اندرون لاہور کی گلیوں میں راہ نوردی کرتے، لوگوں کے چہروں کے علاوہ قدیم حویلیوں اور مکانوں کے جھروکے اور کھڑکیاں کسی بھی عکاس کی نگاہ کو اپنی جانب ملتزم کرسکتے ہیں۔ میرا دوست کہتا ہے، لوگوں کے چہرےبہت کچھ کہتے ہیں، چہرے اپنے اندر ایک کہانی چھپائے ہوتے ہیں۔ میں اتنا قابل تو نہیں کہ ایک ماہر فوٹو گرافر کی بات سے اختلاف کروں لیکن کہانی تو جھروکے بھی بہت سناتے ہیں،کم از کم میں جب اپنے ویو فائنڈر سے کسی جھروکے یا کھڑکی کو فوکس کرتا ہوں، تو ہر جھروکا مجھ سے ایک آدھ سرگوشی کرتا ہےاور میں کوئی نہ کوئی تانا بانا اپنے خیال میں بننا شروع کردیتا ہوں۔
کہانی تو جھروکے بھی بہت سناتے ہیں،کم از کم میں جب اپنے ویو فائنڈر سے کسی جھروکے یا کھڑکی کو فوکس کرتا ہوں، تو ہر جھروکا مجھ سے ایک آدھ سرگوشی کرتا ہےاور میں کوئی نہ کوئی تانا بانا اپنے خیال میں بننا شروع کردیتا ہوں
جھروکے نے دیوانے کو پہچان لیا
میرا دوست کہتا ہے میں فریب نظر کا شکار ہوں، سوچتا بہت ہوں لیکن جو سرگوشیاں میں سنتا ہوں، ان میں حقیقت ہے۔ دہلی دروازے سے گزرتے ایک جھروکا میری نظر میں سمایا۔ اجاڑ سا یہ جھروکا اداس تھا، اپنے مکیں ڈھونڈتا تھا۔ کبھی کسی نے اس جھروکے سے شہر لاہور کو دیکھا ہوگا۔ میں نے اس جھروکے کو اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔ میرا شکریہ ادا ہوا، کسی نے اس مکان کے اندھیرے جھروکے کو دنیا کو دکھانے کا ارادہ کیا ہے۔
فوٹو واک میں بہت لوگ تھے لیکن ایک راہ نورد جھروکوں کی کہانی کی تلاش کر رہا ہے۔ ایک تنگ گلی میں راہ نورد حیران تھا، ایک کھڑکی کھلی تھی جب کہ کوئی مکیں نہیں تھا اس گھر میں۔ کبھی کسی کی روشن آنکھوں نے اس کھڑکی میں دیا جلایا ہوگا، کہ کوئی راہ گیر، مسافر ٹھوکر نہ کھائے، دیا تو بجھ گیا، مگر روشنی ابھی بھی باقی تھی صدقہِ جاریہ اسی کو کہتے ہیں شاید۔
فوٹو واک میں بہت لوگ تھے لیکن ایک راہ نورد جھروکوں کی کہانی کی تلاش کر رہا ہے۔ ایک تنگ گلی میں راہ نورد حیران تھا، ایک کھڑکی کھلی تھی جب کہ کوئی مکیں نہیں تھا اس گھر میں۔ کبھی کسی کی روشن آنکھوں نے اس کھڑکی میں دیا جلایا ہوگا، کہ کوئی راہ گیر، مسافر ٹھوکر نہ کھائے، دیا تو بجھ گیا، مگر روشنی ابھی بھی باقی تھی صدقہِ جاریہ اسی کو کہتے ہیں شاید۔
ایک اور جھروکا میرا راستہ روکے کھڑا تھا، شریر جھروکا۔ کہنے لگا، اس کے کمرے میں کوئی شریر مکین رہتا تھا۔ کوئی آوارہ گرد ادھر سے گزرا۔ مکین نے تو شرارت کی تھی، مگر آوارہ گرد بہت خوش فہم تھا۔ مکین کسی اور دیس سدھار گیا، آوارہ گرد اسی دیس میں پردیسی ہوا اور لوگ اسے دیوانہ کہنے لگے۔
سچ کہہ گئے مرزا غالب،
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی۔
دل چاہا کہ جھروکے سے پوچھوں ، تو کیوں اتنا شوخ بنا پھرتا ہے، کسی کا خرد کو خیر باد کہنا تیری نزدیک شرارت ہے؟
سچ کہہ گئے مرزا غالب،
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی۔
دل چاہا کہ جھروکے سے پوچھوں ، تو کیوں اتنا شوخ بنا پھرتا ہے، کسی کا خرد کو خیر باد کہنا تیری نزدیک شرارت ہے؟
روشن دانوں سے ہدایت کی صدا آتی ہے
جہاں ان دنوں کشمیری بازار شروع ہوتا ہے وہیں ایک بوڑھا نیک روشن دان میرے پاس لاٹھی ٹیکتاآیا بتانے لگا کہ کس طرح اس نے مسجد وزیر خان سے آنے والی ازان کی صداوں کو ایک گمراہ تک رسائی دی، کیسے صبر سے دن رات وہ یہ فریضہ ادا کرتا رہا اور ایک دن وہ گم راہ بدل گیا۔ کتنا مطمئن تھا وہ روشن دان،اس کے لال نیلے شیشے گرد آلود ہونے کے باوجود کتنے روشن تھے۔ اس سے زیادہ وہ بتانے پہ تیار نہیں ہوا، شاید ریاکاری کا خوف تھا کہ کہیں ساری محنت اکارت نہ ہو جائے۔
مغرور جھروکے کی توبہ
بادشَاہی مسجد کے پیچھے ایک تھڑے پہ تھوڑی دیر رکا، ایک کمزور، قدیم جھروکا میرے ساتھ آ بیٹھا۔ میں نے پانی کی پیشکش کی۔ بہت پیاسا تھا۔ وہ ایک امیر اور مغرور راجہ کی حویلی کا حصہ تھا جواپنی دولت کے نشے میں دھت رہتا تھا۔صحبت کا اثر جھروکے پر بھی ٹھہرا اوروہ بھی اپنی خوبصورتی پہ نازاں رہنے لگا۔ ایک دن امیرمشروبِ ممنوع کے نشے میں دھت تھاکہ کسی فقیر نے صدا دی۔ راجہ نے دولت کے نشے میں اس غریب کو برا بھلا کہا اور اسی جھروکے سے اوندھے منہ فقیر کے سامنے گر گیا۔جھروکے نے جھر جھری لی اور کہنے لگا اس دن معلوم ہوا سب سے برا نشہ تکبر کا ہے۔اس کے بیٹوں نے وہ جھروکا بھی بند کرا دیا۔
اسی دوران ایک بچہ ایک سیلفی لیتی خاتون سے ٹکرایا، محترمہ نے زاویہ بگڑنے پر بچے کو جھاڑ دیا۔ میں نے چاہا یہ کہانی وہ بھی سنتی لیکن تب تک پیاسا جھروکا پیاس بجھانے کہیں اور جا چکا تھا۔
اسی دوران ایک بچہ ایک سیلفی لیتی خاتون سے ٹکرایا، محترمہ نے زاویہ بگڑنے پر بچے کو جھاڑ دیا۔ میں نے چاہا یہ کہانی وہ بھی سنتی لیکن تب تک پیاسا جھروکا پیاس بجھانے کہیں اور جا چکا تھا۔
ایک بوڑھا نیک روشن دان میرے پاس لاٹھی ٹیکتاآیا بتانے لگا کہ کس طرح اس نے مسجد وزیر خان سے آنے والی ازان کی صداوں کو ایک گمراہ تک رسائی دی، کیسے صبر سے دن رات وہ یہ فریضہ ادا کرتا رہا اور ایک دن وہ گم راہ بدل گیا
جو رنگ رنگیا گوڑھا رنگیا
لوہاری دروازے میں ایک باوقار بزرگ کھڑکی میرے پاس آئی اس کے پاس سنانے کوایک با وقار عورت کی کہانی تھی جوکسی دور پار کے شہر سے بیاہ کے لاہور آئی تھی۔ اس کے لباس کی مناسبت سے کھڑکی پر لال رنگ کا پردہ ڈالا گیا تھا۔ جب پی سے پہلی ملاقات تھی تو رازدان کھڑکی نے لال پردہ سے منہ ڈھانپ لیا تھا۔ راز و نیاز کی باتیں وہ عورت اس کھڑکی سے کرتی تھی۔ دونوں سہیلیاں تھیں۔ پھر جب وہ عورت سارے جگ کے پی سے ملنے اپنے پیا کا گھر چھوڑ گئی تو اسی کھڑکی پر کالا پردہ ڈالا گیا۔ اس وفا شعار عورت کے جانے پر اس کا ہم سفر اکیلا کھڑکی سے دکھ درد بانٹتا۔ پھر وہ بھی چلا گیا۔ محبت جہاں مکمل کرتی ہے وہاں ادھورا پن بھی چھوڑ جاتی ہے۔

دل کی حویلی پر مدت سے
خاموشی کا قفل پڑا ہے
چیخ رہے ہیں خالی کمرے
شام سے کتنی تیز ہوا ہے
دروازے سر پھوڑ رہے ہیں
کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے

دل کی حویلی پر مدت سے
خاموشی کا قفل پڑا ہے
چیخ رہے ہیں خالی کمرے
شام سے کتنی تیز ہوا ہے
دروازے سر پھوڑ رہے ہیں
کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے
بزرگ کھڑکی کی لکڑی بوڑھی ہونے کے باوجود کتنی دلنشیں لگ رہی تھی۔
اندرون لاہور کی گلیوں میں راہ نوردی کرتے کرتے میں کئی کہانیاں میں سن چکا تھا۔ میرا کیمرہ کلک کرتا رہا۔ میں دیکھتا رہا اور سنتا رہا۔ وہ لوگ چلے گئے تھے، جو کبھی ان جھروکوں سے جھانکتے تھے۔ وہ لوگ کھو چکے تھے، جو ان کھڑکھیوں کے پٹ کھولتے تھے۔ان جھروکوں کی کہانیاں بھی تو ان مکینوں کی کہانیاں ہی تھیں، جو ان میں قیام کر چکے تھے، ہر کسی کی اپنی کہانی تھی۔ میرا دوست صحیح کہتا تھا، ہر چہرہ کوئی نہ کوئی کہانی کہتا ہے۔
اندرون لاہور کی گلیوں میں راہ نوردی کرتے کرتے میں کئی کہانیاں میں سن چکا تھا۔ میرا کیمرہ کلک کرتا رہا۔ میں دیکھتا رہا اور سنتا رہا۔ وہ لوگ چلے گئے تھے، جو کبھی ان جھروکوں سے جھانکتے تھے۔ وہ لوگ کھو چکے تھے، جو ان کھڑکھیوں کے پٹ کھولتے تھے۔ان جھروکوں کی کہانیاں بھی تو ان مکینوں کی کہانیاں ہی تھیں، جو ان میں قیام کر چکے تھے، ہر کسی کی اپنی کہانی تھی۔ میرا دوست صحیح کہتا تھا، ہر چہرہ کوئی نہ کوئی کہانی کہتا ہے۔
راز و نیاز کی باتیں وہ عورت اس کھڑکی سے کرتی تھی۔ دونوں سہیلیاں تھیں۔ پھر جب وہ عورت سارے جگ کے پی سے ملنے اپنے پیا کا گھر چھوڑ گئی تو اسی کھڑکی پر کالا پردہ ڈالا گیا۔
رفتگاں کی یاد
آپ جب بھی ان گلیوں سے گزریں، تو ان جھروکوں سے حال چال ضرورپوچھیے گا۔ یہ روشندان، کھڑکیاں، جھروکے آپ کے پاس آئیں گے۔ آپ ان سے دوستی کر یں، ان کی باتیں سنیں۔ یہ ہم سے کچھ کہنا چاہتے ہیں،ان کی سنیے۔
میں گیا تھا اس گلی میں
کئی خواہشیں پہن کر
وہ جو تھیں بہت شناسا
اُنہی کھڑکیوں سے اب کے
کسی رخ کی روشنی سے
نہ چراغ کوئی لرزا
نہ کوئی ستارا چمکا
نہ ہی پھول کوئی آیا
دل منتظر کی جانب
نہ اٹھائی کوئی چلمن
کسی دستِ پرُ حنا نے
نہ صبا کی دستکوں سے
کوئی پردہ سرسرایا
کسی خواب سے الجھ کر
نہ تو چوڑیاں ہی کھنکیں
کسی آنکھ میں سمٹ کر
نہ ہی چاند مسکرایا۔۔!
میں گیا تھا اس گلی میں
کئی خواہشیں پہن کر!!
کئی خواہشیں پہن کر
وہ جو تھیں بہت شناسا
اُنہی کھڑکیوں سے اب کے
کسی رخ کی روشنی سے
نہ چراغ کوئی لرزا
نہ کوئی ستارا چمکا
نہ ہی پھول کوئی آیا
دل منتظر کی جانب
نہ اٹھائی کوئی چلمن
کسی دستِ پرُ حنا نے
نہ صبا کی دستکوں سے
کوئی پردہ سرسرایا
کسی خواب سے الجھ کر
نہ تو چوڑیاں ہی کھنکیں
کسی آنکھ میں سمٹ کر
نہ ہی چاند مسکرایا۔۔!
میں گیا تھا اس گلی میں
کئی خواہشیں پہن کر!!
وقار عظیم کی خوبصورت تحریر. پڑھکر یوں محسوس ہوا کہ وہ وقت آپ کے سامنے ہے اور ان جھڑکوں کے باسی ہم سے کچھ کہ رہے ہیں. وقت کی رفتار اور ثقافت کی تبدیلی کی جھلک ہمیں نظر آتی ہے.
عمر دھامی