جہلم پر اترتی شام
لال گلابی ہو کر سورج
جانے کس کو ڈھونڈھ رہا ہے
دور اندھیرے سے کمرے کی
اندھی ٹوٹی کھڑکی کھولے
چاروں جانب دیکھ رہا ہے
بوڑھی آنکھوں کے پردے سے
جاتے دن کو کوس رہا ہے
اور اندھیری رات کے ڈر سے
اندر اندر مرتا سورج
بہتے جہلم کی وادی میں چپکے چپکے ڈوب رہا ہے
اپنا ہونا سونپ رہا ہے
جانے کس کو ڈھونڈھ رہا ہے
دور اندھیرے سے کمرے کی
اندھی ٹوٹی کھڑکی کھولے
چاروں جانب دیکھ رہا ہے
بوڑھی آنکھوں کے پردے سے
جاتے دن کو کوس رہا ہے
اور اندھیری رات کے ڈر سے
اندر اندر مرتا سورج
بہتے جہلم کی وادی میں چپکے چپکے ڈوب رہا ہے
اپنا ہونا سونپ رہا ہے
میں جہلم ہوں، میں ہوں سورج
میرے اندر شور بپا ہے
میرے اندر درد چھپا ہے
خوف بسا ہے
جس کو اپنے من میں رکھے
آگے بڑھتا جاتا ہوں میں
ہر گزران کے دکھ کے بدلے
تھوڑا مرتا جاتا ہوں میں
جہلم بھرتا جاتا ہوں میں
میرے اندر شور بپا ہے
میرے اندر درد چھپا ہے
خوف بسا ہے
جس کو اپنے من میں رکھے
آگے بڑھتا جاتا ہوں میں
ہر گزران کے دکھ کے بدلے
تھوڑا مرتا جاتا ہوں میں
جہلم بھرتا جاتا ہوں میں
One Response
عمران اذفر نئی نسل کا با کمال شاعر ہے