Laaltain

جہاں دلالی محبوب مشغلہ ہو

2 دسمبر، 2015
میں ہر بار اپنے دل کو سمجھاتا ہوں کہ جس ملک میں دلالی پسندیدہ مشغلہ ہو وہاں کڑھتے رہنے سے کچھ حاصل نہیں۔ لیکن یہ خبیث دل کسی طور اپنی جذباتیت سے باز نہیں آتا۔ میں بھی کیا کروں۔ سالا میرے کہنے میں نہیں ہے۔ کبھی آپ سگریٹ پان کی دکان پر بیٹھیں یا کسی چوک میں شام کی بیٹھکوں میں شامل ہوں جہاں کچھ اوباش طبع لونڈے بیٹھتے ہیں توآپ کو ہر جگہ کوئی نہ کوئی ایسا کردار مل جائے گا جس کے پلّے کچھ نہیں ہو گا لیکن اپنی باتوں میں وہ کسی ڈی سی او، اے سی یا کمشنر سے کم نہیں ہوگا۔ کوئی نہ کوئی کن ٹُٹا آگے پیچھے اس کی دم اٹھائے رکھنے کے لیے موجود ہو گا اوراگر کہیں طاقت دکھانے کا موقع ملے تو مظلوم کے مقابلے میں اس دُم دار اے سی، ڈی سی او یا کمشنر نما بدمعاش کی دلالی کرنے لگے گا اوراس کی ہم نوائی کرنے کے لیے راہ چلتے کئی تماش بین فوراً رک کر دلالی والی ٹوپیاں پہن کر اپنے پرنے نکال کندھے پر رکھیں گے اور دلالی کرنے لگیں گے۔

 

کبھی آپ سگریٹ پان کی دکان پر بیٹھیں یا کسی چوک میں شام کی بیٹھکوں میں شامل ہوں جہاں کچھ اوباش طبع لونڈے بیٹھتے ہیں توآپ کو ہر جگہ کوئی نہ کوئی ایسا کردار مل جائے گا جس کے پلّے کچھ نہیں ہو گا لیکن اپنی باتوں میں وہ کسی ڈی سی او، اے سی یا کمشنر سے کم نہیں ہوگا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر میَں دلال کے کردارپر اس قدر زور کیوں دے رہا ہوں، اس کی وضاحت یہ واقعہ پڑھنے کے بعد ہو گی۔ فرض کر لیں کہ آپ کا شہر ایک بہت بڑا بازار ہے جس پر ایک جگّے کا حکم چلتا ہے۔ آپ اتفاقاً اس بازار سے گزر رہے ہیں اور جگّا بھی وہاں موجود ہے۔ اس کی مکھیاں بندوقیں اٹھائے اس کا تحفظ کرنے میں مصروف ہیں اور کسی پر بھی اپنا رعب جما سکتی ہیں۔ بازار میں سب سے طاقت ور مخلوق تو مسلح مکھیاں ہی ہوتی ہیں۔ وہ جہاں دل چاہے بیٹھ جاتی ہیں۔ کبھی گوبر پر جا بیٹھتی ہیں اور کبھی کچرے پر۔ پھر اگر آپ پاس سے گزر رہے ہوں تو اُڑ کر آپ پر بیٹھ سکتی ہیں اور آپ اُن کی نجاست سے بچتے ہوئے بھی بچ نہیں سکتے۔ آپ ہاتھ سے اڑائیں گے تو ناک پر آبیٹھیں گی۔ سر جھٹکیں گے تو ایڑی سے چمٹ جائیں گی اور اگر آپ انہیں نظر انداز کر نے کی کوشش کریں گے تو آپ کی جلد پر چلتی آپ کو اپنے ہونے کا مسلسل احساس دلاتی رہیں گی اور مجبوراً آپ کو ہی اپنی جگہ چھوڑنا پڑے گی کہ بازار میں راج تو انہیں کا ہے۔ اِسی طرح کے ایک واقعے کا شکار یہ ناچیز ہوا ہے ۔ بندہ لاکھ بچنا چاہے لیکن کیا کرے کہ آخر گزرنا تو اسی بازار سے ہے۔

 

مال روڑ پر کل دوپہر اِس قدر رش تھا کہ انچ انچ کرکے ٹریفک چل رہی تھی۔ عجائب گھر کے سامنے میں اپنی کار میں بیٹھا باقی کاروں کے ہمراہ رینگ رہا تھا کہ میرے بائیں طرف لاہور کے ڈی سی او کیپٹن عثمان کی کار آئی جس کے آگے اور پیچھے پروٹوکول کی گاڑیوں میں باوردی مسلح جوان رش کو چیرکر نکلنے کی کوشش میں سب کچھ ہٹاتے جا رہے تھے۔ اب کیپٹن عثمان کی کار آگے نکلی تو مسلح مکھیاں بھنبھناتی ہوئیں اُس کی دم پر بیٹھے رہنے کے لیے لپکیں۔ ایسے میں آخر کون دیکھے کہ ان کی زد میں کون آرہا ہے۔ جوں ہی ان کی گاڑی بائیں طرف سے گزری تو میری کار کو رگڑتی ہوئی آگے نکل گئی۔ کار کی اگلی بائیں طرف بالکل ٹیڑھی ہوکر پچک گئی اور سامنے کی بتی یوں تھی جیسے قربانی کے بعد جانور کی گردن لٹک رہی ہو اور اس کی پسلیاں قابو کرنے کے دوران قصائی کے ہاتھوں ٹوٹ چکی ہوں۔ میں نے گاڑی دوڑائی اور اگلے اشارے پر ر کتے ہوئے اُن کی کار کے سامنے گیا اور ڈی سی او کیپٹن عثمان کی گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹایا کہ آپ جس شہر کے محا فظ ہیں، آپ کا پروٹوکول اسے روندتا ہوا جا رہا ہے۔ آپ اس کا نوٹس لیجئے۔ چونکہ میں نے ہمیشہ حتی الامکان کوشش کی ہے کہ اس طرح کی صورتوں سے بچا جائے اس لیے میں کوئی تجربہ نہیں رکھتا کہ کیسے بات کرنی چاہیئے۔ میں ابھی اُس کے جواب کا منتظر ہی تھا کہ پولس مجھے وہاں سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی۔ جس طرح کوڑے کی ٹوکری میں آم کے چھلکوں پر بھنبھناتی مکھیوں میں بُھونڈ نما ایک بڑا مکھّا ہوتا ہے جو سب مکھیوں پر حاوی نظر آتا ہے۔ اس کی آواز نہایت ہولناک اور کریہہ ہوتی ہے۔ اُسی طرح کے لہجے میں ڈی سی او کی یک جملہ آواز گاڑی کے اندر سے آئی۔

 

جس طرح کوڑے کی ٹوکری میں آم کے چھلکوں پر بھنبھناتی مکھیوں میں بُھونڈ نما ایک بڑا مکھّا ہوتا ہے جو سب مکھیوں پر حاوی نظر آتا ہے۔ اس کی آواز نہایت ہولناک اور کریہہ ہوتی ہے۔ اُسی طرح کے لہجے میں ڈی سی او کی یک جملہ آواز گاڑی کے اند ر سے آئی۔
اس ساعت میں کئی طرح کے خیالات میرے ذہن سے گزر گئے اور میں کسی ایک کو بھی گرفت نہیں کر سکا۔ مجھے دہشت گرد ہونے کے شبے میں گولی مار کر اڑایا جاسکتا تھا، خود کش بمبار کہہ کر پکڑا جاسکتا تھا یا مجھ پر یہ الزام لگایا جاسکتا تھا کہ میں ایک اشہاری ہوں اور ڈی سی او پر حملہ کرنے والا تھا کچھ بھی ہو سکتا تھا لیکن میں جواب کا منتظر الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ کھڑا رہا۔ ڈی سی او کا لہجہ اس مکھّے کی طرح اس قدر تکبرانہ تھا کہ اس لمحے میں عام شہری کے طور پر سڑک پر پڑے آم کے چھلکے کی مانند دکھائی دیا۔ مسلح مکھیاں بھنبھنائیں اور مجھے ساتھ لے کر تھانے چلنے کو کہا۔ ڈی سی او عثمان تو اتفاق سریے سے بنی گردن لیے نکل گئے لیکن میں نے ان کی پروٹوکول کی مسلح گاڑی کا تعاقب کیا جو دو تین موڑ مڑنے کے بعد سیکریٹر یٹ کی طرف آئی اور ایک جگہ آکر ٹھہر گئی۔ تھانہ تو وہاں کوئی نہ تھا لیکن میں باوردی تین مکھیوں کے درمیان کھڑا اُن کی غلطی سمجھانے کی ناکام کو شش کر رہا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں چپ چاپ چلا جاؤں کہ یہاں کچھ نہیں ملنے والا۔ لیکن جب انہیں لگا کہ میں وہاں سے ہل نہیں رہا تو اب وہ سینہ زوری پر اُتر آئے اور الٹا مجھے ہی قصور وار ٹھہرا دیا کہ تم پرے کر لیتے۔ ہم نے تو ہاتھ سے اشارہ کیا تھا۔ اب اگر ہاتھ سے اشارہ کر دینے سے روزِ محشر جیسے رش میں جگہ خود بہ خود بن جائے تو کسے گلہ ہو۔

 

شاہی محلے سے لے کر افسر شاہی تک سب دلالی کا کھیل ہے اور ان کے درمیان سارا بازار پڑتا ہے جہاں نچلا طبقہ اوپر والے کی دلالی کرتا ہے، اوپر والا اُس سے اوپر والے کی اور طاقت میں اس لمحہ بھر کی مصنوعی حصہ داری کے لیے ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے پر بھی رضامند ہو جاتا ہے۔
کبھی آپ کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہو جس میں سڑک پر کھڑے دو لوگوں میں کوئی تکرار چل رہی ہو توراہ گیر کھڑے ہوکر تماشا دیکھنے لگتے ہیں اور پھر دو چار لوگ اس میں کود پڑتے ہیں۔ ان بن بلائے اور بن بنائے منصفوں کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ نہ انہیں وقوعے کا علم ہوتا ہے نہ کسی معاملے کا، نہ حادثے کے سیاق و سباق کی کچھ خبر، بس عادت سے مجبور انہیں کسی کی طرف داری کرنی ہوتی ہے اور یہاں سارا کھیل بدل جاتا ہے۔ یہ بن بنائے منصف دلالی والی ٹوپی پہن لیتے ہیں اور اپنا سرخ پرنا نکال کر کندھے پررکھتے ہی طاقت ور کی وکالت شروع کر دیتے ہیں۔ یہ راہ گیری دلال اس قدر پرُ جوشی سے معاملہ رفع کرنے میں جُت جاتے ہیں کہ قصور وار کو بھی خود بولنے کا موقع نہیں دیتے۔ اب آپ اپنے نقصان کی تلافی کو بھول جایئے کہ اِن معزز آدمیوں کے روپ میں آپ دلالوں سے نبرد آزما ہیں۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ دو برزگ آئے اور کچھ جانے سمجھے بغیر پولیس والوں کی حمایت میں دلالی کرنے لگے کہ کوئی بات نہیں، نقصان ہوتے رہتے ہیں اب نکل جاؤ ادھر سے۔ اور مجھے یہ معاملہ اس قدر غلیظ لگنے لگا گویا میں ہیرا منڈی میں کھڑا کسی اوباش سے منہ ماری کر رہا ہوں۔ اب کیا چارہ تھا۔ جہاں قانون آپ پر تھوک دے، قانون نافذ کرنے والے ادارے قصور وار کا ساتھ دیں۔ عوام ایک دوسرے کی حمایت کی بجائے ایک دوسرے کو روندنے لگیں اور طاقت ور مجرم کی طرف داری کر کے اس طاقت کا غیر مرئی لطف اٹھائیں، وہاں عوامی تبدیلی، سوچ کی تبدیلی اور ظالم و مظلوم کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ایسے معاشرے محض دلالی ہی کیا کرتے ہیں۔ شاہی محلے سے لے کر افسر شاہی تک سب دلالی کا کھیل ہے اور ان کے درمیان سارا بازار پڑتا ہے جہاں نچلا طبقہ اوپر والے کی دلالی کرتا ہے، اوپر والا اُس سے اوپر والے کی اور طاقت میں اس لمحہ بھر کی مصنوعی حصہ داری کے لیے ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے پر بھی رضامند ہو جاتا ہے۔

 

ڈی سی او لاہور کیپٹن عثمان تو بڑے مکھے کی طرح نکل گئے۔ اس کی مسلح مکھیاں کچھ دیر بھنبھنائیں۔ راہ گیر وں نے باوردی مکھیوں کی دلالی کی اور میں عام آدمی آم کے چھلکے کی طرح سڑک کنارے پڑا سوچتا رہ گیا کہ اس دلال معاشرے میں آخر ہم کس کے خلاف کن عوام کے لیے کن حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *