مزید مائیکرو فکشن پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
وہ بے چارہ دنیا سے تھک ہار کر، اپنے ثوابوں کے ٹوکرے اور تھال لے کر جنّت پہنچا تواس بات سے بہت خوش تھا کہ اس کی ساری صعوبتیں اب اختتام کو پہنچ چکی تھیں اور وہ اب ایک پر سکون جگہ کا مکین تھا۔اسکے احساسات ایسے تھے کہ گویا صحرا میں درخت نظر آ جانے پر پیروں کے چھالوں کا خیال یک دم ساکت ہو گیا ہو۔
اس نے بچپن سے ہی بزرگوں کی گود میں لیٹ کر جنّت کے چرچے سننا شروع کر دیے تھے اور جنّت کا شوق اسکی عمر کے ساتھ ساتھ جوان ہوتا چلا گیا۔ لیکن جنّت میں پہلا قدم رکھتے ہی ماحول تھوڑا امید کے بر عکس محسوس ہوا۔ مگر یہ شاید میرا اضطراب ہے، سوچ کر وہ آگے بڑھ گیا۔جنّت کے مکین پسینوں میں شرابور، عورتیں بد حال، پیڑ خشک، آبِ کوثر گرم، عجیب افرا تفری۔ غرض جہاں نظر جاتی، ماحول کچھ یونہی نظر آتا۔ خیر جیسے تیسے کر کے دن گزرا اور رات کی تاریکی نے قدم بڑھانا شروع کیے تو اسے قہقہوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ وہ حیران تھا کہ اس شہرِپریشاں اور وادیِ سنساں میں کون کمبخت خوش ہے؟ اِدھر اُدھر دیکھنے پر کوئی نظر نہ آیا تو قریب سے گزرتے فرشتے سے معلوم ہوا کہ یہ آوازیں جہنّم سے آ رہی ہیں۔ حیرت سے انگُشت بَدنداں، وہ سوچوں میں کھو گیا کہ کیا؟ نار میں مسرّت اور گلزار میں میں ماتم کی فضاء؟ اس نے دارِجنّت سے جھانک کر دوسری طرف کا جلوہ دیکھا تو بُت بن کر رہ گیا۔ جہنّم ٹھنڈی تھی، نرم گرم بستر، دلفریب پوشاکیں، مطمئن چہرے، غرض جہنّم ہر لحاظ سے جنّت سے بہتر نظر آ رہی تھی۔ مگر اس کا ذہن آنکھوں دیکھی کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ اسی اثناء میں اسے ایک تھکا ماندہ فرشتہ، جو کہ نیکیاں لکھنے پر مامور تھا، دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا نظر آیا۔ اس فرشتے نے جنّت اور دوزخ کے معاملات کی تفصیل کچھ یوں بیان کی کہ، یہ جہنّمی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ذات کو گناہوں میں غرق رکھا مگر دنیا کو گاڑیاں، قرضے، ادویاء، آسائشیں اور زندگی کی کئی آسانیاں دیتے رہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ نیک جنّتی، ان جہنّمیوں کی ہی ایجادات تلے سجدہ ریز ہو کر انہی کو بد دعائیں دیتے رہے، کفر کے خطابات سے نوازتے رہے مگر جہنّمی بے چارے سہولیات پر سہولیات دیتے رہے۔
جہنّمیوں کو سہولیات بنانا آتی تھیں اور جنّتیوں کو صرف استعمال کرنا۔ اُنہوں نے اپنی دوزخ سنوار لی اور اِنہوں نے اپنی جنّت تباہ کرلی۔
Image: Khuda Bux Abro
2 Responses
keep it up brother 🙂
and this is a gift for you from my side
https://daleel.pk/2017/05/22/44067