فرانز اوپن ہائیمر (Franz Oppenheimer) کے مطابق انسان کے پاس اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لئے صرف دو متضاد ذرائع ہٖیں، پہلا کام (Work) اور دوسرا لوٹ مار (Robbery)؛ یعنی یا تو وہ اپنی محنت (labour)سے یا وہ دوسروں کی محنت (labour) چھین کر اپنی ضروریات پوری کرتا ہے۔ جے سی لیسٹر کے مطابق، لوٹ مار انسان کے لئے سب سے پر کشش پیشہ رہا ہے اور ہزار ہا برس گزر جانے کے باوجود انسان کی اس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اسی لوٹ مار اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم تحفظ نے ریاست کے ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ریاست کے جواز پر موجود فلسفیانہ مخاطبے (Discourse) میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ریاست لوٹ مار روکنے اور لوگوں کے تحفظ کے لیے وجود میں آئی ہے یا ریاست لوٹ مار کو مستقل اور آئینی بنانے کے لیے وجود میں آئی ہے؟
جے سی لیسٹر کے مطابق، لوٹ مار انسان کے لئے سب سے پر کشش پیشہ رہا ہے اور ہزار ہا برس گزر جانے کے باوجود انسان کی اس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
تھامس ہابس، روسو اور جان لاک کے مطابق ریاست عوام اور حکمران کے درمیان ایک سماجی معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ بقولِ تھامس ہابس state of nature یعنی ریاست بننے سے پہلے لوگ ایک دوسرے کو لوٹتے تھے، ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرتے تھے وہ سب حالتِ جنگ میں تھے تو اس حالت سے نکلنے کے لیے انہوں نے ایک سماجی معاہدے کے مطابق ایک حکمران (sovereign power) کو اختیارات دیے تا کہ وہ سماج میں order law andکے ذریعے لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کرے۔ تھامس ہابس حکمران کو absolute powers دیتاہے کیونکہ لوگوں کو حکمران کی ضرورت ہے۔ دوسرے الفاظ میں ریاست کا وجود انسانوں سے زیادہ اہم ہے کیونکہ ریاست لوگوں کی بقا کا ضامن ہے۔
روسو کے مطابق جب state of nature میں جب لوگو ں کے درمیان حقِ جائیداد پر جھگڑے شروع ہوئے تو لوگوں نے عمومی رائے (general will) سے ایک حکمران منتخب کیا تا کہ وہ قانوں کی حکمرانی قائم کرے۔ روسو کا نظریہ اگرچہ واضح نہیں ہے لیکن روسو کی عمومی رائے کو دانشور سوشلسٹ ڈیموکریسی خیال کرتے ہیں کیونکہ روسو کے عمرانی معاہدے کی ایک شرط یہ تھی کہ جن لوگوں نے زمینوں/جا ئیدادوں پر قبضہ کیا تھا ان سے انہیں دستبردار ہونا پڑے گا۔ جان لاک کا خیال ہے state of nature میں انسان آزاد تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کوئی ایسی سیاسی مقتدرہ نہیں تھی جوکسی کی جان، مال اور آزادی کے خلاف جارحیت کرنے والوں کو روکتی۔ جان لاک کا فلسفہ موجود جمہوری فلاحی ریاستوں کی بنیاد ہے جس کے مطابق حکمران کی بنیادی ذمہ داری لوگوں کے انسانی حقوق (جان، مال اور آزادٖی) کو یقینی بنانا ہے اور اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں تو لوگوں کو حق حاصل ہے کہ انہیں سے تبدیل کریں۔
جان لاک کا فلسفہ موجود جمہوری فلاحی ریاستوں کی بنیاد ہے جس کے مطابق حکمران کی بنیادی ذمہ داری لوگوں کے حقوق کو یقینی بنانا ہے اور اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں تو لوگوں کو حق حاصل ہے کہ انہیں سے تبدیل کریں۔
مندرجہ بالا فلاسفہ گر چہ مختلف states of nature کی تصویر کشی کرتے ہیں اور مختلف طرزِ حکومت تجویز کرتے ہیں لیکن ان تینوں فلسفیوں کے نظریات سے ہم یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ ریاست لوگوں کی مرضی سے وجود میں آئی تا کہ آپس میں جھگڑوں کا خاتمہ ہو جائے اور قانون کی بالادستی کے ذریعے انسانوں کی جان، مال اور آزادی کو محفوظ بنایا جائے۔ اس کے بر عکس نراجیت پسند (Anarchist) اورآزادی پسند (libertarian) فلسفی چونکہ کسی بھی قسم کے تشدد کے خلاف ہیں اور ریاست کا وجود تشدد کے بغیر ممکن نہیں اس لئے ان کا خیال ہے کہ ریاست لوگوں کی مرضی سے نہیں بلکہ لوگوں پر مسلط کی گئی ہے۔ ڈیوڈ ہیوم (1826) کے مطابق دنیا کی تقریباً تمام موجودہ ریاستیں فتح (Conquest) یا غصب (Usurpation) یا دونوں کے ذریعے وجود میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایسی کوئی ریاست نہیں جو لوگوں کی رضا کارانہ مرضی سے وجود میں آئی ہو۔ انتھونی ڈی جاسے (Anthony de Jasay) کے مطابق زیادہ تر انسان جو مختلف ملکوں میں ہیں وہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ ان کے آباواجداد کو حملہ آور نے شکست دی تھی یا انہوں نے Hobson’s choice کی وجہ سےکسی ایک بادشاہ کی اطاعت کر لی تا کہ دوسرے بادشاہ کی بربریت سے محفوظ رہ سکے۔ اسی طرح کلیرنس ایس ڈارو بھی دلیل دیتے ہیں کی ریاست کا آغاز جار حیت (aggression) سے ہوا ہے اور صرف تشدد (violence) کے ذریعے ہی اسے برقرار رکھا جا سکتا ہے جس کے لئے فوج، پولیس اور عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، یہ امر مثالی امن کے بنیادی اصول کے خلاف ہے جو تشدد سے نہیں بلکہ انصاف اور آزادی کی بنیاد پر ہو۔ فوج اور پولیس کی ضرورت ہی اس لیے پیش آئی تا کہ ان کو جبری بھرتی (conscription) کروایا جائے ؛ ان سے جبری کام (Slavery)کام کروایا جائے اور لوگوں سے جبری ٹیکس وصول کیا جائے۔
فرانز اپن ہائیمر کا خیال ہے ریاست اس لئے وجود میں آئی تا کہ لوگوں کو ماضی کی طرح بیک وقت ہر چیز سے محروم نہ کیا جائے بلکہ ان کو باقاعدگی سے اس طرح لوٹا جائے کہ ان سے مال بھی بٹورا جائے اور وہ اس قابل بھی رہیں کہ مزید مال بھی پیدا کر تے رہیں۔ یعنی ایک بار سب کچھ لوٹنے کی بجائے عوام کے تھوڑا تھوڑا اور بار بار یا مستقل پر لوٹا جائے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہوا جب انسانی سماج شکار کے زمانے (جب انسان شکار پر گزارہ کرتا تھا) اور گلہ بانی کے زمانے (جب انسان نے جانوروں کو خانگی بنانا شروع کیا)سے نکل کرزرعی دور میں داخل ہوا،کیونکہ زراعت کی دریافت اور ایجاد (ٹیکنالوجی) کے بعد انسان نہ صرف مستقل طور پر آباد ہونا شروع ہوا بلکہ کام کی تقسیم (division of labour) اور کام میں تخصیصی مہارت (specialisation) کے نتیجے میں معاشی پیداوار میں اضافہ بھی ہونے لگا جس سے تجارت (Commerce) بھی وجود میں آئی (ایڈم سمتھ)۔ ریاست کے نام پر اس مستقل لوٹ مار کو جے لیسٹر agriculturalization of predation جبکہ مینکراولسن stationary banditry کا نام دیتے ہیں۔
فرانز اپن ہائیمر کا خیال ہے ریاست اس لئے وجود میں آئی تا کہ لوگوں کو ماضی کی طرح بیک وقت ہر چیز سے محروم نہ کیا جائے بلکہ ان کو باقاعدگی سے اس طرح لوٹا جائے کہ ان سے مال بھی بٹورا جائے اور وہ اس قابل بھی رہیں کہ مزید مال بھی پیدا کر تے رہیں۔ یعنی ایک بار سب کچھ لوٹنے کی بجائے عوام کے تھوڑا تھوڑا اور بار بار یا مستقل پر لوٹا جائے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہوا جب انسانی سماج شکار کے زمانے (جب انسان شکار پر گزارہ کرتا تھا) اور گلہ بانی کے زمانے (جب انسان نے جانوروں کو خانگی بنانا شروع کیا)سے نکل کرزرعی دور میں داخل ہوا،کیونکہ زراعت کی دریافت اور ایجاد (ٹیکنالوجی) کے بعد انسان نہ صرف مستقل طور پر آباد ہونا شروع ہوا بلکہ کام کی تقسیم (division of labour) اور کام میں تخصیصی مہارت (specialisation) کے نتیجے میں معاشی پیداوار میں اضافہ بھی ہونے لگا جس سے تجارت (Commerce) بھی وجود میں آئی (ایڈم سمتھ)۔ ریاست کے نام پر اس مستقل لوٹ مار کو جے لیسٹر agriculturalization of predation جبکہ مینکراولسن stationary banditry کا نام دیتے ہیں۔
جدید ریاستی نظام (nation-state system) میں بھی ریاست اور جنگ ساتھ ساتھ (hand in hand) آگے بڑھ رہے ہیں۔ جے سی لیسٹر کے مطابق یورپ میں مسلسل جنگوں کی وجہ سے حکمرانوں نے غیرمعمولی مقصد (extraordinary purpose) یعنی جنگ کے لئے عوام پر مستقل ٹیکس نافذ کیا تا کہ بڑی تعداد میں عسکری قوت (mass military) کو برقرار رکھتے ہوئے انتظامی افسرِ شاہی بھی قائم کی جائے۔ اس کا مقصد لوگوں کے درمیان ایک مشترک عمومی شناخت (common identity) پیدا کرنے کے لئے زبان، قانون اور روایات کی یکسانیت (یعنی، ایک تعلیم، ایک قانون، ایک زبان ) کا حصول تھا تاکہ ایک قومی شعور (national consciousness) اجا گر کیا جا سکے جسے تعلیمی اداروں کے ذریعے منتقل کی جانے والی ثقافت بھی کہا جاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں عوام میں قومی جذبہ پیدا ہو گا۔ پھر اسی جذبے کی بنیاد پر دیگر اقوام کے ساتھ مسابقت اور نفرت کو ہوا دی جائے اور عوام کے اندر یہ خوف پیدا کیا جائے کہ ان کے وجود کو دوسری اقوام سے خطرہ ہے۔
فرانز اپن ہائیمر کا خیال ہے ریاست اس لئے وجود میں آئی تا کہ لوگوں کو ماضی کی طرح بیک وقت ہر چیز سے محروم کرنے کی بجائے ان کو باقاعدگی سے اس طرح لوٹا جائے کہ ان سے مال بھی بٹورا جائے اور وہ اس قابل بھی رہیں کہ مزید مال بھی پیدا کر تے رہیں۔
مثال کے طور پر ایک محتاط اندازے کے مطابق طور پر 98 فیصد سے پاکستانیوں نے زندگی میں کبھی بھی کسی ہندوستانی سے بات نہیں کی لیکن زیادہ تر لوگ ہندوستان کو پاکستا ن کا دشمن سمجھتے ہیں کیونکہ ان کو ایک یکساں تعلیمی نظام اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہندوستان سے دشمنی سکھائی گئی ہے۔ ورنہ اگر ان میں سےکسی کو ہندوستانیوں سے ملنے اور رابطے کا موقع ملے گا تو ممکن ہے شعیب ملک کی طرح وہ بھی کسی ہندوستانی مرد یا عورت سے شادی کر لیں۔کہنے کا مطلب یہ ہے جھگڑے عوامی سطح پر نہیں ہوتے بلکہ ریاستی سطح پر پیدا کیے جاتے ہیں۔ جے سی لیسٹر کے مطابق صرف بیسویں صدی میں ریاستی جنگوں اور جھگڑوں میں سترہ کروڑ سے زائد لوگ مارے گئے جبکہ اس کے بر عکس دوسرے جرائم میں اسی لاکھ لوگ مارے گئے ہیں۔ جنگوں کی وجوہات ریاستیں خود پیدا کرتی ہیں تاکہ بڑی افواج اورافسرِشاہی رکھنے اور بھاری ٹیکسوں کو جواز فراہم کیا جاسکے۔ محب وطن شہری بن کر جنگوں کی بھاری قیمتیں عوام ادا کرتے ہیں جبکہ قومی ہیرو حکمران اور افواج کے سربراہان ہوتے ہیں۔دوسرے الفا ظ میں غلامی حب الوطنی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ جو لوگ قومی بیانیے سے اختلاف کریں یا قومیتوں کے ادغام سے یکساں قومیت کے قیام (homogenisation) کی مزاحمت کریں تو انہیں قومی مفاد کے لئے خطرہ قرار دے کر غدار کا لقب دیا جاتا ہے تا کہ انہیں راستے سے ہٹانے کے لیے جواز قرار فراہم کیا جائے۔ ریاست جب ناکام ہوتی ہے تو لوگوں کی نفسیات اور جذبات کو بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً پاکستان جیسی ریاست میں اگر بچے بھی دہشت گردی میں مارے جائیں تو اسے شہادت کا رنگ دیا جاتا ہے اور خوبصورت ملی نغموں سے عوام کو جذباتی بنایا جاتا ہے تاکہ وہ صورت حال کا منطقی اور تنقیدی جائزہ نہ لے سکیں۔
ریاست پر اس فلسفیانہ بحث کے تناظر میں اگر پاکستانی ریاست کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو ایک نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان ریاست نہیں ہے بلکہ موجودہ حالات کے مطابق پاکستان تھامس ہابس کی بیان کردہ state of nature کی منظر کشی کر رہا ہے یعنی کسی کی جان، مال اور نہ ہی آزادی محفوظ ہے لوگ حالت جنگ میں ہیں۔ اور اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ موجودہ پاکستان ایک ریاست ہے کیونکہ اس کا اپنا آئین او رادارے ہیں اور حکمران بھی ہیں تو بھی پاکستان جان لاک اور روسو کی فلاحی یا سوشلسٹ ڈیموکریسی پر مبنی ریاست کے بر عکس تھامس ہابس کی ریاست ہے جس میں حکمرانوں بشمول سیاسی قیادت، بیوروکرسی اورا فواج کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں اورعوام بے بس ہیں کیونکہ ان کو اس خوف میں رکھا گیاہے کہ ریاست کے بغیر ان کے وجود کو خطرہ ہے۔ دوسرے الفا ظ میں شہری ریاست کے لیے ہیں اور ریاست شہریوں کے لئے نہیں ہے۔
جنگوں کی وجوہات ریاستیں خود پیدا کرتی ہیں تاکہ بڑی افواج اورافسرِشاہی رکھنے اور بھاری ٹیکسوں کو جواز فراہم کیا جاسکے۔
اگرنراجیت پسند اور آزادی پسند نظریات کے تناظر میں دیکھا جائے کہ ریاست انسانی پر مسلط کی گئی ہے تا کہ لوٹ مار کو مستقل اور آئینی حیثیت دی جا سکے تو پاکستانی ریاست واقعی لوگوں پر مسلط شدہ ریاست لگتی ہے۔ مسخ شدہ تاریخ، خود ساختہ دشمن، قومی مفاد، دفاع وطن اور دوسرے کھو کھلے نظریات کی بنیاد پر لوگوں میں حب الوطنی کا جھوٹا احساس (false sense of patriotism) پیدا کر کے سیاسی اورعسکری اشرافیہ کی لوٹ مار کے لئے راہ ہموار کیا گیا ہے۔ عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں، معیاری تعلیم، صحت، بجلی، صاف پانی اور روزگار سے محروم ہیں لیکن دفاعی بجٹ میں ہر سال اضافہ کیا جاتا ہے اورعام لوگوں کے برعکس مقتدر اشرافیہ امیر سے امیر تر ہوتی جا رہی ہے۔
عوام کو اگر واقعی محب وطن بننا ہے تو وہ اس بار یوم آزادی کو جذباتی تقریروں اور ملی نغموں کے ساتھ منانے کی بجائے حکمرانوں کے سا تھ عمرانی معاہدے کی تجدید کر یں کہ ریاست لوگوں کی فلاح کے لیے ہے۔ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کو یقینی بنائے اورحکمران اگر یہ فرائض انجام نہیں دے رہے تو ان کو حکمرانی کا کوئی حق نہیں اور یہی آ ئین کی سادہ ترین تشریح ہے۔ بہتر یہی ہے کہ لوگ پرامن احتجاج کریں اور اپنے آئینی مطالبات پرامن جلوسوں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے حکمرانوں تک پہنچائیں، ریاست کو بھی خود ساختہ دشمنوں کے مقابلے کے لیے ہتھیار سازی اور لشکر سازی پر بے دریغ خرچ کی بجائے اپنے بنیادی مقصد یعنی فلاح و بہبود کے لیے وسائل مختص کرنے چاہیئں۔
عوام کو اگر واقعی محب وطن بننا ہے تو وہ اس بار یوم آزادی کو جذباتی تقریروں اور ملی نغموں کے ساتھ منانے کی بجائے حکمرانوں کے سا تھ عمرانی معاہدے کی تجدید کر یں کہ ریاست لوگوں کی فلاح کے لیے ہے۔ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کو یقینی بنائے اورحکمران اگر یہ فرائض انجام نہیں دے رہے تو ان کو حکمرانی کا کوئی حق نہیں اور یہی آ ئین کی سادہ ترین تشریح ہے۔ بہتر یہی ہے کہ لوگ پرامن احتجاج کریں اور اپنے آئینی مطالبات پرامن جلوسوں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے حکمرانوں تک پہنچائیں، ریاست کو بھی خود ساختہ دشمنوں کے مقابلے کے لیے ہتھیار سازی اور لشکر سازی پر بے دریغ خرچ کی بجائے اپنے بنیادی مقصد یعنی فلاح و بہبود کے لیے وسائل مختص کرنے چاہیئں۔
One Response
مغرب کے فلاسفر سے متاثرہ شخص کی سوچ ایسی ہی ہو سکتی ہے ، پاکستان میں جو برائی ہے وہ سب میں ہے، کیا فاضل مصنف کو ہندوستان کی پاکستان کے خلاف دشمنی اور منافقت نظر نہیں آتی ؟؟
اور لگتا ہے مصنف صرف مغرب سے متاثر ہے ، ورنہ کچھ تو جانتا ہوتا کہ اسلام کا فلسفہ ریاست کیا ہے ، پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں ۔ ۔۔
ویسے بھی ہمیں کسی باہر کے دشمن کی ضرورت نہیں ، ہمارے دشمن اور فنا کار ۔۔ ۔ ہمارے اندر ہی موجود ہیں ۔۔ ۔