میں اپنی آنکھیں بند رکھتا ہوں، اورپپوٹوں کے اَندر ہی اَندر ڈھیلے گھماتے ہوئے اُنہیں وہاں مرتکزکرنے کی کوشش کرتاہوں جہاں ایک قبر کا کتبہ ہے۔ اس کتبے پر کھدی ہوئی عبارت مجھے صاف نظر نہیں آرہی مگر ایسا ہے کہ میں گہری دُھند کے اَندر سے کتبہ پڑھنے کے جتن کررہاہوں۔
اپنی دونوں آنکھیں زور سے میچنے کی وجہ سے ان کے غلافوں پر اَن گنت چنٹیں پڑ گئی ہیں۔ میں سامنے میز پر پڑے کاغذ کی وسعت کا اندازہ اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی اور اُنگلیوں سے محسوس کرکے لگاتا ہوں اور کاغذ کے بائیں طرف پڑے قلم کو انگلیوں میں تھام کر چھوٹی انگلی کا ناخن کاغذ پر ٹیکتے ہوئے اُسے فضا میں ہی اوپر نیچے لہرا کر خود کو یقین دلاتا ہوں کہ میں لکھنے کے لیے پوری طرح تیار ہوں۔ اب میں کتبے پر کھدی ہوئی عبارت پر دھیان مرکوز رکھ سکتا ہوں۔ میں پڑھنے میں آنے والے لفظوں کو اپنے سامنے دھرے کا غذ پرمنتقل کرنا چاہتاہوں۔ بند آنکھوں کے گہرے لُطف کے ساتھ،قلم دَباکر لکھتے ہوئے؛ بالکل ویسے ہی جیسا کہ ریمنڈ کارور کی ایک کہانی میں ہوتا ہے۔جی ہاں،اُس کی کہانی ’’کیتھڈرل‘‘ میں۔بتاتا چلوں کہ اس کہانی کی آخری سطور میں راوی /کردار کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اوروہ اپنی بیوی کے پرانے دوست،جو مہمان بن کر اُن کے ہاں آیا ہوا ہے،کی نگرانی میں ایک موٹے سے کاغذ پر قلم دَبا دَبا کر کیتھڈرل کی عمارت اس کے جلال اور جمال سمیت بنا رہاہے۔ مہمان اندھا ہے اور اُس کی ہتھیلی میزبان کے قلم تھامنے والے ہاتھ کے اُوپر ہے۔
مجھے ریمنڈ کی کہانی کے اس بے مثال کردار کو اَندھا نہیں لکھنا چاہیے۔ اَندھا تو ہم ہر اُس شخص کو کہہ گزرتے ہیں جو سوچے سمجھے اور دیکھے بھالے بغیر کچھ بھی کیے چلا جاتا ہے۔ اَندھا دُھند، اَندھا بگلا، اَندھا رَاجاچوپٹ نگری اور اَندھا گاے بہرہ بجاے وغیرہ جیسے محاور ے بھی شایداس لیے بنا لیے گئے ہیں کہ لفظ اَندھے کا تعلق آنکھوں کی روشنی سے کہیں زیادہ آدمی کے اَندر کے اَندھیرے،ہڑبڑاہٹ فتاورپھوہڑ پن سے ہوتا ہے۔ گویا دَم بھر کو ٹھہر کر، صورت حال کو جانچ پرکھ کر کر یہ آنکھوں اَندھا بھی آگے بڑھتا تو اک دیکھنے والے کی طرح کا ہو سکتا تھا۔ ریمنڈکی کہانی کے اُس کردار کی بینائی نہیں تھی، مگر تھا وہ بلا کا فہیم اور سوجھ بوجھ کے معاملے میں حد درجے کا چوکس۔ میرا خیال ہے اگر میں اُسے اندھے کی بہ جائے نابینا لکھ دوں تو شایدآپ کو بھی اچھا لگے گا۔
خیر، محض کسی اندھے کو نابینا کہہ دینے سے صورت حال کو ڈھنگ سے نہیں سمجھا جاسکتا؛ یہ میں بھی جانتا ہوں۔ اب یہی لیجئے کہ مجھے ایک نابیناشخص کی طرح خود کو محسوس کرکے لکھنا ہے۔ مگر کسی ایسے کتبے کی تحریر کوسوچ سوچ کردیکھنا، گہری تاریکی کے اندر سے، جی اُسے جو بہت پہلے دیکھی گئی ہو اور طرح کا تجربہ ہے، اور اسے پیدائشی طور پر دیکھنے کی صلاحیت نہ رکھنے والے شخص کی طرح نہیں دیکھا جا سکتا۔ ہاں! واقعی یہ بہت انوکھا تجربہ ہے۔ کچھ لفظ دُھند میں ڈوبے ہوئے ہیں،جنہیں میں ایک نابینا شخص کی سی بصیرت اور اپنی یادداشت کے زور سے پڑھ لیتا ہوں۔ جہاں ایسا ممکن نہیں ہوتا، میں عبارت کے بہائو میں خود سے آنک کرمناسب لفظ جما لیتا ہوں۔حتی کہ مجھے یقین ہونے لگتا ہے کہ میں نے عبارت عین مین اُسی مکمل صورت میں کتبے سے پڑھ لی ہے، جیسے پڑھی تھی۔ کہہ لیجئے یہاں ماضی کا تجربہ اور حال کا تخیل،ایک دوسرے میں پیوست ہوکر حقیقت کو التباس بنا رہے ہیں اور التباس کو حقیقت۔ میں پوری کی پوری نظم کاغذ پرلکھ لیتا ہوں تو آنکھیں کھولے بغیر تجسس کی پیاس بجھانے کے لیے اپنی اُنگلیوں کی پوریں کا غذ پر وہاں وہاں رکھتا ہوں جہاں نظم ویسے ہی کھد گئی تھی جیسی کہ وہ کتبے پر تھی۔ اَب اُنگلیاں کاغذ پر چلتی ہیں تو ایک عجب اُجالا میرے اَندر پھیلتا چلا جاتاہے۔ سب کچھ میں اُنگلیوں سے پڑھ سکتا ہوں ؛ جہاں جہاں قلم کی نوک چلی ہے، مجھے لگتا ہے ساری روشنی وہیں سے پھوٹ رہی ہے۔
کیتھڈرل کا ذِکر ہوا اوراُس روشنی کا، جو پھوٹنے کو توکاغذ سے پھوٹتی ہے مگرمیرے اَندر پھیلنے،مچلنے اور پسرنے لگتی ہے تو مجھے عین آنکھوں کے سامنے اُٹھتے ہوئے روشنی کے اُس غبارکا ذِکر بھی کر دینا چاہیے کہ جس پر نگاہ ٹکاتا رہاہوں تو پَل کی پَل میں صورتیں بدل جاتی رہی ہیں۔ یہ غبار یوں سمجھیں آسمان کی بلندیوں میں ڈولتے بادل ہیں، تاہم یہ نوری غباربادلوں سے مختلف یوں ہے کہ اس میں سے پھوٹتی روشنی آنکھوں کو چندھیاتی ہے۔ میں آنکھیں سکیڑ کر دیکھتا رہتا ہوں۔ ایک اَندھی عورت کا جسم آگے کو جھکا ہوا ہے۔ اُس کا گریبان پوری طرح کھل کر اَندر کا سارا گداز باہر پھینک رہا ہے۔ سارے اُجالے سے اِشتہا کا شیرہ ٹپکنے لگتا ہے۔ میں نظریں جمائے رکھتا ہوں، حتی کہ میرا سارا بدن لذّت سے پوری طرح بھر جاتا ہے۔یہ سب کچھ ایک آدھ ساعت کے لیے ہی ہوتا ہے کہ اب وہی جسم ایک عظیم مقدس عمارت کا سا ہو گیا ہے اور میرے بدن سے چھل چھل چھلکتی ساری لذّت خوشبو میں ڈھل گئی ہے۔
ریمنڈ کی کہانی میں نابینا شخص کی محبت اور کیتھڈرل کی عظیم الشان عمارت آخر میں جاکر ایک ہو جاتے ہیں۔ ریمنڈ نے اپنی کہانی کے متن میں یہ بات صاف صاف نہیں لکھی ہے یہ تو میری اپنی تعبیر اور میرے اپنے دیے ہویے معنی کے امکانات ہیں۔ ممکن ہے کہانی کوئی اور پڑھے تو مجھ سے اتفاق نہ کرے۔ اتفاق کرے،نہ کرے اور پڑھنے والا چاہے کوئی بھی ہو،یہ ممکن نہیں ہے کہ کہانی کے اس آخری حصے میں اس کے لیے دیکھنے کی صلاحیت رکھنا یا اندھا ہو جانا بالکل لایعنی سا نہ ہو جائے۔
نظر رَکھنے اور اَندھے ہونے کا یہ قصہ فی الحال یہیں تک،کہ مجھے ایک ایسی مختصر فلم یاد آرہی ہے جس میں بینا اور نابینا کا سوال نہیں اُٹھایا گیا ہے مگر اس میں کیتھڈرل اسی طرح کہانی کے مرکز میں موجود ہے جس طرح ریمنڈ کی کہانی میں ہے۔ جی میں جیسک ڈوکاج کے افسانے کیتھڈرل پر بنائی گئی فلم کی بات کر رہا ہوں۔ اس میں ہوتا یوں ہے کہ ایک عورت جنگل میں سے گزر رہی ہوتی ہے اور اس کا ہاتھ جو کہ فضا میں بلند ہے روشنی کو تھامے ہوئے ہوتا ہے۔ وہ آگے بڑھتی ہے اور جنگل کے اَندر ہی اَندر روشنی کی ایک سرنگ سی بنتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ آگے کٹی ہوئی زمین آ جاتی ہے۔ سارے میں ایک گیت تھرتھرا رہا ہوتاہے، جس میں سے نارسائی کی ہوک بولتی ہے۔ گیت کی لے جو جوں اُبھرتی ہے توں توں چھاتی پر بڑھتی جکڑن شدید ہوتی جاتی ہے۔ گیت کے بول اُس عورت کے لبوں سے نہیں نکل رہے ہیںکہ وہاں تو چُپ نے جالا بن رکھا ہے۔ یہ گیت گہری تاریکی اور گھنے جنگل کے اَندر سے یوں اُمنڈتا ہے جیسے کوئی چشمہ پھوٹ پڑتا ہے۔ گہرے دُکھ کے کھرنڈ کو کریدنے والاگیت یک لخت خاموش ہو جاتا ہے تولگتا ہے جیسے ایک متبرک خاموشی کا تنائو سارے میں تن گیا ہے۔ عورت کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لکڑی،جس کا سرا کچھ دیر پہلے تک روشن تھا، گر جاتی ہے۔ پھر وہ پیچھے کی سمت دوہری ہوتی ہے، یوں کہ اس کی چھاتیاں تن کر اُوپر بلند ہو جاتی ہیں۔ ایسے آسن میں وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتی ہے تو اس کی چھاتیوں سے شاخوں کا ایک سلسلہ پھوٹ نکلتا ہے۔ یہ شاخیں جنگل بنتی ہیں۔ گھنا جنگل۔ اور پھر یہی جنگل ایک کیتھڈرل بن جاتا ہے۔
یہیںٹھہر جانا ہوگا مجھے؛ ایک لمبی سانس لینے کے لیے۔ اور اپنے آپ سے سوال کرنے کے لیے کہ یہ جو میں موٹے کا غذ پر اِدھر اُدھر کی لکھے جا رہا ہوں، آنکھیں موندکر، تو کیا کسی کہانی کا ایسا چلن ہو سکتا ہے ؟ سوال معقول ہے مگرآپ نے اس امر کو ذہن میں حاضر نہیں رکھاکہ میں اَندھی عورت کی اَندھی کہانی لکھنے جا رہا ہوں۔ رشتوں کے کٹائو سے بہتی کہانی اور شناختوں کے معدوم ہونے سے اُبلتی کہانیاں بھی کسی نے لکھنی ہیں نا۔ سو کوئی اور کیوں لکھے، میں کیوں نہ لکھوں ؟جب کہ میرے اندر یقین اُتر چکا ہے کہ تعلق کے ناموجود ہونے یا معدوم ہو نے سے بھی کہانیاں پھوٹ سکتی ہیں۔ اور پھرہم پر ایسی اُفتاد آ پڑی ہے کہ شناخت کا سوال بے ہودہ اور اخلاص کے متبرک پانیوں سے گندھا ہواتعلق فضول سی شے ہو گیا ہے۔
تو یوں ہے کہ کاغذ قلم تھام کر میں یہ سب کچھ اس نیت سے اور اس طرح لکھنے تو نہیں بیٹھا تھا، جس طرح کہ دُھنکے ہوئے خیالات مسطر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ میں تو ایک اندھی عورت کی کہانی لکھنے کی نیت باندھ کے بیٹھا تھا، بیٹھا ہوں اور پورے خلوص سے اسی کو لکھنے کے جتن کر رہا ہوں ؛ جی ایک اندھی عورت کی کہانی، جو تعلق کے معدوم ہوتے ہوئے زمانے میں مرجاتی ہے۔
جب تک وہ نہیں مرتی، میں اُسے دیکھتا ہوں، اور دیکھتا رہوں گا۔ مجھے لگتا جیسے وہ جینا چاہتی تھی۔ زندگی کو بہت دیکھ بھال کر اور سوچ سمجھ کر جینا چاہتی تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ اُسے بھی ریمنڈ کی کہانی کے نابینا مردکی طرح نابینا عورت لکھنا چاہیے، اندھی عورت نہیں۔ ہاں،یہ ایک نابینا عورت ہو سکتی تھی کہ میں اپنی کہانی کا جو کردارتراش رہا ہوں وہ کئی بینا عورتوں سے زیادہ دور تک دیکھنے والا ہے۔ ایک ایسی عورت جو بینائی سے محروم ہے مگر دور تک دیکھ سکتی ہے، منصوبہ بندی کر سکتی ہے اور اپنے منصوبوں کو عملی صورت میں ڈھال سکنے کی سکت رَکھتی ہے۔ افسوس کہ مجھے اسے اندھا لکھنا پڑ رہا ہے۔ اور یہ اس لیے لکھنا پڑ رہا ہے کہ میں اس عورت کی زندگی کا وہ پہلو بھی لکھ دینا چاہتا ہوں جہاں فقط سفاک اورگھپ اندھیرا ہے۔ ’روشنی ‘ سے جڑ کر بھی کہانی کی عورت نے اس اندھیرے میں بے خبررہنے کو ’’ہونی شدنی‘‘ کی طرح قبول کر لیاہے ؛ اپنے پورے وجود کے پُرخلوص اَندھے پن کے ساتھ۔۔۔ اگر مجھے اس کی زندگی کے اس پہلو سے کنی کاٹ کر لکھنا آتا تو ممکن ہے میں اسے ’اندھا‘ نہ لکھتا، مگر ہوا یہ کہ وہ اچانک اسی اندھیرے کو اُبکتے ہو ئے بکھرکر مر گئی۔ اَب جومیں اُسے سمجھنا چاہتا ہوں، ایک کہانی کے وسیلے سے اور مکمل طور پر، تو مجھے اسے اندھا ہی لکھنا پڑرہا ہے۔
ریمنڈ کی کہانی کا راوی کردار، جس نابینا شخص کو اپنی بیوی کا پرانا دوست ‘کہہ کر عین آغاز میں ہی متعارف کراتا ہے، وہ شخص اپنی بیوی کے مرنے کے بعد کنیٹی کٹ میں اپنے سسرال آیا ہوا تھا اور وہیں سے اس نے اپنی پرانی دوست یعنی کہانی کے راوی کی بیوی کو فون کیا اور اُن کے گھر پہنچ گیا تھا۔
یہاں مجھے بتا دینا چاہیے کہ میں جس اندھی عورت کی کہانی لکھنا چاہتا ہوں اُس کا ریمنڈ کے نابیناکردار والی کہانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک کہانی پرامن علاقے میں جنم لیتی ہے اور دوسری کا لوکیل ایک مسلط کی ہوئی لامتناہی جنگ کے شعلوں سے جھلس رہا ہے۔ یہ جنگ بھی عجیب و غریب ہے، ہماری نہیں ہے مگر ہماری اپنی ہوگئی ہے۔ کہنے کو تو یہ جنگ جو ریمنڈ کے امریکہ نے خوب خوب دھکائی، بہ طور خاص تب جب اسے روسیوں کو وہاں سے نکالنا تھا اور روسیوں کی پسپائی کے بعد فتح کے نشے میں چور اُن مجاہدوں کے خلاف جو اب دہشت گرد ہو گئے تھے اور اپنی شرائط پر افغانستان کو چلا نا چاہتے تھے۔ مگر یہ ریمنڈ کی کہانی کے لکھے جانے کے کئی سال ہوا۔ اور اب جب کہ ریمنڈ کئی طرح کی شرابیں پینے اور محبتیں کرنے کے بعد مر گیا ہے، میں ایسی کہانی لکھ رہا ہوں جسے اس کے ملک امریکہ سے جوڑے بغیر نہیں لکھا جا سکتا۔ یوں ہے کہ یہ کہانی امریکہ سے وہاں سے بھی جڑ جاتی ہے جہاں سے میڈیا کے مطابق امریکہ پر حملہ ہو جاتا ہے۔ جی، میڈیا نے اسے امریکا پر حملہ ہی کہا تھا۔ امریکہ انڈر اٹیک، کی عبارت پوری دنیا میں ہر ٹیلی وژن سکرین پر بلنک ہو رہی تھی۔
وہ منگل کا دن اور نویں مہینے کی گیارہ تاریخ تھی۔ کوئی پونے نو بجے کا وقت ہوگا کہ دو مسافر طیارے ا نتہائی نیچی پرواز کرتے ہوئے ایک سو دس منزل بلندورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دونوں ٹاورز میں گھس گئے۔ اُسی روز کوئی ساڑھے نو بجے سے اوپر ہی وقت ہوگا کہ ایک اور طیارہ انتہائی حسا س ادارے،پنٹاگون کی عمارت میں جا گھسا۔ کہتے ہیں اس طیارے کے گرنے کے چند ہی منٹ بعد محکمہ خارجہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے قریب کار بم دھماکا ہوا۔ چوتھا جہاز پنسلوانیا میں مار گرایا گیا۔ یہ اُوپر تلے کے ایسے ذہانت سے ترتیب دیے گئے واقعات تھے کہ میڈیا کا کہا سچ لگنے لگا؛ امریکہ پر حملہ ہو گیا۔
افغانستان پر امریکہ کی چڑھائی اسی حملے کا جواب تھا۔ میں نے جو کہانی سوچی ہے، یا مجھے جو کہانی لکھنی ہے وہ اسی جنگ زدہ ملک سے ہمارے اپنے ملک منتقل ہو جاتی ہے۔ جنگ کی اُس دہشت کی طرح جو پل بھر میں یہاں سے وہاں اور پھر ہر کہیں منتقل ہو جاتی ہے۔
ہاں تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے طریقہ کار کے مطابق، اپنی سوچی ہوئی کہانی لکھنے سے پہلے اس کی جزئیات تصور میں لانے کے لیے لکھنے والی میز کے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا ہوں۔ میری آنکھیں بند ہیں۔ میں تخلیقی عمل کے بھید بھرے دروازے میں داخل ہونے کے لیے ایسا ہی کرتا ہوں۔مجھے ایک اندھی لڑکی کا تصور باندھنا ہے۔ لڑکی نہیں عورت کہ وہ شادی شدہ ہے اور اُسے لگ بھگ تیس برس کے پیٹے میں ہونا چاہیے۔ مگرہوتا یہ ہے کہ اپنے تنے ہوئے جسم کے ساتھ وہاںایک لڑکی نظر آتی ہے ؛ بیس کی یابائیس کی۔ تو گویا میں ایک ایسی عورت کو لکھنے جا رہا ہوں جو اپنی عمر سے بہت کم نظر آتی ہے۔ شفاف جلد والی اور ایک تنے ہوئے جسم والی لڑکی۔ میرے بند پپوٹوں کے اندر ہی اند ر جیسے ایک جھپاکا سا ہوتا ہے اور مجھے لگتا ہے، میں اوشن ویو سیمی ٹیری نامی قبرگاہ میں موجود ہوں جوپورٹ اینجلس میں ہے۔ اِسی جھپاکے میں ایک قبر کامرمریں کتبہ روشن ہوکر گم ہو گیا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کئی سال پہلے جب ہم اِس شہر کے وسطی علاقے سے گزر رہے تھے تو ہم لنکولن سے جنوب کی سمت مڑے تھے۔ میں نے اپنے لیے جمع کا صیغہ یوں استعمال کیا ہے کہ میرے ساتھ میکس کرافورڈ بھی تھا۔ اُس سے میری جان پہچان ایک سوشل ویب سائٹ پر ہوئی تھی۔ وہ ہر ہفتے وہاں اپنے کسی ناول سے ایک اقتباس یا اپنے دوستوں میں سے کسی کی نظم پوسٹ کیا کرتا۔ مجھے اُن میں سے کوئی پوسٹ اچھی لگتی اور کوئی یوں ہی سی۔ تاہم مجھے میکس میں دِل چسپی ہو چلی تھی۔ پہلی بار میں نے ایک عام سے اِقتباس کے نیچے کامنٹ والے باکس میںمحض سوالیہ نشان کا اضافہ کیا تھا۔ میکس کا یہ نوٹ’’لارڈ آف پلین‘‘ سے مقتبس تھا، جو ۱۹۷۰ء میں منظر عام پر آئی تھی :
’’کوئی نہیں جانتا ہم اپنی دوسری مہم کا آغاز کب کریں گے
ہمارے گھوڑے بوجھل ہو چکے،
ہم نڈھال ہیں،
سارا سازوسامان تیار ہے
مگر ابھی تک ہم نکل نہیں پائے ہیں۔‘‘
کامنٹس چھوڑنے کایہ سلسلہ یونہی چلتا رہا ؛یک طرفہ۔ اس سے پہلے کہ میں اس یک طرفہ سلسلے سے اُوب جاتا، ایک روز یوں ہوتا ہے کہ میرے ان باکس میں، اُس کا مختصر سا پیغام پڑا ہوا ملتا ہے۔ میں میسج سے بہت خوش ہوتا ہوں اور اسے پڑھتے ہی مجھے اندازہ ہو جاتا ہے کہ میکس نے میرے ذاتی ویب پیج اور دوسری سائیٹس سے میرے ایسے افسانوں کو تلاش کرکے پڑھ لیاتھا،جو انگریزی یا دوسری یورپی زبانوں میں ترجمہ کرکے وہاں فراہم کر دیے گئے تھے۔اس نے ان کی طرف لطیف سے اشارے کیے تھے۔ بس پھر کیا تھا،ہمارے درمیان دوستی مستحکم ہوتی چلی گئی۔
جب میں پورٹ اینجلس میں تھا تو ہمارا بہت سا وقت ایک ساتھ گزرتا تھا۔اُس نے ہی مجھے اولمپک نیشنل پارک دِکھایا اوردریائے ایلواہا کا وہ مقام بھی جہاں پہلے الڈویل کی جھیل تھی۔ جی ہاں گھنے جنگل سے آگے وہ کنارا جہاں جھیل پر وسعت چڑھ دوڑتی تھی اور اُس کے شفاف پانیوں میں نیلا آسمان اُترا کرتا تھا۔ ہم وہاں بھی گئے تھے جہاں کبھی ایلواہا ڈیم ہوا کرتا تھا مگر جسے ایک سال پہلے منہدم کردیا گیا تھا۔میکس نے عین وہاں جہاں سال بھر پہلے ڈیم تھا ؛نیلے پانیوں پر نظریں جمائے جمائے کہا تھا:
’’ نشانیاں، بس نشانیاں ہی تلاش کی جا سکتی ہیں مگرڈھنگ سے گمان نہیں باندھا جا سکتا کہ یہاں کتنا شاندار ڈیم رہا ہوگا۔‘‘
ایک شاندار ڈیم جو وہاں نہیں تھا۔
اُس کی آنکھیں بند تھیں اور شاید اُس نے اِسی ڈیم کی بابت سوچا ہوگا کہ ُاس نے وہیں کھڑے کھڑے اپنی کسی تحریر کا ٹکڑا سنایاتھا؛ نظم کی طرح کاٹکڑا۔ ممکن ہے وہ کسی کی نظم ہو مگر میں نے اس بابت نہیں پوچھا تھا۔جو کچھ اُس نے سنایا اُس میں اس کا اپنا وجود ایک قدیم اور عظیم ڈیم کی طرح تھا جس پر محبت پانیوں کا شفاف جسم لہروں کی تندی بھول کر اپنی چھاتیوں کا گداز ٹیک کر شانت گیا تھا۔
میکس کاقد نکلتا ہوا تھا اور جسم فربہ، اس کی داڑھی بالشت بھر ہو رہی تھی جس کے سنہری بالوں پر پڑتی سورج کی کرنیں اُسے اور سنہرا کر رہی تھی۔
اس نے بتایا تھا کہ یہ تحریر اس نے کوئی تین سال پہلے اسی ڈیم کے مغربی کنارے بیٹھ کر اپنے دوست ریمنڈ کو بھی سنائی تھی۔ اس نے ایک اورشخص کا نام بھی لیا تھاجو اُن کے ساتھ تھا مگر اب مجھے یاد نہیں۔کوئی عام سا نام تھا اور میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کون تھا۔ تب بھی جب کہ اس نے ایک اجنبی مگر عام سا نام لیا تھا، مجھے خواہش نہ ہوئی تھی کہ اس کے بارے میں مجھے جاننا چاہیے۔ ہاں ریمنڈ کارور کے بارے میں میں نے کئی سوال کیے تھے۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ میں اس نام سے پہلے سے ہی آگاہ تھا اور آنے والے دنوں میں بھی میں اُسے جم کر پڑھنے جا رہا تھا۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا جو تحریر میکس نے مجھے سنائی، میں نہیں جانتا کہ وہ اس کی اپنی تھی یا کسی اورکی، وہ نظم تھی یا نثر کا ٹکڑا مگر جب اس نے سنائی میں اس کے لیحم جثے کو دیکھ رہا تھا جو کبھی بہت قوی بھی رہا ہوگا۔
وہیں اُس نے ماضی کا حصہ ہو چکے ڈیم کی بابت بھی بہت کچھ بتایا تھا۔ یہی کہ وہ لگ بھگ سو سال پہلے بننا شروع ہوا تھا اور یہ کہ ایک سو آٹھ فٹ بلند اوراندازاً آٹھ میل لمبے اس ڈیم کی وجہ سے وہاں پانی کے ذخیرے کا درجہ حرارت قدرے بڑھ جاتا تھا۔ جھیل میں آنے سے پہلے، اُوپرپانی کادرجہ حرارت صفر سے بھی گر جاتا تھا۔ اگر پانی بہہ نہ رہا ہوتا تو یقیناًوہیں جم گیا ہوتا۔ مجھے لگا تھا کہ اس گرمی اور یخ بستگی سے وابستہ کوئی معنی خود بخود سنائے جانے والے متن میں جذب ہوکر اس میں تاثیر بھر رہے تھے۔ ہم وہاں گھاس پر بیٹھ گئے اور بہت سا وقت خاموش رہے۔ پھر اُس کے ہونٹوں پر ریمنڈ کی قبر کی تختی پر کھدی ہوئی عبارت رواں ہوگئی؛ایک نظم کی گھمبیرتا نے جیسے سب کچھ اپنے کلاوے میں لے لیا تھا:
’’اور کیا وہ تمہیں مل گیا
جو تم زندگی سے چاہتے تھے،
یا طلب کر سکتے تھے؟‘‘
۔۔۔۔۔ہاں ایسا ہی ہوا
’’اور آخروہ کیا تھا
جس کی طلب تم رکھتے تھے؟‘‘
۔۔۔۔۔اپنے آپ کے حوالے سے،
کوئی مجھے محبوب کہہ کر پکارے کہ میں خود کو محسوس کر سکوں
اس زمین پر ایک ایسے وجود کی طرح
جس سے محبت کی جاتی ہے۔
’’یہ نظم ہی ہے‘‘؛ میکس نے بتایا اور اِس پر اِضافہ کیا :’’ اس کا عنوان بھی وہاں کھدا ہوا ہے؛لاسٹ سیگمنٹ۔‘‘
جب ہم لنکولن سے جنوب کی سمت مڑے، تب اس نے کہا :
’’ دوست، جب میں نے پہلی بار قبر کے کتبے کی عبارت پڑھی تھی تو مجھے لگا تھاکہ جیسے وجود کے اندر ویسی ہی گرمی بھر گئی تھی جو ایلڈویل جھیل کے پانیوں میں تھی۔ اور یہ کہ وہ پہلے تو بس ایک بے زار کرڈالنے والی یخ بستگی لیے عمر بھر سانسیں کھینچنے کی اذیتیں برداشت کرتا رہا تھا۔ بالکل ویسے ہی اذیت جیسی اس کی کہانی کیتھڈرل کے نابینا کردار کے حصے میں آئی تھی۔‘‘
…………………..
مجھے اپنے آپ کو بہکنے سے بچانا ہوگا کہ میں جس عورت کو لکھنے جا رہا ہوں اس کاریمنڈیا اندھے کردار والی کہانی کیتھڈرل سے کوئی تعلق یا مشابہت نہیں بنتی۔ اس اندھی عورت کی کہانی کا میرے دوست میکس سے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہے۔میری سوچی ہوئی کہانی میں اُلجھنیں یوں در آتی ہیں کہ میں نے آنکھیں میٹ کرکہانی کی جزیات کا تصور باندھا ہے اور ریمنڈ کی قبر کا کتبہ جھپاکے سے روشن ہو گیاہے۔
جی،وہی کتبہ جس پر کھدی ہوئی عبارت پڑھنے کے لیے کبھی میںبوڑھے میکس کے ساتھ شہر کی مرکزی آبادی والے علاقے میں لنکولن سے جنوب کی طرف مڑتے ہوئے وہا ں پہنچا تھا۔میکس کے ساتھ وہ میری پہلی اور آخری ملاقات تھی کہ ایک ڈیڑھ برس بعد اسے مر جانا تھا۔
خیر، اب میں اپنی بند آنکھوں میں اس عورت کا تصور لے آیا ہوں، جو اندھی ہے اور جسے ایک روز اچانک مر جانا ہے۔
مرنے والی بات اس کہانی میں قدرے تاخیر سے آنی چاہیے تھی۔ اچھا ہوتا کہ میں اس کہانی کو اسی ترتیب میں رکھتا جیسی کہ یہ مجھ پر اندر ہی اندر بیتتی رہی ہے مگر یوں ہے کہ میرے آنکھیں بند کرنے اور اسے لکھنے کی طرف مائل ہونے، اور کچھ نہ کچھ لکھتے چلے جانے کے عمل کے دورانیے میں واقعات میں بہت اُتھل پتھل ہو گئی ہے۔ اب اگر میں اسے ایک ترتیب سے بیان کرنا چاہوں تو بھی ایسا نہ کر پائوں گا۔اِس باب میںزور زبردستی کی تو کہانی میں کئی اور طرح کے گنجھل پڑسکتے ہیں۔میں اپنے آپ کو چوکنا کیے بغیر آگے بڑھتا ہوں۔ اور ہاں اب اگر میں یہاں یہ لکھ بھی دوں کہ پہلی نظرمیں،میں نے اُسے دیکھا تو گماں تک نہ گزرا تھا کہ اِتنی خوب صورت اور اِشتہا اُچھالنے والی لڑکی کی بینائی نہیں تھی، تو یہ انکشاف تحریر کی تاثیر میں کوئی اِضافہ نہ کرپائے گا کہ آپ تو پہلے ہی جان چکے ہیں، یہ ایک اندھی عورت کی کہانی ہے۔
میں اس عورت کے لیے ایک نام فرض کر لیتا ہوں، کہیے گل جان کیسا رہے گا۔ قندھاری انار جیسے سرخ چہرے اور پھول کی طرح کھلتے ہوئے بدن والی لڑکی پر یہ نام جچتا بھی بہت ہے۔ یہاں مجھے یہ بتا دینا چاہیے کہ گل جان ایک آرے والے کی بیٹی ہے۔جس آرے کی میں بات کر رہا ہوں اُس کی بیرونی دیوار کی دائیں جانب ایک بورڈ، بڑی کیلیں ٹھونک کرنصب کرلیا گیا ہے۔ اس بورڈ پر لکھا ہے ’چوب خانہ عمارتان‘۔ یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آرا جو دراصل لکڑی کا کارخانہ ہے کسی مقامی آدمی کا نہیں ہے۔ جب سے افغانستان میں جنگ چھڑی ہے اور سارے خطے میں بدامنی کا سلسلہ آغاز ہوا ہے، وہاں سے مہاجر ہو کر اس شہر میں آباد ہونے والے دیگر شعبوں کی طرح اس کاروبار میں بھی اندر تک دخیل ہو گئے ہیں۔ جگہ جگہ ’صنائع چوبی عمارتان‘،’ خانہ ہائے چوبی مدرن‘،’ ارہ ہائے چوبی‘ جیسی عبارتوں والے بورڈ نظر آنے لگے ہیں۔
وہ اندھی عورت جسے میں نے اپنی سہولت کے لیے گل جان کہا ہے، چوب خانہ عمارتان کے مالک غنی قندھاری کے ہاں پیدا ہوئی تو گول متھنی اور گوری چٹی تھی۔ اُس کے سیاہ بال کبھی کبھی سنہرے لگتے۔ دیکھنے والے اس ننھی منی خوب صورت بچی کے بارے میں کہتے کہ وہ بالکل اپنی ماں جیسی تھی۔ رنگت دیکھ کرکہنے کو یہ کہا جا سکتا تھا کہ وہ اپنے باپ پر گئی مگر ایک تو اس کا چہرہ بڑی حد تک گھنی داڑھی میں چھپا ہوا تھا اور دوسرے اس کی دائیں آنکھ کے نیچے ایسا گھائو تھا جیسے کوئی کند دھاتی ٹکڑا وہاں زور سے پڑا تھا اور انتہائی بُری طرح ماس کاٹ کر نکل گیا تھا۔ اس خوب صورت بچی کے لیے ایسے شخص سے مشابہت قائم کرنے میں دقت کی ایک اور وجہ بھی تھی ؛ غنی قندھاری لنگڑا تھااور لاٹھی ٹیک کر چلتا تھا۔
جب وہ قندھار میں تھا تو غنی قندھار ی نہیں تھا۔ قندھار میں نہیں اس سے پرے اپنے گائوں نودہ میں۔ تب سب اُسے غنی گل ہوتک کہتے تھے۔ اُسے ہوتک کہلوانا اچھا لگتا تھا اسی لیے اُس نے ’چوب خانہ عمارتان‘ پر آنے والے گاہکوں کو رقم کے بدلے جاری کرنے کے لیے جو رسیدی پیڈ چھپوائے تھے ان پر بھی ہوتک کو اپنے نام کا حصہ بنایا تھا مگر لوگوں نے اسے غنی قندھاری ہی کہتے۔ قندھار نام سے سب جو شناسائی سی محسوس کرتے تھے وہ ہوتک میں نہ تھی۔ میرے ابا جو غنی قندھاری کے کاروباری حلیف تھے اور حریف بھی، اُسے بہت بڑا ’چھوڑو‘ کہتے۔ یعنی اُونچی اُونچی ہانکنے والا اور لمبی گپ مارنے والا۔ غالباً ابا نے غنی قندھاری کو چھوڑو پہلی بار اُس دن کہا تھا جس روز ابا اس سے یہ سن کر آئے تھے کہ طالبان کا سربراہ ملا عمرمجاہداُس کا قبیلے دار تھا۔ میں نے ابا سے اُس دن جو گفتگو سنی اس کے مطابق ملا عمر اور غنی گل دونوں پشتونوں کی غلزئی شاخ کے ہوتک قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور یہ کہ غنی گل تو صاحب جائیداد تھا مگر ملا عمر بے زمین اور غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔
جو کچھ اُس روز کی گفتگو سے میں نے اخذ کیا،اُس کے مطابق غنی قندھاری اگرچہ ملاعمر کا قبیلے دار تھا مگر ملاعمر کو اِس سے غرض ہی کہاں تھی کہ کون اُس کے قبیلے کا ہے اور کون نہیں۔ ملاعمرنے اپنے قبیلے کے لوگوں کو پوچھا تک نہیں اور قندھار کا گورنر ملاحسن کو بنادیا۔ لنگڑے ملاحسن کو،۔ اُس کے بارے میں مشہور تھا کہ اُس کی ٹانگ محاذ پر لڑتے ہوئے کٹ گئی تھی۔ مُلا عمر نے جن لوگوں کی شوریٰ بنائی وہ بھی کسی نہ کسی فوجی حملے میں کمانڈر رہے تھے۔ غنی قندھاری کسان تھا جو بعد میں کاروباری ہو گیا۔ وہ اپنے حال میں مست رہنے والا تھا۔ اچھے دنوں میں اس کے کھیت انجیر،ناشپاتی اور انار کے ایسے باغ تھے جنہوں نے اسے خوش حال کیا ہوا تھا۔ جب روسی فوجیں آئیں وہاں کا آب پاشی کا نظام تباہ ہونے سے باغ اجڑگئے تو اس کے خاندان پر بھوک چڑھ دوڑی۔ جو کچھ جمع پونجی تھی ختم ہو گئی۔ طالبان کے قوت پکڑنے تک وہ مفلسی کے شکنجے میں رہا۔ طالبان آئے اور کچھ سکون ہوا تووہ بھی اوروں کی دیکھا دیکھی پوست کاشت کرنے لگا۔ پھل دار درختوں کے مقابلے میں یہ فصل اُن کی بھوک بہت کم عرصے میں مٹا سکتی تھی۔ غنی قندھاری نے ابا کو بتایا تھا کہ وہ اور اس بیٹاجب پہلی بار پوست کی نوخیز سبز اور نرم پتیوں کو اپنے کھیتوں کی زمین سے نکلتا دیکھتے تھے تو وہ دونوں ایک دوسرے سے اپنے آنسو چھپانے لگتے۔ کچھ ہفتوں میں سارے کھیت سرسبز ہو گئے۔ پھر اُن پر سرخ پھول کھلنے لگے۔ سبز پتے جھڑگئے تو پوست کے ڈوڈے یہاں وہاں ننگے ہو کر سامنے آگئے۔ یہ فصل لگ بھگ چار مہینے میں تیار ہوئی اور جب یقین کر لیا گیا کہ انہیں اب تیز دھار چھریوں سے خراشیں لگائی جا سکتی ہیں اور انگوٹھے دبا دبا کران کے اندر سے دودھ نکالا جا سکتا ہے تو وہ اس کام میں جت گئے تھے۔اگلے روز اسی دودھ کا رنگ جمنے پر بھورا ہو گیا؛ بھورا اور سیاہی مائل۔ یہ افیون تھی،اسے پولی تھین کی تھیلیوں میں بھر لیا گیا۔ انہوں نے اس سال لگ بھگ پچاس اکاون کلو افیون بیچی تھی اور اپنی مفلسی سے بہت حد تک چھٹکارا پالیا۔ غنی قندھاری طالبان کو شکرگزاری سے دیکھاکرتا کہ وہ اور کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ اگرچہ حشیش پر پابندی تھی اور طالبان نے حشیش کے کئی سمگلر پکڑ کر انہیں عبرتناک سزائیں دی تھیں مگرپوست پر پابندی کا انہوں نے نہیں سوچا تھا۔ ایسے موافق حالات میں اُسے اور اُس جیسے کسانوں کو موقع مل گیا تھا کہ پوست کی کاشت کریں اور اپنی بھوک مٹا ئیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے کہانی میں ایک نیا موڑ آتا ہے۔ اُدھر امریکہ میں سات ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر والا واقعہ ہوتا ہے۔ اور سترہ اکتوبر کوئی دس بجے کا وقت ہوگاجب قندھار پر امریکی طیارے بارود بر سا نے لگتے ہیں۔ غنی قندھاری کو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہاں سے نکلنا پڑتا ہے، اپنی بیوی مرجان اور بیٹے شیرین زمان کے ساتھ۔ اوپر سے برسنے والا بارود اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس کی بیوی مرجان کے جسم کو روئی کی طرح دھنک دیتا ہے وہ اس کی طرف لپکتا ہے اور ایک دھکتا ہوگولا اُس کی آنکھ کے نیچے گوشت پھاڑتا چھچھلتا ہوا نکل جاتا ہے جب کہ دوسرا اُس کی ران کی ہڈی چٹخا دیتا ہے۔ شیرین زمان باپ کو سہارا دے کر ایک طرف بٹھاتا ہے اور کندھے پر جھولتی چادر سے ایک ٹکڑا پھاڑ کر باپ کی ران سے بہنے والے خون کو روکنے کے لیے اسے کس کر باندھ دیتا ہے۔ اسی چادر کو وہ باپ کے سامنے خالی زمین پر بچھا دیتا ہے اور سارے میں بکھرے ماں کے گوشت کے لوتھڑے اُس پر ڈھیر کرکے گرہ لگاکر پوٹلی بنا لیتا ہے۔
پوٹلی باپ کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے جو اس سینے سے لگالیتا۔ وہ اپنے کام میں یوں جتا ہوا ہے جیسے کوئی روبوٹ ایک ترتیب سے سارے کام کرتا ہے۔ اب وہ اپنے باپ کو کندھے پر ڈال کر چلنے کے لیے تیار ہے۔ بارود اب بھی برس رہا ہے مگر وہ پہاڑی علاقے میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہیں وہ ایک طرف اپنے باپ کو لٹاتا ہے،پوٹلی، جس میں اس کی ماں کے لوتھڑے بندھے ہوئے ہیں، باپ کے پیٹ پر رکھی ہے۔ وہ ایک گہری جگہ تلاش کرتا ہے، اس میں اس پوٹلی کو رکھتا ہے اور چھوٹے چھوٹے پتھروں اور مٹی سے اُس گہرے کھڈے کو پاٹ دیتا ہے، یہاں تک کہ وہاں ایک ڈھیری سی اُبھر آتی ہے۔ وہاں سے کوئٹہ پہنچنے اور پھر وہاں سے بیٹے کے اصرار پر علی شیر محسود کے ہاں پہنچ جانے کا قصہ بھی ابا نے غنی قندھاری سے سن رکھا تھا اور ہمیں مزے لے لے کر سنایا تھا۔
اوہ یہ تو میں نے بتایا ہی نہیں کہ جس عورت کے بطن سے گل جان پیدا ہوئی وہ کون تھی۔ اب بتا دیتا ہوں، اس لڑکی کی ماں تھی دل جان۔ غنی قندھاری جب علی شیر محسود کے ہاں پہنچا تو بہت خستہ حالت میں تھا۔ علی شیر محسود اُس کے اَچھے دنوں کا ساتھی تھا۔ جن دنوں وہ قندھار سے افیون اِدھر لایا کرتے وہ باپ بیٹا اس کے ہاں ہی ٹھہراکرتے تھے۔ علی شیر محسود نے پرانے تعلق کا پاس رکھا اور دونوں کواپنے ہاں ٹھہرا لیا۔ جس عورت کے بطن سے گُل جان پیدا ہوئی وہ اسی علی شیرمحسود کی بہن دل جان ہے۔ محسود والے اُس جنگ کا حصہ تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے دہشت گردی ہو گئی تھی۔ وہ پہلے امریکہ سے آئی ہوئی امداد اور اپنے ایمان کے سہارے روس کو وہاں سے نکالنے میں مصروف رہے اور جب اُدھر انہیں کامیابی ملی تو اسی ایمان کی حدت سے امریکہ کے خلاف ڈٹ گئے۔ دل جان کے منگیتر نے بھی اسی مجہول جنگ میں اپنی کمر سے بارود باندھ کر ایک بازار میں خود کو اُڑا لیا تھا اور یہ تب کی بات ہے جب انہیں اپنی حکومت اور امریکی ایک سے لگنے لگے تھے۔ یہ تجویز علی محسود کی طرف سے آئی تھی کہ غنی،گل جان سے شادی کرکے اسلام آباد چلا جائے۔ اس کے لیے اسی نے رقم فراہم کی تھی۔ مسلسل سوگ میں بیٹھی اور اسے کوسنے دینے والی عورت سے چھٹکارے کی یہی صورت تھی، سو اس نے چھٹکارا پالیا۔ شیرین گل وہیں ٹھہر گیا بہ قول غنی قندھاری کے،اُس کے دل میں ماں کے مارے جانے کا غم بہت گہرا تھا اور اس کے اندر بدلے کی آگ بھڑک رہی تھی۔
اس مرحلے میں، مجھے ایک اور کردار کوکہانی کے متن میں رواں کرنا ہے۔ یہ ایک دیہاڑی دار مزدور کا کردار ہے، جسے آگے چل کر غنی قندھاری اور دل جان کی بیٹی کا شوہر ہو جانا ہے۔ میں اس کا نام دوست محمد تجویز کرتا ہوں۔ جس ماحول میں اس نے بڑا ہونا ہے اس میں یہی نام دوسا ہو جائے گا۔ دوسا شایدوسطی پنجاب سے آیا تھا، ماں باپ کے گھر سے بھاگ کر یا شاید اس کے والدین ہی نگر نگر پھرنے والے تھے،اور اُسے یہیں چھوڑ کر کہیں اور نکل گئے تھے۔ اسے دیہاڑی دار مزدوروں کے ساتھ کئی سالوں سے دیکھا جا رہا تھا۔ کچھ عرصے سے وہ ایک ٹھیکیدار کے ساتھ اینٹیں ڈھونے اور گارامسالا بنانے پر لگ گیا تھا۔ سال بھر کا عرصہ ہی بیتا ہوگا کہ اس کام سے اس کا جی اوب گیا۔ وہ غنی قندھاری کے آرے پر آیا اور ملازم ہو گیا۔ پہلے پہل وہ شہتیر جتنے لکڑی کی گیلیاں کندھے پر اُٹھا کہ آرے کے پلیٹ فارم پر دھرنے پر مامور ہوا۔ پھرانہی گیلیوں کو تھام کر چرنے کے لیے آرے میں آگے دھکیلنے لگا۔ اس کے شوق اور اس کام میں دلچسپی کو دیکھ کر اسے مستقل اسی کام پر لگادیا گیا۔
کہا جا سکتا ہے یہ کہانی ابھی تک اندھا آئینہ ہے۔ ایسا غیر شفاف آئینہ جس میں سب چہرے دھندلے ہو جاتے ہیں۔ ہم اسی آئینے میں گل جان جیسی عورت کو دیکھ سکتے ہیں جس نے ایک اندھی بچی کو جنم دیا تھا۔یہ والی عورت ہمیشہ غنی قندھاری کے گھر کی چار دیواری میں رہی اور وہیں ایک روز، جلتے چولہے کے اوپر اوندھے منہ گری اور جل کرمر گئی۔ ایک اندھی موت؛ اور لوگوں کا کہنا تھا وہ خود سے نہیں مری تھی۔ ابا نے غنی قندھاری پر شبے کی رپٹ بھی تھانے میں دے دی تھی۔ خیر معاملہ جو بھی تھا، وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پھر سے سرحد پار نکل گیا تھا۔ مگر یہ تو بہت بعد کی بات ہے، تب کی کہ جب غنی قندھاری کی اندھی بیٹی نے جوان ہو کر ایک اشتہا اچھالنے والے جسم کا مالک ہونا تھا۔ جب سے گل جان جوان ہوئی تھی، غنی قندھاری کی راتوں کی نیند اُڑ گئی تھی۔ کچھ دنوں سے گل جان کو بھی نیند نہیں آتی تھی۔ وہ دیواریں ٹٹولتے ٹٹولتے دروازے تک پہنچ جاتی۔ دروازہ کے پٹ کھول کر عین گلی میں نکل جاتی اور یوں لمبے لمبے سانس کھینچنے لگتی جیسے گزرنے والوں کی مہک آنک رہی ہو۔ ماں نے کئی بار اسے ڈانٹ ڈپٹ کی مگر ہر بار وہ کہتی،کہ وہ انسانوں کی خوش بو اوران کی آوازوں کو چکھ سونگھ کر اپنے اندر ایک تصویر بنانا چاہتی ہے۔ سب کچھ دیکھ لینے والوں کی تصویر۔
’’پاگل کہیں کی‘‘، یہ اس کی ماں نے کہا تھا جب کہ اس کا باپ نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرتا کہ وہ اس پاگل اور اندھی لڑکی کے ساتھ قندھار میں نہیں تھا، وہاں ہوتا اور یہ ایسی حرکت کرتی تو زمین کا رزق ہو چکی ہوتی۔ وہ اسلام آباد میں تھا جہاں وہ کئی معاملات میں بے بس تھا۔ اور ہاں یہاں بتاتا چلوں کہ جب وہ گلی میں منہ اُٹھا کہ نتھنے پھلا رہی ہوتی تو اپنے ڈھیلے اوپر کی سمت چڑھا لیتی تھی یا پھر اس کی آنکھوں کی پتلیاں اکڑکر ٹھہر جاتیں اور کچھ زیادہ وقت کے لیے وہاں ٹھہری رہتی تھیں، جیسے اس عرصہ میں اس کے اندر دھرے کسی کینوس پر واقعی کوئی تصویر بن رہی ہو۔
میں نے اس عورت کے اندھا ہونے کی جو علامتیں گنوائی ہیں ان سے ایک بار پھر میرا دھیان ریمنڈ کی کہانی’’کیتھڈرل‘‘ کے اندھے کردار کی طرف چلا گیا ہے۔ کچھ ایسی ہی نشانیاں اس کردار کی بھی بتائی گئی تھیں۔ ریمنڈ کی لکھی ہوئی نشانیاں پڑھتے ہوئے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اندھا ایسے ہی کر سکتا تھا مگر اسی افسانے کی ایک تعبیر میں نے ایک مختصر فلم کی صورت میں دیکھی تو ہر بار خیال آیاکہ اس طرح تو ریمنڈ نے نہیں لکھا تھا۔ جس ڈرامائی تشکیل کی میں بات کر رہا ہوں اس میں پہلا فریم ایک امریکن اسٹائل کے کچن کا ہے۔ وہاں ڈائنگ ٹیبل پر ایک خوبرو شخص کو بیٹھے دِکھایا گیا ہے، جس نے ایک عورت کے شوہر کا کردار ادا کرنا ہے۔ وہ کرسی کی پشت سے کمر ٹیکے دونوں ہاتھ سامنے میز پر رکھے ہوئے ہے۔ سامنے پڑی پلیٹ خالی ہے۔فریم میں اس کی بیوی داخل ہوتی ہے۔ بال کٹے ہوئے، چست سی ٹی شرٹ اور اس ٹی شرٹ کے اوپر ایک دوسرے کو کاٹتی سرخ سیاہ موٹی دھاریوں اور کھلے گریبان والی لونگ شرٹ۔اس نے نیچے ٹرائوزر پہن رکھا ہے سیاہ رنگ کا۔ شوہر نے بھی ملتے جلتے والے رنگوں اور باہم کاٹتی موٹی دھاریوں والی شرٹ پہن رکھی ہے۔ یہ دھاریاں پہلی نظر میں چار خانہ سا بناتی تھی۔ بالکل ویسا چار خانہ جیسا غنی قندھاری کے دونوں کندھوں پر جھولنے اور پشت پر تکون بنانے والا رومال بنایا کرتا ہے۔
پہلی بار جب عورت فریم میں لائی جاتی ہے تو اُس کی چست ٹی شرٹ میں بھری ہوئی چھاتیوں سے اسکرین بھر جاتی ہے۔ تاہم ایسا بس ایک لمحے کے لیے ہوتا ہے، فوراً بعد یا شاید اس فریم سے پہلے ٹونٹی سے دھار بناتے نکلتے پانی کو پلیٹ کے اُوپر سے اُچھلتے اور شینک میں گرتے دِکھایا جاتاہے تو پانی اُچھلنے کے چھناکے کی جوآوازاوورلیپ کرتی ہے۔ اس سے عورت کی گرمجوشی ظاہر ہونے لگی ہے۔ کٹ کرکے کیمرہ خالی پلیٹ کے ادھر اُدھر میز پر پڑے خالی ہاتھ دکھاتا ہے۔خوب رو جوان کے خالی ہاتھ۔ خالی پن سارے میں پھیل جاتا ہے۔ ایک طرف گرمجوشی اور دوسری طرف خالی پن۔ ریمنڈ کی تحریر کو اگرچہ خوب مہارت سے گرفت میں لیا گیا ہے مگر پھر بھی مجھے لگتا ہے جو بات تحریر میں ہے، وہ اس ڈرامائی تعبیر میں نہیں ہے۔
……………………….
’’گرمجوشی اور خالی پن۔ تمہارے لیے یہ دو لفظ ہیں، لغت سے نکالے گئے دولفظ۔ تم نہیں جانتے یہ ایک ساتھ زندگی کے فریم میں نہیں آسکتے ‘‘
یہ بات انتہائی سنجیدگی سے دوسا مجھے بتاتے ہوئے سامنے دیوار کو دیکھ رہا ہے جہاں لکڑی کے ایک فریم میں آس کی اور اس کی بیوی تصویر لگی ہوئی ہے۔ دوسااب تک بہت سیانا ہوکر ایک بار پھر سے دوست محمد ہو چکا ہے۔ میں اُس کی بات سنتا ہوں اور اس کا چہرہ دیکھتا تو وہاں سنجیدگی سے زیادہ اذیت نظر آتی ہے، ایسی اذیت جس نے اس کی صورت اور بھی بگاڑ دی ہے۔ میرا تجزبہ رہا ہے کہ خوب صورت آدمی کے چہرے پر اذیت کے آثار بھی خوب صورت ہو جایاکرتے ہیں ؛ جیسا کہ فلم میں عورت کے خوب رو شوہر کے معاملے میں ہوا مگر دوست محمد کا نام خوب صورت سہی اُسے کسی طور قبول صورت بھی نہیں کہا جا سکتا۔ گہری سیاہ رنگت، کھردری جلد، بال اُڑے ہوئے، ہونٹ موٹے بھدے، ناک کے نتھنے پھیلے ہوئے اور توند نکلی ہوئی۔ میں،اُس سے جس ملاقات کی بات کررہا ہوں اس میں کچھ دیر پہلے تک اس کی بیوی گل جان اپنے بے پناہ حسن اور جسم کی مچلتی اشتہا کے ساتھ موجود تھی اور میں نے گل جان کی طرف سے گرمجوشی اور دوست محمد کی جانب سے خالی پن کو ایک ہی فریم میں دیکھا تھا۔ میں اب تک دوست محمد کو دُنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا آیا ہوں۔ گندگی سے اٹھ کر مشقت میں پڑنے والا اورپھر سب کچھ حاصل کر لینے والا، جی گل جان سمیت سب کچھ۔ لیکن ابھی کچھ لمحے پہلے کہ گل جان وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تھی، مجھے اپنی رائے بدل لینا پڑی ہے۔ دوست محمد کا چہرہ شدید اذیت سے کچھ زیادہ ہی کراہت اچھالنے لگا ہے۔ میں سوچتا ہوں، اگر گل جان کی آنکھیں ہوتیں تو کیا وہ اس شخص کو پھر بھی قبول کر لیتی۔ قبول کرلینے پر مجبور کر دی گئی ہوتی، تو بھی شاید ایسا ممکن نہ ہوتا، یہ میرے اندر کی آواز ہے۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ گل جان نے اپنی زندگی میں پھر بھی گرمجوشی برقراررکھی ہوئی ہے۔ اندھی گرمجوشی۔ کم ازکم مجھے اس باب میں یہی تاثر ملتا ہے۔
’’کیتھڈرل‘‘ کی تعبیر والی جس مختصر فلم کا میں نے ابھی اوپر ذکر کیا ہے،اُس میں ایک منظر میں تینوں یعنی خوب رو شوہر، بھرے بھرے جسم والی اس کی بیوی اور اس کا پرانا نابینا دوست پاس پاس بیٹھے ہوتے ہیں۔ شوہر کے چہرے پر بدستو ر اُکتاہٹ ہے مگر اُس کی بیوی کا پرانا دوست مسلسل بول رہا ہے اور شراب کی بوتل سے جام بھر بھر کر پئے جا رہا ہے۔ یہیں کہانی کا وہ مرحلہ آتا ہے، جب وہ کھانے کی میز سے اُٹھتے ہیں۔ عورت آگے بڑھ کر اپنے دوست کے بائیںہاتھ کی اُنگلیوں کو تھام لیتی ہے۔ اندھے کا انگوٹھااس گرفت سے آزاد ہے جو بہت آہستگی سے عورت کے ہاتھ کی پشت پر یوں چلتا ہے جیسے پانی شیشے پر ڈھلکتا اور پھسلتا ہے۔
میں نے بتایا ہی نہیں کہ اس مختصر فلم میں نابینا شخص کی داڑھی نہیں ہے۔ اُس نے سیاہ شیشوں والا چشمہ لگایا ہوا ہے اور یہ دونوں باتیں اصل متن سے متصادم ہیں۔ خیر یہاں اندھے کی اداکاری خوب ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی گمان نہیں گزرتا کہ وہ اندھا نہیں ہے۔ منہ اُٹھا کر ایک خاص زاویے پر چہرہ لا کر بات کرتا اورکوئی بات کرتے کرتے پتلیاں تک ساکت کر لیتا، جیسے آوازوں سے تصویریں بنانے لگا ہو۔ فلم کا یہ حصہ بہت توجہ سے فلمایا گیا ہے۔ کیتھڈرل کا منظر کٹ کٹ کر اسکرین پر اُبھرتا ہے۔ بیچ بیچ میں دکھایا جاتا ہے کہ صوفے پر دائیں جانب شوہر، بیچ میں اس کی بیوی اور بائیں طرف اندھا مہمان بیٹھے ہیں۔ اگلے منظر میں،کہ جب وہ اُٹھ کر صوفے پر جا بیٹھے تھے، بیٹھنے کی ترتیب بدل جاتی ہے۔ اب عورت بیچ میں نہیں ہے۔ موٹا کاغذ پاس ہی دھرا تھا جسے سامنے پھیلا لیا گیا ہے اور اس پروہ دونوں کیتھڈرل کی تصویر بنارہے ہیں۔ جی دونوں مل کر۔ اصل کہانی میں کاغذ شوہر کو دوسرے کمرے سے ڈھونڈ کر لانا ہوتا ہے تاہم وہاں بھی کیتھڈرل کی تصویر کو اسی طرح بننا ہے۔
اوہ، اب مجھے اپنے آپ کو یاد دلانا ہے کہ ریمنڈ کی لکھی ہوئی کہانی ایک نابینا مرد کے گرد گھومتی ہے،جب کہ میری کہانی میں عورت اندھی ہے۔ خیر، کہانی کے لگ بھگ ملتے جلتے مرحلے میں،ایک شوہر اور اس کی بیوی کا مہمان میں خود ہو جاتا ہوں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں اندھا نہیں ہوں۔ سب دیکھ سکتا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے سامنے کوئی ٹی وی ہے نہ اُس پر دِکھائی جانے والی کیتھڈرل کی فلم، ہم نے کچھ بھی کا غذ پر نہیں بنا یا ہے،نہ کچھ بنانے جارہے ہیں۔ تاہم یہاں بھی ایک اذیت ہے جو میں نے اور دوست محمد اور شاید گل جان نے بھی برابر برابر بانٹ لی ہے۔ گل جان نے بھی؟ میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں، اور اس کی طرف سے ظاہر کی جانے والی اندھی گرمجوشی کی بابت سوچتا ہوں تو مخمصے میں پڑ جاتا ہوں۔
’’کیتھڈرل‘‘ کی ڈرامائی تشکیل والی فلم میں، جب عورت صوفے کی پشت سے سر ٹیک کر سو جاتی ہے تو مجھے دھچکا لگتا ہے۔ ایسا مرحلہ اصل کہانی میں بھی ہے مگر یہاں اصل متن والا ریشمی نائٹ گائون نہیں ہے۔ میں افسوس کرتا ہوں کہ میں اسکرین پر ایک خوب صورت بھرے بھرے جسم والی عورت کی سفید ملائم ران سے نیند میں گائون ڈھلکنے کا منظر نہیں دیکھ سکا۔ ریمنڈ نے کہانی لکھتے ہوئے اس جانب اشارہ کر دیا تھا کہ جب اس عورت کی خوب صورت ران نمایاں ہوگئی تواس کے شوہر نے ایک لمحے کے لیے سوچا تھا کہ اُٹھے اور جاکر اس کا گائون درست کردے مگر دوسرے ہی لمحے ایک اندھے کے سامنے ایسا کرنا نہ کرنا بے معنی لگا تھا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میں نے اِسی افسانے کی ایک اور ڈرامائی تشکیل بھی دیکھ رکھی ہے۔ غالباً اس کا نام ’’ آئی اوپننگ‘‘ ہے ۔ اب جب کہ میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ساتھ ہی ساتھ اس دوسری فلم کے نام کا لطف بھی لے رہا ہوں۔ مانتا ہوں کہ ایک اندھے پر بنائی گئی فلم کا نام’’آئی اوپنگ‘‘ رکھ کر اس میں معنویت کی ایک اور پرت کا اضافہ کر لیا گیا ہے تاہم مجھے یاد آتا ہے کہ اس میں لڑکی کا کرداراحتیاط سے نہیں چنا گیا تھا۔ اُس میں جس لڑکی کو کاسٹ کیا گیا ہے وہ کچھ زیادہ ہی دُبلی پتلی ہے۔ اِ س دوسرے والی فلم میں افسانے سے قدرے زیادہ مواد لیا گیاہے مگر وہ اصل منظر جس میں گزر چکے وقت کے ایک پارچے میں اندھے کی انگلیاں اپنی دوست عورت کے چہرے پر ملائمت سے چلتی ہیں،وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ میں نے بتایا تھانا کہ ریمنڈ نے افسانے میں عورت کی ران سے گائون کو ڈھلکا کر ایک معنویت پیدا کی تھی، اسے یہاں بھی نظر انداز کر دیا گیاہے۔ پھر کیتھڈرل کی تصویر بنانے کے لگ بھگ آخری مرحلے میں عورت کا جاگ کر اپنے شوہر کے کندھے پر ہاتھ ٹیک دینا بھی افسانہ خراب کرنے کے مترادف ہے۔ دیکھنا، دِکھنا، جسم کی اشتہااوراحساس کی کیتھڈرل جیسی عظمت؛یہ ریمنڈ کی کہانی میں تھا مگر ان دونوں فلموں کہاں ہے؟
……………………….
میں وہاں ہوں مگر نہیں ہوں۔
یہ منظر میں بہت اوپر کہیں لکھ آیا ہوں کہ جب گل جان جھکی ہوئی تھی اور اس کے گریبان سے سارا گداز باہر جھانک رہا تھا، اور یوں لگتا تھا جیسے دو ہَنڈے سے جل اُٹھے تھے۔ میں ریمنڈ کے افسانے کا اندھا نہیں تھا لہذا اس اشتہا اُچھالتے گداز کو دیکھتے ہوئے اپنے پورے بدن کی یکسوئی سے لذت کشید کر تارہا۔ میری کہانی کی عورت کی آنکھیں نیند سے بند نہیں ہوئی وہ تو بے نور ہیں۔ اندھی عورت، جس کا جسم اشتہا اچھال رہا ہے، فرش پر گرپڑنے والے اپنے سیل کو اُٹھانے کے لیے جھکی ہوئی ہے۔ تاہم بتاتا چلوں کہ ریمنڈ کی کہانی کی عورت اور میری کہانی کی عورت میں ایک قدر مشترک ہے ؛ دونوں دِکھنے کی اس ازلی خواہش سے پاک ہیں۔ جی،جس کی ران ننگی ہوئی یا جس کا گریبان کھلا، دونوں، حالاں کہ یہ عورت کا بالعموم وتیرہ ہوا کرتا ہے کہ وہ دیکھی جائے۔ ہمارے اپنے افسانہ نگاروں نے عورت کے دِکھنے کی خواہش اور مرد کی دیکھنے کی اشتہا اور نظر بازی کی عادت کو ایک ساتھ رکھ کر کئی کہانیاں لکھ لی ہیں۔ کبھی کبھار تو لگتا ہے،بس ہمارے ہاں اس ایک تجربے کو ہی اہمیت حاصل رہی ہے۔ عورت بن سنور کر نکلتی ہے دِکھنے کے لیے اور مرد اُس کے تعاقب میں ہوتا ہے نظر بھر کر دیکھنے کے لیے۔ ریمنڈ نے جو کہانی لکھی تھی اس میں عورت دیکھے جانے کی خواہش کی ابتلا میں نہیں ہے۔ دیکھنا وہاں اس کے قدیمی دوست کا مسئلہ بھی نہیں ہے کہ وہ نابینا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو محسوس کر رہے ہیں اور محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ میری کہانی میں، اندھی عورت کی حد تک دِکھنے کی خواہش تو منہا ہو گئی ہے مگر اس میں میرا اپنا کردار جس طور نمایاں ہو رہا ہے اُس میں دیکھنے اور ایک بے پناہ خوب صورت جسم کے اندھا دھند عریانی اُچھالتے اعضا سے لذت کشید کرنے کے عمل نے ساری کہانی کو مختلف کر دیا ہے۔
اچھا، ایک اور اعتبار سے بھی میری یہ کہانی مختلف ہو جاتی ہے کہ اس میں گل جان کا شوہر ریمنڈ کی کہانی کے شوہر کی طرح اپنی عورت کے عریاں ہو جانے والے بدن کے بارے متردد نہیں ہوتا حالاں کہ وہ جانتا ہے کہ میں اندھا نہیں ہوں۔ اسے اپنا خالی پن عزیز ہے اور اسی خالی پن کو اوڑھے ایک اندھی عورت کو دیکھتا ہے جو اس کی بیوی ہے اور جو ساری کی ساری اندھے پن کے پیچھے چھپ گئی ہے۔ میں اس کی بیوی کو وہاں سے دیکھتا ہوں، جہاں سے وہ نہیں دیکھتا۔ میں دیکھتارہتا ہوں حتی کہ وہ سیل ڈھونڈ کر کمر سیدھی کر لیتی ہے۔ میں چونکتا ہوں اور پھر سے اُسے دیکھتا ہوں اور بے اختیاری سے اس کا ہاتھ تھام لیتا ہوں۔ میراا نگوٹھا اُس کی ہتھیلی کی پشت پر پھسلتے ہوئے ملائمت سے چلتا ہے۔ میری نگاہیں اس کے چہرے پر جمی ہیں جو پوری طرح اس سمت میںمڑا ہوا ہے جہاں آس کا شوہر بیٹھا ہے،اپنے وجود کے خالی پن کے ساتھ۔ وہ پوری طرح گردن گھماکر کمرے کے دروازے کی سمت دیکھتی ہے : ’’تم میرے مہمان کا خیال رکھو میں ذرا ’’روشنی‘‘ کے معاملات سلجھا لوں‘‘۔ اس کا لہجہ اعتماد بھرا ہے اور پر جوش۔ اس باراُس کا شوہر چونکتا ہے مگر اُسے دیکھے بغیر ایک مصنوعی گرمجوشی سے ’’ضرور، ضرور‘‘ کی تکرار کے بعد اپنے خالی پن میں لوٹ جاتا ہے۔ میں اُس کا ہاتھ تھامے رکھنا چاہتا ہوں مگر وہ اپنی اُنگلیاں اپنی ہتھیلی کی طرف سکیڑ کر میری ہتھیلی خالی کر دیتی ہے۔ مجھ میں ہمت نہیں ہے کہ میں پھر سے اُس کی انگلیاں تھام لوں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اسے میرے سہارے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ وہ نپے تلے قدم اُٹھاتی دروازے سے باہر نکل جاتی ہے۔ میں مڑ کر اُس کے شوہر کو دیکھتا ہوں اوریہ وہ مقام ہے جہاں میں نے ’’گرمجوشی‘‘ اور’’ خالی پن‘‘ والے جملے کو سنا تھا۔ ایسا کہتے ہوئے اس کے اندر کی اذیت نے اُس کا چہرہ اور بھی بگاڑ دیا تھا۔
…………….
شایدمعاملات اس قدر بگڑ گئے تھے کہ غنی قندھاری مزید اِنتظار نہ کر سکتا تھا۔ اب تک اس نے روپیہ پانی کی طرح بہایا تھا۔ اس کی بیوی کے جل مرنے کو چوتھا روز ہو چلا تھا۔ پولیس نے ابھی تک مقدمہ درج نہیں کیا تھا مگر کب تک۔ کچھ عرصے سے مجھے یقین سا ہو چلا تھا کہ غنی قندھاری اپنی بیٹی کے معاملے میںمجھے سامنے رکھ کر ایک فیصلہ کر چکا تھا مگر اب سب کچھ تلپٹ ہو گیا تھا۔ ایسے میں وہ میری طرف اُمید سے کیسے دیکھ سکتا تھا۔ میرا باپ ہی اسے قتل کے مقدمے میں پھنسانے جتن کر رہا تھا۔ یہیں مجھے بتا دینا چاہیے کہ میرا باپ ساتھ والے عباسی وڈ ہائوس کا مالک ہے۔ بہ ظاہر دونوں میں خوب لین دین چلتا رہا مگر شاید اندر ہی اندر کچھ اور چل رہا تھا جو اب پوری طرح ظاہر ہو رہاہے۔ میرے باپ کا کہنا ہے وہ اس قاتل کو نہیں چھوڑے گا۔ تاہم اس باب میں غنی قندھاری زیادہ رسوخ والا نکلا، اگلے ہفتے پولیس نے روزنامچے میں ایک اندھی عورت کے آگ میں اتفاقیہ جلنے کی رپورٹ لکھ دی۔ میرا باپ بپھر گیا۔ اس نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس قاتل کو صاف بچ نکلنے نہیں دے گا۔ اس کے لیے اس نے اوپر درخواستیں دیں، اخباروں کو مراسلے بھجوائے، ٹی وی والوں کے ہاں پہنچ گیا،عورتوں کی این جی اوز کو ایک عورت پر ہونے والے ظلم کی بابت بتایا تو ایک شور سا مچ گیا۔ پولیس پر دبائو بڑھنے لگا توغنی قندھاری کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔اس شام تو وہ بوکھلا ہی گیا جس شام گل جان نے اس سے پوچھا تھا، ابا آخر میری ماں کا قصور کیا تھا؟
وہ بیٹی کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ اس کی ماں کا جل جانا قتل نہیں محض ایک حادثہ تھا مگر اسے خدشہ سا ہواکہ عورتوں کی این جی اوز اب اس کی بیٹی سے رابطہ کرنے لگی تھیں وہ ان کے ورغلانے میں آ سکتی تھی۔ اس نے اپنی بیٹی کو محبت کا یقین دلانے کے لیے اپنا کاروبار اس کے نام کیا، اپنے ہاں ملازم دوست محمد کو اپنا داماد بنانے کی بات کی۔ دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والی آنکھوں والااندھی گل جان کا شوہر بنے گا۔ ایسا سنتے ہی اُس کا سویا پڑا جسم جاگ گیا اور اس کے سارے وجود پر آنکھیں اُگ آئیں۔ لگ بھگ ایسی ہی گرمی دوست محمد کے ہاں بھی تھی۔ جہاں وہ ملازم تھا، اب سب کچھ گل جان کا تھا۔ گل جان جو اس کی بیوی تھی اور اندھی تھی۔ گویا اس کے پاس اس دولت کو اندھا دھند استعمال کرنے کا موقع ہا تھ لگنے والا تھا۔
اس مرحلے کی ساری کہانی سے میں نے اپنے آپ کو یوں باہر نکال پھینکا ہے،جیسے کوئی دودھ میں گری مکھی نکال پھینکتا ہے حالاں کہ مکھی جیسی کراہت تو اس شخص سے آتی تھی جو شہد ملے دُودھ جیسی رنگت والی لڑکی کا شوہر ہو گیا تھا اور اب اس کے وسیلے سے لکڑی کا سارا کاروبار بھی جس کے تصرف میں تھا۔
یہ بات مجھے کہیں اوپر بتانا چاہیے تھی کہ جب میں اور میکس دریائے ایلواہا کے اُس مقام پر تھے جہاں پہلے الڈویل کی جھیل ہوا کرتی تھی اور جب مجھے اُس نے ریمنڈ کی قبرکے کتبے پر کھدی ہوئی عبارت سنائی تھی تو ہم نے دیر تک اُس کی نجی زندگی پر بھی بات کی تھی۔اُس نے بتایا تھا کہ اس کا دوست کولمبیا کے چھوٹے سے قصبے کلاٹس کانئی میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ ایک چھوٹے سے لکڑیوں کے آرے میں مزدور تھا۔ بلا کا شرابی۔ وہ اپنے بیٹے کو شکار اور مچھلیاں پکڑنے کی کہانیاں سناتا یا پھر اپنے دا دا کی کہانیاں جس نے سول وار میں دادشجاعت دی تھی۔
افغان جنگ کو اگرچہ غنی قندھاری نے براہ راست بھگتا تھا، بھگت رہا تھا اور اس کی کہانیاں بھی اپنے ملنے والوں کو سنا رہا تھا مگر وہ اس جنگ کی کہانیاںاپنی اندھی بیٹی کو نہیں سناسکتا تھا۔ وہ تو اپنے بیٹے شریں زمان کو بھی یاد نہیں کر سکتا تھا جس نے اپنے آپ کو ابھی تک اس جنگ میں جھونکا ہوا تھا۔ گل جان اس کے ذکر پر بپھر جایا کرتی تھی ۔ یہ ایسے زخم تھے جو اُس کے اندر رِس رہے تھے۔ ایک جنگ،جس کی کہانی وہ اپنوں کو نہیں سنا سکتا تھا، اُسے لگتا اس سارے اپنے نگل لیے تھے۔ اپنا گائوں، اپنا ملک۔ اپنے عزیز واقارب، اپنا بیٹا شیریں زمان اور بارود سے دھنک ڈالی گئی اس کی بیوی مرجان۔ اپنے بیٹے کے لیے تو وہ پل پل تڑپتا تھا جو ماں کا بدلہ لینے نکلا تھا اور دہشت گرد بن گیا تھا۔ کچھ سال پہلے ایک رات کے سناٹے میں وہ ا سے ملنے آیا تھا مگر اُس گھر اُس کی ماں نہیں ایک اور عورت تھی جو اپنی بیٹی کے ساتھ رہتی تھی۔ انہیں اس کا یوں آنا ناگوار گزرا تھا۔ اس سے پہلے کہ اس کی مخبری ہوتی، وہ واپس چلا گیا۔ یقینا اپنے دشمنوں کے خلاف لڑ رہا ہوگا، یہ غنی قندھاری سوچتا تھا مگر جو کل تک دوست تھے وہ دشمن ہو چکے تھے اور یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کون دوست تھا اور کون دشمن۔ یوں لگتا تھا انجانے میں وہ سب کسی اور کے مہرے بنے ایک دوسرے پر پل پڑے تھے۔ ایک اندھی جنگ کا دھکتاالائوتھا جس کا سب ایندھن بن رہے تھے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا غنی قندھاری کی طرح ریمنڈ کا باپ کی زندگی میں بھی آرا آتا ہے۔
ریمنڈ کا باپ ایک چھوٹے سے آرے میں ملازم تھا۔ تاہم بتاتا چلوں کہ غنی خان جیسانصیب ریمنڈ کے باپ کانہیں تھا۔ اس کے باوجود ایک لحاظ سے وہ خوش بخت تھا کہ اس کے علاقے میں جنگ یوں اہلے گہلے نہیں پھر رہی تھی۔ وہ جو کماتا شراب پینے میں اُڑا دیتا لہذا ا س کی بیوی کو گھر کے اخراجات چلانے کے لیے چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرنا پڑیں۔ شراب خانے کی ویٹریس بننے سے لے کر پرچون کی دکان پر کلرکی تک کو ان کاموں میں شامل کر لیجئے۔ میری کہانی میں غنی قندھاری کی بیوی بہ ظاہر خوش نصیب نظر آتی ہے کہ اسے گھر سے باہر نہیں نکلنا پڑا مگر بد نصیب اسی اعتبار سے ہے کہ وہ گھر سے باہر نہ نکل سکتی تھی، یہی اس نے سیکھا تھا اور یہی اس کے مزاج کا حصہ ہو گیا تھا۔ اس کا اپنا خیال تھا کہ ایک محسود عورت کی زندگی کو گھر کی چار دیوری میں ہی کٹنا چاہیے۔ یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا اسے باہر نکلنا ہوتا تو شٹل کاک برقعے میں نکلتی۔ اور ایسا گنتی کے چندمواقع پر ہی ہوا تھا کہ وہ لپٹی لپٹائی گھر کی چار دیواری سے باہر نکلی تھی۔ کہتے ہیں وہ اسی برقعے میں لپٹی ہوئی تھی۔ باہر نکلنے کے لیے وہ جلتے ہوئے چولہے کے پاس سے گزری، لڑ کھڑا کر اس پر گری اور جل کر مر گئی تھی۔
میرے باپ نے پولیس کو لکھوائی گئی رپٹ میں یہ بھی لکھوایا تھا کہ اس عورت کو قتل کرنے کے لیے شٹل کاک برقعے میں لپیٹ کر اسے جلتے چولہے پر گرادیا گیا تھا۔
وہ ساری گفتگو جو میں نے میکس سے سنی اس میں کسی قتل کا ذکر نہیں ہوا تھا۔ اب اگر میکس کی ساری باتیں مجھے رہ رہ کر یاد آنے لگی ہیں تو اس لیے کہ اس میں بھی ایک اندھی محبت کا حوالہ آتا ہے ؛ ایک ایسی اندھی محبت کا حوالہ جو میرے ہاں روپ بدل کر آئی ہے۔ یہ میرے اندر ایک اندھی لڑکی کے لیے ٹھاٹھیں مارنے لگی ہے۔ تاہم المیہ یہ ہے کہ اسے اپنے اظہار سے پہلے ہی مر جانا ہوتا ہے۔ میکس کے مطابق اس کے دوست ریمنڈ نے گریجویشن کے فوراً بعد سولہ سالہ مریان برک سے شادی کر لی تھی۔ دونوں کو شدید محبت ہوئی۔ دو سال جدائی میں تڑپنے اور بہت سے محبت نامے لکھنے کے بعد شادی کر لی۔ مگر جس اندھی محبت کا ذکر بہ طور خاص میکس نے کیا تھا اسے بعد میں ہونا تھا اور اسے شادی کے رشتے میں بھی نہیں بدلنا تھا۔ جب ریمنڈ میزولا ماونٹ کی طرف تفریح کے لیے نکلا ہوا تھا اور ایک روز جب کہ وہ بہت سی مچھلیاں شکار کرنے کے بعد سرشاری محسوس کر رہا تھا اپنے ادبی ساتھی اورمددگار بل کٹریج کی سالگرہ پر گیا وہاں اس کی ملاقات ڈیانے سسیلی سے ہوئی تو اسے فوراً دل دے بیٹھا تھا۔ اس کے بعد اس کا شرابی بننا اور پی ایچ ڈی کی کلاس کچھ عرصہ کے لیے چھوڑ دینا کہ وہ اپنی اس محبوبہ کا ہم جماعت ہو جائے، افسانہ لکھنے والے کا اپنا افسانہ ہے۔ ایک زمانہ تھا وہ اتنی ہی شدت سے ماریان برک سے محبت کرتا تھا مگر یہ نئی محبت ایسی تھی کہ اس کے لیے اس نے کئی دو بار اپنی بیوی کو دھنک ڈالا تھا۔ اگلے کچھ سال اس نے اسی محبت میں خود کو برباد کر ڈالا۔ شراب پی پی کر پھیپھڑے چھلنی کیے اور چلتی پھرتی لاش بنا یہاں تک کہ اسے ٹیس گالیگار سے محبت ہو گئی۔ اس سے ماریان برک سے علیحدگی اختیار کی اور ٹیس گالیگار کے ساتھ رہنے لگا۔ یہ محبت تھی یا محض ساتھ ساتھ رہنے کی خواہش ؛ یہ کچھ بھی تھا وہ ساتھ ساتھ رہے۔ ٹیس گالیگاراس کی ادبی ساتھی بھی تھی جس نے زندگی کے خاتمے تک اُس کا ساتھ نبھایا۔
میری کہانی میں بھی شدید محبت پڑتی ہے۔ میں کب سے اندھی عورت کی کہانی کو’’میری کہانی‘‘،’’میری کہانی‘‘ کہے جا رہا ہوں تو یہاں آپ کو چونکنا چاہیے تھے۔ ممکن ہے آپ چونکے بھی ہوں گے مگر کسی نہ کسی طرح خود کو یقین دلا دیا ہوگا کہ اس میں محض اور صرف میںراوی ہوں۔ نہیں صاحب ایسا نہیں ہے، میں پوری طرح اس کہانی میں ہوں۔ یہ ریمنڈ نے بھی کہہ رکھا ہے کہ کوئی کہانی ایسی نہیں ہوتی جو آپ کے وجود سے کنی کاٹ کر گزرے۔ تو یوں ہے کہ یہ میرے وجود سے ہو کر گزری ہے۔ میں فقط راوی نہیں، راوی کردار ہوں، پوری طرح دخیل ایک کردار، لہذا مجھے پورا حق حاصل ہو گیا ہے کہ اسے ’میری کہانی‘ لکھوں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا،میری کہانی میں بھی شدید محبت پڑتی ہے، شدید اور اندھی محبت مگر یہ محض میری طرف سے ہے۔ اس کا باپ سرحد پار چلا گیا ہے۔ میرے باپ کا ایک قاتل کے انجام کو پہنچانے کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا ہے مگر میرے اندر محبت مدہم نہیں پڑتی۔ میں کہانی سے باہر بیٹھا سوچتا ہوں کہ شروع شروع میں اُس کے شوہر نے اُس کا خوب خیال رکھا ہوگا، اُس کا یا پھر اُس کے باپ کے چھوڑے ہوئے کاروبار کا مگر کاروبار سکڑنے لگا ہوگا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کاروبار دوست محمد عرف دوسے کی عیاشیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ شراب کا یہ بھی رسیا رہا ہوگا، بالکل ریمنڈ اور اس کے باپ کی طرح مگر اُس نے محبت نہیں کی ہوگی۔ اس طرح کے لوگ محبت نہیں کر سکتے رنڈی بازی کرتے ہیں۔ وہ اُن عورتوں کی طرف لپکا ہوگا جو اندھی نہیں ہوتیں مگر اس طرح کے سلسلے کو ایک روز ختم ہونا ہوتا ہے اور وہ ختم ہو گیا ہوگا۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ ختم ہو چکا ہے۔دُکھ کہ بات یہ ہے کہ گل جان اس سارے عرصے میں یوں رہی ہے جیسے وہ اپنے مجازی خدا کی پرجوش عبادت کرتی رہی ہو ؛اندھی پرجوش عبادت، بالکل ویسے ہی جیسے اس کی ماں نے اس کے باپ کی تھی تاہم وہ اپنی ماں سے کچھ مختلف ہو کرریمنڈ کی ماں جیسی ہو گئی ہے۔ جی میں نے بتایا نا کہ ریمنڈ کا باپ شرابی تھا جو کماتا اُڑا دیتا تھااور اُس کی بیوی چھوٹی موٹی نوکریاں کرکے گھر کا خرچ چلایا کرتی تھی۔
گل جان بھی گھر کا خرچ چلانے گھر سے نکلی۔تاہم اس نے جو کام کیا اس میں وہ اندر سے توانا ہوتی چلی گئی۔ این جی اوز کے ساتھ عورتوں کی خود مختاری کے لیے کام کرنے والیوں سے اس کا رابطہ ماں کے جل مرنے کے دنوں میں ہوا تھا۔ اس نے یہ رابطے بحال کیے۔ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ بات کرنا اٹھنا بیٹھنا اور بریل سے پڑھ کر مطالب اخذ کرنے تک کئی برسوں کی کہانی ہے۔اسی عرصے میں ایک نئی تنظیم وجود میں آگئی تھی۔ معذور عورتوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے مقصد کے ساتھ ؛ اس این جو کا نام ’’روشنی ‘‘ ہوا۔ گل جان کو اس باب میں بہت کامیابیاں ملیں۔ ان کامیابیوں کے بدلے اُسے اپنے شوہر کی توجہ پھر سے حاصل ہوگئی۔ مگر یہ ساری کہانی یا تو میں نے فرض کی ہے یا پھراس کے کچھ حصے اوروں سے سن کر اُنہیں اپنے ڈھب سے جوڑ لیا ہے کہ اس سارے عرصہ میں میں ملک سے باہر چلا گیا تھا۔
میں باہر چلاگیا تھا،مگر میری محبت جیسے یہیں کہیں تھی۔ میں نے پب میں جاکر رنگ رنگ کی شرابیں چکھیں اور مارتھا کو بھی جس کی تازہ دودھ جیسی جلد کو قریب سے دیکھتاتو اُس پر بھورے تل نمایاں ہوکر اُسے بھدا کر دیتے تھے۔ میں اُس کا بدن سونگھنا نہیں چاہتا تھا مگر اس کی کچی ہمک نتھنوں میں خود سے دھنستی چلی جاتی اور میرا جی اُلٹنے لگتا۔ مارتھا اور اس جیسی کئی اور عورتیں وہیں رہ گئیں، میں واپس آجاتا ہوں۔ یہاں کہ یہاں میری محبت ہے۔
مگر میری محبت کہاںہے؟۔۔۔ میری اندھی محبت۔۔۔ میری ہتھیلی سے اس کی نرم نرم انگلیاں یوں نکل گئی ہیں جیسے گیلی مچھلی پھسل کر گیلے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
وہ ’’گرمجوشی‘‘ اور’’ خالی پن‘‘ والے جملے اُگلتا ہے۔ میں اُسے نفرت سے دیکھتا ہوں اور اپنا بیگ اُس کے سامنے خالی کر دیتا ہوں۔ کریہہ آدمی کے چہرے پر سیاہی دمکنے لگتی ہے۔ مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ اب وہ اس کی زندگی سے نکل جائے گا۔ میں ادھر سے مطمئن دروازے کی سمت دیکھتا ہوں۔ اسی دروازے سے وہ نکل کر اپنے دفتر گئی ہے۔ روشنی کے دفتر، مگر وہ تو وہی ہے، وہ جانے کی بہ جائے کسی خدشے کو سونگھ کر واپس آگئی میں نہیں جانتا۔ میں اس کی طرف لپکنا چاہتا ہوں، اس کا ہاتھ اٹھتا ہے اور ہتھیلی کسی تنے ہوئے چانٹے کی طرح اٹھ کر مجھے وہیں رک جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہ تھوڑی اوپر کرکے اپنے چہرے کا رُخ اس طرف رکھے ہوئے ہے جس طرف اُس کا شوہر ہے۔ اُس کے نتھنے پھڑ پھڑا رہے ہیں جیسے کہ وہ کچھ سونگھ رہی ہو۔ اس سے پہلے کہ میں اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی حیلہ کرتا، سیڑھیوں پر دھپ دھپ ہوتی ہے اور ’’روشنی ‘‘ کا آفس بوائے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ وہ چھوٹتے بتاتا ہے ؛’’ میڈم آفس میں کوئی صاحب آپ کا انتظار کرتے ہیں۔
’’کون صاحب؟‘‘
میڈم کے پوچھنے پر لڑکا بتاتا ہے؛’’جی، وہ اپنا نام شرین زمان بتاتے ہیں، کہتے ہیں وہ آپ کے بھائی ہیں ‘‘۔
’’بھائی‘‘۔ گل جان منہ ہی منہ میں اس نام کا غراہ کرتی ہے اور ایک طرف تھوک دیتی ہے۔
کہانی میں اب وہ مقام آگیا ہے کہ میںیہ بتادوں کہ میرے ابا نے ابھی تک اپنے دشمن کو یاد رکھا ہوا ہے۔ مثلاً جب ابانے پشاور کے قصہ خوانی بازار کے دھماکے میں مرنے والوں میں غنی قندھاری کانام پڑھا تو اس نے اسے بہت گالیاں دی تھیں۔ اس کا خیال تھا ہو نہ ہو اس لنگڑے کا اس دھماکے سے کوئی نہ کوئی تعلق تھا۔ سرحد پار جانے والا، غنی قندھاری قصہ خوانی میں کیسے پہنچا کوئی نہ جانتا تھا مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ وہاں تھااور مارا گیا تھا۔ ابا کے مطابق،اب جب کہ وہ مارا گیا تھا، اس کی اندھی بیٹی ساراگُھنڈ کھول بیٹھی تھی۔
ابا نے اخبار کے رنگین صفحے پر چھپنے والے ’’ روشنی‘‘کے فیچر کا تراشہ لیا اور کسی کے ہاتھ گل جان کے نانا علی شیر محسود کو بھجوا دیا۔ محسود قبیلہ تو اپنی غیرت پر مر مٹنے والاتھا۔ علی شیر محسود نے اپنی بیٹی شٹل کاک برقعے میں یہاں اس لیے نہیں بھیجی تھی کہ اس کی بیٹی کی بیٹی کی تصویریں اخبار وںمیں چھپیں۔ وہ بھڑک اُٹھا۔ کہتے ہی اس نے گل جان کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائے مگر ایک نواسی اپنے اُس نانا کی دھمکی میں کیسے آ سکتی تھی جس سے اس کا اس دھمکی کے سوا کوئی تعلق نہ رہا تھا۔ ابا نے یہ بھی بتایا تھا کہ علی خان محسود یہاں کے طالبان میں بہت رسوخ رکھنے لگاتھا۔ ابا کو یقین تھا وہ گل جان کے معاملے کو علی خان محسود کی غیرت کا معاملہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر اس پر کڑھتے تھے کہ غنی مردود کی بے حیا بیٹی کے لچھن ویسے کے ویسے تھے اوراُس کی تصویریں اخباروں میں مسلسل چھپ رہی تھیں۔
…………………
میں کھڑکی سے نیچے دیکھتا ہوں۔ آفس بوائے،گل جان کے کچھ آگے نکل کر چل رہاہے۔ ایک بڑے آدمی کی طرح پوری ذمے داری سے۔ سڑک پر ٹریفک کا سیلاب بہہ رہا ہے۔ وہ بہائو کی طرف چلتے ہوئے سڑک پار کر رہے ہیں۔ میں نے اندازہ لگایا اس طرح وہ آفس سے کچھ دور نکل جائیں گے اور انہیں دفتر آنے کے لیے مڑ کر آنا ہوگا۔ آفس بوائے چوکس ہے۔ اس کا ایک ہاتھ آگے کو اٹھا جھول رہا ہے۔ ایسا کرنے سے گاڑیاں راستہ دے دیتی ہیں۔ میں عمارت کے جس حصے میں ہوں، اس میں دوست محمد عرف دوسا کا گھر ہے۔ میں ایک مدت کے بعد اس سے ملنے آیا ہوں۔ اس سے، نہیں بلکہ گل جان سے جو نیچے اپنے آفس بوائے کے ساتھ سڑک پار کر رہی ہے۔ میں کھڑکی سے سامنے والی عمارت پر ایک چھوٹے سے بورڈ کو تلاش کرتا ہوں۔ ہاں وہ رہا، اس پر سے بہ مشکل ’’روشنی ‘‘ پڑھا جا سکا ہے۔ میری نظر پھسلتی ہوئی نیچے جاتی ہے جہاں سے غالباً اوپر آفس کو راستہ جاتا ہوگا۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہاں سے ایک شخص قدرے بہ عجلت نکلتا ہے اور سیدھا اس جانب بڑھتا ہے جس طرف گل جان اور اس کا آفس بوائے ہے۔ میں اس شخص کے لباس سے اندازہ لگاتا ہوں کہ ہو نہ ہو وہی شریں گل ہوگا؛ گل جان کا بھائی۔ وہ سڑک پر پائوں رکھتا ہے اور ادھر ادھر دیکھے بغیر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ گاڑیوں کی بریکیں چیخ اٹھتی ہیں۔ ’’بے وقوف، جاہل ‘‘۔ اب کے میرے حلقوم میں غرارہ ہوتا ہے۔ وہ سب سے بے نیاز آگے بڑھتا رہتا ہے۔ حتی کہ بس ایک ہی قدم کا فاصلہ رہ گیا ہوگا کہ ایک کار اپنی چیختی بریکوں کے ساتھ رُک جاتی ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے ساری کائنات رُک گئی ہے۔ ڈھاس ڈھک ڈھک کئی گاڑیاں آگے رُک جانے والی گاڑیوں کو پیچھے سے جا لگتی ہیں۔ سب کچھ سڑک کے وسط میں ہو رہا ہے۔ نہیں بلکہ مجھے کہنا چاہیے کہ وہاں اب کچھ نہیں ہورہا۔ سب کچھ ٹھہرا ہوا ہے یا پھر مجھے ہی سب کچھ ساکت نظر آرہا ہے۔ گل جان، آفس بوائے اور وہ شخص،جو روشنی کی سیڑھیاں اترتا سٹرک پر گاڑیوں کی بھیڑ چیرتااس کے وسط میں پہنچتا ہے، جی وہ بھی۔ اچانک اس شخص کے ہاتھ میں حرکت ہوتی ہے، میں دیکھ رہا ہوں جیسے وہ اپنا ہاتھ پیٹ کی طرف لے جاتے ہوئے گل جان کی طرف لپکتا ہے اور ایک دھماکے سے پھٹ جاتا ہے ؛یوں جیسے اس کی کھال میں بارود بھرا ہوا تھا۔ اس کے اردگرد سب کچھ اچھل کر دور جا گرتا ہے۔ وہ کار جس کی بریکیں ابھی چرچرائیں تھیں، آفس بوائے جو کچھ دیر پہلے ہاتھ لمبا کرکے ٹریفک میں راستہ بنا رہا تھا اور گل جان جس کی اُنگلیاں میری تھیلی کے اندر سے پھسلتی ہوئی نکلی تھیں، سب اچھل کر دور بکھر جاتے ہیں۔ پھر جیسے میری آنکھوں کے سامنے گاڑھی تاریکی چھا جاتی ہے۔
گاڑھی تاریکی۔ انسانوں کے اندھے جنگل میں سرنگ بناتی گھنی پیچ دار تاریکی۔
اس کہانی میں کہیں بھی کوئی مقدس عمارت نہیں ہے۔ ہم بازار میں ہیں۔ بہتی ہوئی بھیڑ کے اندر۔ بازار میں دھماکے ہوتے ہیں مگر دکانیں پھر کھل جاتی ہیں۔ مسجدیں، ان کے محراب، ان کے مینارتو ہر کہیں ہیں مگر ان سب کو اپنے ہالے میں لیتا تقدس میری کہانی میں کہیں نہیں ہے کہ یہاں مسجدوں،خانقاہوں،امام بارگاہوں اور دوسری مقدس عمارتوں میں جب دھماکے ہوتے ہیں تو اندر سے لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔ ان عمارتوں کا جمال اور جلال ہمارے اپنوں کے باردو بندھے جسموں اور ہمارے اپنوں ہی کی لاشوں نے میری کہانی سے الگ کر دیا ہے۔ ہم سب مارکیٹ کا حصہ ہو ہیں یا پھر اس کا حصہ ہوتے چلے جاتے رہے ہیں اور چوں کہ اس کا کوئی تقدس نہیں ہوتا اس سے کوئی جمال پھوٹتا ہے نہ اس کا کوئی جلال ہوتا ہے لہذا اس میںدھماکا ہو یا ہنگامہ کاروبار پھر سے رواں ہو جاتا ہے۔ یہی بازار بہ سہولت میری کہانی میں بھی گھس آیا ہے۔ بریف کیس کے اُلٹنے کی ہمت کا میرے اندر آجانا، اسی بازار کی دین ہے۔
باہر سے یوں آوازیں آرہی ہیں جیسے ٹریفک پھر سے رواں ہوگئی ہے۔ میں آنکھیں میچے میچے اندازہ لگا سکتا ہوں کہ بازار پھر سے بھر گیا ہوگا۔ میں ہاتھ اُٹھا کرکھڑکی کے شیشے پر رکھتا ہوں اور اسے اپنی ہتھیلی سے یوں محسوس کرتا ہوں جیسے کوئی نابینا سامنے پڑے ہوئے کاغذپر لکھنے سے پہلے، اس کے لمس سے اس کو کناروں تک محسوس کرتا ہے۔ اب میری انگلیاں فضا میں تھرتھراتی ہیں اور دوانگلیوں کی پوریں یوں جڑ جاتی ہیں جیسے وہ کوئی قلم تھام رہی ہوں۔ کاش میری کہانی میں کسی کیتھڈرل،کسی مندر،کسی مسجد یا پھر انہی جیسی کسی محترم عمارت کے کلس یا منارے نمایاں ہو سکتے۔ اگر ایسا ہو سکتا تو میں اُس اندھی عورت کو کسی ایسی ہی عمارت کے جلال اور جمال میں ڈھال سکتا تھا جو سڑک کے وسط میں بکھری پڑی ہے۔
کاش کسی کلس کی، کسی منارے کی، کسی محراب کی تصویر بن رہی ہوتی تو وہ چپکے سے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیتی۔ میں کاغذ پر ہاتھ پھیر کر بننے والی تصویر کے حسن کو محسوس کر رہا ہوتا اور وہ اپنا چہرہ وہاں بچھا دیتی۔ مجھے یقین ہے میں اس کا چہرہ چھوتا تو اس کے بدن میں بجلیاں بھر جاتیں مگر میں نے کہا نا میری کئی قاشوں میں بکھری ہوئی اس کہانی میں محض کئی کاش ہیں؛ ایسی مقدس عمارت کا جمال یا جلال نہیں ہے جس سے محبت کی تصویر بن سکے۔ اس میں اوروں کی جنگ ہے جو اب میرے اندر تک گھس آئی ہے، میرا بریف کیس ہے، جسے ایک کریہہ شخص کے سامنے اوندھا یا جا چکا ہے۔ اس میں ہوں جس کی ہتھیلی سے گلاب جیسی اندھی عورت کی اُنگلیاں پھسل چکی ہیں۔ اس میں کچھ ہی لمحے پہلے تک اشتہااُچھالتا اور اس اشتہا کو محبت کے کرب میں ڈھالتا اندھا بدن ہے جو وہاں بہتی ٹریفک کے درمیان بکھرا پڑا ہے۔