Laaltain

حکایات ِجدید ومابعد جدید

19 جون، 2017
ستر سال اور غار
وہ ستر سالوں سے غار میں تھا۔یہ بات تھوڑے لوگوں کو معلوم تھی۔ان تھوڑے لوگوں میں اسحاق بھی شامل تھے۔اسحاق نے اس بات کو راز میں رکھا کہ اسے کیسے معلوم ہو اتھا،لیکن اس بات کو راز میں نہیں رکھا کہ وہ جانتا ہے کہ وہ ستر سالوں سے غارمیں ہے۔ ایک بات کو راز رکھنے اور دوسری کو عام کرنے کی خاص وجہ تھی،اور اسے بھی اسحاق ہی جانتے تھے،مگر کبھی کبھی کسی خاص شخص کو بتابھی دیا کرتے تھے۔ ایک دن عصر کے بعد اس کے پاس چار لوگ آئے۔ اسحاق مصلے سے اٹھے اور لکڑی کے تخت پر آبیٹھے۔

 

سائیں بڑی مشکل میں ہیں، دعا فرمایئے۔ جس گاؤں سے آئے ہیں،وہاں کے لوگ چھ ماہ سے ایک پل نہیں سوئے۔ روز ایک لاش کہیں سے آتی ہے،مسجد میں اعلان ہوتاہے،کس کی لاش ہے، سب دوڑے دوڑے آتے ہیں، جو دیکھتا ہے،اسے لگتا ہے کہ اسی کی لاش ہے۔ سارا گاؤں مل کر اسے دفناتاہے، واپس آتاہے،سب ایک دوسرے کا کھانا پکاتے ہیں۔

 

کچھ دیر بعد ستھر پر سارا گاؤں بیٹھتا ہے۔سارا گاؤں،ایک دوسرے سے تعزیت کرتا ہے۔ایک دوسرے کو ’امر ربی‘ کہتا ہے،اور فاتحہ پڑھتا رہتا ہے، ابھی سوئم نہیں ہوپاتا کہ پھر ایک لاش کا اعلان ہوتا ہے۔ چھ ماہ سے یہی کچھ ہورہاہے۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں،اور ڈر رہے ہیں کہ کہیں ہماری لاشیں گاؤں میں نہ آچکی ہیں،اور ایسا نہ ہو کہ وہ سڑ جائیں۔ کچھ دن پہلے غلام محمد گاؤں سے ایک دن کے لیے گئے،واپس آئے تو ان کے گھر میں سڑاند پھیل چکی تھی،انھیں اکیلے ہی اپنی لاش دفنانی پڑی،اور کوئی پرسہ دینے بھی نہیں آیا۔گاؤں میں لاش پہنچے کا کوئی وقت نہیں،نہ یہ معلوم ہے کہ وہ کیسے اور کہاں سے آتی ہے۔کوئی خاص جگہ بھی مقرر نہیں جہاں لاش ملتی ہو۔ اسحاق نے ان کی طرف غور سے دیکھا،حیرت ظاہر کی اور کہا۔ میں نہیں، ایک اور شخص تمھاری مدد کرسکتاہے،جس نے ستر سالوں سے باہر کی دنیانہیں دیکھی،پر سب جانتا ہے کہ باہر کیا ہورہا ہے؟

 

وہ چاروں بہ یک وقت حیران ہوئے،یہ کیسے ہوسکتا ہے؟

 

ستر سالوں سے غار میں رہنا،یا ایک پل کے لیے باہر سر نکالے بغیر باہر کے بارے میں پل پل کی خبر رکھنا؟

 

سائیں، دونوں۔ چاروں بہ یک وقت بولے۔

 

تم اپنی مشکل کا حل چاہتے ہو،یااسرار جاننا چاہتے ہو؟ اسحاق نے تسبیح کے دانوں سے وقفہ لیتے ہوئے کہا۔

 

سائیں دونوں۔ چاروں بہ یک وقت بولے۔

 

اگر تمھیں کوئی یہ کہے کہ فلاں درخت کی ایک شاخ کا پتا کھانے سے آدمی بندر بن جاتا ہے،اور دوسری شاخ کا پتا کھانے سے واپس آدمی بن جاتا ہے تو تم کس شاخ کا پتا حاصل کرنا پسند کرو گے؟ اسحاق نے تسبیح سے ایک اور وقفہ لیا۔

 

سائیں، میں دوسری شاخ کا پتا حاصل کروں گا۔ایک بولا۔

 

سائیں، میں دونوں حاصل کرنے کی خواہش کروں گا۔ دوسرا بولا۔

 

تیسرا چپ رہا۔

 

سائیں، میں اس درخت کا علم حاصل کروں گا۔ چوتھا بولا۔

 

تمھاری مشکل کا حل اب دو آدمیوں کے پاس ہے، ایک وہ جو ابھی چپ ہوا،دوسراجو سترسالوں سے چپ ہے۔ اسحاق بولے۔

 

وہ کیسے؟ باقی تین بولے۔

 

تم تینوں نے ایک ایسی صورتِ حال سے اپنے لیے راستہ منتخب کرنا شرو ع کردیا،جو ’ہے ‘ نہیں، ’ہو سکتی ‘ تھی،یا کبھی ’تھی‘۔ جو چپ رہا،وہ جانتا ہے کہ راستہ وہی چنا جاتا ہے جو ’ہو‘۔ اسحاق بولے۔

 

تینوں نے اس چوتھے کی طرف دیکھا جو چپ تھا۔ وہ اب بولا۔ وہ درخت تو میرے اندر ہے۔پر میں نے کبھی اس کے پتے نہیں کھائے۔
space:

 

پر ہمارے اندر تو ایسا کوئی درخت نہیں۔ تینوں بہ یک وقت آواز ہوکر بولے۔

 

تو اس شخص کے درخت سے اپنی مرضی کا پتا لے لو۔ اس مرتبہ اسحاق مسکرائے۔

 

سائیں، اب ہم نئی مشکل میں ہیں، اس درخت کے پتے حاصل کریں یا اس مشکل کا حل تلاش کریں جو ہمارے گاؤں کو لاحق ہے؟ تینوں بہ یک وقت بولے، چوتھا چپ رہا۔

 

اس کا جواب بھی تمھیں ستر سالوں سے چپ شخص سے ملے گا۔ وہ کہتا ہے کہ اس نے ایک خوں خوار شیر کا راستہ روک رکھا ہے،جو سب انسانوں کو چیر پھاڑ سکتا ہے۔

 

سائیں گستاخی نہ ہو تو عرض کریں۔ اگر اس نے شیر کا راستہ روک رکھا ہے تو کون ہے جو روز ہماری لاشیں ہمیں بھیجتاہے؟ اب چاروں بہ یک وقت بولے۔

 

تمھیں کیسے یقین ہے کہ وہ تمھاری لاشیں ہیں؟ اسحاق نے الٹا ان سے سوال کیا۔
سائیں،ہم خود انھیں دیکھتے اور دفناتے ہیں۔چاروں بولے۔

 

پھر تم کون ہو؟ اسحاق نے تعجب کیا۔

 

چاروں چپ ہوگئے۔

 

اگر وہ واقعی تمھاری لاشیں ہیں تو تم ایک ہی دفعہ خو دکو کیوں نہیں دفناتے؟ کیا اپنی قبر پر تم مٹی نہیں ڈالتے؟ ہوسکتا ہے،تمھی میں سے کوئی ایک شخص ہو جو روز تمھاری لاش کو پھینک جاتا ہو؟اسحاق نے ایک اور سوال کیا۔

 

نہیں سائیں، ہم دیکھتے ہیں کہ قبرستان بڑھتا جارہا ہے۔ چاروں بولے۔ سائیں کیا آپ ہمیں اس غار کا پتا بتاسکتے ہیں؟ چاروں نے درخواست کی۔

 

وہ چاروں لمبا،کٹھن سفر طے کرکے بالآخر غار میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

 

یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کی غار میں اسحاق کی لاش پڑی تھی،اور ایک شیر کی گرج انھیں سنائی دی۔

 

اب کیا کریں؟ چاروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر لاش کو سب نے باری باری غور سے دیکھا کہ کہیں یہ انھی کی لاش تو نہیں،جو اس مرتبہ گاؤں کے بجائے یہاں پہنچ گئی ہے،مگر وہ اسحاق ہی کی لاش تھی۔ انھوں نے اسحاق کا مرا ہوا چہرہ غور سے دیکھا،پھراس کا ماتم کیا،پھر اس کی لاش کو نکالا،اور اپنے قبرستان لے گئے،سب گاؤں والوں نے جنازہ پڑھا۔ قبر تیار کروائی اور دفنا دیا۔

 

اس کے بعد گاؤں میں کوئی لاش نہیں ملی۔
بشن سنگھ مرا نہیں تھا!
اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں کو حیرت نہیں ہوئی تھی کہ منٹو کے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘کا بشن سنگھ مرا نہیں تھا،بے ہوش ہوا تھا۔ان دیکھنے والوں کے ذہن میں پہلا سوال ہی یہ پیدا ہوا کہ جب بشن سنگھ گرا ہے تو کسی کویہ خیال کیوں نہیں آیا کہ اس کی نبض ہی دیکھ لے۔ہو سکتا ہے،چل رہی ہو۔کیا سب اس کی موت چاہتے تھے ؟ ایک پاگل سے اس قدر ڈرے ہوئے تھے ؟یا اُس کے اِس سوال سے ڈرے ہوئے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟دیکھنے والوں کو یہ سوال پریشان کیے جارہا تھا کہ سب نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ بشن سنگھ جب زمین کے اس ٹکڑے پر اوندھے منھ گراہے، جس کا کوئی نام نہیں تھا،تو وہ مر گیا تھا۔ کیا اوندھے منھ پڑا ہوا آدمی لازماً مرا ہوا ہوتا ہے؟ یہ جو ایک نئی جگہ وجود میں آئی تھی،جس کا کوئی نام نہیں تھا،وہاں کوئی آدمی زندہ نہیں رہ سکتا؟زندہ رہنے کے لیے جگہ ہی کتنی چاہیے ؟بشن سنگھ کو زندہ دیکھنے والوں نے ایک دوسرے سے یہ بھی پوچھاکہ کیا زندہ رہنے والوں کو یہ فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں کہ وہ مٹی کے کس ٹکڑے پر رہنا پسند کریں گے ؟کیازندہ رہنے کا حق صرف انھی کو ہے جو خاردارتاروں کے اِس طرف یا اُس طرف رہتے ہیں؟زمین پر ان دو طرفوں کے وجود میں آنے کے بعد وہ سب لوگ کیا کریں جن کے لیے زمین سب طرفوں سے بے نیاز ہوتی ہے،اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب آدمی کا ہوتا ہے، مٹی کے ٹکڑے کا نہیں؟

