اب جبکہ انتخابات میں چند گھنٹے باقی رہ گئے ہیں تو سوال وہی ون ملین ڈالرکا۔۔ یعنی “حکومت کون بنائے گا؟” بھانت بھانت کی بولیاں اور “رنگ برنگے” تبصرے انتخابی مہم میں خاصی جان ڈال رہے ہیں، ورنہ اب کے بار انتخابی مہم ماسوائے پنجاب خاصی ٹھنڈی رہی ہے۔ ۔ ایک”دانشور” بابا جی سالہا سال سے مسلسل آواز لگا رہے ہیں کہ “تحقیق، کامیابی کپتان کا مقدر ٹھہر چکی”۔۔۔ دوسرے “صاحب علم” “دیوار کی اوٹ ” سے “میں تو میاں جی کی دیوانی ” کا راگ الاپتے نہیں تھک رہے۔۔ہاں۔۔ “تیر ” کی مالا جپتے لکھاری کچھ محتاط ہیں۔۔لیکن وہ کہتے ہیں نہ چور چوری سے جائے۔۔سینہ زوری سے نہ جائے۔۔ تو حصہ بقدر جثہ اب بھی دیکھا پڑھا اور سنا جا سکتا ہے۔ ۔ چند ایک لکھاری تو ایسے ہیں کہ انہوں نے قوم کو کسی انجانے عذاب سے ڈرانے کا جیسے ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔۔ حالانکہ ان میں سے ایک تو خود تاحال کسی “منصفی” کی تلاش میں ہیں۔۔ اور دوسرے صاحب ہمیشہ تاریخ اور مذہب کے اوراق کا حوالہ دے کر ہر حادثے کو قوم کے لیے ایک عذاب سے تعبیر کرتے تھکتے نہیں۔ ۔۔ ایسے بھی ہیں جن کو جتنا “مصالحہ” دیا جائے اس سے کہیں زیادہ “اف اف۔۔سی سی” کرتے نظر آتے ہیں۔۔ البتہ نام نہاد تجزیہ کاروں کی ٹی وی سکرینوں پر چاندی ہو گئی ہے۔۔ بچپن میں جھانکیں تو نظر آتا ہے کہ عید کے روز ہر گاما ماجھا دہی بھلے ، آلو چھولے کی دکان سجا لیتا تھا۔۔ ایسے ہی الیکشن کے ہنگام ہر “صاحب ذوق” سینئر تجزیہ کار کا روپ دھارے “معزز اورمجرد ” ہونے کی خوب اداکاری کر رہا ہے۔۔ یعنی جس بے چارے نے کبھی انتخابی حلقوں کا دورہ ہی نہیں کیا۔۔جسے گلی محلے اور براردی کی سیاست کا رتی بھر بھی علم نہیں وہ پارٹیوں کی تقدیر کا تعین ایسے کر رہا ہے جیسے وہی “بابائے سیاست یا صحافت” واقع ہوا ہے۔۔ اور پھر ایسے خواتین و حضرات کی ادائیں۔۔اس قدر “جان لیوا” کہ اف۔۔۔!! “دیکھیں جی۔۔ میں سمجھتا ہوں،، میرے خیال میں۔۔ یہ بات میں پہلے بھی کئی پروگراموں میں کہہ چکا ہوں، اور میں نے تو پہلے ہی کہ دیا تھا یہ ٹکٹ فلا ں کو ملے گی” ۔۔ اور پھر یہ سلسلہ کسی “پاپولر” شاعر کے طرح مصرع پر چلتا ہی رہتا ہے حتی کہ اینکر شکریہ ادا کرنے پر مجبور نہ ہو جائے۔۔ بہر حال۔۔ اب جب ان کی دکان لگی ہے تو لگی رہنے دیں۔۔ فقط اتنا کہنا ہے کہ اب کے بار سنجیدہ، جامع ، حقیقت کے قریب تر اور منجھے ہوئے تبصروں تجزیوں کی قلت سی محسوس ہورہی ہے۔ ۔ گو کہ چند ایک استاد اس کمی کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش ضرور کر رہے ہیں۔ ۔۔ غالبا اصل موضوع سے دوری کا احساس اب آپ کو بھی شدت سے ہو رہا ہوگا۔۔تو لیجیے جناب۔۔ون ملین ڈالر ک سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔
تو حضور معاملہ کچھ یوں ہے کہ دائیں بازو کی جماعتوں کا آپس میں الحاق یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ووٹ بینک تقسیم ہو چکا ہے۔۔ ووٹرز کا ٹرن آوٹ اگر بڑھتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ یقیننا کپتان خان کو ہی ہوگا۔۔ کپتان انجرڈ ہیں لیکن اس حادثے کے اخلاقی سطح پر مرتب ہونے والے اثرات بھی انہی کے ہی حق میں جاتے ہیں۔۔ بلاشبہ میاں بردران نے بھی اخلاقی طور پر خان کے زخمی ہونے پر بڑے پن کا مظاہرہ کیا اور اپنی مہم کو کچھ عرصے کے لیے روکا ۔۔ بلکہ چھوٹے میاں صاحب تو عیادت کے لیے بھی گئے تھے۔۔ پاکستان کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں ووٹ محض براردری کی بنیاد پر ڈالا جاتا ہے۔۔ مثال کے طور پر چوہدریوں کے گجرات کو ہی لے لیجیے۔۔ جاٹ، گجر اور ارائیں برادری ہی کسی بھی امیدوار کی ہار جیت کا تعین کرتی رہی ہے۔ تو ایسے علاقوں میں یقینا روایتی سیاست ہی کامیابی کا گرین سگنل دے گی۔ ۔ رہی بات پی پی پی کے تو۔۔ اب کے بار پی پی کا ہدف کچھ اور ہے۔۔ اکثریت حاصل کر لینا یقیننا اس کا مقدر نہیں۔۔ لیکن “کنگ پارٹی” کی حیثیت اختیار کرلینے پر ۔۔پی پی کے گرو سیاستدان پہلے سے ہی نظریں جما چکے ہیں۔۔ متحدہ کے ووٹ بنک کےمتاثر ہونے کی تاویلیں پیش کی جا رہی تھیں۔۔ لیکن جس منظم انداز میں متحدہ کی قیادت دلی جمعی سے اپنے مخصوص حلقوں پر گرفت جمائے بیٹھی ہے اس سے نہیں لگتا کہ متحدہ کی پوزیشن میں کوئی کمی واقع ہوگی۔۔ ق لیگ محض “شخصی” بنیادوں پر چند ایک سیٹیں کھسکسا سکتی ہے۔۔ جوڑ وہی جس کا چرچہ ہے۔۔ ن یا جنون۔۔ اور اس جوڑ کا وینو وسطی پنجاب ہے ثابت ہوگا۔۔ اسی تناظر میں مختلف سیاسی جماعتوں کی متوقع پوزیشن کے بارے ناچیز پچھلی تحریروں میں تٖفصیلا ذکر کر چکا ہے۔۔ تو لہذا اب ذرا ہم بھی “نام نہاد” یا “سو کالڈ” تبصروں میں اپنا حصہ ڈالنا پسند کریں گے۔۔ حضرت۔۔ دکھائی یوں دیتا ہے کہ کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہ کرپائے گی۔۔ اور اس پر تقریبا سبھی اتفاق کرتے ہیں۔۔ ماسوائے۔۔ ان بابا جی کے جن کا ذکر میں نے سب سے پہلے کیا۔۔ پی پی کل ملا کہ پچاس یا ساٹھ کے ہندسے کے آس پاس منڈلاتی نظر آتی ہے۔۔ ن لیگ سو کے آس پاس۔۔۔ اور پی ٹی آئی جس کےبارے کہا جاتا تھا کہ “ایک سو بیس یا فقط بیس” اب اس مجموعے کے “آدھ ” میں کھڑی ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔۔ معاونین میں اے این پی، ق لیگ، مولانا، جماعت اسلامی، متحدہ، اور فاٹا کے آزاد امیدوار اپنا کردار ضرور نبھائیں گے۔۔ بلوچستان کا ووٹ عموما اسی جانب رخ کرتا ہے جہاں سے حکومت بننی ہو۔۔ ہاں “مٹکا گروپ” کو نظر انداز ہر گز نہ کیجیے گا۔۔ یہ آزاد امیدواروں پر مشتمل اڑتیس افراد کا گروپ ہے۔۔ جسکا انتخابی نشان “مٹکا” ہے۔۔ اور کسی بھی صورتحال میں “مٹکا” بجانے والوں کی پانچوں گھی میں ڈوبی دیکھ رہا ہوں۔ ۔۔ تو ” ایٹ دی اینڈ آف دی ڈے ” “کنگ پارٹی” یعنی پی پی کے ساتھ یا تو میاں صاحب کو دوبارہ شیر و شکر ہونا پڑے گا۔۔ یا پھر “انقلاب” میں کچھ ہلکی سی “آئینی” ترمیم کرتے ہوئے “جمہورت” کی خدمت کرنا پڑے گی۔۔ باقی۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔
(اجمل جامی۔۔ دنیا نیوز کے لیے اینکر سپیشل کورسپونڈنٹ کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔۔ ملکی سیاسی منظر نامے پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔)
Twitter – @ajmaljami