Laaltain

جنگ کے بعد

5 جنوری، 2018
Picture of مبشر احمد میر

مبشر احمد میر

مصنف: کازواؤ ایشی گرو

ترجمہ: مبشر احمد میر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلندو بالا درخت کی شاخوں میں اٹکی ہوئی، پھٹے ہوئے کمبل جیسی، کوئی چیز، جسے میں شام کے دھندلکے میں صحیح طور پر پہچان نہ پایا، ہوا میں پھڑپھڑا رہی تھی۔ اُکھڑا ہوا ایک اور درخٹ جھاڑیوں پر اوندھا پڑا ہوا تھا۔ درختوں کی ٹوٹی ہوئی ٹہنیاں اور پتے ہر طرف بکھرے ہوئے تھے۔ میرے ذہن میں جنگ، تباہی اور بربادی کا خیال آیا، جسے میں ہمیشہ سے دیکھتا آیا تھا، چناں چہ میں نے کچھ کہے بنا اپنی نظریں باغیچے پر گاڑ دیں۔ جب کہ میری دادی بتا رہی تھیں کہ اس صبح ‘کاگوشی ما’ میں سمندری طوفان نے کتنا نقصان پہنچایا ہے۔

چند دنوں کے اندر باغیچے کی صفائی کر دی گئی، ٹوٹے ہوئے درخت کو کاٹ کر ٹہنیوں اور شاخوں سمیت ایک دیوار کے ساتھ رکھ دیا گیا۔ تب مجھے پہلی مرتبہ جھاڑیوں کے درمیان، پتھر کی سلوں سے بنی سیڑھیوں کے آثار، باغیچے کی پشت پر موجود درختوں کی جانب جاتے دکھائی دیے۔ اس وقت ان جھاڑیوں پر حال ہی میں پڑنے والی آفت کے کچھ آثار باقی تھے۔ تاہم ان کی شاخیں بھرپور اور شان دارسرخ، نارنجی اور جامنی رنگوں کے پھولوں سے لدی ہوئی تھیں، اتنے خوب صورت پھول، میں نے ٹوکیو میں، نہیں دیکھے تھے۔ مختصراً، کہا جا سکتا ہے کہ باغیچے کی اس شکستہ جگہ سے کوئی مناسبت نہیں تھی، جس کی جھلک میں نے اپنی آمد کی رات دیکھی تھی۔

مکان کے برآمدے اور سیڑھیوں کے آغاز کے درمیان سبزے کا ہموار ٹکڑا تھا۔ وہاں ہر صبح سورج کے بلند ہونے سے پہلے میرے دادا اپنی تنکوں والی چٹائی بچھا کر ورزش کرتے تھے۔ میں باغیچے سے آنے والی آوازوں سے جاگتا، جلدی جلدی کپڑے بدلتا اور باہر جاتا، جہاں میں صبح کی روشنی میں اپنے دادا کے وجود کو ڈھیلے ڈھالے کمیونو میں ورزش کرتے دیکھتا۔ وہ زور لگاتے ہوئے اپنے جسم کو موڑتے اور کھینچتے، پھر جس وقت وہ ایک ہی مقام پر کھڑے کھڑے دوڑ رہے ہوتے تو ان کے قدم ہلکے ہوتے۔ میں معمول کی ان ورزشوں کے دوران خاموشی سے بیٹھ کر انتظار کرتا رہتا۔ اس دوران سورج اتنا بلند ہو چکا ہوتا کہ دیوار کے اوپر سے اس کی روشنی باغیچے میں پہنچ جاتی اور برآمدے میں میرے ارد گرد پالش کیے ہوئےلکڑی کے تختے اس روشنی سے دمکنے لگتے۔ پھر، آخر میں میرے دادا کا چہرہ تن جاتا اور وہ جوڈو کی مشق کرتے، جس میں تیزی سے مڑنے، یک لخت ساکن ہونے اور سب سے بڑھ کر کسی کو پھینکنے کے ایکشن ہوتے، ہر ایکشن کے ساتھ ‘ہا!’ کی تیز آواز ہوتی۔ میری نظروں کے سامنے، وہ اپنی چابک دستی سے، ہر جانب سے خود پر، نظر نہ آنے والے حملہ آوروں کو، بے بس کرتے ہوئے، گرانے میں مصروف ہوتے۔

ہر سیشن کے اختتام پر دادا پتھریلی سیڑھیوں کے راستے باغیچے کے سب سے بڑے درخت، جو عقبی دیوار کے ساتھ تھا، سے نبرد آزما ہونے جاتے۔ کئی سیکنڈ تک وہ درخت کے سامنے بالکل ساکن کھڑے رہتے۔ پھر اچانک نعرہ زن ہو کر اس پر جھپٹتے اور اپنی پشت پر اٹھا کر پھینکنےکی کوشش کرتے۔ حملے کے اس انداز کو وہ چار یا پانچ مرتبہ دہراتے۔ ہر مرتبہ چند سیکنڈ بالکل بے حس و حرکت رہنے کے بعد، وہ یوں جھپٹتے، جیسے درخت کو بے خبری میں دبوچ رہے ہوں۔

جوں ہی دادا کپڑے بدلنے اندر جاتے، میں ان ورزشوں کو دہرانے کی خاطر باغیچے میں پہنچ جاتا، جو میں نے ابھی ابھی دیکھی ہوتی تھیں۔ ان کا اختتام مشقوں کی مدد سے ایک منظر تخلیق کرنے پر ہوتا۔ یہ منظر جو ہمیشہ ایک جیسے پلاٹ کی مختلف صورتوں میں ہوتا۔ اس کا آغاز ہمیشہ رات کو میرے اور دادا کے ‘کاگوشی ما’ ریلوے سٹیشن کے عقبی راستے سے گھر جاتے ہوئے ہوتا۔ اندھیرے میں آدمی برآمد ہوں گے اور ہمیں رکنا پڑے گا۔ ان کا لیڈر آگے بڑھے گا اور شراب کے نشے سے لڑکھراتی آواز میں ہم سے رقم کا مطالبہ کرے گا۔ دادا انھیں اطمینان سے سمجھائیں گے کہ ہمیں جانے دے، ورنہ ان کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ اس پر اندھیرے میں ہماری چاروں جانب قہقہہے۔۔۔ بےہودہ شیطانی قہقہہے۔۔۔ سنائی دیں گے۔ دادا اور میں بے فکری سے ایک دوسرے کو آنکھوں آنکھوں میں اشارہ کرتے ہوئے پشت سے پشت ملا کر پوزیشن سنبھالیں گے۔ پھر ہر جانب سے بے شمار حملہ آور ہم پر ٹوٹ پڑیں گے۔ اور اس باغ میں ہم، دادا اور میں ہم آہنگی کے ساتھ، ایک ایک کی ٹھکائی کرتے ہوئےانھیں بے بس کر دیں گے۔ آخر میں ہم اپنے چاروں طرف پڑے انسانی جسموں کو غور سے دیکھیں گے، پھر دادا اشارہ کریں گے اورہم اپنے راستے پر چل دیں گے۔ یقیناً! ہم کسی نوع کی بے چینی کا اظہار نہیں کریں گے اور اس بارے میں کوئی بات کیے بغیر گھر کی جانب چل پڑیں گے۔

کبھی کبھی، ایسا بھی ہوتا کہ ان لڑائیوں کے دوران میرے دادا، دادی کی گھریلو ملازمہ نوریکو (Noriko) ، مجھے ناشتے کے لیے آواز دیتیں۔ بہ صورتِ دیگر، میں اپنا کام اسی ترتیب سے مکمل کرتا، جس ترتیب سے دادا نے کیا ہوتا تھا۔ میں درخت تک جاتا، چند ثانیےاس کے سامنے ساکن کھڑا رہتا، پھر اچانک جھپٹ کر اس سے لپٹ جاتا۔ بارہا اس منظر میں، میں سچ مچ درخت کو اکھیڑ کر، اپنے دادا کی حیران آنکھوں کے سامنے، جھاڑیوں پر پھینک دیتا۔ تاہم،حقیقت میں یہ درخت سمندری طوفان سے اکھڑ جانے والے درخت سے کہیں زیادہ مضبوط تھا، اور سات سال کا بچہ ہونے کے باوجود میں نے اس نظارے کو دوسرے ممکنات کے طور پر نہیں، بلکہ امکان کے طور پر قبول کیا تھا۔

میرا خیال نہیں کہ میرے دادا بہت امیر تھے، لیکن ٹوکیو میں جو حالات میں نے دیکھے تھے، ان کے مقابلے میں دادا کے گھر پر زندگی بہت آرام دہ تھی۔ وہاں میں نو ریکو کے ساتھ کتابیں، کھلونے اور نئے کپڑے خریدنے جاتا اور طرح طرح کے کھانے، جو اگرچہ اب معمولی لگتے ہیں، لیکن، جنھیں میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ چکھا، کھاتا تھا۔ مکان وسیع نظر آتا تھا، حالاں کہ اس کی ایک جانب اتنی ٹوٹ پھوٹ چکی تھی کہ رہائش کے قابل نہیں تھی۔ میری آمد کے چند دن بعد دادی نے مجھے مختلف کمروں میں سجائی گئی تصویریں اور آرائشی اشیا دکھانے کے لیے مکان کا چکر لگوایا۔ جب بھی مجھے کوئی ایسی تصویر دکھائی دیتی، جو مجھے اچھی لگتی، میں اس کی طرف اشارہ کر کے سوال کرتا، ” کیا اسے میرے دادا نے بنایا ہے؟” لیکن جب ہم گھر میں سجائی گئی بہت سی تصویریں میں سے ہر تصویر دیکھ چکے تو ان میں سے ایک بھی میرے دادا کے ہاتھ کی بنی ہوئی نہیں تھی۔

“لیکن میرا خیال ہے کہ او جی (Oji ) ایک مشہور مصور تھے۔ ان کی تصویریں کہاں ہیں؟”

“اچی رو سن(Ichiro-San)! کیا تم کچھ کھاؤ گے؟”

“آئل پینٹنگز، اسی وقت دکھائیں۔”

دادی نے حیرت سے مجھے دیکھا، “میں سمجھی۔” وہ کہنے لگیں، “میرا خیال ہے، یہ اچی رو کی پھوپھی ہے، جس نے اسے اس کے دادا کے بارے میں بتایا۔”

ان کے رویے نے کوئی ایسی بات تھی، جس نے مجھے خاموش کر دیا۔

“میں سوچ رہی ہوں، اچی رو کی پھوپھی نے اسے اور کیا بتایا ہے۔”

“انھوں نے صرف اتنا بتایا تھا کہ او جی ایک مشہور مصور تھے۔ یہاں ان کی تصویریں کیوں نہیں ہیں؟”

“اس نے اور کیا کہا تھا، اچی رو؟”

“ان کی تصویریں یہاں کیوں نہیں ہیں؟ مجھے اس سوال کا جواب چاہیے۔”

دادی مسکرائیں، “میرا خیال ہے، انھیں یہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ہم انھیں پھر کبھی دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن تمہاری پھوپھی کَہ رہی تھی کہ تم سکیچ اور پینٹنگ بنانے میں بہت دل چسپی رکھتے ہو۔ اس نے مجھے بتایا ہے کہ تم انتہائی با صلاحیت ہو۔ اچی رو سن! اگر تم اپنےدادا سے کہو، مجھے یقین ہے کہ وہ تمھیں سکھانے میں خوشی محسوس کریں گے۔”

“مجھے کسی استاد کی ضرورت نہیں۔”

“ناراض کیوں ہوتے ہو۔ یہ تو بس ایک مشورہ ہے۔ شاید، اب تم کچھ کھانا پسند کرو گے۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر ایسا ہوا کہ میرے دادا نے میرے کہے بنا تصویریں بنانے میں میری مدد کرنا شروع کر دی۔ ایک گرم دن میں برآمدے میں بیٹھا واٹر کلر سے ایک تصویر بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ تصویر ٹھیک سے نہیں بن رہی تھی۔ جھنجھلا کر میں اسے پھاڑنے والا تھا کہ میرے دادا برآمدے میں آ نکلے اور میرے قریب ایک کشن رکھ کر اس پر بیٹھ گئے۔

“اچی رو، میری وجہ سے اپنا کام نہ روکو۔” وہ تصویر دیکھنے کے لیے آگے جھکے لیکن میں نے اپنے بازو کی آڑ میں اسے چھپا لیا۔ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے،”ٹھیک ہے۔ جب یہ مکمل ہو جائے گی تو میں اسے دیکھ لوں گا۔”

نو ری کو قہوہ لے کر باہر آئیں، اسے پیالی میں انڈیلا، اور واپس چلی گئیں۔ دادا اطمینان سے بیٹھ کر قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے باغیچے کو دیکھنے لگے۔ ان کی موجودگی سے میں محتاط ہو گیا اور میں نے خود کو تصویر بنانے میں مصروف ظاہر کیا۔ تاہم، چند منٹ بعد میں بے چین ہو گیا اور برش کو برآمدے سے باہر پٹخ دیا۔ میرے دادا نے اپنا رخ میری جانب کیا۔

“اچی رو! تم ہر طرف رنگ پھینک رہے ہو۔ اگر نو ری کو نے دیکھ لیا تو وہ تم سے سخت ناراض ہو گی۔” وہ آہستہ سے بولے۔

“مجھے کوئی پرواہ نہیں۔”

وہ ہنسے اور ایک مرتبہ پھر تصویر دیکھنے آگے جھکے۔ میں نے اس بار بھی اسے چھپانا چاہا، لیکن انھوں نے میرا بازو ایک جانب ہٹا دیا۔

“اتنی بری نہیں۔ تم اس پر اتنےجھنجھلائے ہوئے کیوں ہو؟”

“تصویر واپس دیں۔ میں نے اسے پھاڑناہے۔”

میری پہنچ سے دور رکھتے ہوئے وہ اس کا جائزہ لے رہے تھے۔ “یہ تو بالکل خراب نہیں۔” کچھ سوچتے ہوئے وہ کہنے لگے، “تمھیں اتنی جلدی ہار نہیں ماننی چاہیے۔ دیکھو! او جی، تمہاری تھوڑی سی مدد کرے گا۔ پھر تم کوشش کر کے اسے مکمل کر لینا۔”

برش، ہم سے تھوڑی دور فرش پر گرا ہوا تھا، دادا اسے اٹھانے کے لیے اٹھے۔ اسے اٹھا کر اپنی انگلیوں کے سروں سے سہلایا، گویا اسے تازہ دم کر رہے ہوں۔ پھر واپس آ کر بیٹھ گئے اور چند لمحوں تک تصویر کو غور سے دیکھتے رہے۔ انھوں نے برش کو پانی سے تر کیا اور دو یا شاید تین رنگوں کو اس سے چھوا اور گیلے برش کو ایک ہی حرکت میں میری تصویر پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھینچ کر لے گئے۔ اس ایک حرکت سے ہلکے اور گہرے رنگوں کی چھوٹی چھوٹی پتیوں، خوشوں اور گچھوں کا ایک سلسلہ نمودار ہو گیا۔

“لو، اب تم کوشش کر کے اسے مکمل کرو۔”

میں نے پوری کوشش کی کہ مرعوب دکھائی نہ دوں، لیکن میرا شوق اس کارنامے کو دہرانے سے نہ رک سکا۔ چناں چہ، جب میرے دادا قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے باہر دیکھنے لگے، میں نے برش کو پانی اور رنگوں میں ڈبویا اور اسے دہرانے کی کوشش کی، جو میں نے تھوڑی دیر پہلے دیکھا تھا۔

میں کاغذ پر چند موٹی بیلیں بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ دادا نے اس حرکت کو دیکھا اور یہ سمجھتے ہوئے کہ میں اپنی تصویر مٹا رہا ہوں، اپنا سر ہلایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابتدا میں، میں سمجھتا تھا کہ مکان کو پہنچنے والا نقصان سمندری طوفان کا نتیجہ ہے، لیکن جلد ہی مجھے علم ہوا کہ اس کا بڑا سبب جنگ تھی۔میرے دادا مکان کے اس حصّے کو نئے سرے سے تعمیر کر رہے تھے، کہ، سمندری طوفان نے مچان توڑ دی، اور، پچھلے ایک سال میں انھوں جتنے حصّے کی مرمت کی تھی، اس کا بڑا حصّہ پھر سے کھنڈر بنا دیا۔ جو کچھ ہوا، اس پر وہ کچھ جھنجھلائے، پھر میری آمد کے بعد آنے والے ہفتوں کے دوران انھوں نے مستقل مزاجی سے مکان کی مرمت کا کام جاری رکھا۔ وہ روزانہ غالباً دو سے تین گھنٹے کام کرتے۔ کبھی کبھی ان کی معاونت کے لیے مزدور بھی ہوتے، لیکن بالعموم وہ تنہا کام کیا کرتے۔ ہتھوڑا یا آرا چلاتے ہوئے وہ اکیلے ہوتے تھے۔ اس معاملے میں انھیں کوئی جلدی نہیں تھی۔ مکان کے باقی حصّوں میں کافی جگہ تھی۔ تعمیری سامان کی کمی کی صورت میں کام رک جایا کرتا۔ بسا اوقات وہ کیلوں کے ڈبے یا لکڑی کے کسی خاص ٹکڑے کے لیے کئی کئی دن انتطار کرتے۔

مکان کے شکستہ حصّے میں صرف ایک کمرا زیرِ استعمال تھا۔ یہ غسل خانہ تھا، جو بالکل خالی تھا۔ اس کا فرش کنکریٹ کا تھا، جس میں ایک نالی بنی ہوئی تھی، تاکہ بیرونی دیوار کے نیچے سے پانی باہر نکل سکے۔ اس کی کھڑکیاں باہر مچان اور بکھری اینٹوں، پتھروں کی جانب کھلتی تھیں۔ جس سے انسان خود کو گھر کی بجائے بیرونی حصّے میں محسوس کرتا۔ تاہم، دادا نے اس کے کونے میں لکڑی کا ایک گہرا ٹب بنا لیا تھا، جس میں تین یا شاید جار فٹ بھاپ چھوڑتا، گرم پانی بھرا جا سکتا تھا۔ ہر روز، رات کو بستر میں جانے سے پہلے میں دروازہ کھسکا کر دادا کے پاس جاتا اور پھر اسے بند کر کے واپس آتا۔ میں کمرے کو بھاپ سے بھرا ہوا پاتا۔ کمرے میں سوکھی مچھلیوں جیسی خوشبو، جو میرے خیال میں بوڑھے آدمی کے جسم سے ملتی جلتی ہے، رچی ہوئی ہوتی۔ دادا گردن تک گرم پانی میں ڈوبے نہا رہے ہوتے۔ میں بھاپ سے بھرے اس کمرے میں کھڑا ہو کر، عموماً مختلف موضوعات، جن پر کسی اور سے بات نہ کرتا تھا، پر ان سے باتیں کرتا۔ دادا خاموشی سے سنتے رہتے، پھر بھاپ کے مرغولوں کے عقب سے ٹھہرے ہوئے مضبوط لہجے میں جواب دیتے۔

“اچی رو! اب یہ تمہارا گھر ہے۔” وہ کہتے، “بڑا ہونے تک تمھیں اسے چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد بھی تم چاہو تو یہاں رہ سکتے ہو۔ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ قطعاً! کوئی ضرورت نہیں۔”

ایسی ہی ایک رات غسل خانے میں، میں نے دادا سے کہا۔ “جنگ کے دوران ہمارے فوجی سب سے بہتر لڑنے والے تھے۔”

“واقعی، ہمارے جوان انتہائی پرعزم تھے۔ “انھوں نے کہا، “سب سے دلیر، شاید،انتہائی بہادر سپاہی، لیکن بسا اوقات بہترین سپاہی بھی ہار جاتے ہیں۔”

“کیوں کہ دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔”

“کیوں کہ دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے، اور کیوں کہ دشمنوں کے پاس زیادہ ہتھیار ہوتے ہیں۔”

“جاپانی، جب وہ شدید زخمی ہوتے، اس وقت بھی لڑ سکتے تھے۔ کیا وہ نہیں لڑ سکتے تھے؟ حالاں کہ وہ پرعزم تھے۔”

“ہاں! ہمارے فوجی جوان اس حالت میں بھی لڑے، جب وہ شدید زخمی ہوتے تھے۔”

“اوجی، دیکھیں!”

میں نے، غسل خانے میں، دشمنوں میں گھرے ہوئے نہتے جنگجو کا ایکشن بنایا۔ جب بھی کوئی گولی مجھ سے ٹکراتی، میں دم بھر کو رکتا، پھر لڑنا شروع کر دیتا۔۔۔ “ہا! ہا!”

میرے دادا نے قہقہہ لگایا۔ پانی سے ہاتھ نکالے اور تالی بجا کر داد دی۔ حوصلہ افزائی پا کر میں آٹھ، نو، دس گولیوں تک لڑتا چلا گیا۔ میں سانس بحال کرنے کے لیے تھوڑا سا رکا تو اس وقت بھی دادا تالیاں بجاتے ہوئے ہنس رہے تھے۔

“او جی! تم جانتے ہو میں کون ہوں؟”

انھوں نے ایک مرتبہ پھر آنکھیں بند کیں اور پانی میں ڈبکی لگائی۔

“ایک سپاہی۔ ایک انتہائی بہادر جاپانی سپاہی۔”

“ہاں، لیکن کون سا؟ کون سا سپاہی؟ دیکھو، اوجی، بوجھو۔”

میں نے مشکل سے اپنے زخموں کو ایک ہاتھ سے دبایا اور لڑائی ختم کر دی۔ زیادہ گولیاں میری چھاتی اور پیٹ پر لگی تھیں، ان گولیوں نے مجھے زیادہ لہرانے پر عمل پر مجبور کیا۔

“ہا! ہا! میں کون ہوں، او جی؟ بوجھو! بوجھو!”

میں نے دیکھا کہ دادا کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور وہ دھند کے پیچھے سےغور سے مجھے دیکھ رہے ہیں۔ وہ ایسے دیکھ رہے تھے، جیسے میں کوئی بھوت ہوں۔ سردی کی ایک لہر میرے وجود سے گزر گئی۔ میں رک گیا اور جواباً انھیں گھورنے لگا۔ اس پر پھر سے ان کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی، مگر ان کی آنکھوں میں اجنبیت موجود رہی۔

“بس کافی باتیں ہو گئیں۔” وہ پھر سے پانی میں اپنا وجود ڈھیلا چھوڑتے ہوئے کہنے لگے، “بہت سے دشمن، بہت سے۔”

میں خاموش کھڑا رہا۔

“کیا بات ہے، اچی رو؟” انھوں نے سوال کرتے ہوئے قہقہہ لگایا، “اچانک، بالکل خاموش۔”

میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دادا نے دوبارہ آنکھیں موند لیں اور گہری سانس لی۔

“جنگ انتہائی ناگوار چیز ہے، اچی رو۔” انھوں نے تھکے تھکے لہجے میں کہا، “ناگوار۔۔۔ لیکن گھبراؤ نہیں۔ تم اب یہاں ہو۔ یہ تمہارا گھر ہے۔ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شدید گرمیوں کے دوران ایک روز، شام کے وقت میں اندر آیا تو دسترخوان پر ایک اور نشست دیکھائی دی۔ دادی نے دھیمی آواز میں بتایا، “تمہارے دادا کے ایک مہمان آئے ہیں۔ وہ تھوڑی دیر میں پہنچ رہے ہیں۔”

میری دادی، نوری کو اور میں کچھ دیر دسترخوان پر بیٹھے ان کا انتظار کرتے رہے۔ جب میں نے بے صبری کا مظاہرہ کیا تو نوری کو نے مجھے کہا کہ اپنی آواز کو دھیما رکھوں۔ “شریف آدمی ابھی آیا ہے۔ تمھیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ فوراً تیار ہو جائے۔”

“میرا خیال ہے، اتنے عرصے کے بعد ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔” دادی بڑبڑائیں۔

کافی انتظار کے بعد، دادا مہمان کے ہم راہ نمودار ہوئے۔وہ شاید پچاس سال کے لگ بھگ ہٹا کٹا آدمی تھا۔ اس زمانے میں مجھے بڑے آدمیوں کی عمر کا خاص اندازہ نہیں تھا۔ اس کی بھووں کا رنگ اتنا گہرا تھا کہ لگتا تھا، جیسے ان کو سیاہ کیا گیا ہو۔

کھانے کے دوران دادا اور مہمان زیادہ تر ماضی کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ کسی شخص کا ذکر ہوتا، دادا اسے کھرکھراتی آواز میں دہراتے۔ جلد ہی دسترخوان کا ماحول سنجیدہ ہو گیا۔ ایک مرتبہ دادی نے مہمان کو اس کی نئی ملازمت پر مبارک باد دی، لیکن اس نے انھیں روک دیا۔

“نہیں نہیں، محترمہ، آپ کی بہت مہربانی، لیکن آپ یہ قبل از وقت کَہ رہی ہیں۔ ملازمت کا ملنا یقینی نہیں۔”

“لیکن، جیسا کہ تمہارا کہنا ہے، ” دادا گفتگو میں شامل ہوئے، “کوئی دوسرا امیدوار تمہارے برابر اہلیت کا حامل نہیں ہے۔ چناں چہ اس نشست کے تم سب سے بڑھ کر حق دار ہو۔”

“آپ بھی انتہائی شفیق ہیں، سِن سئے!” مہمان نے کہا، “تاہم، یہ کسی جہت سے یقینی نہیں ہے۔ میں صرف پرامید رہتے ہوئے انتظار کر سکتا ہوں۔”

“اگر چند برس پہلے یہ معاملہ ہوتا،” دادا کہنے لگے، “میں تمھاری سفارش کر سکتا تھا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان دنوں میری رائے کی کوئی وقعت ہے۔”

“واقعی، سِن سئے۔” مہمان بولا، “آپ نے خود پر بڑی زیادتی کی ہے۔ آپ جیسے بڑے آدمی کا ہمیشہ احترام کیا جانا چاہیے۔”

اس پر دادا نے عجیب انداز میں قہقہہ لگایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھانے کے بعد میں نے دادی سے پوچھا، “وہ او جی کو سِن سئے کیوں کَہ رہا تھا؟”

“کسی زمانے میں وہ تمھارے دادا کا شاگرد رہا ہے۔ انتہائی ذہین شاگرد۔”

“جس زمانے میں او جی مشہور مصور تھے؟”

“وہ بہت بڑا آرٹسٹ ہے۔ تمھارے دادا کے قابل ترین شاگردوں میں سے ایک۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہان کی موجودگی کا مطلب میری اپنے دادا کی توجہ سے محرومی تھا۔ جس کے باعث میرا مزاج خراب رہتا۔ آنے والے دنوں میں جہاں تک میرا بس چلتا، میں مہمان سے گریز کرتا۔ اور مشکل سے ہی اس سے کوئی بات کرتا۔ پھر ایک دن پچھلے پہر میں وہ باتیں سنیں، جو برآمدے میں ہو رہی تھیں۔

دادا کے گھر میں ایک کمرا مغربی طرز کا تھا۔ اس میں اونچی کرسیاں اور میزیں تھیں۔ کمرے کی بالکونی باغیچے سے ہٹ کر تھی، جب کہ برآمدہ دو منزلیں نیچے تھا۔ میں اس کمرے میں اپنے آپ میں مگن تھا، لیکن کچھ دیر سے نیچے سے آنے والی آوازیں محسوس کر رہا تھا۔ پھر کسی بات۔۔۔ جیسے کوئی بحث کر رہا ہو۔۔۔ نے میری توجہ کو اپنی جانب مبذول کر لیا، جسے سننے کی خاطر میں باہر بالکونی میں آ گیا۔ یقینی طور پر مہمان اور دادا کے درمیان کسی معاملے میں اختلاف تھا۔ جہاں تک میں سمجھ پایا، معاملہ کسی خط کا تھا، جو مہمان میرے دادا سے لکھوانا چاہتا تھا۔

“بالکل، سِن سئے!” وہ آدمی کَہ رہا تھا۔ “شاید یہ بلا جواز نہیں۔ بہت عرصے تک میں یہ سمجھتا رہا ہوں کہ میرے کام کا اختتام ہو گیا ہے۔ یقیناً سِن سئے نہیں چاہیں گے کہ جو کچھ ماضی میں ہوا اس کے نتیجے میں مجھے ذلیل ہوتا دیکھیں۔”

کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ پھر مہمان بولا، “پلیز، مجھے غلط نہ سمجھیں سِن سئے! میں ہمیشہ کی مانند آپ کے ساتھ اپنے تعلق پر فخر کرتا ہوں۔ یہ صرف کمیٹی کی تسلی کے لیے ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔”

“تو یہ بات ہے، جس کے لیے تم میرے پاس آئے ہو۔” دادا کی آواز میں غصے سے زیادہ مایوسی تھی۔ “تو اتنے عرصے بعد تم اس کام سے آئے ہو۔ لیکن، تم اپنے بارے میں غلط بیانی سے کیوں کام لینا چاہتے ہو؟ تم نے جو کیا، غلط تھا یا صحیح،اسے دلیری اور فخر سے کیا۔ آدمی کو اپنے بارے میں جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔”

“لیکن، سِن سئے! شاید آپ بھول رہے ہیں۔ کیا آپ کو ‘کوبے’ کی وہ شام یاد ہے؟ ‘کی نوشی ٹا’ (Kinoshita-San) کے اعزاز میں ضیافت کے بعد، آپ مجھ سے ناراض ہو گئے تھے، کیوں کہ میں نے آپ سے اختلاف کی جرات کی تھی۔ کیا آپ کو یاد نہیں، سِن سئے؟

“کی نوشی ٹا کے اعزاز میں دعوت؟ بدقسمتی سے مجھے یاد نہیں آ رہا، ہم کس بارے میں جھگڑے تھے؟”

“ہمارے درمیان بحث ہوئی تھی، کیوں کہ میں نے یہ کہنے کی جرات کی تھی کہ سکول نے غلط راستہ اختیار کیا ہے۔ کیا آپ کو یاد نہیں سِن سئے؟ میرا کہنا تھا، ہمارا یہ کام نہیں کہ اپنی صلاحیتیں اس قسم کے کاموں میں استعمال کریں۔ جس پر آپ مجھ سے سخت ناراض ہوئے تھے۔ کیا آپ کو یاد نہیں سِن سئے؟”

ایک مرتبہ پھر خاموشی چھا گئی۔

“ارے ہاں!” آخر میں دادا کہنے لگے، “مجھے یاد آیا۔ یہ چینی مہم کا زمانہ تھا۔ جو قوم کے لیے ایک فیصلہ کن وقت تھا۔ یہ غیر ذمہ دارانہ ہوتا، اگر ہم اس طرح اپنے کام میں مصروف رہتے، جس طڑح ہم پہلے کرتے چلے آئے تھے۔”

“لیکن، میں نے ہمیشہ آپ سے اختلاف کیا۔ سِن سئے! اور میں اسے شدت سے محسوس کرتا تھا۔ میں نے واقعی سب کچھ آپ کے منہ پر کَہ دیا۔ اب میری آپ سے صرف اتنی درخواست ہے کہ آپ کمیٹی کو یہ حقیقت بتا دیں۔ صرف اتنا کہ ابتدا سے میرے نظریات کیا تھے اور یہ کہ میں نے اتنی ہمت دکھائی کہ کھلم کھلا آپ سے اختلاف کیا۔ یقناً، سِن سئے، یہ بلا جواز نہیں ہے۔”

گفتگو میں ایک مرتبہ پھر وقفہ آیا، پھر دادا گویا ہوئے، “جس زمانے میں میرا نام احترام سے لیا جاتا تھا، اس زمانے میں تم نے اس کا خوف فائدہ اٹھایا۔ اب میرے بارے میں دنیا مختلف رائے رکھتی ہے۔ تمھیں اسے بھی بھگتنا ہو گا۔”

کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر قدموں کی آہٹ اور کھڑکیاں بند کرنے کی آواز سنائی دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کے کھانے پر مجھے دادا اور ان کے مہمان کے درمیان تناؤ کے آثار دیکھنے کی توقع تھی، لیکن وہ دونوں ایک دوسرے سے انتہائی احترام سے پیش آ رہے تھے۔ اس رات، بھاپ سے بھرے غسل خانے میں، میں نے دادا سے دریافت کیا، “اوجی، اب آپ تصویریں کیوں نہیں بناتے؟”

پہلے وہ خاموش رہے، پھر بولے، “کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم تصویر بناتے ہو لیکن وہ صحیح نہیں بنتی، تم جھنجھلا جاتے ہو۔ کیا تمھارے ساتھ ایسا نہیں ہوتا؟ تم اپنی تصویر پھاڑنے لگے ہو اور او جی کو تمھیں روکنا پڑتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟”

“جی” میں نے کہا، اور جواب کا انتظار کرنے لگا۔ انھوں نے اپنی آنکھیں موندی ہوئی تھیں۔ وہ بولے تو ان کی آواز دھیمی اور تھکی ہوئی تھی۔ “تمھارے دادا کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ چیزوں کو صحیح نہیں کر پا رہے تھے۔ چناں چہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اسے ترک کر دیں۔”

“لیکن، مجھے آپ نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ تصویریں نہ پھاڑوں۔ آپ نےانھیں ہمیشہ مجھ سے مکمل کروایا ہے۔”

“یہ صحیح ہے، اچی رو! لیکن ابھی تم بہت چھوٹے ہو۔ تم بہتر ہو جاؤ گے۔”

اگلی صبح جب میں دادا کو ورزش کرتے دیکھنے برآمدے میں گیا تو سورج کافی چڑھ چکا تھا۔ میرے بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد، میرے پیچھے آہٹ ہوئی اور سیاہ کمیونو میں ملبوس مہمان نمودار ہوا۔ اس نے میرا حال پوچھا لیکن میں نے کوئی جواب نہ دیا تو مسکرایا،اور میرے پاس سے گزرتے ہوئے برآمدے کے کنارے تک پہنچ گیا۔ دادا نے اس کی جانب دیکھا اور ورزش روک دی۔

“ارے، اتنی صبح! مجھے امید ہے، میں نے تمھیں مایوس نہیں کیا۔” دادا، تنکوں والی چٹائی لپیٹنے کے لیے جھکے۔

“بالکل نہیں، سِن سئے! میں مزے سے سویا۔ لیکن پلیز میری وجہ سے ورزش سے نہ رکیں۔ نوری کو نے مجھے بتایا ہے کہ آپ، گرمیاں ہوں یا سردیاں، روزانہ ورزش کرتے ہیں۔ واہ، زبردست۔ نہیں، پلیز، سچ۔ میں بہت متاثر ہوا۔ میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ آج صبح اٹھ کر خود دیکھوں گا۔ اگر میں سِن سئے کے وظیفے میں رکاوٹ بنا تو خود کو کبھی معاف نہیں کر سکوں گا۔ پلیز، سِن سئے!”

چناں چہ، بادلِ ناخواستہ دادا پھر سے ورزش کرنے لگے۔ وہ ایک جگہ کھڑے دوڑ رہے تھے، لیکن جلد ہی رُک گئے اور کہنے لگے، “اتنی استقامت دکھانے پر شکریہ۔ واقعی، آج کے لیے اتنی کسرت بہت ہے۔”

“مگر یہاں موجود چھوٹے میاں مایوس ہوں گے۔ میں نے سنا ہے کہ وہ آپ کی جوڈو کی مشقوں سے بہت محظوظ ہوتے ہیں۔ اچی رو سِن! کیا ایسا نہیں؟”

میں نے یوں ظاہر کیا، جیسے کچھ نہیں سنا۔

“اگر آج ایسا نہ ہوا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔” دادا نے جواب دیا، “چلیں اندر چل کر ناشتے کا انتظار کریں۔”

“لیکن مجھے بھی مایوسی ہو گی، سِن سئے! مجھے امید تھی کہ آپ کی مہارت کی یادوں کو تازہ کر سکوں گا۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ مجھے جوڈو سکھانے کی کوشش کی تھی؟”

“واقعی؟ ہاں، مجھے یاد پڑتا ہے کہ کچھ ایسا ہوا تھا۔”

“اس زمانے میں ‘مورا ساکی’ (Murasaki )ہمارے ساتھ تھا۔ اور ‘ای شی دا’ (Ishida) بھی۔ ‘یوکوہاما’ (Yokohama)کے اس سپورٹس ہال میں، آپ کو یاد ہے سِن سئے؟ اگرچہ میں نے آپ کو گرانے کی کوشش کی لیکن اختتام میرے چارونے شانے چت ہونے پر ہوا۔ جس کے بعد میں سخت مایوس ہوا۔ چھوڑیں! سِن سئے، میں اور اچی رو آپ کو پریکٹس کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔”

دادا ہنسے اور اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ وہ چٹائی پر بے ڈھنگے انداز میں کھڑے تھے۔ “لیکن مجھے تو سخت کسرت چھوڑے عرصہ ہو گیا۔”

“آپ کو معلوم ہے، سِن سئے! جنگ کے دوران میں نے بھی جوڈو میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ ہم نے بہت سوں کو ہتھیار کے بغیر لڑنا سکھایا۔” یہ کہتے ہوئے مہمان نے میری جانب دیکھا۔

“مجھے یقین ہے، تم نے فوج میں بہت اچھی تربیت حاصل کی ہو گی۔” دادا نے کہا۔

“جیسا کہ میں نے کہا، میں نے مہارت حاصل کی۔ اس کے باوجود مجھے یقین ہے کہ اگر میں نے ایک مرتبہ پھر سِن سئے سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی تو میرا مقدر پہلے سے مختلف نہیں ہوگا۔ فوراً سے پیش تر چاروں شانے چت ہوں گا۔”

دونوں ہنسنے لگے۔

“مجھے یقین ہےکہ تم نے بہترین تربیت حاصل کی ہے۔” دادا بولے۔

مہمان ایک مرتبہ پھر اپنا رخ میری جانب کیا۔ میں نے اس کی آنکھوں کو ایک عجیب انداز میں مسکراتے دیکھا۔ “لیکن، سِن سئے کے سامنے وہ ساری تربیت بے سود ہو گی۔ میں جانتا ہوں، میرا نصیب وہی ہو گا، جو اس سپورٹس ہال میں تھا۔”

دادا چٹائی پر کھڑے رہے، تو، مہمان کہنے لگا، “سِن سئے! مجھے آپ کے معمول میں مخل نہیں ہونا چاہیے۔ ورزش کریں، جیسے، میں یہاں موجود نہیں ہوں۔”

“نہیں، واقعی، آج کے لیے اتنا بہت ہے۔” دادا نے ایک گھٹنا فرش پر ٹکایا اور چٹائی لپیٹنی شروع کی۔

مہمان نے برآمدے کے ستون سے کمر ٹکائی اور نظریں اٹھا کر آسمان کی جانب تکنے لگا۔

“مورا ساکی، ای شی ڈا۔۔۔ لگتا ہے زمانے بیت گئے۔” بہ ظاہر وہ خود سے مخاطب تھا، لیکن اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ دادا کے کانوں تک پہنچ جائے۔ دادا کی پیٹھ ہماری جانب تھی، کیوں کہ وہ چٹائی لپیٹنے میں مصروف تھے۔

“وہ سب چلے گئے۔ سِن سئے، میرے خیال میں اس دور کے صرف ہم۔۔۔ آپ اور میں۔۔۔ باقی بچے ہیں۔”

دادا نے گہری سانس لی، وہ مڑے بنا بولے، “ہاں! کتنا الم ناک ہے۔”

“یہ جنگ کتنی فضول تھی۔ اتنی بڑی غلطی۔” اجنبی کی نظریں دادا کی پشت پر تھیں۔

“ہاں! یہ المیہ ہے۔” دادا دھیمے سے بولے۔ تنکوں کی لپٹی چٹائی ان کے سامنے پڑی تھی۔ میں نے دیکھا، وہ زمین پر ایک مقام کو دیکھ رہے تھے۔

اس روز ناشتے کے بعد مہمان رخصت ہو گیا۔ اس کے بعد، وہ مجھے کبھی نظر نہیں آیا۔ دادا اس کے بارے میں گفتگو سے گریز کرتے۔ انھوں نے مجھے صرف وہی باتیں بتائیں، جو میں پہلے ہی جانتا تھا۔ البتہ مجھے نوری کو سے کچھ معلومات حاصل ہوئیں۔

جب وہ گھر کا سودا خریدنے جاتیں، میں اکثر ان کے ساتھ جاتا تھا۔ ایک ایسے ہی موقعے پر جب ہم گھر سے باہر تھے، میں نے ان سے پوچھا، “نوری کو، یہ ‘چینی مہم’ کیا تھی؟”

ظاہر ہے، وہ یہ سمجھیں کہ میں نے ایک معلوماتی سوال کیا ہے۔ چناں چہ انھوں نےوہی شفقت آمیز تفصلی لہجے میں بتانا شروع کیا، جو وہ اس وقت اختیار کیا کرتی تھیں، جب میں ان سے “سردیوں میں مینڈک کہاں چلے جاتے ہیں؟ قسم کے سوال کیا کرتا تھا۔ انھوں نے وضاحت کی، “بحرالکاہل کی جنگ سے قبل، جاپانی فوج نے چین میں ایک کامیاب مہم جوئی کی تھی۔ میں ان سے سوال کیا، “کیا اس میں کوئی بات غلط تھی؟” انھوں نے پہلی مرتبہ مجھے حیرت سے دیکھا۔ “نہیں، اس میں کوئی غلط بات نہیں تھی، لیکن اس وقت بہت سی دلیلیں دی گئی تھیں۔ البتہ اب کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ہماری فوج چین میں مداخلت نہ کرتی تو وہ جنگ نہ ہوتی۔” میں نے ایک اور سوال کیا، “کیا چین پر حملہ، فوج کا غلط قدم تھا؟” نوری کو بولیں، “اس میں ایسی کوئی غلط بات نہیں تھی۔ البتہ اس بارے میں کافی اختلاف تھا۔ جنگ کوئی اچھی چیز نہیں ہے، اب سب یہی مانتے ہیں۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گرمیوں کے دوران، دادا، زیادہ سے زیادہ وقت میرے ساتھ گزارتے۔ اتنا زیادہ کہ انھوں نے مکان کے شکستہ حصّے کی مرمت کا کام تقریباً چھوڑ دیا۔ ان کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں پینٹنگ اور تصویر کشی میں میری دل چسپی نے گہرے جنون کا روپ اختیار کر لیا۔ وہ مجھے سیر کے لیے باہر لے جاتے، اپنی منزل پر پہنچ کر ہم دھوپ میں بیٹھ جاتے۔ وہاں بیٹھ کر میں رنگوں سے نظارے کی تصویریں بناتا۔ بالعموم ہم آبادی سے کافی ہٹ کرکسی پہاڑی ڈھلان، جہاں لمبی گھاس اور اور وسیع خوب صورت منظر ہوتا، یا کسی بندرگاہ یا کسی نئی فیکٹری تک جاتے۔ پھر گاڑی پر گھر لوٹتے ہوئے ہم ان تصویروں کو دیکھتے، جو اس دن میں نے بنائی ہوتیں۔

اس وقت تک میرے دن کا آغاز برآمدے میں جا کر دادا کر ورزش کرتے دیکھنے سے ہوتا۔ البتہ، اب ہم نے اپنے صبح کے معمول میں چند نئے کام شامل کر لیے تھے۔ جس وقت دادا چٹائی پر اپنی کسرتوں کا دور مکمل کر لیتے، وہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہتے، “چلو آؤ! دیکھیں آج تم میں کتنا زور ہے؟” میں برآمدے سے نیچے اترتا، ان کی چٹائی کی طرف بڑھتا اور جس طرح انھوں نے سکھایا تھا، ان کے کمیونو کو، ایک ہاتھ سے کالر اور دوسرے سے کہنی کے قریب سے بازو، پکڑتا۔ پھر اس داؤ کو لگانے کی کوشش کرتا، جو انھوں نے مجھے سکھایا ہوتا اور کئی کوششوں کے بعد ان کو اپنی پشت پر اٹھا کر گرانے میں کامیاب ہوتا۔ اگرچہ میں جانتا تھا کہ وہ اپنے گرائے جانے میں میری مزاحمت نہیں کرتے تھے، اس کے باوجودمیں ان پر غلبہ پانے کی کوشش کرتا۔ وہ اس بات کا خیال رکھتے کہ ہر مرتبہ انھیں گرانے میں کامیاب ہونے کے لیے مجھے سابقہ کامیابی سے تھوڑا زیادہ زور لگانا پڑے۔ پھر ایک صبح ایسا ہوا کہ میں نے جتنا زور لگایا، دادا نے گرنے کی عنایت نہیں کی۔

“شاباش، اچی رو! ہمت نہ ہارو۔ تم کمیونو ٹھیک سے نہیں پکڑ رہے۔ کیا تم نے ٹھیک سے پکڑا ہے؟”

میں نے پھر سے پکڑا۔

“شاباش، ایک مرتبہ پھر سے پکڑو۔”

میں مڑ کر ایک مرتبہ پھر زور لگایا۔

“قریباً، قریباً، تم صرف ہاتھوں سے یہ نہیں کر سکو گے۔ او جی، ایک بڑا آدمی ہے۔ تمھیں اپنی پشت کا استعمال کرنا ہو گا۔”

میں نے ایک مرتبہ پھر کوشش کی، دادا پھر بھی نہ اٹھائے گئے۔ مایوس ہو کر میں نے کوشش ترک کر دی۔

“ہاں، شاباش! اتنی جلدی ہمت نہ ہارو۔ صرف ایک مرتبہ پھر کوشش کرو۔ ہر چیز ٹھیک سے کرو، اب ٹھیک ہے۔ یہاں، اب میں بے بس ہوں، اب پھینکو۔”

اب کی بار دادا نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور میری پیٹھ سے الٹ کر اپنی پشت کے بل گرے۔ وہ چٹائی پر اپنی آنکھیں بند کئے پڑے ہوئے تھے۔

“آپ نے مجھے ایسا کرنے دیا۔” میں نے ناگواری سے کہا۔

دادا نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ میں یہ سمجھ کر ہنسا، کہ وہ خود کو مردہ ظاہر کر رہے ہیں۔ پھر بھی میرے دادا نے کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔

“او جی!”

انھوں نے اپنی آنکھیں کھولیں، مجھے دیکھ کر مسکرائے، ان کی آنکھوں میں تذبذب کے آثار تھے۔ وہ دھیرے سے اٹھےاور ایک ہاتھ سے اپنی گُدی سہلائی۔ “واہ، واہ!” وہ بولے، “اس مرتبہ داؤ صحیح تھا۔” انھوں نے میرا بازو چھوا، لیکن فوراً ان کا ہاتھ گُدی کی جانب لوٹ گیا۔ پھر انھوں نے قہقہہ لگایا اور اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے۔ “ناشتے کے لیے چلیں۔”

“کیا آپ درخت تک نہیں جائیں گے۔”

“آج نہیں، آج تم نے او جی کو تھکا دیا۔”

میں نے سوچا، پہلی مرتبہ میں نے اپنے دادا کو ان کی مزاحمت کے باوجود گرایا ہے۔ مجھے اپنے اندر کامیابی کی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔

“میں کسرت کرنے درخت تک جا رہا ہوں۔” میں بولا۔

“نہیں، نہیں!” دادا نے مجھے اپنی جانب بلایا۔ “آؤ! اب کھانا کھاؤ۔ آدمی کو کھانا کھانا چاہیے، ورنہ وہ اپنی طاقت کھو بیٹھے گا۔” ان کا ہاتھ اس وقت بھی گُدی سہلا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خزاں کے آغاز میں پہلی مرتبہ مجھے اپنے دادا کا کام دیکھنے کا موقع ملا۔ میں مکان کی بالائی منزل کے مغربی کمرے میں پرانی کتابیں سمیٹنے میں نوری کو کی مدد کر رہا تھا کہ میں نے ایک الماری میں کئی لپٹے ہوئے بڑے سائز کے کاغذوں کو ایک ڈبے سے باہر جھانکتے دیکھا۔ میں نے ایک کاغذ باہر نکالا اور اسے میز پر پھیلایا، یہ مجھے کسی سینما پوسٹر جیسا لگا۔ میں نے غور سے اسے دیکھنا چاہا، لیکن یہ کافی مدت سے لپٹا ہوا تھا۔ میں اس کے بل نکالتے ہوئے اسے ہم وار نہ کر سکا۔ میں نے نوری کو سے کہا کہ اسے ایک جانب سے پکڑیں اور بل کھول کر دوسری جانب سے کھولنا شروع کیا۔

ہم دونوں نے پوسٹر دیکھا۔ اس میں ایک فوجی آفیسر، جس کے عقب میں جاپان کا فوجی جھنڈا لہرا رہا تھا، تلوار تھامے کھڑا تھا۔ تصویر کا پس منظر گہرا سرخ تھا، جو مجھے ان زخموں کا رنگ یاد دلاتے ہوئے ناگوار محسوس ہو رہا تھا، جب میری ٹانگ زخمی ہوئی تھی۔ تصویر کی نچلی جانب ایک کونے میں چینی رسم الخط میں کچھ لکھا ہوا تھا، جس میں سے میں صرف ‘جاپان’ کا لفظ پہچان سکا۔ میں نے نوری کو سے سوال کیا، “پوسٹر میں کیا لکھا ہے؟” وہ اس کے ایک اور حصّے کو دل چسپی سے دیکھ رہی تھیں۔ اس کے بجائے انھوں نے الجھے ہوئے لہجے میں عنوان پڑھا، “بزدلی کی باتوں کا وقت نہیں۔ جاپان کو آگے بڑھنا ہو گا”

“یہ کیا ہے؟”

“تمھارے دادا کی بنائی ہوئی تصویر، بہت پرانی ہے۔”

“او جی نے؟”

مجھے مایوسی ہوئی، کیوں کہ مجھے پوسٹر پسند نہیں آیا۔ آغاز سےان کے کام کے بارے میں میرا تصور کچھ اور رہا تھا۔

“ہاں، بہت پرانی، دیکھو، اس کونے میں ان کے دست خط ہیں۔”

تصویر کی نچلی جانب کچھ اور بھی لکھا ہوا تھا۔ نوری کو سر ہلا کر اسے پڑھنے لگیں۔

“کیا لکھا ہے؟” میں نے سوال کیا۔

وہ چہرے پر سنجیدگی لیے پڑھنے میں مصروف رہیں۔

“اس پر کیا لکھا ہے، نوری کو؟”

انھوں نے پوسٹر کا اپنا سرا چھوڑ دیا، جو لپٹ کر فوراً میرے ہاتھوں پر آ گیا۔ میں نے پھر سے اسے کھولنا چاہا، لیکن نوری کو کو اب اس میں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔

“اس پر کیا لکھا ہے، نوری کو؟”

“مجھے علم نہیں۔” انھوں نے کتابوں کی جانب مڑتے ہوئے کہا، “یہ بہت پرانا ہے۔ جنگ سے پہلے کا۔”

میں نے سوال پر زیادہ زور نہیں دیا اور سوچا کہ باقی باتیں دادا سے پوچھ لوں گا۔

اس روز میں، معمول کے مطابق، سونے سے پہلے غسل خانے میں گیا اور دروازے کے باہر سے دادا کو آواز دی۔ کوئی جواب نہیں آیا، چناں چہ میں نے بلند آواز میں انھیں پکارا۔ پھر میں نے اپنا کان دروازے سے لگا کر سُن گُن لینے کی کوشش کی۔ اندر گہری خاموشی تھی۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ دادا کو میرے پوسٹر دیکھنے کا پتا چل گیا ہے اور وہ مجھ سے ناراض ہیں۔ لیکن فوراً ہی خوف کی ایک لہر مجھ میں دوڑ گئی اور میں نے دروازہ کھسکا کر اندر جھانکا۔

غسل خانے میں بھاپ بھری ہوئی تھی۔ جند لمحے مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔ پھر مجھے دیوار والی جانب دادا دکھائی دیے۔ ان کے کندھے اور کہنیاں، جو ان کے جسم کو پانی سے نکالنے کی کوشش میں جکڑی ہوئی تھیں۔ وہ نہانے کے بعد ٹب سے نکلنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے تھے۔ ان کا جھکا ہوا سر لگ بھگ ٹب کے کنارے کو چھو رہا تھا۔ وہ بالکل ساکن تھے۔ جیسے ان کا وجود تھم گیا ہو اور وہ باہر نہ نکل سکتے ہوں۔

میں ان کی جانب دوڑتے ہوئے چلایا، “او جی!”

دادا نے کوئی حرکت نہ کی۔ میں نے آگے بڑھ کر انھیں چھوا، لیکن ڈر رہا تھا، کہ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے کندھے ڈھلک جائیں اور وہ پھر سے پانی میں گر جائیں۔

“او جی! او جی!” میں زور سے چلایا۔ْ

نوری کو دوڑتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں۔ پیچھے پیچھے دادی تھیں۔ ان میں سے ایک نے گھسیٹ کر مجھے ایک جانب کیا، اور دونوں زور لگاتے ہوئے دادا کو نکالنے لگیں۔ جب بھی میں نے ان کی مدد کرنے کی کوشش کی، مجھے کہا گیا کہ پیچھے ہٹ جاؤں۔ انھوں نے بڑی مشکل سے دادا کو باہر نکالا، پھر مجھے حکم دیا گیا کہ کمرے سے باہر نکل جاؤں۔

میں اپنے کمرے میں چلا گیا، گھر میں زور زور سے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ یہ سب آوازیں میرے لیے اجنبی تھیں۔ جب بھی میں باہر نکلنے کے لیے دروازہ کھولتا، کوئی مجھے سختی سے ڈانٹ کر واپس بستر میں جانے کا کہتا۔ میں دیر تک جاگتا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنے والے دنوں میں مجھے دادا کے پاس جانے کی اجازت نہیں ملی اور وہ بھی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلے۔ ہر روز صبح کے وقت ایک نرس گھر آتی اور سارا دن وہیں رہتی۔ میرے سوالات کا ہمیشہ یہی جواب ملتا کہ دادا بیمار ہیں اور دوبارہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ دوسروں کی مانند، کبھی کبھار ان کا بھی بیمار ہونا، غیر معمولی بات نہیں ہے۔

میں ہر روز، صبح اٹھنے کے بعد اس امید پر کہ دادا صحت یاب ہو کر پھر سے ورزش کر رہے ہوں گے، برآمدے میں چلا جاتا۔ جب وہ دکھائی نہ دیتے تو میں مایوس ہوئے بنا باغیچے میں بیٹھا رہتا۔ یہاں تک کہ نوری کو ناشتے کے لیے آواز دیتیں۔

پھر ایک دن، شام کے وقت مجھے بتایا گیا کہ میں اپنے دادا کے کمرے میں جا سکتا ہوں۔ مجھے متنبہ کیا گیا کہ ان سے میری ملاقات مختصر ہو گی۔ جب میں کمرے میں داخل ہوا، تو، نوری کو میرے ساتھ کچھ ایسے بیٹھیں، کہ، جوں ہی میں نے کوئی غلط حرکت کی، وہ مجھے باہر نکال دیں گی۔ کمرے میں ادویات کی بو رچی ہوئی تھی، ایک جانب نرس بیٹھی ہوئی تھی۔

دادا پہلو کے بل لیٹے ہوئے تھے۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور سر ہلایا، لیکن کچھ نہ بولے۔ مجھے یہ ملاقات کا ضابطہ محسوس ہوا، اور میں رک گیا۔ بالآخر میں نے کہا، “اوجی! آپ جلد صحت یاب ہو جائیں۔”

وہ ایک مرتبہ پھر مسکرائے، لیکن کچھ نہ بولے۔

“کل میں نے میپل کے پودے کا سکیچ بنایا ہے۔” میں بولا، “اسے آپ کے لیے لایا ہوں۔ میں اسے یہاں چھوڑ جاؤں گا۔”

“مجھے دکھاؤ!” دادا دھیمی آواز میں بولے۔

میں نے سکیچ نکالا۔ دادا نے اسے لیا اور پشت کے بل ہوئے۔ جب وہ کمر سیدھی کر رہے تھے، نوری کو بے چینی سے ہلیں۔

“شاباش!” وہ بولے، “زبردست!”

نوری کو نے تیزی سے ہاتھ بڑھا کر وہ سکیچ ان کے ہاتھ سے لے لیا۔

“اسے میرے پاس رہنے دو۔” دادا بولے، “میرا دل بہلا رہے گا۔”

نوری کو نے سکیچ ان کے بستر کے پہلو میں پڑی چٹائی پر رکھ دی اور مجھے کمرے سے باہر لے گئیں۔

کئی ہفتے ان سے ملنے کی اجازت ملے بغیر گزر گئے۔ میں اب بھی، باغیچے میں ان سے ملنے کی امید میں، صبح اٹھتا، لیکن، وہ وہاں نہ ہوتے۔ میرے دن طویل اور کھوکھلے ہو گئے تھے۔

پھر ایک صبح جب میں معمول کے مطابق باغیچے میں تھا کہ برآمدے میں دادا نمودار ہوئے۔ وہ بیٹھ رہے تھے کہ میں دوڑ کر ان سے لپٹ گیا۔

“اچی رو! کیا کر رہے ہو؟”

جذبات کے اظہار پر شرمندہ ہوتے ہوئے میں نے خود کو سنبھالا۔ اور ان کے نزدیک، اس انداز میں، جسے میں باوقار سمجھتا تھا، بیٹھ گیا اور کہا، “یوں ہی، ناشتے سے پہلے، ہوا خوری کرتے ہوئے باغیچے میں گھوم رہا تھا۔”

“اچھا!” دادا کی نظریں باغیچے کا چکر لگا رہی تھیں، جیسے ہر پودے اور چھاڑی کا جائزہ لے رہی ہوں۔ میری نظروں نے ان کی نظروں کا تعاقب کیا۔اس وقت باغیچے پر خزاں چھا چکی تھی۔ دیوار کے اوپر آسمان کا رنگ سیاہی مائل تھا، زمین پر گرے ہوئے پتے پھیلے تھے۔

“اچی رہ! یہ بتاؤ۔” وہ اب بھی باغیچے کو دیکھ رہے تھے۔ “تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟”

میں نے ایک لمحہ سوچا، پھر جواب دیا، “پولیس کا سپاہی۔”

“پولیس کا سپاہی!” دادا نے اپنا رخ میری جانب کیا۔ “یہ مردوں کے کرنے کا کام ہے۔”

“اگر مجھے کامیاب ہونا ہے تو مجھے سخت محنت کرنی ہو گی۔”

“محنت؟ پولیس کا سپاہی بننے کے لیے تم کیا کوشش کرو گے؟

“جوڈو کی محنت۔۔۔ کچھ دنوں سے میں ناشتے سے پہلے جوڈو کی پریکٹس کرتا ہوں۔”

میرے دادا کی نظریں باغیچے کی جانب مڑیں۔ “واقعی!” وہ بولے، “اصلی مردوں والا کام۔”

چند لمحے میں اپنے دادا کی جانب دیکھتا رہا۔ “او جی!” میں نے سوال کیا۔ “جب آپ میرے جتنے تھے تو آپ کیا بننا چاہتے تھے؟”

“جب میں تمھارے جتنا تھا؟” چند لمحے وہ باغیچے کو تکتے رہے، پھر بولے، “میرا خیال ہے، میں ایک مصور بننا چاہتا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں کبھی کچھ اور بننے کا سوچا ہو۔”

“میں بھی مصور بننا چاہتا ہوں۔”

“واقعی؟ تم تو اس وقت بھی بہت اچھے مصور ہو۔ اچی رو! تمھاری عمر میں، میں اتنا اچھا نہیں تھا۔”

“او جی! دیکھیں۔”

“تم کہاں جا رہے ہو؟” انھوں نے مجھے آواز دی۔

“دیکھیں، او جی! دیکھیں!”

میں دوڑتا ہوا باغیچے کی عقبی جانب گیا اور دادا کے درخت کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

“ہا !” میں نے تنے کو اپنے بازؤں میں لپیٹا اور اپنی پشت اس کی طرف کی۔ “ہا، ہا”

میں نے نظریں اٹھائیں، میرے دادا ہنس رہے تھے۔ انھوں نے دونوں ہاتھ اٹھا کر تالی بجائی، میں بھی ہنسا اور خوشی سے سرشار ہو گیا۔ مجھے میرے دادا واپس مل گئے تھے۔ میں ایک مرتبہ پھر درخت کی جانب مڑا اور اسے للکارا۔

“ہا! ہا!”

برآمدے سے دادا کے ہنسنے اور تالیاں بجانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *