وہ اُن کو آتے ہوئے دیکھ رہا تھا سب ایک ایک کر کے آ رہے تھے اور اُس کے گرد دائراہ بنا کر بیٹھنا شروع ہو گئے۔ ان کی تعداد شمار میں نہ آتی تھی۔ سب کے چہروں پر تھکن واضح تھی۔ وہ اتنے عجیب تھے کہ برہنگی سے بچنے کے لئے انہوں نے اپنی ہی چمڑیاں اورڑھ رکھی تھیں جو جگہ جگہ سے اُدھڑ چکی تھیں۔

وہ اتنے عجیب تھے کہ برہنگی سے بچنے کے لئے انہوں نے اپنی ہی چمڑیاں اورڑھ رکھی تھیں جو جگہ جگہ سے اُدھڑ چکی تھیں۔
ان میں کچھ بادشاہ بھی تھے جو اپنی سلطنت کی وسعت ماپنے نکلے تو انہیں اندازہ ہوا کہ ان کی سلطنت کتنی چھوٹی ہے۔ پھر وہ اس طرف چل پڑے۔ انہیں یہاں آنے کی اتنی جلدی تھی کہ یہ اپنا ولی عہد بھی مقرر نہ کر سکے۔

کچھ ایسے سپہ سالار بھی آئے تھے جو عین لڑائی میں اپنی فوج کو تنہا چھوڑ کر اس راستے کےمسافر ہوئے۔ اور فوج ان کی عدم موجودگی سے بے خبر صدیوں سے جنگ کرتی آ رہی ہے اورنہیں جانتی کہ یہ لڑائی کبھی ختم نہ ہو گی۔

وہ شوہر بھی ان پہنچنے والوں میں شامل تھے جو شبِ زفاف حُجلہءِ عروسی میں اپنی دلہنوں کی جگہ کسی اجنبی کو دیکھ کر ایسے بدکے کہ اس راہ کہ ہو لئے۔

کچھ ایسی عورتیں بھی اُس تک پہنچی تھیں جن کے پستانوں کو حیوانوں نے چھو لیا تھا اور اُن کی چھاتیوں سے زہر رسنا شروع ہو گیا تھا۔ وہ اپنے بچوں کے لئے دودھ کی تلاش میں گھر سے نکلیں تھی کہ کسی انجان آواز کہ تعاقب میں مبتلا ہو کر اپنے بچوں کو بلکتا چھوڑ کر نامعلوم کی پگڈنڈی پر چلنے لگیں۔

کچھ نیم خوابیدہ وہ لوگ تھے جو آدھی رات کو پیاس کی شدت سے اُٹھ بیٹھے تھے پھر انہیں یکایک خیال آیا کہ اُن کا خواب تو ادھوراہ رہ گیا ہے۔ وہ کسی مبہم خواب کی ڈور تھامنے اسی سمت چلتے آئے۔

کچھ آئینہ ساز بھی تھے جو غلطی سے ایسے آئینے بنانے لگ گئے تھے جس میں ہو بہو شکل نظر آتی تھی۔ یہ سب پتھروں سے بچتے بچاتے اس راہ پہ آ گئے تھے۔

آہ کہ وہ سفر کتنا طولانی تھا جس نے تمہارے بچوں کو بوڑھا کر دیا، جس نے تمہاری یاداشتوں کو محو کر دیا، جس نے تمہاری کمروں کو خمیدہ کر دیا اور تمہارے گالوں کے گوشت کو تمہارے سینوں تک کھسکا دیا۔
کچھ لوگ پھانسی گھاٹ سے سیدھے یہاں کے راہی ہوئے۔ کچھ ویٹنگ لاونج میں ٹہلتے ٹہلتے اس راہ کے مسافر ٹھہرےاور بار بار اپنا نام پکارے جانے پر بھی واپس نہ پلٹے۔

یہاں آنے والوں میں کچھ بچے بھی تھے جو تتلیوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے شام ہونے پر کسی جگنو کی رہنمائی کی خواہش دل میں دبائے چلتے آئے تھے۔ اس میں وہ بچہ بھی تھا جو میلے میں اپنی ماں کے ساتھ آیا تھا جب اُس کی ماں مداری کے کسی نہ ختم ہونے والے کرتب کا حصہ بن گئی تو وہ اکتا کر چاٹ کی پلیٹ ہاتھ میں تھامے ادھر آ نکلا۔ اس میں گلابی ربن والی وہ بچی بھی تھی جو اپنی گڑیا ڈھونڈنے نکلی تھی جس کی شادی کا جوڑا بھی اُس نے تیار کر رکھا تھا۔ جب اُس کو گڑیا نہ ملی اور شادی کے جوڑے کا رنگ انتظار کی دھوپ سے سفید ہو گیا تو وہ روتی ہوئی چل پڑی۔

کچھ نوعمر لڑکیاں بھی تھیں جہنوں نے اپنے ہی بھائیوں کی آنکھوں میں ایسی وحشت دیکھی تھی کہ بھاگتی ہوئی یہاں تک آئیں تھیں۔ اُن کا سانس ابھی بھی پھولا ہوا تھا۔

ایک مقرر بھی آنے والوں میں تھا جو تقریر کرتے ہوئے کسی خیال کی گرہ میں ایسا الجھا کہ تقریر ادھوری چھوڑ کر یہاں آنے کا قصد کر بیٹھا۔ حالانکہ مجمع ابھی منتشر نہ ہوا تھا۔

ایک نوجوان لڑکا بھی تھا جو اپنی محبوبہ کی بے وفائی کا شکار ہو کر ٹرین کہ آگے خودکشی کرنے لیٹا تھا۔ پھر اپنا خیال ملتوی کر کے پٹریاں بدلتے ہوئے یہاں تک پہنچا تھا۔

ایک ایسی عورت بھی یہاں کی مسافر تھی جس کی بیوگی کے ٹھیک اٹھارہ سال بعد اُس کا بیٹا ملک کی خاطر شہید ہوا تھا اور وہ اُسی ملک کو تلاش کرتے ہوئے ان راہوں پر چل نکلی تھی۔ وہ بوڑھا بھی تو آیا تھا جس کے پاس اپنے جوان بیٹے کا کریاکرم کرنے کے لئے لکڑیاں خریدینے کے پیسے نہیں تھے اور لکڑیاں ڈھونڈتے اس طرف چل پڑا باوجود یہ کہ اُس کے اپنے ہاٹھ میں ایک لاٹھی تھی۔

کچھ لوگوں کے آنے کی وجہ تاحال نا معلوم تھی۔

اورتم اُس شاہراہ پر جا نکلے جہاں قدم قدم پر سُرخ سگنل تھے اور یہاں کا سفر تمہیں کہنیوں کہ بل رینگ رینگ کر کرنا پڑا دیکھو کہ تمہاری کہنیوں سے ابھی بھی خون ٹپک رہا ہے۔
رات کا آخری ستارہ غروب ہونے سے ذرا پہلے آخری شخص بھی آن پہنچا یہ اتنا دُبلا تھا کہ ہوا کہ دوش پر اُڑتا ہوا پہنچا۔
جب اُس نے دیکھا کہ دائرہ مکمل ہو گیا ہے اور سب سے پہلے آنے والے کا کندھا آخر میں آنے والے کے کندھے سے جڑ گیا ہے تو اُس نے ایک نظر سب پر ڈالی اور بولنے لگا۔

"میں تم سب کہ چہروں پر وہ تھکن پڑھ سکتا ہوں جو اس مسافت کی طوالت، سمتوں کی بے رُخی اور سنگِ میل کی عدم دستیابی کے باعث ہوئی۔ آہ کہ وہ سفر کتنا طولانی تھا جس نے تمہارے بچوں کو بوڑھا کر دیا، جس نے تمہاری یاداشتوں کو محو کر دیا، جس نے تمہاری کمروں کو خمیدہ کر دیا اور تمہارے گالوں کے گوشت کو تمہارے سینوں تک کھسکا دیا۔ بھلا تم میں سے کون ایسا ہے جس کے پیروں کے آبلوں نے خون کی لکیر نہ کھنچی ہوں۔ میں نے اس سفر کے دوران تمہاری دعاوں کو خودکشیاں کرتے دیکھا ہے۔ تم جو امید بھری نظروں سے میری سمت دیکھتے ہو۔ میں تمہیں تمہارے پہلے اور بعد کا حال سناوں، تو سنو۔ تم میں جو اپنی بیویوں کو بستر پر چھوڑ ائے تھے، یقین جانو کہ سپیدہ سحر سے پہلے تمہارے بھائیوں کی ہوس نے تمہاری بیویوں کو سیراب کر دیا تھا۔ جو مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو ویران گھروں میں چھوڑ ائیں تھیں ان بچوں کے اندر آسیب نے بسیرا کر لیا ہے اور وہ روشنی سے یوں ڈرتے ہیں جیسے تم کبھی اندھیرے سے ڈرتی تھیں۔ سپہ سالار کی فوج کا آخری جوان ابھی مقتل میں پڑا تڑپتا ہے۔ خون نے اس کی داڑھی اور لباس کو رنگ دیا ہے اور وہ جنگ کے ختم ہونے کہ واہمے کا شکار ہو گیا ہے۔ بادشاہوں کی سلطنتوں پر چوہوں نے قبضہ کر لیا ہے اور وہ اُسے مسلسل کُتر رہے ہیں۔ کس کس کا حال سناوں کہ میں تمہارے ہونٹوں کی بڑبڑاہٹ اور سینوں کا گریہ سُن رہا ہوں۔

بالآخر تم ان میں سے نکلے تو سب سے پہلے وحشیتوں کے جنگل نے تمہارے قدم جکڑ لئے اور تم پر ایسی دیوانگی طاری ہوئی کہ تم ناخنوں سے اپنا چہرہ نوچتے تھے۔ مجھے خوف ہوا کہ تم سب ان جنگلوں میں خود کشی کر لو گے کہ جس سے نکلنے کا کوئی راستہ تمہیں نہیں بتایا گیا۔ لیکن تم نے اپنی دیوانگی سے اُن جنگلوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔

اورتم اُس شاہراہ پر جا نکلے جہاں قدم قدم پر سُرخ سگنل تھے اور یہاں کا سفر تمہیں کہنیوں کہ بل رینگ رینگ کر کرنا پڑا دیکھو کہ تمہاری کہنیوں سے ابھی بھی خون ٹپک رہا ہے۔

پھر تم اُن سنگلاخ پہاڑوں پر پہنچے جن کی چوٹیاں ابد کو چھوتی تھیں۔ تم لاکھوں سال اُس میں سرپٹکتے رہے۔ تم نے ان پتھروں پر اپنے خون سے نشان ثبت کر دئیے اور جہدسے وہ چراغاں کیا کہ آسمان کو ان پہاڑوں پر اترنا پڑا۔ ممکن تھا کہ تم خدا کی کُرسی کو چھو لیتے۔ لیکں تم ان پہاڑوں کی دوسری سمت اُتر گئے۔

وہاں ریشم کے رنگ برنگے ملائم دھاگوں سے بنا ایک پُل تھا جس میں ہر تار دوسرے سے یوں الجھا تھا کہ تم صدیوں تک ان کی گرہوں میں ایک دوسرے کو تھامے لُڑھکتے رہے۔ یہاں اجتماع نے تمہارے حوصلوں کو مُردہ نہ ہونے دیا۔

ذرا سوچو وہ کیا شے تھی جو تمہیں یہاں لے کر آئی ورنہ تم یہاں تک پہنچنے کی اہلیت ہرگز نہ رکھتے تھے۔ یہ وہ راز ہے جو تم نے اپنے جسموں سے پرے بویا تھا۔
پھر تم اس گھاٹی میں اُترے۔ آہ کہ وہ کیا گھاٹی تھی کہ جس کے تمام سرے نامعلوم تھے۔ یہاں آ کر تم جن شریں چشموں سے سیراب ہوئے وہ شب زندہ دار کے آنسووں اور شہیدوں کے خون سے رنگین تھے۔ یہ گھاٹی تمہارے دلوں کو مطمئن اور تمہارے سفر کو کھوٹا کرتی تھی مگر تم نے شک کا چراغ جلائے رکھا اور بے چینی کا ایندھن ڈالتے رہے۔ بالآخر تمہیں یہاں سے نکلنا پڑا۔

اور پھر وہ وادی آئی جس نے تمہاری یادداشتوں کو ایسا محو کر دیا جیسا تم لوگوں کہ ذہنوں سے ہوئے تھے۔ قریب تھا کہ تم اُسے آخری منزل سمجھتے اور خیمے گاڑ دیتے۔ تمہاری حُریت کی قسم اگر تم ایسا کرتے تو کبھی اس گھاٹ تک نہ پہنچ پاتے۔

ذرا سوچو وہ کیا شے تھی جو تمہیں یہاں لے کر آئی ورنہ تم یہاں تک پہنچنے کی اہلیت ہرگز نہ رکھتے تھے۔ یہ وہ راز ہے جو تم نے اپنے جسموں سے پرے بویا تھا۔ ابد ایک جہنم ہے جسے تم اپنی آرزووں سے سینچتے آئے ہو۔ آو کہ میں تمہیں اس سے ایسا سیراب کر دوں جیسا میں نے اپنی روح کو کیا ہے۔ آو کہ ابد میں تا ابد جلتے ہیں۔”

اُس نے پیالہ بھرا اور سب کے سامنے رکھ دیا۔ سب ایک دوسرے کےچہروں کو دیکھ رہے تھے۔ ابد کا چشمہ نیلا پڑ چکا تھا۔ سب نے اپنا پنا ہاتھ آگے بڑھایا پھر ٹھٹھک گئے۔ پھر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ سورج اُن کے اندرطلوع ہو رہا تھا۔

Image: Slobodan Radosavljevic

Leave a Reply