دودھ کی ایک بوتل
اپنے صاحب کے لئے تسکین
گھر کے لیے مشین
اور اپنے لیے
ایک آہٹ بن کے رہ گئی ہوں
میرا گھر
جہاں مجھے رات اور دن
انتظار کے دہکتے ہوئے لمس
لپیٹ کر سونا پڑرہا ہے
خیال کی ادھ سلی باس سے
کلائیوں کے گجرے گوندھ کر
سنگھار کرنا پڑرہا ہے
تنہائیوں کے سوال
ہونٹ کی سرخیوں کی
تہوں میں دبا کر
الوداعی بوسوں کا
جواب سہنا پڑرہا ہے
خموش ٹٹولتی ہوئی
پتلیاں، کاجلوں کی لکیروں کی جگہ
سجا کر آنسوؤں کے درمیان
ہنسنا پڑرہا ہے
میرا گھر جہاں مجھے اشیاء صرف کی طرح
رہنا پڑرہا ہے
Image: Shadi Ghadiran