موت کے بے رحم پروں سے آگ کے شعلے نکلے اور دیکھتے ہی دیکھتے بستی کو نگل گئے۔ جھلستے ہوئے لوگ غیر ارادی طور پرجینے کی تگ و دو کر رہے تھے مگر اب سب کوششیں بےکار تھیں۔ موت کی ہزار آنکھیں انھیں کہیں چھپنے کی اجازت نہیں دے رہی تھیں۔
لڑکے نے ادھر اُدھر بھاگنے کی بجائے ایک جگہ پر کھڑے رہ کر بستی پر نگاہ کی(دراصل وہ دہشت سے جم چکا تھا)۔ اسے جلتے گھروں کی روشنی میں اپنے گھر کا کوئی فرد نظر نہ آیا مگر موت کے ہرکارے اپنی طرف آتے دکھائی دے گئے۔ وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر پلٹ کر بھاگا اور اس پر چلائی گئی گولیاں آس پاس سے گزر تی ہوئی درختوں اور جھاڑیوں میں گم ہو گئیں مگر وہ بھاگتا رہا۔
وہ ایک چھوٹی سی پہاڑی بستی کا مکین تھا جو جھیل کی قربت کو ملحوظ رکھ کر ایک نسبتاًہموار سطح پر اگائی گئی تھی۔ بستی کے لوگوں کو چا ہےجھیل کا راستہ یاد رہے نہ رہے مگر ان کے قدموں کو بھلائے نہیں بھولتا تھا۔سو لڑکا اپنی عادت سے بندھا غیر ارادی طور پر اسی طرف بھاگا۔ موت کے کارندے بھی پیچھے لپکےاور بندوقیں پھر سے داغی گئیں۔ اس بار ہر نشانہ خطا نہیں گیا اور تین گولیاں اسے زخم ڈالتی ہوئی گزر گئیں۔ ایک ٹخنے میں لگی اوروہیں رہ گئی۔
ایسا درد کسی کو کاہے کو ہوا ہو گا؟ لڑکا ایک دم ہونے والے اندھیرے سے الجھ کر گرا مگر موت کے خوف نے اسے سنبھالا اور اٹھا کر پھر سے راہ پر ڈال دیا۔ اب وہ ایک پاؤں اٹھا کر اور ایک گھسیٹ کربمشکل چل پا رہا تھا کہ ایک اور گولی اس کا کندھا چھیل گئی۔ آنسو اس کے گالوں سے پھسلتے اور ہوا میں جذب ہو جاتے۔ وہ کچھ سوچنے کی حالت میں نہیں تھا مگر جینے کی جبلی خواہش اس کے حلق کا کانٹا بنی مسلسل جھیل کی جانب لیے جا رہی تھی۔ پیچھا کرنے والے قریب آتے جا رہے تھے اور شاید جھیل بھی۔ اسے جھیل تک پہنچنے میں کبھی آج جتنا وقت نہیں لگاتھا۔ وہ اور اس کے سب دوست تقریباً تمام دن وہیں گزارتے تھے۔ شام ہوتی اور انھیں ان کے نام لے لے کر پکارا جاتا تو وہ سب اپنی ماؤں کی آواز کی گونج ختم ہونے سے پہلے بستی دیکھ لیا کرتے تھے۔ مگر آج معاملہ کچھ اور تھا۔ وقت کی رفتار بہت تیز تھی اور وہ خود گھسٹ رہا تھا۔ اس وقت اگر کوئی اس سے پوچھتا کہ کہ وہ جھیل کی طرف کیوں جانا چاہتا ہے تو وہ کوئی وجہ نہ بتا پاتا۔ شاید اس لیے کہ وہ ان کی چھوٹی سی زندگی کا منبع و محور تھی، شاید؟؟؟ کیا کہا جا سکتا ہے۔
لڑکے نے ادھر اُدھر بھاگنے کی بجائے ایک جگہ پر کھڑے رہ کر بستی پر نگاہ کی(دراصل وہ دہشت سے جم چکا تھا)۔ اسے جلتے گھروں کی روشنی میں اپنے گھر کا کوئی فرد نظر نہ آیا مگر موت کے ہرکارے اپنی طرف آتے دکھائی دے گئے۔ وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر پلٹ کر بھاگا اور اس پر چلائی گئی گولیاں آس پاس سے گزر تی ہوئی درختوں اور جھاڑیوں میں گم ہو گئیں مگر وہ بھاگتا رہا۔
وہ ایک چھوٹی سی پہاڑی بستی کا مکین تھا جو جھیل کی قربت کو ملحوظ رکھ کر ایک نسبتاًہموار سطح پر اگائی گئی تھی۔ بستی کے لوگوں کو چا ہےجھیل کا راستہ یاد رہے نہ رہے مگر ان کے قدموں کو بھلائے نہیں بھولتا تھا۔سو لڑکا اپنی عادت سے بندھا غیر ارادی طور پر اسی طرف بھاگا۔ موت کے کارندے بھی پیچھے لپکےاور بندوقیں پھر سے داغی گئیں۔ اس بار ہر نشانہ خطا نہیں گیا اور تین گولیاں اسے زخم ڈالتی ہوئی گزر گئیں۔ ایک ٹخنے میں لگی اوروہیں رہ گئی۔
ایسا درد کسی کو کاہے کو ہوا ہو گا؟ لڑکا ایک دم ہونے والے اندھیرے سے الجھ کر گرا مگر موت کے خوف نے اسے سنبھالا اور اٹھا کر پھر سے راہ پر ڈال دیا۔ اب وہ ایک پاؤں اٹھا کر اور ایک گھسیٹ کربمشکل چل پا رہا تھا کہ ایک اور گولی اس کا کندھا چھیل گئی۔ آنسو اس کے گالوں سے پھسلتے اور ہوا میں جذب ہو جاتے۔ وہ کچھ سوچنے کی حالت میں نہیں تھا مگر جینے کی جبلی خواہش اس کے حلق کا کانٹا بنی مسلسل جھیل کی جانب لیے جا رہی تھی۔ پیچھا کرنے والے قریب آتے جا رہے تھے اور شاید جھیل بھی۔ اسے جھیل تک پہنچنے میں کبھی آج جتنا وقت نہیں لگاتھا۔ وہ اور اس کے سب دوست تقریباً تمام دن وہیں گزارتے تھے۔ شام ہوتی اور انھیں ان کے نام لے لے کر پکارا جاتا تو وہ سب اپنی ماؤں کی آواز کی گونج ختم ہونے سے پہلے بستی دیکھ لیا کرتے تھے۔ مگر آج معاملہ کچھ اور تھا۔ وقت کی رفتار بہت تیز تھی اور وہ خود گھسٹ رہا تھا۔ اس وقت اگر کوئی اس سے پوچھتا کہ کہ وہ جھیل کی طرف کیوں جانا چاہتا ہے تو وہ کوئی وجہ نہ بتا پاتا۔ شاید اس لیے کہ وہ ان کی چھوٹی سی زندگی کا منبع و محور تھی، شاید؟؟؟ کیا کہا جا سکتا ہے۔
موت نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اسے پروں پر سنبھالا،پانی کی تہہ پر بچھی نر مٹی پر رکھااور جھیل کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتی واپس پلٹ گئی۔
بہرحال زخموں ، درد، جلن اور خون کی دہشت سے نیم جاں، اٹھتا گرتا اس کنارے تک پہنچ گیا جہاں سے وہ اور اس کے دوست اڑنے کا مزہ لیتے ہوئے جھیل میں کودا کرتے تھے۔ تبھی اس نے پلٹ کر دیکھا۔ درد سے بند ہوتی آنکھوں سے کچھ دکھائی نہ دیا۔ موت اچانک سر پر آ کھڑی ہوئی مگر وہ اس سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ چکاتھا۔ لڑکا فاتحانہ انداز میں مسکرایا اور خود کو جھیل کی پناہ میں جانے دیا۔ پانیوں کی نرم ٹھنڈک ،جلتے ہوئے زخموں پر پھاہا رکھ رہی تھی جھیل سے مہربان کچھ نہیں،اس نے پورے سکھ سے آنکھیں موند لیں۔
موت نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اسے پروں پر سنبھالا ،پانی کی تہہ پر بچھی نرم مٹی پر رکھا اور جھیل کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتی واپس پلٹ گئی۔جھیل موت کے ایسے بہت سے رازوں کی امین تھی سو اب کی بار بھی کوئی اثر لیے بغیر پر سکون رہی۔
موت نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اسے پروں پر سنبھالا ،پانی کی تہہ پر بچھی نرم مٹی پر رکھا اور جھیل کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتی واپس پلٹ گئی۔جھیل موت کے ایسے بہت سے رازوں کی امین تھی سو اب کی بار بھی کوئی اثر لیے بغیر پر سکون رہی۔