 

دیکھنے والوں نے ایک دوسرے سے اس بات پر بھی تبادلہ خیال کیا کہ بشن سنگھ کی چیخ سن کر دوڑنے والے افسر،چوں کہ تبادلے کے کام سے تھکے ہوئے تھے،کیااس لیے انھیں بشن سنگھ کی نبض دیکھنے کا خیال نہیں آیا؟تھکے ہوئے افسرموت کے سوا کچھ نہیں سوچتے؟ان تھکے ہوئے افسروں نے یہ غورکیوں نہیں کیا تھاکہ بشن سنگھ اوندھے منھ ہی کیوں گرا تھا؟ اوندھے منھ تو وہی گرتا ہے جسے دھکا دیا گیا ہو؟اگر بشن سنگھ کو مرا ہوا سمجھنے والے غور کرنے کی تھوڑی سی زحمت کر لیتے تو اس شخص کی تلاش ضرور کرتے،جس نے بشن سنگھ کو خاردار تاروں پر دھکا دیا تھا۔ہوسکتا ہے،دھکا کئی دن پہلے،کئی ہفتے پہلے، یا پندرہ سال پہلے دیا گیا ہو،مگر لحیم شحیم بشن سنگھ گرا،اب ہو۔ان دنوں دھکے بھی تو بہت لگ رہے تھے۔کچھ دھکا دینے والے،پل بھر میں روپوش ہوجاتے تھے،کچھ ڈھٹائی سے وہیں رہتے تھے، لیکن پروا کسی کو نہیں تھی کہ کوئی کہاں،کب،کیسے گرے،جیسے کالی سیاہ آندھی کمزور جھاڑیوں کو جڑوں سمیت اکھاڑ کر کہیں سے کہیں لا پھینکتی ہے۔بشن سنگھ کو زندہ دیکھنے والوں کا یہ خیال بھی تھا کہ اسے پندرہ سال پہلے ہی ہوا ؤں کی تبدیلی کا احساس ہوگیا تھا،اس لیے اس نے درخت کی طرح جم کر کھڑے ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا،اور اس فیصلے پر اس وقت بھی قائم رہا،جب غضب ناک آندھی نے اس کے کئی ساتھیوں کو خاردارتاروں کی دوسری طرف پٹخ دیا تھا۔اس نے آندھی کے مخالف رخ چلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسے زندہ دیکھنے والوں کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اتنے بڑے فیصلے کے لیے پاگل پن ہی چاہیے تھا!

 

بشن سنگھ کو زندہ دیکھنے والوں کی متفقہ رائے تھی کہ اگر اس شخص کو تلاش کرلیا جاتا،اور اس کے ٹرائل کی ہمت کرلی جاتی،جس نے بشن سنگھ کودھکا دیا تھا تو خاردارتاروں کے دونوں طرف توپیں نہ گرجا کرتیں۔ایک بشن سنگھ کو مرا ہوا سمجھ کر،اس سے لاتعلق ہونے کی سزا کروڑوں لوگوں کواتنی کڑی نہ ملتی۔بشن سنگھ کو زندہ دیکھنے والوں نے اس بات پر کافی غور کیا کہ سرحد پر تبادلے کے افسر وں نے بشن سنگھ کی چیخ کو مدو اور پکار کیوں نہ سمجھا، آخری ہچکی ہی کیوں سمجھا؟کیا وہ افسر اس شخص کے ساتھ ملے ہوئے تھے،جس نے بشن سنگھ کو دھکا دیا تھا؟ یا تبادلے کا کام کرنے والوں میں مدد کی پکار اور موت کی چیخ میں فرق کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی؟انھوں نے یہ بھی سوچا کہ آوازوں میں فرق نہ کرسکنے کے نتائج کتنے بھیانک ہوسکتے ہیں؟

 

دیکھنے والے،ایک طرف بشن سنگھ کو دیکھتے تھے،اور دوسری طرف آپس میں باتیں کرتے جاتے تھے۔ سب کا خیال تھا کہ وہ پہلا سوال یہ کرے گا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ اس نے خاموشی سے سب کی طرف دیکھا۔سب سوچنے لگے کہ وہ’ اوپڑ دی گڑ گڑ اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین‘ کہے گا،مگر وہ چپ چاپ سب کو دیکھتا رہا۔سب منتظر تھے کہ بشن سنگھ کیا کہتا ہے۔بشن سنگھ نے اپنی ٹانگوں کی طرف دیکھا،جوپندرہ سال تک کھڑے ہونے کی وجہ سے سوج گئی تھیں،اور کئی جگہوں سے پھٹ گئی تھیں،اور ان میں گہرے زخم تھے۔اس نے پہلی مرتبہ ان میں شدید درد محسوس کیا۔اپنے سینے کو دیکھا جس پر خاردار تاروں کے زخم تھے،اور خون اب تک تازہ تھا۔اس نے اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرا۔پہلی بار اسے ڈاڑھی کے بال کرخت محسوس ہوئے۔

 

دیکھنے والوں سے رہا نہیں گیا۔سب بہ یک زبان بول اٹھے۔بشن سنگھ کچھ کہو گے نہیں؟
بشن سنگھ نے سب کی طرف غور سے دیکھا۔ اس کی پہچان کا کوئی چہرہ نہیں تھا۔ دیکھنے والے سمجھ گئے کہ وہ خود کو اجنبیوں میں محسوس کررہاہے۔ ایک نوجوان بولا۔ تو ہم سب کو نہیں جانتا،ہم اپنا تعارف کروائے دیتے ہیں۔بشن سنگھ، ہمارا جنم تمھارے ’ اوپڑ دی گڑ گڑ اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین‘ سے ہوا ہے،جس میں تو کبھی’ لالٹین‘ ہٹا کر’ پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی در فٹے منھ‘،اور آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان ‘کا اضافہ کردیا کرتا تھا۔تو زندہ ہے،اور دیکھ ہم تیری اوپڑ دی گڑ گڑ کی اولاد ہیں،جو کسی کو سمجھ نہیں آئی۔ہم بھی کسی کو سمجھ نہیں آئے،پر تو ہمیں سمجھ سکتا ہے۔دوسرے نوجوان نے کہا۔ہم تیری اس چیخ کا جواب بھی ہیں جو اس روز سورج نکلنے سے پہلے تیرے حلق سے نکلی تھی،اور جس سے فلک کا سینہ شق ہوگیا تھا،کیوں کہ تب زمین پر موجود لوگوں کے سینے پتھر ہوچکے تھے۔تیری چیخ آسمانوں میں آوارہ پھرتی تھی،اور کسی ٹھکانے کی تلاش میں تھی۔تو نے اپنے بچاؤ کے لیے پوری قوت سے وہ چیخ ماری تھی، اس چیخ کو سن کر، ساٹھ سالوں سے دوڑتے ہاپنتے یہاں تک کچھ لوگ آئے ہیں،اورانھوں نے اسے اپنے سینوں میں اسے جگہ دی ہے،ہم انھی کے نقش قدم پر چلتے چلتے یہاں پہنچے ہیں؛بالآخر تیری چیخ کی جلاوطنی ختم ہوئی ہے۔تیسرا نوجوان بولا۔تو نو مینزلینڈ پر ساٹھ سالوں سے پڑا تھا۔ ہم تمھیں وہاں سے اٹھالائے ہیں۔ بشن سنگھ نے سب کی طرف مزید حیرت سے دیکھا۔

 

پہلا نوجوان بولا۔ تو،اینکس کا مطلب تو جانتا ہے ناں،نو مینز لینڈ وہ ہے،جس کا اینکس نہیں ہواتھا،نہ اس وقت ہو سکتا تھا۔اس وقت آپا دھاپی تھی۔ذراچین ملا تو جس کا اینکس نہیں ہوسکتا تھا،اس کے لیے بھی بندوقیں نکلیں۔بشن سنگھ،ہم تمھیں کیسے بتائیں یہاں ہم کیسے پہنچے۔جب تو بے ہوش ہو کر گرا تھا،اس وقت اس جگہ پر جھگڑا نہیں تھا۔اس کے بعد کوئی جگہ،ایک انچ ایسانہیں،کوئی لفظ ایسا نہیں جس پر جھگڑا نہ ہو اہو،جہاں خون نہ گرا ہو،جہاں خون گرنے کا ہر وقت امکان نہ ہو۔تو جہاں موجود ہے،اس پر بھی دونوں طرف بہت جھگڑے ہوئے ہیں۔اب جگہ کا مطلب بھی بدل گیا ہے،اب لفظ،کہانی سب جگہ ہیں،ان پر کس طرح کے جھگڑے ہیں، تو سنے تو تیرے سینے میں اس سے بڑاگھاؤ لگے،جو خاردارتاروں پر گرنے سے تجھے لگا تھا۔اب طرح طرح کی خارداریں یہاں وہاں ہیں،اور کچھ تو ایسی ہیں جو دکھائی بھی نہیں دیتی،اور گھائل روح کو کرتی ہیں۔تو کبھی یہاں کے کسی شہر میں چل پھر کے دیکھ، ہر دیوار پر چکر کھاتی خاردار تاریں ہیں۔ زمانے ہوئے،ہم جنگلوں سے آبادیوں میں آئے تھے،اب سب آبادیاں خاردار تاروں کے جنگل بن گئی ہیں،اور آنکھوں سے لے کر سانسوں میں،اور اس سے بھی آگے دلوں میں ترازو ہوتی ہیں۔

 

بشن سنگھ کی حیرت کچھ کم ہوئی،مگر سخت کرب اس کے چہرے سے عیاں تھا،اور اس کی سفید گرد آلود ڈاڑھی بھیگ گئی تھی۔

