Laaltain

جہاد النکاح

7 جون، 2017
Picture of نسیم سید

نسیم سید

“اپنے دین کو بچا نے کے لئے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کی قسم کھاتے ہیں”

 

المدینہ نے باقی دس لڑکیوں کے ساتھ آواز میں آواز ملائی لیکن اس کی آواز کا جوش الگ ہی سنائی دے رہا تھا ۔
عائشہ نے المدینہ کا کندھا پیار سے تھپتھپایا۔

 

“تم پر خدا کی رحمت ، ہو مجھے یقین ہے کہ تم اللہ کی پسندیدہ ہو”
عائشہ جو ان لڑکیوں سے عمر میں کافی بڑی تھی اب اس نے کچھ اور بلند آوا ز میں لڑکیوں کو مخاطب کیا

 

میں نے آپ کو یہ قسم دہرانے کو اس لئے کہا کہ آپ کی آواز کی سچائی اور جوش نہ صرف اللہ پاک کے حضور سربسجود ہے بلکہ امیر ابو ربا ب بھی سن رہے ہیں اور گواہ ہیں آ پ کی ہمتوں کے، آپ نے چھ ماہ میں اپنا ہر مشن نہایت شاندار کامیابی سے پورا کیا اور اب اللہ کی منتخب عورتوں میں سے ہیں۔ ہمارے امیر حضرت ابورباب نے بہت خا ص لڑکیوں کا انتخاب کیا ہے اس محترم کام کے لئےجو آپ کو جنت میں اعلی درجہ پر فائز کر ے گا اور وہ دس خوش نصیب آپ ہیں۔

 

امیر ابورباب کا نام سنتے ہی لڑکیوں نے ادب سے اپنے ہاتھ سینے پر باندھ کے سر جھکا لئے تھے ۔
“آپ سب کو معلوم ہے کہ ہمارے مرد اپنے دین کی حفاظت کے لئے اپنے جسموں سے بارود باندھ کےخود کو قربان کرنے میں بھی ذرا سی دیر نہیں کرتے ،،
وہ ایمان کے اعلی درجے پر فائز ہیں۔ کیا ہماری جان، ہمارے جسم ہمارے مال کی اللہ کی راہ میں جہاد کے آگے کوئی اہمیت ہے؟
“نہیں ہے، ہمارا سب کچھ قربان اس کے نام پر” لڑکیوں نے جوش سے کہا ۔
“جو بھی اللہ کی راہ میں جہاد کر رہا ہو ہم اس کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے”
“یہی ہے نا ہماری قسم؟”عائشہ نے اونچی آواز میں پوچھا۔
“یہی ہمارا ایمان ہے مادام”ا لمدینہ نے بلند آواز میں جواب دیا۔
“تو اب یہ قسم پوری کرنے کاوقت آ گیا ہے”
لڑکیوں نے جوش سے تالی بجائی ۔

 

“ہمارے مرد اپنے بیوی بچوں سے دور رہ کے خدا کی راہ میں جہا د کررہے ہیں۔اللہ ان کو اپنے خاص بندے مانتا ہے اور آپ کو منتخب کیا گیا ہے اس سعادت کے لئے کہ ان کے کام آئیں حضرت ابورباب نے اللہ کی ہدایت پر فتوی جاری کیا ہے ۔ آپ سب جانے کی تیاری کریں سعادت کا یہ سفر بہت مبارک ہو آپ کو۔”

 

ہم کہاں جارہے ہیں مادام ؟ فروا کی آواز سے خوشی کی جھلک رہی تھی ۔
عائشہ گہری نظروں سے کچھ سیکنڈ فروا کو دیکھتی رہی پھر غصہ کی ہلکی سی آمیزش سے فروا سے مخاطب ہوئی۔

 

“کیا آپ کو تاکید نہیں ہے کہ کبھی غیر ضروری سوال نہیں کریں؟

 

فروانے گھبرا کے ہاتھ سینے پہ باند ھ لئے اوراقرا رمیں سرہلایا ۔

 

ماہم کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن اس سے پہلے فروابول پڑی تھی اورعائشہ نے یہ دیکھ لیا تھا لہذا اب وہ ماہم سے مخا طب ہوئ ی۔
“ ماہم جوسوال ادھورا چھوڑدیا تھا پوچھیں “

 

ماہم گھبرا گئی اوراٹک اٹک کے بولی۔ “ جی۔۔۔ نہیں۔۔ مادام۔۔ کوئی سوال نہیں ہے“
“مجھ سے ادھوری بات کرنے کی اجازت نہیں ہے آپ لوگوں کو، کیا کہہ رہی تھیں آپ ؟ “ عائشہ نے غصہ سے ایک ایک لفظ پر زور دے کے کہا ۔

 

ماہم ؔنے نظریں جھکا کے اور ہاتھ سینے پر باندھ کے ڈری ڈری سی آواز میں سوال کیا
“ہمارے سپرد کیا کام ہے مادام؟”

 

عائشہ نے ایک گہرا سانس لیا ۔ اب وہ مسکرا رہی تھی ۔

 

“آپ سب کو جہاد کی سعادت کے برابر سعادت نصیب ہوئی ہے ۔ ہمارے جہادی اپنے جسم اللہ کی راہ میں قربان کرنے کی طلب میں بے چین ہیں لیکن کتنا عرصہ لگ جائے اس قربانی کی قبولیت میں اس کا انہیں اور ہمیں علم نہیں ۔ میرے لئے اور آپ سب کے لئے اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی کہ ہم دل و جان سے ان کی ہر خدمت کے لئے مستعد رہیں”

 

عائشہ نے جوش سے کہا ۔پھر کچھ سوچ کے وہ چند سیکنڈ ماہم کے چہرے پر نظریں گاڑے اسے کڑی نظروں سے دیکھتی رہی اور اس کے قریب آ کے اس کاجھکا ہوا سر ایک جھٹکے سے اوپر کیا ، اب اس کا لہجہ میں چنگاریاں سی بھڑک رہی تھیں ۔

 

“کیا تمہارے دل میں شیطانی وسوسے جگہ لے رہے ہیں ؟ ماہم نے جلدی سے انکار میں سر ہلایا اس کے لہجہ میں خوف کی کپکپاہٹ تھی ۔

 

“ مجھے معاف کردیں مادام ، میں نادم ہوں ، مجھ سے بڑا گناہ سرزد ہواہے “

 

“ درست کہا ، اللہ کے حکم پر کسی سوال کی گنجائش نہیں، آپ کو کہاں جانا ہے، کیا کرنا ہے اللہ کی اطاعت اورامیر ابورباب کے پیغام کے بعد کسی سوال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ کیا ہماری تربیت میں میں کمی رہ گئی اورکیا ہم نے جہاد کے لئے آپ کا انتخاب غلط کیا؟”
عائشہ اپنی جگہ پر واپس گئی اور پھر ساری لڑکیوں سے مخاطب ہوئی:

 

“آپ کو مجاہدین کے لئے امیر ابوربا ب نے اللہ کے حکم سے حلال قرار دیا ہے۔ یاد رہے ہم نے دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے ہمارا سب کچھ اس کا ہے اور یہ سب کچھ آپ اللہ کے حکم پرکر یں گی”
ماہم کے اندر بے چینی کی ایک اونچی لہر اٹھی، وہ پھرکچھ کہنا چاہتی تھی مگر اس کی آواز اس میں ٹوٹ ٹوٹ کے بکھر گئی۔
“میں تو شادی شدہ۔۔۔۔ اور میرا شوہر؟”پھراس نے جلدی سے اپنا سرجھٹکا ۔دل میں توبہ کا ورد کیا
“میری توبہ قبول کرمالک، میرے وسوسے شیطانی ہیں، امیر ابور باب کے فتوی پر صدقِ دل سے ایمان رکھتی ہوں “
عائشہ اپنی بات ختم کرچکی تھی ۔
لڑکیوں نے اللہ اکبر کاپر جوش نعرہ لگایا اور بلند آواز سے کہا ۔
“پرور دگار دین کے لئے ہماری رضا قبول کر”
ماہم نے آنکھوں سے آنسوپوچھے اور آنکھیں بند کرکے صدق دل سے آمین کہا ۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

گاڑی کے شیشوں پر گہرے سیاہ شیشے ہونے کے سبب باہر کا منظر لڑکیوں کو نظر نہیں آ رہا تھا ۔ان کی تربیت ہنسی مذاق کی اجازت نہیں دیتی تھی اور ایک دوسرے سے صرف ضروری بات کرنے کی اجازت تھی لہذا سب خاموشی سے سفر کررہی تھیں لیکن ان کے چہرے سے تھکن عیاں تھی ۔اس گاڑی میں صرف چار لڑکیاں تھیں اور انہیں بالکل علم نہیں تھا کہ باقی لڑکیوں کو الگ الگ گاڑیوں میں اورمختلف اوقات میں سفر کرنا تھا ۔ تربیت کیمپ میں لڑکیوں کو گھڑی پہنے کی اجازت نہیں تھی ۔ کیوں نہیں تھی نہیں تھی؟ انہیں ایسا کوئی سوال پوچھنے کی اجازت نہیں تھی ۔ تھکن سے چور اونگھتی ہوئی ایک لڑکی نے دوسری سے پوچھا
“ ہم کتنے گھنٹوں سے سفر کررہے ہیں ؟”

 

“ آرام کرو آنکھیں بند کرکے فضول سوال مت کروـ” اس لڑکی نے درشت لہجہ میں کہا جس کو عائشہ نے “ٓآپ سب کی رہنما” کہہ کے تعارف کرایا تھا اور جس کو ان لڑکیوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

 

رات کے گہرے اندھیرے میں گاڑی اونچی اونچی دیواروں والے احاطہ میں داخل ہوئی اورگیٹ کو واپس بند کردیا گیا ۔ڈرائیور نے گاڑی ورانڈے کے قریب لا کے کھڑی کی ۔ لڑکیوں کی رہنما لڑکی سب سے پہلے اتری اوراس کے پیچھے با قی لڑکیاں ورانڈے سے ملحق ہال میں داخل ہوئیں ۔ ہال کےاندرسامنے کی دیوار میں ایک دردوازہ تھا جوبند تھا اور ایک نقاب پوش شانے سے بندوق لٹکا ئ کھڑا تھا اس نے دروازہ کھولا اور رہ نمالڑکی کے ہاتھ میں ایک لال ٹین تھما دی ۔ وہ سب ایک سرنگ نما راستے پر چلتی ہوئی ایک اورلق ودق ہال میں پہنچیں جس کے چارونطرف چھوٹی چھوٹی کو ٹھریان بنی ہوئی تھیں ۔ ہال میں لالٹینوں کی ہلکی ہلکی روشنی میں لڑکیوں نے چار عورتوں کواپنی طرف آتے دیکھا۔ان عورتوں نے قریب آ کے بھی اپنے چہرے سے نقاب نہیں ہٹا ئی اوربنا کچھ بولے ایک ہاتھ سینے پر رکھ کے لڑکیوں کی محافظ کوجھک کے تعظیم پیش کی پھر باری باری سب نے لڑکیوں کے ہاتھ پکڑکے اپنے ماتھے سے چھلائے تھوڑا سا جھک کے بہت ادب سے اپنے پیچھے آنے کی اشارے سے درخواست کی ۔ چاروں لڑکیاں الگ الگ کوٹھریوں میں پہنچا دی گئیں۔ان کوٹھریوں میں ایک جیسا سامان تھا۔۔ کوٹھری کی ۔ایک دیوار کے ساتھ بچھا ہوا گدا جس پر ہرے رنگ کی چادر بچھی ہوئی تھی ۔سامنے کی دیوار کے ساتھ لکڑی کے کھوکھے پر جائے نماز اور قرآن مجید، اورسلے ہوئے کپڑوں کا ایک پیکٹ جس میں ہرے رنگ کے دو جوڑے کپڑے ۔اسی کے ساتھ ذرا ہٹ کے دیوار پر کپڑا ٹانگنے کی کھونٹی سب کوایک سی ہری چا دریں اورایک سا ہرے رنگ کالباس دیا گیا تھا ۔

 

لڑکیاں تھکن سے چور تھیں اپنے اپنے کمرے میں پہنچ کے بے سدھ ہوکے گدے پر گریں اور سو گئیں۔

 

ناشتہ کے وقت تمام لڑکیوں کی ان ہدایات کی ایک ایک کاپی بانٹ دی گئی جس میں ان کی دن بھر کی مصروفیات کی تفصیل اور دیگر ہدایات درج تھیں ۔اس ہدایت نامہ میں دن کو چار گھنٹہ سونے کو بھی دیا گیا تا کہ رات کو جہاد کی عبادت ادا کرتے وقت ان کے چہروں پر تھکن نہ ہو۔

 

المدینہ دس لڑکیوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی ۔ اس کی گہری سبز آنکھیں، سو رج کی کرنوں جیسےسنہرے، گھنے اورلمبے بال، بہت مہارت سے تر اشے ہو ئے سنگ مرمر کے مجسمے جیسا دودھیا بدن بھوکے جہادیوں کے لئے جنت کے توشے جیسا تھا سو سب کی بھوک اس پر ٹوٹ پڑی وہ سب اس کو نوالہ نوالہ توڑ کے کھا رہے تھے۔ ۔جس کا جی چاہتا تین بار اللہ اکبر کہہ کے اسے حلال کرلیتا ۔ پندرہ دن گزر چکے تھے ۔ المدینہ اپنے سوندھے بدن کی خوشبو ایک کے بعد دوسری پلیٹ میں دھرتے دھرتے اب خود کو کسی جھوٹی پلیٹ جیسا ہی محسو س کرنے لگی تھی ایسی پلیٹ جس کو وہ جیسے ہی دھوتی پھر جھوٹی ہو جاتی ۔وہ گھبرا گھبرا کے استغفار کی تسبیح پڑھتی جب اس کے اندر کے فخر پر اسے کائی جمتی محسو س ہوتی ۔”پروردگار دیں کے لئے میری رضا قبول کر ، مجھے خود پر فخر کرنے کی توفیق عطا کر، یہ کون سا بے دینی کا گدھ ہے جو مجھے اندر سے نوچ نوچ کے کھا رہا ہے؟ میں اپنے فرض کو ادا کرتے ہوئے اپنے وعدوں سے مکرتا کیوں محسو س کررہی ہوں خود کو۔ میری مدر فرما میرے معبود”اس کا چہرہ آنسووں سے تر ہو جاتا توبہ استغفا ر کرتے ہوئے ۔ لیکن دن رات کی مشقت اس کی تر بیت کو پھر سے ادھ موا کرنے لگتی ۔

 

المدینہ ، ماہم ، دعا اور باقی ساری لڑکیاں صرف کھانا کھانے ، با جماعت نماز پڑھنے یا جنگی مشقوں کے لئے اکھٹا ہوتی تھیں باقی وقت وہ کب کس کے تصرف میں ہوں گی انہیں خود معلوم نہیں ہوتا ۔ لیکن جب وہ ایک جگہ موجود ہوتیں تو ان کی آ نکھون کی ویرانی اور بدن کی تھکن ایک دوسرے سے مخا طب رہتی تھی ۔ انکے اندر کا خوف انکی زبانیں کا ٹ چکا تھا انکی تربیت انہیں اپنی زنجیروں میں جکڑ کے خا موشی کی کال کوٹھڑی میںبند کرچکی تھی ۔ لیکن بدن چیخ چیخ کے فریاد کرتا سنا ئ دیتا ایک دوسرے کو جس کو وہ استغفار کی تسبیح کے ورد سے چپ کرا دیتیں۔ اس دن ساری لڑکیا ں مغرب کی نمازکے لئے اکٹھا تھیں ماہم بھی مو جود تھی لیکن اس حال میں جیسےاس پر کوڑے برسائے گئے ہوں اس کے ہونٹوں کے کنا رے پر خون جما ہوا تھا ،چہرے پر نیل اور آنکھیں سوجی ہوئی تھیں ۔ اس نے نہ وضو کیا نہ نما ز پڑھی نہ ہی کسی کے سوال کا کوئی جواب دیا بس سر جھکائے اپنی سوچوں میں غرق بیٹھی رہی ۔نماز ختم ہوتے ہی عائشہ دو مجاہدین کے ساتھ تیزی سے اندر داخل ہوئی اور ماہم کو گھسیٹے ہوئے وہ لوگ باہر لے گئے ۔ دوسری صبج لڑکیا اس گرا ونڈ میں لے جائی گئیں جہاں ماہم کے سر پہ شیطانی سایہ ہو جانے اور دیں کے احکامات سے روگردانی کرنے کے سبب موت کی سزا سنا ئی جانی تھی ۔ ما ہم سر سے پیر تک سیاہ برقعہ میں لپٹی دو برقع پوش عورتوں کی ہمراہی میں لڑ کھڑاتی ہوئی بیچ میدا ن کے لا ئی گئی گھٹنوں کے بل اسے زمیں پر بیٹھایا گیا ایک مجاہد آگے بڑھا اس نے بلند آواز سے ماہم کے گناہ گنوائے ”یہ اللہ کے فرمان پر سوال اٹھاتی ہے، اس نے ایک جہادی کے منہ پر طمانچہ مارکے دین کے منہ پر طمانچہ مارا ہے اور جہاد النکا ح کے نام پر چیخ چیخ کے گالیاں بک کے توہینِ فرمانِ رسالت کی مرتکب ہوئی ہے اور ایسے مرتد کی سزا موت ہے ۔بیشک بیشک اور اللہ اکبر کے پر جو ش نعروں سے میدان گونج رہا تھا ۔ ایک جہا دی کی بندوق نے ماہم کے سر کا نشانہ لیا ۔ لڑ کیوں نے گھبرا کے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا ان کا بدن تھر تھر کانپ رہا تھا ۔ نشانہ گو ماہم کے سرکا لیا گیا تھا لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ اس ایک گولی نے باقی لڑکیوں کے بچے کھچے وجود کو بھی پھٹکی پھٹکی کرکے ان کے اندر دور دور تک بچھے خوف کے کوڑے دان پر ڈال دیا ۔ المدینہ کی عجب کیفیت تھی اسے لگ رہا تھا کہ ماہم کا خون زمیں پہ نہیں بلکہ اس کی رگوں میں جم رہا تھا۔ ماہم کی آخری چیخ اسے اپنے سینے میں تڑپتی محسوس ہورہی تھی ۔ المدینہ اس واقعہ کے بعد وہ المدینہ نہیں رہی جو جہا د کےجذبہ سے سر شار تھی اب وہ اپنی سوچو ں پر گھبرا گھبرا کے استغفار کی تسبیح نہیں پڑھتی تھی بلکہ اب تو اسے اپنے بدن سے سڑے ہوئے مردار جیسی بو آتی محسو س ہوتی تھی مقدس گدھ جتنا نوچ نوچ کے اس کا بدن کھاتے اس کی روح میں نئی سوچوں کے اتنے ہی اکھوے پھوٹ رہے تھے۔ ماہم کے سانحے پر کسی لڑکی نے کوئی ردعمل نہیں دکھایا سوا ئے اس کے کہ اب ان کی آنکھوں میں خوف کی تہہ کچھ اور دبیز ہو گئی تھی ۔

 

تمام معاملا ت اس سانحے کے فوراً بعد ہی معمول پر آگئے یوں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ مگرالمدینہ کواپنے بدن سے کٹر کی بدبوابلتی محسوس ہو رہی تھی اوراندر کوئی آ گ تھی جواسے پھونکے دے رہی تھی ۔وہ اپنے کمرے میں دیوانہ وار چکرلگا تی اوردعا کرتی “ کوئی راستہ سجھا دے مرے معبود یہاں سے نکلنے کا یا مرجانے کا ۔ اس کی ہرسانس دعا بن گئی تھی مگر وہ جانتی تھی کہ یہاں سے زندہ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔اسے ہررات مرنا ہوگا اورہرصبح اس خبیث گدھ کا شکرانہ ادا کرنا ہوگا جس نے اس کی جسم کونوچ نوچ کے کھایا ہو ۔المدینہ کوہرچیز سے نفرت ہوتی جارہی تھی ۔جانمازپربیٹھتی توصف ایک ہی گردان ہوتی اس کے اندر۔” میرے معبود اس ذلت کی زندگی کے بجائے مجھے موت دے دے۔”

 

۔ المدینہ کے حسین بدن کا ذائقہ جب مجاہدین کانشہ بڑھاتا تو وہ ایک دوسرے کو اپنی اپنی سرشاریاں اور اپنی اپنی فتوحات کی دا ستان مزے لے لے کے سناتے ۔ یوں امیرابو رباب تک بھی اس حسن بے مثال کی دا ستان پہنچ گئی ۔انہیں افسوس تھا کہ سا ت مہینے سے تربیت کیمپ میں موجود ہونے کے باوجود انہوں نے ا س کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھی ان کے اندر کی بیتا بی ہاتھ مل رہی تھی، بپھر رہی تھی، ڈکار رہی تھی ۔وہ کئی دنوں تک گہری سو چ میں غرق رہے اور پھر ان کی آنکھوں میں وہی مخصوص چمک در آئی جو ہر فتوی سے پہلے نظر آتی تھی ۔انہوں نے مادام عائشہ کو فوراً طلب کیا ۔

 

“آج لڑکیوں کی نشانہ بازی کی تربیت کا ہم خود جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ ہمیں اطلا ع ملی ہے کہ المد ینہ نامی لڑکی سر کش ہے اور وہ جہاد کی تر بیت میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں رکھتی؟
عائشہ نے حیرانی سے جواب دیا ۔

 

“ایسا نہیں ہے میرے آقا ۔ بلکہ اسک ا نشانہ تو کبھی چوکتا ہی نہیں ۔ یہ اطلا ع بالکل غلط ہے آپ خود جائزہ لےسکتے ہیں”

 

“ٹھیک ہے ۔ ہم خود جائزہ لیں گے”

 

ٹریننگ کے وقت لڑکیاں سر پرصرف حجاب لیتی تھیں ۔ عائشہ نے ابورباب کی مو جودگی کی خوشخبری سنائی لڑکیوں کو اور سب سے پہلے المدینہ کا نام پکارا گیا ۔

 

المدینہ بندوق کا نشانہ باندھے زمیں پر مخصوص پوزیشن میں لیٹی تھی اور ابورباب کی بھوکی آنکھیں اس کی چا ندی کی صراحی جیسی گردن سے ہو تی ہوئی جسم کے چپہ چپہ کی سیر میں مصروف تھیں ۔ ابو رباب کو ایسا مدہوش کن نظارہ اس قیامت خیز حسن کی طلب کی بھٹی میں ڈال بھون رہا تھا ۔ المدینہ کا ایک بھی نشانہ خطا نہیں ہوا تھا ۔ ابو رباب مرحبا مرحبا کو ورد کرتے ہوئے المدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئے۔ ان کا جی چا ہ رہا تھا کہ اسی وقت اسے اپنے سینے سے لگا کے اپنی خواب گاہ میں لے جا ئیں لیکن اپنے مر تبے کا خیال صرف المدینہ کے سر پا ہا تھ رکھنے پر مجبور کررہا تھا ۔ دوسرے دن ابورباب نے پھر ما دام عائشہ کو طلب کیا ۔
“مادام عائشہ ۔ ہمیں المدینہ کے بارے میں خا ص ہدا یات سر کار دوعالم کی جانب سے مل رہی ہیں ۔ میری جان فدا ہو میرے سرکار کے فرمان پر۔ میں ان کے غلا موں کا غلام بہت گڑ گڑایا ان کے حضور کہ مجھے سوائے ان کی غلامی کے اور کو ئی کام نہ سونپا جائے مگر آقا کا حکم ماننا غلام کا فرض اولین ہے ۔ اس لڑکی کو اپنے مشن کی کامیابی کے لئے ہمیں بذات خود تر بیت دینے کی تاکید فرمائی ہے آقا نے ۔ اسے ہماری خدمت میں پیش کیا جا ئے مادام عائشہ ۔ امیرابورباب کی لہجے میں رقت آمیز جلال تھا ۔

 

“جو حکم میرے آقا”عائشہ نے جھک کے تعظیم پیش کی ۔

 

المدینہ نے عائشہ کا سنایا امیرابو رباب کاپیغام سر جھکا کے سنا لیکن اس کے چہرے پر کسی قسم کے تا ئثرات نہیں تھے نہ غم کے نہ خوشی کے نہ فخر کے ۔ عائشہ نے حیرانی سے سوال کیا “المدینہ کیا تم اتنے بڑے اعزاز پر خو ش نہیں ہو”

 

“ما دام۔۔۔ خوشی اور غم موت اور زندگی سب کے معنی اب بدل چکے ہیں میرے لئے ۔ میں اس خبر کو اپنی کسی مراد کی قبولیت جیسا سمجھ کے اندر سے سر شا ر ہوں ۔ میں اپنے کسی فیصلے کے سامنے سرخرو ہونے جا رہی ہوں اس سے بڑی خوشی اور کیا ہوگی ، میری دعا قبول ہوئی، ما لک کی شکر گزار ہوں ، میں اس حکم کو خدا وند کا ایک عظیم فیصلہ سمجھ رہی ہوں ۔

 

عائشہ نے خوشی سے اسے سینے سے لگا لیا ۔

 

“یاد رہے کہ یہ بہت بڑا اعزاز ہے ۔تمہارے لئے خاص لباس منگوایا گیا ہے کل کے لئے تا کہ تمہارے حسن میں چار چاند لگ جائے”

 

جمعہ کے نماز کے بعد امیرابو رباب کا خطبہ تھا لہذا مجاہدین کا اشتیاق لائق دید تھا کہ انہیں ان کی ذیارت کا شرف کم کم نصیب ہوتا تھا ۔وہ بہت خاص مو قع پر تشریف لا تے تھے ۔
امیر ابورباب نے خطبہ دیا اور ایمان کے حرارت سے دلوں کو گرما دیا ۔ انہوں نے آ خر میں رقت آمیز لہجے میں المدینہ کے بارے میں سر کار دو عالم کی ہدایات کا ذکر ا یسے دلگیر اورایمان افروز لہجے میں کیا کہ فضا اللہ اکبر ک نعروں سے گونج اٹھی۔ سر سے پیر تک سیاہ عبایا میں لپٹی المدینہ کو بہت احترام سے امیر ابورباب کے روبرو لا کے کھڑا کیا گیا ۔
امیرابو رباب نے تین بار اللہ اکبر کہا کہ وہ کسی غیر محرم عورت کو اپنی ذاتی تربیت میں نہیں رکھنا چا ہتے تھے ۔ المدینہ اب ان پر حلال تھی۔ فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہی تھی اور ابورباب کا چہرہ خو شی سے تمتما رہا تھا ۔ المدینہ نے اچا نک اپنا نقاب الٹ دیا اپنا برقع اتار کے مجمع کی طرف پھینکا اور پوری قوت سے جنونی انداز میں چلائی ۔”تو نہیں جانتا ابو رباب کہ مجھے میرے اللہ نے کیا
ہدایت فرمائی ہے”

 

اس نے پورے جلال کے ساتھ اپنا ہا تھ بلند کیا اور پلک چھپتے میں وہ ہو گیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔۔۔ اس کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوتا تھا۔ المدینہ کی پہلی گولی امیر ابورباب کے سینے کو چیرگئی اورپھر عائشہ سمیت وہ سب جو اسے اپنے واسطے جب جی چاہے حلال قرار دے دیتے تھے اپنے خون میں نہائے فرش پر پڑے تھے۔ المدینہ ہررات مرتی تھی اورہرصبح اپنی زندگی ختم کرنے کی ترکیبیں سوچا کرتی تھی۔ ابو رباب کا پیغام اسے اس جہاد کو اپنی ذات سے نوچ کے پھینک دینے کا پیغام دے گیا جس نے اسے عورت سے کیچڑ میں بدل دیا تھا۔ المدینہ نے ایک گولی اپنے لئے بچا لی تھی، اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ المدینہ نے پلٹ کے لڑکیوں کی طرف دیکھا، اس کی آواز غصہ سے کانپ رہی تھی “ تم سب گواہی دینا کہ المدینہ نے اس جہاد کو ٹھوکر ماردی جس نے اسے عورت سے رنڈی بنا دیا۔ اس نے پستول اپنی کنپٹی پر رکھی اور سر آسمان کی طرف سر اٹھایا”پر وردگار میں تجھے ان مقدس شیطانوں کے مکروہ کرتوتوں پر گواہ کرتی ہوں”

 

اور اس کا واحد گواہ، اس کا معبود ! شاید اپنی بنائی ہر مورت میں اس مورت کو سب سے اونچے طاق پہ رکھ کے مسکرارہا ہوگا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *