ہزارہ نسل کشی اور فرقہ واریت کا تاریخی پس منظر

(الف-ف)

مذہبی معاشروں میں پیشوائیت کے اندرونی تصادم اور عام آدمی کی ‘روح’ پر تسلط کے لیے تکفیر اور قتال کے ہتھیار استعمال کرنا ہر مذہبی معاشرے کا تاریخی تجربہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد غیرمسلموں کے مرحلہ وار انخلاء کے بعد سیاسی اور مذہبی اکھاڑامسلمان قومیت کے رنگ برنگے پیشواؤں کے لیے خالی رہ گیا۔ ایسےمیں طاقت اور دہشت کی رسہ کشی ایک بالکل فطری اور قابل فہم عمل تھا۔ تقسیم کے وقت ہی مولانا ابوالکلام آزاد اور ایسے دیگر مفکرین نے اس نوزائیدہ مذہبی معاشرے میں جلد یا بدیر فرقہ وارانہ شورشوں کے برپا رہنے کی پیشین گوئی کر دی تھی۔ ترقی کے جدید زاویوں یامذہبی جذباتیت کو اپنا ہتھیار بنانے کے مابین انتخاب کرنے میں پاکستانی قوم ابتدائی تین سے چار عشروں تک کشمکش میں رہی۔ 70ء اور 80ء کی دہائیوں تک ریاستی ڈھانچے غالباًیہ طےکر چکے تھے کہ آنے والی دہائیوں میں لوگوں کے بے ضرر مذہبی عقائد کو گروہی نفرت کی شکل دے کر ریاستی مفادات کے حق میں ایک طاقت کے طور پر برتا جائے گا۔

خطے کا دوسرا اور ملک کا سب سے بڑا مذہب، اسلام گزشتہ بارہ تیرہ صدیوں سے خطے کی ثقافت، معاشرت اور سیاست میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اولیائے اسلام کے آفاقی توحید کے پیغام سے متاثر ہو کر اس خطہ کے صلح جو، محبت کیش اور فنون لطیفہ کے دلدادہ لوگوں نے جوق در جوق اسلام قبول کیا توصوفیاء کے آفاقی پیغام اور مقامی لوگوں کی طبع سلیم نے باہم مل کر توحید اور مقامی انسان دوست روایتوں کا ایسا امتزاج پیدا کیا جس سے دنیا بھر میں مسلمانان برصغیر شخصی خصائل، علوم اور فنون لطیفہ کے باب میں دنیا بھر کے لیے ایک عظیم حوالہ بنے رہے۔برصغیر میں مسلم اقتدارکے زوال کے بعد مسلمانان ہند کی سیاسی وفاداریاں باستثناء اگرچہ اپنی زمین سے وابستہ رہیں لیکن روحانی وابستگیاں اور بین الاقوامی معاملات کی فیصلہ سازی  ترکی میں بچی کھچی اسلامی خلافت کے زیر اثر آ گئیں۔ مسلمانوں کے لیے مقدس ترین علاقہ حجاز مقدس بھی خلافت عثمانیہ کا ہی ایک حصہ تھا جسے اٹھارہویں صدی میں عثمانیوں نے ناجدہ کی تحریک کو کچل کے حاصل کیا تھا۔ اس رنجش کے زیر اثر ناجدہ گزشتہ دو صدیوں سے مکہ اور مدینہ کو خلافت عثمانیہ سے چھیننے کی فکر میں رہے تاوقتیکہ پہلی عالمی جنگ میں انگریزوں نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور عرب میں خاندان سعود کو خلیفہ کے خلاف مسلح کرنا شروع کیا۔ بالآخر خلافت کا تختہ الٹ کر جزیرہ عرب کی بادشاہی آل سعود کو سونپ دی گئی۔دو صدیاں قبل ناجدہ کی اس تحریک نے اپنا آغاز بڑے پیمانے پر فروعی عقائد کے نام پر کشت و خون اور مقدس مقامات کے انہدام سے آغاز کیا تھا۔ عثمانیوں کے خلاف جنگ میں صحرائے عرب سے دیگر کئی بدوی قبائل بھی ان سے آن ملے تھے، جن کے مزاج میں روایتی قبائلی منتقم رجحانات پہلے سے ہی موجود تھے۔ جس وجہ سے آتے ہی  یہ تحریک دہشت اور فرقہ وارانہ خونریزی کی ایک علامت بن گئی۔ ادھر برطانیہ کے زیر نگیں ہندوستان میں، جس کی اکثریت خلافت عثمانیہ کی روحانی سیادت کو تسلیم کرتی تھی، انگریزوں نےمسلمان برادری میں عثمانیوں کی حمایت اور تحریک خلافت کا اثر گھٹانے کے لیے سعودی فکر کےپنپنے کا پورا بند وبست کیا۔ جس سے صدیوں سے تفرقہ پروری اور گروہی خونریزی سے ناآشنا ہندوستانیوں میں اچانک ایک دوسرے کے لیے تکفیر اور نفرت کے نعرے گونجنے لگے۔

ہندوستان میں ایک ہزار سال سے آباد مسلمان قوم اس سے پہلے دو بنیادی رجحانات پر مشتمل تھی۔اکثریتی رجحان صوفیائے کرام کے عالمگیر محبت اورذات حق کا عرفان حاصل کرنے کے پیغا  م کو بنیادی عقائد کا محور بنائے ہوئے اپنی مذہبی اور سماجی زندگی نہایت امن و رواداری سے گزار رہا تھا۔ جبکہ دوسرا بڑا مذہبی رجحان، انہی عقائد کے ساتھ ساتھ شہادتوں کےعظیم تر تقدس اور جمہوری احتجاج کو ناانصافی کے خلاف اپنی طاقت سمجھتا تھا۔ ان کی مذہبی رسوم اور اعمال اپنے پیروؤں کو درس دیتے تھے کہ ظلم کے جواب میں غارت گری ہی کا راستہ اپنانے کی بجائے اپنی مظلومیت کو اپنا ہتھیار بنانا خدا کے نزدیک برتر ہے۔ اس رجحان کی باقاعدہ ابتداء اسلامی تاریخ کے ایک نہایت نمایاں واقعہ، جنگ کربلا سے ہوئی تھی۔ لہذا یہ فرقہ شروع سے ظلم اور ظلم کے خلاف مزاحمت کی اس فکر میں حضرت امام حسین اور یزید کو اپنی رسوم میں اچھائی اور برائی کے دو استعاروں کے طور پر یاد کرتا رہا ہے۔اس واقعہ کے ایک نمایاں پہلو کا یہاں ذکر کرنا نہایت برمحل ہے کہ روایتی عرب سماج میں خونیں انتقام کو ایک خاص تقدس حاصل تھا، جس کی وجہ سے زمانہ جاہلیت میں ایک قتل کے جواب میں قتل کا ایک لامتناہی سلسلہ چلتا تھا جو بسا اوقات پوری صدی سے ذیادہ طول پکڑ جاتا۔جبکہ اس جنگ کے بعد ظالمانہ قتل کے جواب میں انتقامی سلسلہ شروع کرنے کی بجائے عرب میں پہلی دفعہ جمہوری انداز میں احتجاجی جلوسوں کی روایت ڈالی گئی۔کوئٹہ کے حالیہ احتجاجی دھرنے، احتجاجیوں کے مطابق اسی روایت کا تسلسل اور بزرگداشت ہیں۔

پاکستان میں حالیہ فرقہ وارانہ فسادات کا باقاعدہ آغاز 70ء اور 80ء کی دہائیوں سے ہوتا ہے۔تب تک معاشی اور فکری پس ماندگی کی شکار سعودی سلطنت نے تیل کے ذخائر کی دریافت کے بعد ایک بین الاقوامی معاشی طاقت کا روپ دھار لیاتھا اور سکّوں کی تازہ کھنک سے ان کے دل میں مسلم دنیا پر ثقافتی غلبے کی دبی خواہش پھر سے انگڑائیاں لینے لگی تھی۔ ادھر ایران میں بادشاہت کا تختہ الٹنے اور حریف مذہبی حکومت کے قیام نے ‘جلتی پر تیل’ کا کام کیا۔سعودی ثقافت مسلط کرنے کے لیے آسان ترین ہدف لامحالہ طور پر پاکستان تھا، جہاں 1978ء میں جمہوری حکومت کو الٹ کر مذہبی لبادے میں ایک فوجی آمریت آ چکی تھی۔ روس امریکہ جنگ میں پاکستان کی حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے جہادی عنصر کا فروغ، مذہب کے نام پر مار دھاڑ ایک اہم ریاستی ضرورت بن گیا تھا۔ ان عوامل نے پاکستانی مسلمانوں کی آنے والی زندگی پر سعودی خواہشات کے نفاذ کی راہ  ایک دم ہموار کر دی۔ پاکستان جو کہ افغان سرحدوں پر امریکی سرمائے پر ایک پرائی جنگ اپنے سر لے رہا تھا، اب آل سعود نے بھی اپنے ارادوں کے تحت پاکستانی ریاست پر نوٹ نچھاور کرنا شروع کر دیے، جن سے آمرانہ حکومت اپنے ملک کے اندر فرقہ وارانہ نفرت کے دائمی بیج بوتی چلی گئی اور برابر نوٹ سمیٹتی رہی۔

قومی اور عوامی امن کے ساتھ اس ریاستی کھلواڑ  سے آن کی آن میں پاکستان میں پھر سے تکفیر کے نعرے اور قتل کے فتوے گونجنے لگے۔ جگہ جگہ مخالف فرقوں کی نسل کشی کے لیے مسلح تنظیموں کے تربیت کیمپ کھلنے لگے اور محراب و منبر پر فروعی اختلافات کی ان ان باریکیوں پر دھواں دھار تقریریں ہونے لگیں جو عام مسلمانوں نے پچھلی تیرہ صدیوں میں نہ سنی تھیں نہ کبھی پڑھی تھیں۔ قومی پرچم کا سفید اقلیتی حصہ ادھیڑ پھینکنے کے بعد جھنڈے کا سبز مسلمانی ٹکڑا بھی چیتھڑے ہونے لگا۔ ہارے ہوئے پاکستانیوں نے پگڑیاں اچھال کر عربی رکاف سروں پر باندھ لیے، رمضان کو "رامادان” کہا جانے لگ گیا اور بہت سے شکست خوردہ ہم وطنوں نے اپنی چھتوں سے پاکستانی پرچم اتار پھینک کر اپنے ہاتھوں سے گھروں پر سعودی عرب کا جھنڈا گاڑ دیا۔

سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی ریاست پر نوٹوں کی بارش تھم گئی اور اپنے ہی پالے ہوئے جہادی عنصر کی ضرورت اچانک ختم ہو گئی۔ لیکن تب تک بچے بچے کے دماغ میں باہمی نفرتوں کا زہر سرایت کر چکا تھا اور قومی اتحاد تقریبا پارہ پارہ ہوتا نظر آ رہا تھا۔حکومت نے فرقہ پرست قاتلوں کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا لیکن تب تک مسلح تنظیموں کے ہاتھ اس قدر لمبے ہو چکے تھے کہ انہیں بیرونی امداد کے لیے پاکستانی حکومت کے درمیانی ہاتھ کی ضرورت نہیں رہی تھی۔

موجودہ حالات میں جب فرقہ پرست جنگجوؤں کے راہ و رسم حکومت کے ساتھ ماضی جیسے نہیں رہے، انہیں اپنے محفوظ مستقر بنانے کے لیے ایک ایسا علاقہ چاہیے تھا جس میں ریاستی ڈھانچے کا کوئی عملی وجود نہ ہو۔ لہذا انہوں نے اپنا گولہ بارود سمیٹ کر بلوچستان جیسے شورش زدہ علاقہ میں جا کر بسیرا کیا ہے۔ ہزارہ برادری بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور قریبی آبادیوں میں ایک بڑی اکثریت سے آباد ہے۔ یہ لوگ مذہبا ًشیعہ مسلمان اور اکثریتی طور پر فارسی بان ہیں۔ اس جغرافیائی، مذہبی اور لسانی قربت کی وجہ سے پڑوسی ملک ایران کی طرف ان کی آمد و رفت اورروابط بہت دوستانہ ہیں۔گزشتہ چند سالوں سے ان شدت پسند تنظیموں نے بلوچستان کے شیعہ ہزارہ قبائل کی نسل کشی سے اپنے فرقہ وارانہ قتل عام کا سلسلہ از سر نو بحال کیا ہے۔ اس گروہ کے نمائندہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ ایران پاکستان زمینی راستے سے گزرنے والے مسافروں اور خاص طور سے شیعہ زائرین کو بڑے پیمانے پر مارنے کا سلسلہ پچھلے کئی عرصہ سے جاری تھا جس سے پاکستانی  عوام ایران کے زمینی راستوں کو غیر محفوظ اور جان جوکھم کا سفر سمجھنے لگے۔ لیکن اس قتل عام پر قومی ذرائع ابلاغ کے ہاں  ایک پراسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کراچی اور کوئٹہ میں ایک سے لے کر دس بارہ افراد تک کو روزانہ قتل کیا جاتا رہا ہے لیکن ایسے ذیادہ تر سانحے قومی اخبارات میں ایک معمولی سی خبری سرخی جتنی جگہ کا بار بھی نہ پا سکے۔ مجبورا ظلم کا شکار شیعہ برادری نے انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکشن ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے آزادانہ اور غیر روایتی خبری ذرائع قائم کر لیے تاکہ سنجیدہ حلقوں تک ان مظالم کے احوال ہر لمحہ پہنچتے رہیں، لیکن ارباب اقتدار نے کسی بھی سنجیدہ کوشش کو اپنی ترجیح نہیں سمجھا۔ پاکستانی عدلیہ جو پچھلے پانچ سالوں سے شہریوں اور سیاستدانوں کے فروعی مسئلوں پر دھڑا دھڑ ازخود نوٹس لے کر بلاناغہ قومی میڈیا کی شہ سرخیوں پر ہے، اس کے حضور متعدد بار اس قتل عام کے خلاف پٹیشنز دائر کی گئیں لیکن یہ سنجیدہ مسئلہ چونکہ سنسنی خیز مہم جوئی سے خالی تھا، اس لیے شہ سرخیوں میں رہنے کے شوقین ججوں نے اس "غیر اخباری” ایشو پر کسی بھی پٹیشن پر کوئی عملدرآمد کرنا اہم نہیں سمجھا۔

12 جنوری کو جب پورے قومی ذرائع ابلاغ ایک نیم سیاسی لیڈر کے اسلام آباد کی طرف سیاسی مارچ کی کوریج میں مصروف تھے، کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری کے رہائشی علاقے میں ایک زوردار دھماکہ ہوا جس میں سو سے زائد افراد مارے گئے۔متاثرہ شیعہ برادری جو کہ اب تک صبر اور خاموشی کی حدوں کو عبور کیے بیٹھی تھی، انہیں اپنے حالیہ تجربات کی روشنی میں پورا خدشہ تھا کہ اتنا بڑا قومی سانحہ بھی اسلام آباد کی سیاسی گہما گہمیوں کے شور میں ماند پڑ سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں کسی بھی متاثرہ گروہ کا ماورائے قانون ہنگامے کھڑے کر دینا بالکل قرین از توقع تھا۔ لیکن کوئٹہ کے امن پسند ہزارہ شہریوں نے ردعمل کا وہی طریقہ اختیار کیاجو انہوں نے اپنی تیرہ صدیوں سے چلی آ رہی مقدس روایت سے سیکھا تھا۔ ذی شعور اور صابر ہزارہ برادری نے اپنے شہداء کے بیسیوں تابوت  کاندھوں پر رکھ کر علمدار روڈ پر لا کر سجا دیے اور منفی آٹھ درجہ حرارت پر غیر معینہ مدت کا دھرنا دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تب تک اپنے ان لاشوں کو نہیں دفنائیں گے جب تک اس قتل عام سے آنکھیں موندے ہوئی حکومت،  بلوچستان کی غیر ذمہ دار صوبائی حکومت کو برطرف کر کے قاتلوں کے خلاف قابل ذکر اقدامات نہیں کرے گی۔ بین الاقوامی میڈیا پھٹی آنکھوں سے ان غم سے نڈھال اور خاموش سوگوار مسلمانوں کا اچھوتا احتجاج دکھا رہا تھا۔ جن مسلمانوں کے بارے میں اب تک بین الاقوامی ذرائع پر محض یہی دکھایا اور بتایا جاتا تھا کہ مسلمان بات بے بات بگڑ کر اپنی سڑکوں پر توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ جیسا متشدد احتجاج کرنے والی قوم ہیں۔ دھرنا دینے والوں کی استقامت کے آگے ہتھیار ڈال کر بالآخر 72 گھنٹوں کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم نے کوئٹہ آ کر ان کے مطالبات منظور کرنے کا اعلان کرتے ہوئے، بلوچستان کی صوبائی حکومت کو تحلیل کر کے گورنر راج نافذ کر دیا۔

اس فرقہ وارانہ خونریزی کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستانی قوم کے بارے جو شرمناک تاثر پھیل رہا تھا، کوئٹہ کے ہزارہ مسلمانوں کی طرف سے ایسی لازوال مثال قائم کیے جانے کے بعد ایک متبادل رائے کی راہ ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے کہ پاکستانی عوام، جمہوری طرز عمل کے ذریعے بھی اپنے مطالبات منوانا، اپنا حق حاصل کرنا اور ظلم کو پچھاڑنا جانتے ہیں۔

گورنر راج کے سرکاری اعلان اور شدت پسندوں کے خلاف ایکشن لینے کے بعد کالعدم تنظیموں کے دو کے قریب مقامی کمانڈر مارے گئے ہیں۔ لیکن شیعہ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات دھرنا ختم ہونے کے دوسرے دن سے ہی، نسبتا کم قوت کے ساتھ مگر پھر سے شروع ہو گئے ہیں۔پچھلے تیس برسوں سے یہ مسلح کالعدم تنظیمیں جس قدر اندھی طاقت حاصل کر چکی ہیں، ان کی سرکوبی کے لیے نسبتا بڑے پیمانے کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سبھی اقدامات بھی صرف اس صورت کارگر ہو سکتے ہیں اگر عام لوگوں کی سطح پر آ چکے نفرت پسند خیالات اور عدم روادار رویوں کے خاتمے کے لیے ذرائع ابلاغ اور دانشور طبقہ کسی درجہ سنجیدگی دکھائے۔ اور اس سے بھی اہم امر یہ ہے کہ عوام از خود، نفرت اور پھوٹ کو ہوا دینے والے ہر دانشور، مُلا اور ہر سرکاری ادارے کی مذموم کاوشوں کو یک قلم مسترد کر دیں۔

(Published in The Laaltain – Issue 7)

Leave a Reply