pabjolan
صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بے شمار لمحات ایسے آئے جب الفاظ کم پڑ گئے، سوچنے سمجھنے کی حس جواب دے گئی اور کلیجہ منہ کو آ یالیکن پھر بھی ہمت باندھی اور لفظوں کے سہارے کام چلا تے رہے۔ ایسا شاید پہلی بار ہوا ہے کہ کسی واقعے نے بولنے اور لفظ پرونے کی صلاحیت کو مکمل چت کر دیا ہے…… لاہور میں ایک اورحوا کی بیٹی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ایک معصوم کلی، ننھی کرن زخموں سے چوراور گہرے ذہنی صدمے سے دو چارہوئی ہے۔ پوری قوم اس سانحے ، اس المیے کی تکلیف کو محسوس کر رہی ہے۔یقین جانیے میں نے اپنے ساتھ بیٹھی اینکرز کو اس دکھ میں دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا ۔ میری ماں کا چہرہ پچھلے کئی دنوں سے بجھا بجھا سا ہے۔میری بہن ایک عجیب سے کرب میں مبتلا ہے۔محفل کی جان سمجھے جانے والے میرے دوست، میرے عزیز یوں رنجیدہ ہیں جیسے کسی مرگ کا دکھ جھیل رہے ہوں۔ ہاں! مرگ ہوئی ہے… موت واقع ہوئی ہے… خون ہوا ہے۔ انسانیت کا خون ہوا ہے۔ درندگی نے ، جہالت نے، شیطانیت نے انسانیت کا ناحق خون کیا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اس ملک میں بسنے والا ہر ذی شعور حالت سوگ میں ہے۔
میں کیا لکھوں! کیا کہوں! الفاظ ساتھ نہیں دے رہے۔ شاید لفظ بھی اپنی حرمت کھو بیٹھے ہیں۔ وہ منحوس… وہ کمبخت… آگ لگے اس کی خبیث روح کوجس نے ایک معصوم روح کو زندگی کی تمام تر درندگی تلے کچل ڈالا۔ لفظ انسانوں کے لیے ہوتے ہیں، جبھی تو وہ درندگی کے سامنے بے اثر ہو جاتے ہیں۔
یہ کیسی کیفیت ہے، کیسا بوجھ ہے کہ جس کا کتھارسس کرنا بھی محال ہوا پڑا ہے۔ بس اتنا کہنے کی سمجھ باقی ہے کہ خدا را سخت ترین قانون سازی کریں۔ سزائیں دلوائیں ایسے بھیڑیوں کو۔ لیکن ذرا پس پردہ بھی جھانکیں، جانیں کہ آخر انسانوں کے بیچ ایسے درندے کہاں سے آ جاتے ہیں۔ کچھ کیجیے خدارا! تعلیم و تربیت کا بندوبست کیجیے، بگاڑ کی ایسی صورتوں کا تدارک کیجیے وگرنہ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ کل کوکہیں کوئی اور معصوم درندگی کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔
لاہور کی اس پانچ سالہ کمسن بچی کے مستقبل پر پاکستانی میڈیا کا بہت بڑا احسان ہوتااگر اس بچی کا نام ، پتہ، اور اہل و عیال کی شناخت ظاہر نہ کی جاتی۔
کاغذ قلم ہاتھ میں ہے اور کئی گھنٹے بیت گئے ہیں۔ نہیں معلوم مجھے مزید کیا کہنا ہے… شاید مجھے جی بھر کے رونا ہے۔ شکیل بازغ کے موبائل فون پر اس ننھی پری کی تصویر لگی ہے۔ بازغ ایک مصرعہ پڑھتا ہے، پھر اپنی بچی کی تصویر دیکھتا ہے اور دھاڑیں مارتا ہے۔ بازغ اپنی ہی لکھی نظم پوری نہ سنا سکا…
ننھی کونپل تھی وہ جب کملائی ہو گی
سورج وحشت دیکھ کے نیر بہایا ہو گا
ارض و سما کا چپہ چپہ چیخا ہو گا
نیلے فلک پر بین اور آہ و زاری ہو گی
دھرتی کا سینہ بھی تھر تھر کانپا ہو گا
جلوت خلوت پر بھی ہیبت طاری ہو گی
پتھر پتھر ظلمت دیکھ کے دھڑکا ہو گا
حوا،بیٹی کے اس غم پر تڑپی ہو گی
حیوانوں کے جنگل میں بھی ماتم ہوگا
نیلے فلک کے باسی بھی یہ سوچتے ہوں گے
حیوانوں کی گنگ زبانیں پوچھتی ہوں گی
کیا کوئی انسان سے بڑھ کر ظالم ہوگا۔۔۔۔؟
(شکیل بازغ)

One Response

  1. kamran

    1.Ban porn sites.
    What you expect in a country where youtube is banned where no indecent video is available but all porn websites are open to public. Pakistan is highest consumer of this rubbish.
    2. Education of sex
    Stop pretending that children dont know about sex. If they are not told by parents or teachers they learn from slightly elder children with dangerous consequences.

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: