آج یوم ولادت مصطفیٰ منایا جارہا ہے ۔اپنے محبوب نبی ؐ سے والہانہ عقیدت کے اظہار کیلئے مسلمانوں نے چند وعدے اور ارادے بھی کئے ہیں۔حضورؐ کی محبت میں سرشار مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ یوٹیوب، گوگل ، فیس بک اور ٹویٹر جیسی غیر مہذب امریکی ایجادات پر پابندی کے ساتھ ساتھ انہی کے تیار کردہ ایٹم بم کا نام و نشان بھی پاک سر زمین سے مٹا دیں گے۔ وہ غیر مسلم روس جسے مجاہدین اسلام نے جہاد بالسیف کے بعد افغانستان میں شکست فاش سے دوچار کیا تھا کی ایجاد کردہ کلاشنکوف AK-47کا استعمال بھی ترک کر دیں گے۔سامراجی، استحصالی اور”گستاخ رسول "امریکہ سے لیا گیا اسلحہ، ایف 16جنگی جہاز اور دیگر سامان ِ جنگ و امن بھی حرام سمجھتے ہوئے قطعاَ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ نبی آخرالزماںؐ کی امت میں سے کوئی بھی امریکی ایمبیسی میں ویزہ یا شہریت کیلئے درخواست نہیں دے گا۔ کسی بھی مغربی ملک میں نوکری یا سکونت اختیار کرنے کی بجائے خالصتاَ اس سرزمین پاک جو لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں ، خدا کی رحمت اور اولیا اللہ کی دعاؤں سے قائم ہوئی ہے کو اپنی محنت، ایمانداری اور تمام قوت سے دنیا کی سپر پاور بنائیں گے۔ یہ عزم بھی کیا گیا ہے کہ قولِ محمدؐ کے مطابق مومن کی میراث علم کو اس ملک میں عام کر دیا جائے گا۔ لوگ دنیا بھر سے آکسفورڈ ، کیمبرج یا ہارورڈ جیسے تعلیمی اداروں کی بجائے جدید و عالمی معیار کی تعلیمی درسگاہوں میں علم کے حصول کیلئے پاکستان کا رخ کریں گے۔
اکثرعام شہری تو میرے اور آپ کے محبوبؐ کی محبت میں اس حد تک سنجیدہ ہیں کہ انہوں نے قسم کھا لی ہے کہ وہ بھوکے مر جائیں گے مگر حرام کا ایک نوالہ بھی خود یا اپنے بچوں کو نہیں کھلائیں گے۔وہ اقتدار کے ایوانوں یا سرکاری محکموں میں بیٹھ کر ملک کا سودا نہیں کریں گے۔ وہ اپنے ہم وطنوں کی بڑھ چڑھ کر خدمت کریں گے۔چپڑاسی سے چیف سیکرٹری تک نبیؐ کے ہر چاہنے والے نے سائلین کی بھرپورخدمت اور فوری مدد کا وعدہ کیا ہے۔ واپڈا نے سستی اور بلاتعطل بجلی دینے اور عام شہریوں نے بجلی چوری نہ کرنے، سوئی نادرن نے سردیوں میں بغیر بندش کے مکمل گیس، پی آئی اے نے بہترین اور محفوظ پرواز اور ریلوے نے بروقت سروس دینے کا اعادہ کیا ہے۔ اس دوڑ میں محکمہ پولیس سب سے آگے ہے۔ انہوں نے نہ صرف انسداد رشوت مہم کا آغاز کیا ہے کہ بلکہ پورے ملک میں امن و امان کی صورتحال بھی خلافتِ راشدہ کے دور جیسی بنانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اب کسی بے گناہ کو نا کردہ جرم کی سزا نہیں ملے گی۔آج سے کسٹمز، ریونیو، اینٹی کرپشن، محکمہ زکوٰۃ، محکمہ مال و دیگر سرکاری محکموں میں بھی رشوت کا نام و نشان نظر نہیں آئے گا۔
کاروباری طبقہ بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ٹریڈرز ایسوسی ایشنز نے شہر کی شاہراہوں اور گزرگاہوں پر ملعون و مطعون گستاخانِ رسول کے خلاف صرف بینرز ہی آویزاں نہیں کئے بلکہ عملی طور پر اقدامات کئے ہیں۔ سب نے ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی ترک کرتے ہوئے محمدؐ کے امتیوں کوسستی اور معیاری اشیاء فروخت کرنا شروع کر دی ہیں۔اب عام شہری کو کسی بھی دکان پر خریداری کرتے ہوئے یہ شبہ نہیں ہوگا کہ دکاندار اسے لوٹ رہا ہے۔ دکانداروں نے بھی تازہ اشیاء مناسب داموں فروخت کرنا شروع کر دی ہیں۔ اب کوئی دودھ میں پانی اور مصالحوں میں اینٹیں پیس کر نہیں ڈالتا۔ مٹھائیاں خالص دیسی گھی اور کھوئے سے تیار کی جانے لگی ہیں۔ صفائی کو نصف ایمان جانتے ہوئے تمام ہوٹلوں کے باورچی خانوں اورمہمان خانوں میں صفائی کا بہترین انتظام کیا گیا ہے۔غریبوں، یتیموں اور بیواؤں کی جائیداد پر قبضے بند ہو گئے ہیں۔ پرائیویٹ تعلیم کے نام پر بنی ایمپائرز خالصتاَ تعلیمی خدمت خصوصاً دینی تعلیم کیلئے وقف کی جا چکی ہیں۔اساتذہ نے پرائیویٹ اکیڈمیوں پر توجہ دینے کی بجائے سرکاری سکولوں اور کالجوں میں دلجمعی سے پڑھانے کا وعدہ کر لیا ہے۔
ملک میں پھیلی مایوسی، انتشار اور تنگ نظری علماء دین کے اجتہاد اور تبلیغ سے امید ، اتحاداور کشادہ دلی میں بدل گئے ہیں ۔ اب ہر کوئی فخر کے ساتھ خود کو مسلمان اور محمدؐ کا امتی کہتا ہے۔ کوئی کسی پر واجب القتل اور کفر کے فتوے نہیں لگاتا۔ سب نے اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ ناموس رسالتؐ کیلئے ہر اس شخص کو گلے لگایا جائے جو آقا ئے دو جہاں ، نبی آخرالزماںؐ کی تکریم، احترام اور بطور امتی آپؐ سے وفا کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ کسی غیر مسلم کو کوئی گزند، کوئی تکلیف نہیں پہنچنے دی جائےگی،ہر ایک کے عقائد کا احترام کیا جائے گا۔ اقلیتوں کو وہ تمام حقوق دئیے جائیں گے جس کا محمدؐ نے حکم دیا ہے۔ غیر مسلموں کے جان و مال اور عبادت گاہوں کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے گا۔عفو و درگزر سے کام لیا جائے گا۔ کسی کی بری اور کڑوی بات کو سن کر بھی مسکراتے ہوئے ٹال دیا جائے گا ۔ اگر ممکن اور معقول ہو تو اسے تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کی جائے گی۔کسی کے عقائد کو محض اس لئے برانہیں کہا جائے گا کہ وہ ہمارے عقائد کو نشانہ تنقید بناتا ہے۔اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایک انسان کا قتل گویا پوری انسانیت کا قتل ہے۔ خواتین کو وہ عظیم رتبہ دیا جائے گا جس کا حکم سیدہ فاطمہؓ کے والد اور امہات المومنینؓ کے محبوب نے دیا ہے۔کم عمر بچوں سے مشقت کو گناہ کبیرہ تصور کیا جانے لگا ہے۔
سبحان اللہ! آج پاکستا ن کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔ ہر جگہ نور ہے۔ ہرسُو امن ہے۔ترقی و خوشحالی کا دور دوراں ہے۔ ہم بہترین انسان اور اچھے امتی کہلانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ ہم نے آج محمدؐ سے محبت کا ثبوت دے دیا ہے۔۔۔۔ مگرکاش ایسا ہوتا! ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لئے نام ِمحمد جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ کسی بھی طرح معیار مصطفیٰ نہیں۔ جتنے گھر سرورِ کونین کی محبت کے نام پر اجاڑے گئے وہ کسی بھی طرح دو جہاں کی رحمت کے کردار کی پیروی نہیں۔ وطنِ عزیز پر ایک نظر بھی ڈالئے تو کہیں امان نہیں، ہر سمت زندگی سسک رہی ہے اور خلقت پریشاں ہے۔ ہر گھر کوئی نہ کوئی لاشہ لئے عزاخانہ ہے، ہر فرد کسی نہ کسی کا نوحہ گر ہےکون کسے تسلی دے، کون کس کے آنسو پونچھے؟؟ اخباروں کی سرخیاں روز مرنے والوں کی تعداد کے سوا کوئی نئی بات نہیں بتاتیں، ہر تجزیے کے آخر پر اندھیرا ہے ۔
کیا واقعی پیغمبر خدا سے محبت کے اظہار کے ہمارے متشدد رویے مناسب ہیں؟ کیاتلوار رکھ کر صلح کرنے اور معاف کرنے کی روایت بندوق اٹھانے والوں اور لاشے گرانے والوں نے نہیں سنی؟؟ وہ زمانے کیا ہوئے جب قیدیوں کو فاقہ زدگی کے باوجود کھانے کو دیا جاتا رہا۔ حلیہ نہیں رویہ، شکل و شباہت نہیں کردار، لباس نہیں عادات۔۔۔ اگر اپنانا ہے تو وہ اپنائیے جو خلق خداکے لئے بہترین نمونہ بنا کے بھیجا گیا۔ قدیم عرب ثقافت و تمدن کا احیاء ، یا دوسروں سے علیحدہ شناخت اپنانا اور خود کو دنیا سے برتر یا ان پر حاکم سمجھنا اورخود کو برحق سمجھتے ہوئے تحقیق اور جستجو کےدروازے بند کرنامقصود محبت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے۔ جس عرب نسلی امتیاز کو ختم کرنے کی ریت کا آغاز محمد نے کیا اسے آج مذہبی برتری کا لبادہ پہنا کر دنیا پر حکمرانی کا جواز بنا کر اسلام کو استعماریت کا جواز بنانا کبھی اس بارگاہ میں قبولیت کی بنیاد نہ ہے نہ تھا اور نہ ہو گا۔ تقدیس اور تحریم نا نسبی ہے نہ منبر و محراب سے جڑی ہوئی ہے، یہ بنی نوع انساں کی محبت سے جڑی ہے۔ خدا کا بندہ ہونا ہی کافی نہیں خدا کے بندوں سے پیار ضروری ہے۔
this is unfortunately a true picture of Muslim ‘s state of moral and mental decadence.Islam and all other religions focus man’s welfare and service.The Holy Prophet sets his exemplary life…… our Shallowness never incites us realize this depravity.
logical.