 

دوسرا نوجوان بولا۔ بشن سنگھ، ہم سب حیران تھے کہ تمھیں مر دہ سمجھنے والوں نے تیرے انتم سنسکار کابھی نہیں سوچا۔

 

تیسراا نوجوان بولا۔اچھا کیانہیں سوچا، ایک جیتے جاگتے آدمی کو چتا میں ڈال دیتے،اور پھر جھگڑااس بات پر ہوتا کہ لاش کس طرف کے گوردوارہ میں لے جائیں، معلوم نہیں کوئی گوردوارے میں جانے کی اجازت بھی دیتا کہ نہیں،کوئی کیرتن کے لیے بھی ملتا کہ نہیں،پھر اس پربھی جھگڑا ہوتا کہ چتا کے لیے لکڑیاں خاردارو تاروں کے اس طرف کی ہوں،یا اس طرف کی، راکھ ٹوبہ ٹیک سنکھ کے پاس کے دریا میں بہائیں یاکہیں اور۔تم جانتے ہو،اس کے بعدجنگل،دریا، شہرسب کو ہماری طرح مذہب مل گیا۔

 

ٹوبہ ٹیک سنگھ کا سن کر بشن سنگھ کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی،جیسے پوچھ رہا ہو،تم کس طرف کے ہو؟

 

پہلا نوجوان سمجھ گیا۔بولا۔بشن سنگھ ہم منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی طرف کے ہیں۔

 

بشن سنگھ ایک مرتبہ پھر حیران ہوا۔وہ تو اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے واقف تھا، یہ منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں سے آگیا۔ دوسرے نوجوان نے اس کی حیرانی دیکھتے ہوئے کہا،بشن سنگھ، تیرے ٹوبہ ٹیک سنگھ نے تو تجھے نکال دیا تھا، منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ نے تمھیں اپنے دل میں جگہ دی۔بشن سنگھ نے دیدے پھاڑ کر دیکھا۔ تیسرا نوجوان اس کی مشکل سمجھ گیا۔بولا۔بشن سنگھ،تو جس جگہ گرا تھا، وہ کسی کی نہیں تھی،منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ اسی خاک کے ٹکڑے سے اگا تھا۔تجھ سے زیادہ کس کو معلوم ہوگا کہ خاک کا وہ ٹکڑا،اسی دھرتی کا حصہ تھا،مگر خاردار تاروں کے بعد اس ٹکڑے کی حالت اس عفریت کی سی ہوگئی تھی،جس کے خون کاقطرہ زمین پر گرتا تھا تو اس سے نئے عفریت جنم لیتے تھے۔خاک کے عفریت بننے کی کہانی پرانوں زمانوں کی کتابوں میں کہیں نہیں ملتی،صرف منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ملتی ہے،جہاں تجھے ٹھکانہ ملاہے۔منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ اور تم دونوں نئے زمانے کی سب سے بڑی اسطورہ ہو۔دوسرے نوجوان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے،بشن سنگھ کی پنڈلی کو چھوا، جس سے پیپ رِس رہی تھی،جس طرح خون پیپ میں بدل کر تکلیف اور گھن پیدا کرتا ہے،ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ہمیں اجنبی نہ سمجھ بشن سنگھ! تو حیران ہے،مگر ذراسوچ اگر منٹو تجھے اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جگہ نہ دیتا تو کسی کو پتا ہی نہ چلتاکہ کوئی بشن سنگھ تھا،اور اس کا ایک ٹوبہ ٹیک سنگھ تھاجہاں اس کی زمینیں تھیں،اور جہاں اس کی بیٹی روپ کور اور اس کا دوست فضل دین رہتا تھا،اور جو اسے تبادلے سے کچھ دن پہلے ملنے آیا تھا۔تجھے منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ نہ ملتا توہوسکتا ہے تو بھوت بن جاتا،اور تیری اوپڑ دی گڑ گڑ سے راکھشس جنم لیتے،ہم نہیں۔منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ نے تجھے بچا لیا اور تجھے ابدی ٹھکانہ بھی مل گیا۔ اس نے آنکھیں جھپکیں۔ جیسے پوچھ رہا ہو، میں اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو چھوڑ کر کسی اور کے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کیسے رہ سکتا ہوں، جیسے کَہ رہا ہو، میں یہاں سے نکلنا چاہتاہوں۔پہلا نوجوان اس کا سوال سمجھ گیا۔ بولا۔ یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں،تیرا ابدی ٹھکانہ یہی ہے۔لیکن یہ سن کرتیراکلیجہ منھ کو آئے گا کہ تیرے اس ٹھکانے کو بھی لوگوں نے نہیں بخشا۔منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اینکس کی کوشش،اِدھر اور اُدھر کے پڑھے لکھے لوگوں نے کی،اور ایک اور طرح کے،تیرے تبادلے کامنصوبہ بنایا؛اس منصوبے میں نومینز لینڈ ہے ہی نہیں۔تیری طرح منٹو غریب کو بھی اسی سرحد پر لے گئے،اور اس کے تبادلے پر لمبی چوڑی بحثیں کیں،شکر ہے کچھ سمجھ دار لوگ بیچ میں آگئے،اور انھوں نے منٹو کو اِدھر یا اُدھر گھسیٹنے کی مزاحمت کی،اور ان کی کوششوں کوتیری زبان میں در فٹے منھ کہا۔

 

بشن سنگھ نے ان تینوں کی طرف ملتجی نظروں سے دیکھا،جیسے کَہ رہا ہومجھ سے تو پہلی مصیبت نہیں جھیلی جاتی،اور تم نئی مصیبتوں کے بیان سے میراسینہ چھلنی کیے دیتے ہو۔ دوسر ا نوجوان بولا۔دیکھو،بشن سنگھ،ہم سب اپنے اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے جب ایک دفعہ نکل جاتے ہیں تو واپس نہیں جاسکتے،اور جس نئے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جابستے ہیں،وہاں سے نکل نہیں سکتے،اور ہر کسی کو نیا ٹوبہ ٹیک سنگھ نہیں ملتا۔کتنے ہی لوگ ہیں جو صرف مارے مارے پھرتے ہیں۔وہ بالآخر بھوت بن جاتے ہیں،اور انسانوں کی دنیا سے ہمیشہ کے لیے نکل جاتے ہیں۔تمھیں تونیا ٹوبہ ٹیک سنگھ مل گیا،توامر ہوگیا،ہم جیسے کتنے ہی تیری اوپڑ دی گڑ گڑ سے جنمے،اور جنم لیتے رہیں گے،مگر انھیں نہ تو اپنا ٹوبہ ٹیک سنگھ ملے گا،نہ کسی منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ۔

 

بشن سنگھ کی ڈاڑھی بھیگ گئی۔ پہلے نوجوان نے اس کی آنکھوں میں غور سے دیکھا،اوران میں تیرتی نمی کا مفہوم سمجھا،اور بولا۔میں سمجھ گیا بشن سنگھ،تو اس لیے دکھی ہے کہ تو امر تو ہوگیا،لیکن اپنی سوجی ٹانگوں اوردھکا لگتے سمے،سینے میں لگنے والے زخموں کے ساتھ۔ بشن سنگھ،ابدی زندگی خود ایک سزاہے،لیکن سوجی ٹانگوں اور رستے زخموں کے ساتھ امر ہونا، سزاے عظیم ہے،اور یہ دونوں سزائیں ہم تیرے ساتھ چار پشتوں سے بھگت رہے ہیں!!
کھنڈر کی تختی
اس کھنڈر سے وقتاً فوقتاً کئی چیزیں برآمد ہوتی رہتی تھیں۔ ہڈیاں،سکے،ظروف، تختیاں،ہتھیار اورمورتیاں۔ان سب کو عجائب گھر بھجوا دیا جاتا۔کچھ کو دساور بھی چوری چھپے بیچ دیا جاتااور کچھ کو نئے وولتیے بھاری رقم کے عوض خرید لیتے۔جب کوئی نئی چیز برآمد ہوتی،اور وہ چوری چھپے بیچنے سے بچ رہتی تو اس کی خبراخبار میں چھپ جاتی۔رفتہ رفتہ عجائب گھر میں ایک پورا بڑا کمرہ اس کھنڈر کی نایاب اشیا سے بھر گیا تھا۔ عجائب گھر کی انتظامیہ نے نوٹ کیا کہ گزشتہ چند سالوں میں سب سے زیادہ سیاح اسی کمرے کو دیکھنے آتے ہیں۔ باقی حصوں کو سرسری دیکھتے ہیں،مگر اسے زیادہ دل چسپی اور حیرت سے دیکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ چھ ماہ گزرگئے،کوئی نئی چیز اس کولیکشن میں شامل نہ ہوئی تو عجائب گھر کی انتظامیہ نے آمدنی میں خاصی کمی محسوس کی۔ اگلے ہفتے اخبارات میں ایک بڑی خبر شایع ہوئی۔ اسی کھنڈر سے ایک تختی برآمد ہوئی ہے،جس پرلکھی گئی عبارت کا کچھ حصہ پڑھ لیا گیا ہے، اور اس کا ترجمہ تختی کے نیچے درج کردیا گیا ہے۔یہ واقعی ایک بڑی خبر تھی۔ یہ پہلی تختی تھی،جس کی عبارت کو پڑھنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اگلے چند دنوں میں عجائب گھرکی ہزاروں ٹکٹیں فروخت ہوئیں۔ کچھ مہینوں بعد اخبارات میں یہ خبر شایع ہوتی کہ عبارت کی چند سطریں اور پڑھ لی گئی ہیں۔ یہ دیکھا گیا کہ اب لوگوں کو عجائب گھر کی اشیا سے زیادہ اس عبارت سے دل چسپی پیدا ہوگئی ہے۔عجائب گھر میں آنے والوں کی بڑی تعداد اس چبوترے کے گرد اکٹھی ہوتی ہے جہاں وہ تختی رکھی گئی ہے۔کبھی کبھی دھکم پیل بھی دیکھی جاتی،اور عجائب گھر کے گارڈ کو بلانا پڑتا۔ ڈر تھا کہ کہیں وہ تختی ٹوٹ نہ جائے۔

 

اس تختی کی پوری عبارت کو پڑھنے میں ماہرین کو تقریباً پانچ سال لگے۔ ان پانچ سالوں میں عجائب گھر کی آمدنی اس قدر بڑھی کہ ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں اس کی شاخیں قائم کی گئیں،اور وہاں اس کھنڈر کی اشیا کے حقیقی نظر آنے والے ریپلیکا رکھے گئے۔ ان شاخوں میں اس تختی کی نقل مطابق اصل رکھی گئی،اور جیسے جیسے اس کی عبارت کو پڑھا جاتا رہا، وہاں بھی درج کیا جاتا رہا۔

 

جن اخبارات میں اس کھنڈر کی اشیا سے متعلق خبریں شایع ہوتی تھیں،انھی میں سے کچھ بالکل نئی خبریں بھی شایع ہونے لگیں۔یہ خبریں ان بحثوں کا نتیجہ تھیں،جو اس تختی کی عبارت کے بارے میں لوگوں کے مابین ہوتی تھیں۔ شروع شروع میں صرف لفظی جھگڑے ہوا کرتے تھے، بعد میں ہاتھا پائی کی خبریں آنے لگیں۔ پھر قتل و غارت کی۔

 

اس تختی پر جو کچھ لکھا ہوا ہے،وہ سچ ہورہا ہے۔اس تختی کی پانچویں سطر میں لکھا تھا کہ ایک وقت آئے گا،جب لوگ روٹی، عورت، روپے کی خاطر نہیں، اپنی بات منوانے کی خاطر قتل کیا کریں گے،اور بات منوانے والوں کے کئی فرقے بن جائیں گے۔ آج یہ سچ ہورہا ہے۔ اس سے زیادہ ہماری دریافت کردہ تختی کی سچائی کا ثبوت کیا ہوسکتا ہے ؟عجائب گھر کے کیوریٹر نے اخبارات کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا۔

 

کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کی لوح مقدس کو پڑھنے والے کون لوگ ہیں، ان کا اتا پتا؟ ایک رپورٹر نے سوال کیا۔

 

وہ آثاریات اور لسانیات کے ماہرین ہیں،جن کے نام ایک خاص حکمت سے صیغہ راز میں رکھے گئے ہیں۔ کیوریٹر نے جواب دیا۔

 

کیا ہم اس حکمت کے بارے میں جان سکتے ہیں؟ دوسرے رپورٹر نے سوال داغا۔
اگر آپ کو دعویٰ ہے کہ ہم عبارت کا غلط مفہوم بتارہے ہیں تو آپ خود اس عبارت کو پڑ ھ لیں۔کیوریٹر نے جواب دیا۔

 

اس وضاحت کے بعد کچھ دیر خاموشی رہی۔

 

اس تختی کے عجائب گھر میں آنے سے آپ کا بزنس اور جھگڑے ایک ساتھ بڑھے ہیں۔اس بارے میں کیا کہیں گے ؟ ایک اور اخبار کے رپورٹر نے پوچھا۔

 

تھینک یو ویری مچ۔ یہ کہہ کر کیوریٹر نے بریفنگ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

 

پانچ سال بعد۔

 

انھی اخبارت میں یہ خبر چھپی کہ اس کھنڈر سے جو تختیاں برآمد ہوئی تھیں، ان پر سرے سے کچھ لکھا ہو اہی نہیں تھا۔ جس تختی کی عبارت نے پانچ سال تک ایک ہیجان برپا کیے رکھا،وہ کسی اور کھنڈر سے لائی گئی تھی!
شر پسند
شہر میں لوگوں کی اموات بڑھتی جارہی تھیں۔ حاکم شہر کو ان اموات سے پریشانی نہیں تھی۔اسے اپنے ایک مشیر کی اس بات سے اطمینا ن رہتا کہ جو دنیا میں آیا ہے، اس نے دنیا سے جانا ہی ہے،وہ آج جائے یا کل۔جنگ میں مرے یاکسی بیماری سے، حادثے میں جاں بحق ہو یابڑھاپے کی نذ رہو یا اس کی حکم عدولی کے نتیجے میں جان سے جائے،کیا فرق پڑتا ہے۔ حاکم شہر نے کچھ دنوں سے ایک تبدیلی محسوس کی،جس سے اس کے اطمینان میں خلل پڑا۔پہلے لوگ مرتے تھے تو لوگ دوچار دن سوگ مناتے اور پھر معمول کی زندگی شروع کردیتے تھے، مگر اب وہ سوگ کم مناتے تھے،اور باتیں زیادہ کرتے تھے۔کچھ باتیں بادشاہ کے کانوں تک بھی پہنچیں۔ان میں ایک بات یہ تھی کہ جنگ،حادثے،بیماری اور بادشاہ کے حکم سے لوگوں کے مرنے سے فرق پڑتا ہے،مرنے والے کو بھی اور مرنے والے کے لوحقین کو بھی۔ بادشاہ نے یہ بھی سنا کہ لوگ کہہ رہے تھے کہ بادشاہ کے قلم کی سیاہی، تقدیر کے قلم کی سیاہی سے مختلف ہے۔ یہ سن کر وہ آگ بگولہ ہوا،اور ا س نے سب سے پہلے اس شخص کی موت کے پروانے پر دستخط کیے، جس نے بادشاہ تک یہ بات پہنچائی تھی۔ غصے میں بادشاہ کو یاد ہی نہیں رہا کہ جس شخص نے یہ بات بادشاہ تک پہنچائی تھی، وہ اس کا مشیر اورہونے والا داماد تھا۔ جوں ہی اس کی موت کے حکم کی خبر ملکہ تک پہنچی،اس نے بیٹی کے سر کے ہونے والے سائیں کی زندگی کی فریاد کی،اور بادشاہ کو اپنا حکم بدلنا پڑا۔ بادشاہ پہلی مرتبہ تھوڑا سا ڈرا،اور اس نے لوگوں کی موت کے پروانوں پر دست خط سے پہلے کچھ غیبی اشارے سمجھنے کا فیصلہ کیا۔اس نے سونے کا ایک سکہ لیا،اس کے ایک طرف اپنی مہر کھدوائی،اور دوسری طرف فرشتہ غیبی کی تصویر۔ موت کا فیصلہ کرنے سے پہلے وہ سکہ اچھالتا۔اگر فرشتہ غیبی کی تصویر والا رخ سامنے آتا تو موت کے حکم نامے پر دست خط کردیتا، ورنہ اپنا فیصلہ مؤخر کردیتا۔ اگلے دن پھر یہی عمل دہراتا۔اگلے چند دنوں میں واقعی فرشتہ غیبی کی تصویر والا رخ سامنے آجاتا۔بادشاہ خوش تھا کہ وہ تقدیر کے فیصلے کا انتظار اور پابندی کرتا تھا۔لیکن عجیب بات یہ تھی کہ لوگوں کی زبانیں اور چلنے لگی تھیں۔ جیسے جیسے اموات بڑھتی جارہی تھیں، لوگوں کی باتوں میں پہلے دبی دبی شکایت ظاہر ہوئی، پھر ہلکا ہلکا طنزاور غصہ، بعد میں کچھ کچھ احتجاج،اور کچھ عرصہ بعد لوگ بغاوت کرتے ہوئے سڑکوں پرنکلنے لگے۔

 

بادشاہ نے اپنے خاص مشیروں وزیروں کی مجلس بلائی۔ سب سے مشورہ مانگا کہ لوگوں کے احتجاج کو کیسے روکا جائے۔

 

لوگوں کے اکٹھے ہونے پر پابندی عائد کی جائے۔جو خلاف ورزی کریں انھیں گولیوں سے بھون ڈالا جائے۔ ایک مشیر نے رائے دی۔

 

جاسوسوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ بہتر ہوگا ہر آدمی کو دوسرے آدمی کا جاسوس بنادیا جائے۔سب ایک دوسرے سے ڈرنے لگیں گے۔ دوسرا مشیر بولا۔

 

کچھ خاص لفظ چن لیے جائیں،جیسے حق، ذمہ داری، اختیار،مانگنا، چھیننا، بغاوت،احتجاج جوں ہی کسی شخص کی زبان سے نکلیں،اسے تختہ دار پرشہر کے عین چوک میں کھینچا جائے۔ تیسرے مشیر نے تائید کی۔

 

بادشاہ کو آخری تجویز آدھی پسند آئی۔ باتوں کا جواب باتوں ہی سے دینا عقل مندی ہے۔یہ کہتے ہوئے بادشاہ نے کچھ دیر توقف کیا،اور پھر مجلس کے خاتمے کا اعلان کیا۔

 

پانچ دنوں بعدشہر میں اپنی طرز کا انوکھا واقعہ ہوا۔ شہر کی سب سے بڑی عباد ت گاہ میں بادشاہ کی سپاہ کے لوگوں نے گھس کر درجنوں لوگوں کو عین اس وقت تہ تیغ کیا،جب وہ عبادت میں مصروف تھے۔جوں ہی یہ واقعہ ہوا، اس کے فوراً بعد بادشاہ کے حکم سے شہر کے ہر چوک چوراہے میں نوبت بجنے لگی،اور بادشاہ کی طرف سے یہ اعلان کیا جانے لگا کہ شہر کی سب سے بڑی عبادت گاہ میں دشمن ملک کے شرپسند گھس آئے تھے،جن کا صفایا کردیا گیا ہے،اور شہر کو ایک بڑی ممکنہ تباہی سے بچالیا گیا۔اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ شرپسند اگر عبادت گاہوں، گھروں یہاں تک کہ غاروں میں بھی چھپے ہوں گے تو ان کا خاتمہ کیا جائے گا۔
یہ سنتے ہی پورا شہر بادشاہ کے محل کی طرف امڈ پڑا۔ تھوڑی دیر بعد دوراندیش اور رعایا پرور بادشاہ کے حق میں نعرے گونج رہے تھے۔

 

اس کے بعد شہر میں لوگوں کی اموات پہلے سے بھی بڑھیں، مگر رعایا کی طرف سے کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس سے بادشاہ کے اطمینان میں خلل ہوتا!!

Image: Dariusz Labuzek

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *