ٹی وی آن کیا تو تو ایک اینکر انتہائی جذباتی انداز میں سانحہ پشاور کے مقام سے دنیا کو پیغام دے رہاتھا کہ دنیا میں اگر امن قائم ہوا تو تاریخ میں یہ ضرور لکھا جائے گاکہ پاکستانی نونہالوں کا خون بھی اس میں شامل تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں یقیناًایسا ہی ہو گادنیا پاکستان کی قربانیوں کو کبھی نہیں بھلا سکتی ۔ ہم نے دنیا کا اس وقت ساتھ دیا جب ہمیں طعنہ دیا جاتا تھا کہ ہم غیروں کی جنگ میں شامل ہو گئے ہیں اور یہ ہمارے لیے ہرگز آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس فیصلے کی پاداش میں ہم کم و بیش 70000 بے گناہوں کے خون سے دنیا میں امن کے باب کو لہو رنگ ناموں کی ایک طویل فہرست دے چکے ہیں۔لیکن پاکستان نے جو قربانی سولہ دسمبر کو پیش کی ہے وہ پوری دنیا کے لیے ایک صدمے کی مانند ہے، جو لوگ ماضی میں پاکستان سے ہمیشہ مزید تعاون کے طلبگار رہے ان کی آنکھوں میں پاکستان کے مستقبل کی شہادت پر آنسو نظر آئے۔
دشمن اس قوم کے حوصلے پست کرنے کے لیے جتنے صدمات سے دوچار کرتا ہے اتنا ہی یہ قوم پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ سینہ تان کر دشمن کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔
پشاور سانحہ میں141 تو شہادت کا رتبہ پا گئے لیکن اپنے پیچھے ایسی داستانیں رقم کر گئے جنہیں سن کر دنیا حیران ہے کہ اس قوم کی بنیادوں میں ایسا کیا ہے جو اسے ہر مشکل کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ایک طالبعلم جس کے سینے میں دائیں طرف گولی لگی اور اس کی ایک ٹانگ بارود کی نذر ہو گئی، جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ تعلیم حاصل کر کے کیا بنے گا تو اس کا جواب تھا کہ وہ فوج کا حصہ بن کر ان لوگوں کو کڑی سزا دے گا جنہوں نے اس کے سکول پہ یہ ظلم ڈھایا۔کیا جب دنیا میں امن کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں ننھی 6سالہ خولہ کا ذکر نہیں ہو گا جس کا سکول میں پہلا دن تھا؟ وہ اپنے اسی سکول میں زیر تعلیم دو بھائیوں کو دیکھ کر خوشی خوشی سکول میں داخل ہوئی تھی اور اس کا سکول میں پہلا دن ہی اس کا یوم شہادت بن گیا۔ میرے تصور میں ایک منظر ابھر رہا ہے کہ ننھی خولہ خدا کی بارگاہ میں شہادت کی سند کے ساتھ کھڑی ہے اور خدا اس سے اس کی خواہش پوچھ رہا ہے، لیکن میں تصور نہیں کر پاتا کہ تو وہ ان ظالموں کے لیے خدا سے کیا مانگے گی؟ خولہ نے جو اذیت برداشت کی، اس نے ہر زخم لگنے پہ جب اپنی ماں کو پکارا ہو گا تو کیا اس کی پکار پر خدا نے ان ظالموں کے نصیب میں اذیت نہیں لکھ دی ہو گی ؟
دشمن اس قوم کے حوصلے پست کرنے کے لیے جتنے صدمات سے دوچار کرتا ہے اتنا ہی یہ قوم پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ سینہ تان کر دشمن کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس قوم کے جذبوں کو آتشیں اسلحے و بارود کے زور پر دبانے کی کوشش نئی نہیں لیکن یہ جذبہ ہر مرتبہ دشمن کے منہ پر طمانچے کی صورت پڑتا ہے۔ہماراہر المیے کے بعد پھر سے سینہ تان کر کھڑے ہو جانا ہونا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ دشمن ہمیں مار سکتا ہے لیکن ہم سے ہمارا حوصلہ اور جذبہ نہیں چھین سکتا۔
محترمہ طاہرہ قاضی شہید کو موقع ملا کہ وہ اپنی جان بچا لیں لیکن محترمہ کا تعلق وفا کے قبیلے سے تھا۔ وہ اس قافلے کی راہی تھیں جو نسلوں کا امین ہوتا ہے،انہوں نے اپنے بیٹے تک کو یہ کہہ کر فون بند کرنے کا کہا کہ انہوں نے بچوں کے والدین کو مطلع کرنا ہے۔ وہ شاید اس لیے بھی اپنی جان بچانے کی راہ پہ قدم نہیں بڑھا سکیں کہ ان کے کندھوں پہ ایک ہزار سے زائد قیمتی ہیروں کا بوجھ تھا ۔ وہ کیسے گوارا کر سکتی تھیں کہ ان کے ہیرے تڑپتے رہیں اور وہ اپنی جان بچا لیں۔ جان بچا کے وہ چند سال کی زندگی تو پا لیتیں لیکن اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے انہوں نے نہ صرف خود کو تاریخ کے دھارے میں امر کر لیا ہے بلکہ پوری قوم کا سر بھی فخر سے بلند کر دیا ہے۔
میں تو حیران ہوں بلاول کے روتے بلکتے باپ کے جذبے پہ کہ جب اسے بتایا گیا کہ اس کا بیٹا اپنے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش میں شہید ہو گیا ہے تو اس کے آنسو ؤں میں ایک عجیب مسکراہٹ شامل ہو گئی، ایسی مسکراہٹ جو صرف ایک شہید بیٹے کے باپ کے چہرے پر ہی ہو سکتی ہے۔ اس عظیم باپ کا کہنا تھا کہ اسے اپنے بلاول پہ فخر ہےاور ہمیشہ فخر رہے گا۔جس قوم کے پاس محترمہ افشاں شہیدجیسے اساتذہ ہوں کیا شکست ان کے قریب بھی پھٹک سکتی ہے؟ ان کی کلاس کے ایک زخمی طالبعلم عرفان اللہ کے مطابق جب دہشت گرد ان کی کلاس میں داخل ہوئے تو ہماری ٹیچر ہمارے سامنے کھڑی ہو گئیں اور حملہ آوروں سے کہا کہ میرے بچوں کو نقصان پہنچانے سے پہلے میری لاش سے گزرنا ہوگا،انہیں شعلوں کی نذر کر دیا گیا۔ لیکن عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس طالبعلم کے بقول وہ شعلوں میں لپٹ کر بھی طالبعلموں کو بھگاتی رہیں۔ میرے خدا! تیرا احسان کہ تو نے مجھے اس قوم کا فرد بنایا جو شعلوں سے بھی نہیں گھبراتی ۔
قیام پاکستان کے وقت جب ہمارے بڑوں نے قربانیاں دیں تو شاید اسی آس پہ دیں کہ اس قوم کے نونہال بھی ہمیں مایوس نہیں کریں گے اور یقیناًیہ نونہال ان کی توقعات پہ پورا اترے اس کا واضح ثبوت حادثے کے تیسرے ہی دن اس سکول کے بچ جانے والے طالبعلموں کا سول سوسائٹی کے ساتھ سکول کے بالکل سامنے کیا گیا مظاہرہ ہےجو یہ ظاہ رکرنے کے لیے کافی ہے کہ گھبرانا اس قوم کی سرشت میں نہیں ہے۔
دہشت گردوں کی کاروائیوں سے یہ ظاہرہے کہ وہ چن چن کر ان شعبوں پر وارکر رہے ہیں جو پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دہشت گرد پوری منصوبہ بندی کر کے پاکستان پہ وار کر رہے ہیں؛ 2004 میں چینی انجینئرز کو نشانہ بنا کر توانائی کے شعبے میں پاکستان کو نقصان پہنچایا گیا، 2007میں مالم جبہ کا مشہور عالم ریزورٹ دہشت گردی کا نشانہ بناکر سیاحت پہ وار کیا گیا، 2009 میں سری لنکن ٹیم پر حملے سے پاکستان میں کھیلوں کے میدان ویران ہو گئے۔2007 میں ممبئی حملوں اور 2013میں نانگا پربت پر سیاحوں کو نشانہ بنانے سے نہ صرف سیاحت کو نقصان ہوا بلکہ خارجہ معاملات میں ہندوستان اور چین کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
توانائی، سیاحت، کھیل، اور قریبی دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کے بعد اب تعلیم شدت پسندوں کے نشانہ پر ہے۔دہشت گردوں کی کاروائیوں سے یہ ظاہرہے کہ وہ چن چن کر ان شعبوں پر وارکر رہے ہیں جو پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سکول پر حملے سے نئی نسل کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن دشمن شاید بے خبر ہے کہ یہ وار ہمارے اندر مقصد کی لگن اور بڑھا دیتے ہیں۔ صرف نشانہ بننے والے سکول کی ہی بات کریں تو وہاں کے طالبعلم بھی اپنے شہید ساتھیوں اور اساتذہ کا مشن آگے بڑھانے کو اپنا اولین مقصد قرار دے چکے ہیں، دشمن ہمیں تعلیم سے دور رکھنے میں ناکام ہو گیا۔
اغیار پاکستان کو نشانہ بناتے ہوئے جنگل کے قانون پر عمل کرتے ہیں،ان کا جہاں بس چلتا ہے ہم پہ ضرب لگاتے ہیں، اس کے لیے نہ تو انہوں کسی رسمی اجلاس کی ضرورت پڑتی ہے اورنہ ہی کسی کمیٹی سے سفارشات کی۔ لیکن ہمیں جنگل کے قانون کا جواب جنگل کے قانون سے نہیں دینا، اگر طالبان اور جہادی گروہ کسی قسم کے ضابطے کے قائل نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم عالمی ضابطوں اور ملکی دستور کو بالائے طاق رکھ دیں۔ ہمیں انہیں طاقت سے جواب دیتے ہوئے بھی انسانیت کے مرتبے سے گرنا نہیں چاہیے تاکہ ہم ان پر صرف عسکری نہیں بلکہ اخلاقی فتح بھی حاصل کر سکیں۔

Leave a Reply