جنید جمشید کچھ عرصہ قبل ایک ٹی وی پروگرام میں خواتین کی آزادانہ نقل و حرکت پر اعتراض کر چکے ہیں جس کے بعد انہیں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، تاہم ان کی جانب سے اس امر پر خواتین یا معاشرے سے معافی نہیں مانگی گئی۔ چند روز قبل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک واقعہ سے متعلق سامنے آنے والی ایک ویڈیو پر جنید جمشید کی جانب سے فوری معذرت طلب کیا جانا یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ کسی بھی فرد پر توہین مذہب یا توہین رسالت کا الزام اسے اپنے موقف، نظریہ، مسلک یا عمل سے دست بردار ہونے پر مجبور کر سکتا ہے۔
جنید جمشید کے خواتین سے متعلق افکار نہ صرف دقیانوسی اور قابل اعتراض بلکہ غیر انسانی بھی ہیں تاہم انہیں مذہب اور تبلیغ کی آڑ میں تب تک ایسے خیالات کے اظہار میں کسی روکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا جب تک کہ علماء کے ایک اور گروہ کی جانب سے ان پر توہین کے الزامات عائد نہیں کیے گئے۔
جنید جمشید کے خواتین سے متعلق افکار نہ صرف دقیانوسی اور قابل اعتراض بلکہ غیر انسانی بھی ہیں تاہم انہیں مذہب اور تبلیغ کی آڑ میں تب تک ایسے خیالات کے اظہار میں کسی روکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا جب تک کہ علماء کے ایک اور گروہ کی جانب سے ان پر توہین کے الزامات عائد نہیں کیے گئے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ جنید جمشید کے افکار کا علمی جواب دینے کی بجائے انہیں ایک متنازعہ قانون کا سہارا لیتے ہوئے محض ایک الزام عائد کرکے اپنی بات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا ہے، یہ صورتحال جہاں تشویش ناک ہے وہیں جنید جمشید کو بیک وقت مظلوم اور قصور وار بھی ٹھہرا رہی ہے۔ ایک جانب جنید جمشید اپنے خواتین سے متعلق فرسودہ اور توہین آمیز افکار سے منحرف ہونے کو تیار نہیں وہیں وہ ایک ایسے قانون کی زد میں آنے کے باعث مظلوم بھی ہیں جو پاکستان میں کسی بھی فرد سے انتقام لینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف جنید جمشید کی جانب سے خواتین سے متعلق اپنے افکار پر معذرت کرنے کی بجائے علماء کے ایک گروہ کے دباو پر اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر بھی اعتراض کیا جسا سکتا ہے۔ گو کہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے اور اس پر معافی مانگنے کا رحجان قابل ستائش ہے تاہم بادی النظر میں یہ معافی خواتین سے متعلق اپنے افکار پر نہیں بلکہ مبینہ طور پر توہین کا مرتکب ہونے پر مانگی گئی ہے۔ توہین کے الزامات کے تحت معاف مانگنے کے حوالے سے یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس ضمن میں کیا معافی مانگنا سبھی کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے ؟ جیو ٹی وی کے معاملہ میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ معافی مانگنے کا عمل مذہبی علماءکی تشفی نہیں کر سکا۔
جنید جمشید کے حالیہ واقعہ سے قبل جیو ٹیلی وژن نیٹ ورک کے پروگرام اٹھو جاگو پاکستان میں پیش کی جانے والی قوالی کو بنیاد بنا کر شائشتہ لودھی، میر شکیل الرحمن ، وینا ملک اور ان کے شوہر کے خلاف قائم کیے جانے والے مقدمات کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ الزام لگنے کے فوراً بعد الزام ثابت کیے بغیر ہی عوامی ردعمل کے خوف سے معافی مانگنے کا رحجان بھی تشویش ناک ہے۔ یہ صورت حال جہاں ایک طرف آزادی اظہار رائے کے منافی قرار دی جا سکتی ہے وہیں مذہبی قوانین کے غلط استعمال کو بڑھاوا دینے کا باعث بھی بن رہی ہے۔ اس رحجان کے تحت ممکن ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، خلافت راشدہ اور کربلا کے واقعات سے متعلق متنازعہ تاریخی افکار کا حامل ہونے کی بناء پر کل کلاں کو تمام فرقہ ایک دوسرے پر توہین کے الزامات عائد کرنا شروع کر دیں۔
دوسری طرف جنید جمشید کی جانب سے خواتین سے متعلق اپنے افکار پر معذرت کرنے کی بجائے علماء کے ایک گروہ کے دباو پر اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر بھی اعتراض کیا جسا سکتا ہے۔ گو کہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے اور اس پر معافی مانگنے کا رحجان قابل ستائش ہے تاہم بادی النظر میں یہ معافی خواتین سے متعلق اپنے افکار پر نہیں بلکہ مبینہ طور پر توہین کا مرتکب ہونے پر مانگی گئی ہے۔ توہین کے الزامات کے تحت معاف مانگنے کے حوالے سے یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس ضمن میں کیا معافی مانگنا سبھی کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے ؟ جیو ٹی وی کے معاملہ میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ معافی مانگنے کا عمل مذہبی علماءکی تشفی نہیں کر سکا۔
جنید جمشید کے حالیہ واقعہ سے قبل جیو ٹیلی وژن نیٹ ورک کے پروگرام اٹھو جاگو پاکستان میں پیش کی جانے والی قوالی کو بنیاد بنا کر شائشتہ لودھی، میر شکیل الرحمن ، وینا ملک اور ان کے شوہر کے خلاف قائم کیے جانے والے مقدمات کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ الزام لگنے کے فوراً بعد الزام ثابت کیے بغیر ہی عوامی ردعمل کے خوف سے معافی مانگنے کا رحجان بھی تشویش ناک ہے۔ یہ صورت حال جہاں ایک طرف آزادی اظہار رائے کے منافی قرار دی جا سکتی ہے وہیں مذہبی قوانین کے غلط استعمال کو بڑھاوا دینے کا باعث بھی بن رہی ہے۔ اس رحجان کے تحت ممکن ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، خلافت راشدہ اور کربلا کے واقعات سے متعلق متنازعہ تاریخی افکار کا حامل ہونے کی بناء پر کل کلاں کو تمام فرقہ ایک دوسرے پر توہین کے الزامات عائد کرنا شروع کر دیں۔
معاملہ نہ جنید جمشید کی معافی کا ہے نہ ان کے استاد محترم مولانا طارق جمیل کی جانب سے تنبیہ کا بلکہ خواتین سے متعلق مذہبی ذہنیت اورتوہین مذہب کے قوانین کے بے جا استعمال کا ہے
مولانا طارق جمیل کی جانب سے جنید جمشید سے علیحدگی تب بھی ظاہر کی جانی چاہیے تھی جب وہ عورت سے متعلق توہین آمیز افکار کی تبلیغ کر رہے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ کے انداز بیان جہاں ایک طرف (نعوذباللہ) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت کی توہین کا پہلو نکلتا ہے وہیں جنید جمشید عورت کے ٹیڑھی پسلی سے ہونے اور اس کی فطرت میں کجی ہونے کے حوالے سے کی جانے والی گفتگو میں ہر خاتون کی بطور عورت اور بطور انسان توہین کرنے کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔
معاملہ نہ جنید جمشید کی معافی کا ہے نہ ان کے استاد محترم مولانا طارق جمیل کی جانب سے تنبیہ کا بلکہ خواتین سے متعلق مذہبی ذہنیت اورتوہین مذہب کے قوانین کے بے جا استعمال کا ہے۔ جنید جمشید کیا اس واقعہ کے بعد خواتین سے متعلق اپنے افکار تبدیل کرتے ہوئے خواتین کو کم تر درجہ کا حامل انسان قرار دینے پر بھی معافی مانگیں گے یا نہیں؟ کیا طارق جمیل صاحب سرزنش کرتے ہوئے کہیں گے کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق اپنے متنازعہ بیان پر ہی نہیں بلکہ خواتین کی نقل و حرکت اوراس کے فطری ٹیڑھے پن کے بارے میں اپنے افکار پر بھی معذرت کریں؟
معاملہ نہ جنید جمشید کی معافی کا ہے نہ ان کے استاد محترم مولانا طارق جمیل کی جانب سے تنبیہ کا بلکہ خواتین سے متعلق مذہبی ذہنیت اورتوہین مذہب کے قوانین کے بے جا استعمال کا ہے۔ جنید جمشید کیا اس واقعہ کے بعد خواتین سے متعلق اپنے افکار تبدیل کرتے ہوئے خواتین کو کم تر درجہ کا حامل انسان قرار دینے پر بھی معافی مانگیں گے یا نہیں؟ کیا طارق جمیل صاحب سرزنش کرتے ہوئے کہیں گے کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق اپنے متنازعہ بیان پر ہی نہیں بلکہ خواتین کی نقل و حرکت اوراس کے فطری ٹیڑھے پن کے بارے میں اپنے افکار پر بھی معذرت کریں؟
2 Responses
he is such anti woman hate able character. ghatiya 3rd class ganda molvi. is ko bhi jootay parain gay tu damagh sahi ho jai ga
بہت خوب، جیتے رہیے، لکھتے رہیے۔۔۔