Laaltain

جینفر لارنس! کیا تم سن رہی ہو؟؟

3 نومبر، 2015
آٓپ نے ونٹرز بون نامی فلم دیکھی ہے؟ بہت خوبصورت فلم ہے، ایک قصباتی علاقے میں رہنے والی ایک چودہ پندرہ سالہ لڑکی کی یہ کہانی ہے۔ اس لڑکی کا کردار جینیفرلارنس نے ادا کیا ہے، جینیفر کو اسی فلم میں دیکھ کر مجھے اس کے آنکھوں سے سہم کر جھانکتی ہوئی اداسی بہت اچھی لگی تھی۔ جینفر لارنز نے یوں تو بہت سے اہم کردار ادا کیے ہیں، وہ خاص طور پر مارولز کی ایکس مین سیریز میں مسٹیک اور ہنگر گیمز میں کیٹنس ایورڈین کے کردار نبھانے کی وجہ سے مشہور ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے سلور لائننگز پلے بک میں جو کہ ایک جذباتی مزاحیہ فلم ہے، ایک ایسی عورت کا کردار ادا کیا ہے، جس کا شوہر بھری جوانی میں جنگ میں مارا گیا ہے اور وہ ایک ایسے شخص کے پریم میں الجھ گئی ہے جو پہلے سے ہی اپنی بیوی کی بے وفائی کی وجہ سے پاگل خانے میں کچھ وقت گزار چکا ہے اور اب دوبارہ اپنی بیوی کا پیار حاصل کرنے کی جستجو میں سرگرداں ہے۔ اسی طرح پوکر ہاوس نامی فلم میں جینیفر نے ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا ہے، جس کی ماں ایک طوائف ہے اور وہ ریڈ ایریا میں بھی محبت کی متلاشی ہونے کے باعث ایک افریقی کسٹمر سے زبردست دھوکا کھاتی ہے اور اپنا کنوار پن گنوا بیٹھتی ہے۔اس کہانی میں بھی اس کا روتے روتے اپنی شلوار کو دھونے کا منظر روح کی سانسیں کھینچ لیتا ہے۔ ان تمام کرداروں میں بلا شک جینیفر نے ہر طرح سے خود کو زبردست اداکار ہ ثابت کیا ہے،مگر مجھے پھر بھی اس کی سب سے بہترین فلم ونٹرز بون ہی لگتی ہے۔ ونٹرز بون میں اس کی آنکھوں نے پوری فلم کے دوران اور اس کے بعد بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑا ہے۔ ایک لڑکی ، جس کے باپ پر کوئی الزام ہے اور وہ اچانک کہیں غائب ہوگیا ہے، بینک اب اس کے گھر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، ماں صدمے کا شکار ہے، دو چھوٹے بھائی بہن ہیں اور اس پر ایک بھوکی اور ادھ مری گھوڑی بھی اس کہانی میں جینیفر کے ہی رحم و کرم پر ہے، ایسے میں اسے اس سخت زندگی کا سامنا بھی کرنا ہے، دکھ بھی اٹھانے ہیں اور باپ کو بھی تلاش کرنا ہے۔ پوری کہانی میں نہیں سناوں گا، کہنا یہ چاہتا ہوں کہ لفظ، منظر کے سامنے کس طرح اپنی شکست کا اعلان کرتے ہیں، خاموشی کا ایک بھرپور لمحہ، پوری قوت گویائی پر کیسے قابض ہوجاتا ہے ، اس کا تجربہ پہلی بار مجھے ونٹرز بون دیکھ کر ہی ہوا تھا۔
حالانکہ یہ سب کہانی کے مختلف رنگ ہیں، مگر میں انہیں جیتا ہوں، مجھے عورت کی تاریخ ، اور اس میں ابلتی ہوئی ، سیسہ بنتی ہوئی قوت برداشت کا اندازہ ہوتا ہے، رات میرے سینے میں تیر جاتی ہے اور میں جینیفر کے لبوں پر اگی ہوئی مصنوعی تاریکی میں ڈوب جاتا ہوں۔
مجھے جینفر لارنس پسند ہے، اس کا بے باک انداز، اس کی بھوری آنکھیں اور گدا ہوا گورا رنگ، جس پر کئی چکتے ہیں، اس کی فربہ گردن، پتلی ناک اور سفید موتی جیسے دانتوں کی قطار نے بھی مجھے اس کا گرویدہ کرلیا ہے۔یہ ایک مکمل تصویر ہے، جسے دیکھ کر میں شعر کہتا ہوں، لفظ بوتا ہوں، اس کی تصویر کو کئی بار میں نے گھنٹوں تک صرف دیکھا ہے، وہ صرف میرے ڈیسک ٹاپ یا موبائل اسکرین پر نہیں، میرے حواس پر چھائی ہوئی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ زندگی میں ایک دفعہ اس سے ملوں اور اس سے کہوں کہ ، وہ زندہ اورمتحرک فن کار ہے، اس کے جیے ہوئے کرداروں نے مجھے فن کے بطن میں جھانکنے اور آزادی کی آنتیں ٹٹولنے میں مدد دی ہے، جب وہ امیریکن ہسل میں اپنے ہی شوہر کو صرف اس سے طلاق نہ لینے کی خواہش میں جنسی طور پر اکساتی ہے تو میں شعر کہتا ہوں

بدل کے جسم کو ایک اور رنگ دیکھ مرا
میں بے وفا ہوں مگر تجھ سے عشق کرتا ہوں

 

جب وہ اپنے شوہر سے طلا ق نہ لینے کی خواہش کے باوجود ایک نفسیاتی الجھن کا شکار ہوتی ہے اور اسی کشمکش میں ایک مرد اس کے ہونٹ چوم لیتا ہے تو میں زندگی کی تصویر کو اور نزدیک سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور کہتا ہوں

 

کیا تشنگی زدہ تھا بدن پر مرا لباس
تونے اسے اتار کے سیراب کردیا
جینیفر لارنس کے نبھائے ہوئے کردار اب محض کردار نہیں رہ گئے، سچ ہوگئے ہیں، وہ دفتروں، گھروں، گاڑیوں اور سڑکوں پر ہمارے آس پاس سانسیں سیدھی کرتے ہوئے چلتے رہتے ہیں، ہم ان کرداروں سے کئی بار جینے کا حوصلہ حاصل کرتے ہیں، شاید کبھی انہی میں سے کسی ایک کردار سے متاثر ہوکر خود کشی بھی کرسکیں گے

 

 

اس کی جستجو، گلہریوں کی تاک میں ایک لمبی اداسی کا نشانہ سادھے بیٹھے رہنا اور صبر اور جھنجھلاہٹ کی ملی جلی کیفیت سے خود کو چھیدتے رہنا، اپنی ماں کی ڈوبتی ہوئی نبض سے چیخ چیخ کر اپنے اکیلے پن کا شکوہ کرنا اور کھلے بالوں عورتوں سے لڑنا، مردوں کے گھونسے سہنا، باپ کی سڑی ہوئی لاش سے ہاتھ کاٹ کر اس کی موت کا ثبوت تلاش کرنا، حالانکہ یہ سب کہانی کے مختلف رنگ ہیں، مگر میں انہیں جیتا ہوں، مجھے عورت کی تاریخ ، اور اس میں ابلتی ہوئی ، سیسہ بنتی ہوئی قوت برداشت کا اندازہ ہوتا ہے، رات میرے سینے میں تیر جاتی ہے اور میں جینیفر کے لبوں پر اگی ہوئی مصنوعی تاریکی میں ڈوب جاتا ہوں۔ جینیفر کو شاید علم نہیں، مگر میں اس کے سینے کے اتار چڑھاواور رانوں کی اچھلتی ہوئی مچھلیوں تک سے فن کے نئے رنگ سجالیتا ہوں، وہ میرے لیے عورت کا سب سے مضبوط مظہر ہے، سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے زیادہ نازک۔ اس کے سنہرے بالوں کی دھوپ میں لپٹی ہوئی اس کی گدی، جب ماحول کی سفاکی کی وجہ سے پسینے کی بوندیں پیدا کرتی ہے تو میرے یہاں ایک شورش پیدا ہوتی ہے، یہ چند اشعار انہی منظروں کی بدولت وجود میں آئے ہیں، جو آپ کو سناتا چلوں۔

 

وہ گل رہی ہے کہیں برف میں دھنسی ہوئی آنکھ
وہ رات گرم ہوئی جارہی ہے، جل رہی ہے
۔۔۔۔
لہر ہوتی ہوئی ، آواز بدلتی ہوئی چیز
تیرے سینے میں ہے یا میرے تصور میں کہیں
۔۔۔۔
پھٹی ہوئی اک جینز پہن کر لڑتا ہوں انگاروں سے
مجھ کو خوف نہیں آتا ہےان چھوٹی یلغاروں سے
جبر ہے ایسا ، سخت اندھیرے میں بس چلتے جانا ہے
اور تقدیر میں سر کا لڑنا نہیں لکھا دیواروں سے
جھنجھلاہٹ میں تیرا ہاتھ بھی چھوٹ نہ جائے آخر کار
اسی لیے میں کام چلا لیتا ہوں ان سیاروں سے
۔۔۔۔۔
بدن چھدا ہوا،آواز بھی پھٹی ہوئی ہے
اسی کی چیخ سے لیکن یہ روشنی ہوئی ہے

 

 

پتہ نہیں لوگوں کے پاس نفرت کے لیے اتنا وقت کیسے نکل آتا ہے، مجھے تو ہر چیز سے پیار کرنے کے لیے، دنیا کو، قدرت کو ، ان تمام چیزوں کے حسن کو سمجھنے کے لیے ایک جینیفر لارنس کافی ہے، میں نے اس کے تقریبا تمام انٹرویوز سنے ہیں، وہ ہر وقت ہنستی کھلکھلاتی ہے، بہت اعتماد سے او ر مسکراتے ہوئے، مذاق کرتے ہوئے جواب دیتی ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں، جن آنکھوں میں درد کا شائبہ تک نہیں، ان میں اتنا گھناسناٹا کیسے اتر آیا ہوگا۔ کیسے اتنے مختلف کرداروں کی زندگی جینے والی جینیفر لارنس اصل میں اتنی مختلف لڑکی ہے، مگر شاید اس کا یہی تضاد ، اس کی فنکارانہ زندگی کا سب سے گہرا راز ہے، جیسے ہم ہیں، ہم بس ویسے ہی تو نظر نہیں آسکتے۔کبھی زندگی میں اگر جینیفر سے ملاقات ہوئی تو میں اس سے جاننا چاہوں گا کہ وہ بشاش اور تپاک رویے کو کس طرح گہرے درد کے سانچے میں ڈھال لیتی ہے۔ کیا اس کے اندر کچھ اور شخص بستے ہیں، کیا کچھ ایسی باتیں ہیں، جو اس کی شخصیت کو بدلنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں، اسے بتائوں گا کہ ان تبدیلیوں نے شاید مجھ جیسے کئی لوگوں کی زندگیاں بدل دی ہیں۔ ان کے لیے جینیفر لارنس کے نبھائے ہوئے کردار اب محض کردار نہیں رہ گئے، سچ ہوگئے ہیں، وہ دفتروں، گھروں، گاڑیوں اور سڑکوں پر ہمارے آس پاس سانسیں سیدھی کرتے ہوئے چلتے رہتے ہیں، ہم ان کرداروں سے کئی بار جینے کا حوصلہ حاصل کرتے ہیں، شاید کبھی انہی میں سے کسی ایک کردار سے متاثر ہوکر خود کشی بھی کرسکیں گے۔ ہم سلور لائنگز میں نبھائے گئے اس کے کردار سے متاثر ہوئے تو سمجھ میں آیا کہ چاہے ہم پر کیسا ہی دکھ کا پہاڑ ٹوٹا ہو، بھیک میں ملی ہوئی محبت قبول نہیں کرنی چاہیے اور ونٹرز بون میں اس کے کہے ہوئے ایک فقرے کو ذہن میں بسائے پھررہے ہیں۔
کہ وہ چیز جو تمہیں ملنی چاہیے، اسے کبھی مانگو مت!
۰۰۰

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *