وہ ان گنت نسلوں سے جھونپڑیوں میں یا جھاڑیوں کے کنارے پیدا ہو رہے تھے ۔ ان کا شجرہ نسب عموماً نامعلوم ہوتا تھا ۔ وہ بھی ایک انتہائی تھکی ہوئی شام جھونپڑی میں پیدا ہوئی۔ اُس کے ماں باپ نسلاً بھکاری تھے۔ اس کے باپ کو مانگنے کے علاوہ نشے کی بھی لت لگی ہوئی تھی۔ وہ اکثر غائب رہتا اور شہر کے وسط میں موجود ایک نالے کی نیچے مارفین کے انجکشن لگایا کرتا تھا۔ وہ ایک منحنی سی کالے رنگ کی بچی تھی جس کو پیدائش کے کچھ ماہ بعد ہی چیچک نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ چیچک نے اُس کی جان بخشی اس شرط پر کی تھی کہ وہ عمر بھر اس رفاقت کے داغ اپنے چہرے پر سجائے رکھے۔ اس نے پیدائش کے فوراً بعد سے اپنا آبائی پیشہ سنبھال لیا تھا۔ وہ ماں کی گود میں پڑی وقت بے وقت روتی رہتی اور اس کے آنسووں کی قیمت کے طور پر سکے اس کی ماں کی گود میں گرتے رہتے۔
وقت بدلے بغیر چلتا رہا۔ اُس نے بھیک مانگنے کے لئے بولنا سیکھا ، چلنا سیکھا ، یہاں تک کہ کچھ کچھ سوچنا بھی سیکھ لیا۔ اسی دوران اس کی دو اور بہنیں بھی پیدا ہوئیں۔ جب وہ چھ برس کی تھی تو اُس کے باپ کو پولیس والے نشہ بیچنے کے الزام میں پکڑ کر لے گئے۔ دو دن بعد ہی پولیس والوں نے اس کی لاش جھونپڑیوں والوں کے حوالے کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی موت نشہ نہ ملنے کے سبب ہوئی ہے۔ جب کہ بستی میں ایسی چہ مگوئیاں بھی سنی گئیں کہ وہ پولیس تشدد سے مرا ہے۔ اس نے اپنے باپ کی لاش نہ دیکھی تھی ورنہ اسکو نظر آ جاتا کہ اسکے باپ کے جسم پر جا بجا پولیس اور نشے کےتشدد کے نشان تھے۔ اس کے باپ کے جانے کا کسی بھی جھونپڑی میں سوگ نہیں منایا گیا۔ سوگ تب شروع ہوا جب ارد گرد کی جھونپڑیوں سے لوگ وقتاً فوقتاً ان کی جھونپڑی میں آتے اور کبھی کمبل ، تکیہ، جگ یا کوئی اور چیز یہ کہہ کر لے جاتے کہ اس کے باپ نے یہ چیز اپنی زندگی ہی میں نشے کے عوض فروخت کر ڈالی تھی۔ وہ اس پر خوش رہی کہ اس کی ماں کو نشے کے لئے نہیں بیچا گیا یہاں تک کہ اس کا چچا اکثر راتیں ان کی جھونپڑی میں گزارنے لگا۔ یوں زندگی کے متعلق اس کی پہلی غلط فہمی ختم ہوئی۔ رات نامانوس آوازوں سے اُس کی نیند کُھل جاتی اور وہ خوف سے دوبارہ اپنی آنکھیں بھینچ لیتی اور چھوٹی بہنوں کی آنکھوں کے آگے ہاتھ کر لیتی حالنکہ اندھیرے میں ویسے بھی کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ روز صبح اس کا دل کرتا کہ وہ ٹریفک سگنل کے پاس کھڑے پولیس والے کو ( جو اکثر اسے ڈانٹ کر بھگا دیا کرتا تھا) رات کی ساری حقیقت بتا دے اور وہ اسکی ماں اور چچا کو جیل میں لے جائے کیونکہ بُرے لوگ جیل میں ہوتے ہیں ۔ اُس وقت تک بُرے لوگوں کے بارے میں اس کو تصور بہت کچا تھا۔
وہ تیزی سے بڑی ہو رہی تھی ۔ اب اکثر لوگ اُسے بھیک دیتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ لیتے یا پاس بٹھا لیتے ، کئی ایک تو ادھر اُدھر دیکھ کر اسے اپنے ساتھ چپکا لیتے تھے اور پانچ دس روپے دے دیتے۔ وہ یہ پیسے لئے اپنی ماں کے پاس آتی اور فخر سے پنجوں کے بل کھڑی ہو جاتی کہ آج اس نے اتنی زیادہ کمائی کی ہے۔ اس کی ماں اسے پیار سے چمکارتی ۔ وہ کبھی نہ دیکھ سکی کہ ایسے میں اس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے ہوتے تھے۔
ایک شام وہ ایک جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھی پاخانہ کر رہی تھی کہ ایک شناسا چہرہ قریب سے نمودار ہوا ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی وہ اس نے اسے وہیں گرا دیا۔ وہ اپنے ہی پاخانے کے اوپر گری وہ اتنی خوفزدہ تھی کہ اُس شخص کو ناخن بھی نہ مار سکی ۔ اس کی مٹھیاں بس زمین سے مٹی بھرتی رہیں۔ شام کا وحشی اندھیرا ، ناک کو چڑھتی بدبو، گردن پہ چبھتے دانت ، نیچے کہیں چیرے جانے کا شدیداحساس اور بے بسی کے عذاب نے اس کی آنکھوں سے آنسو نکال دئے۔ ۔۔ اس کی نتھ روندی جا چکی تھی۔اس کی ماں جب اس پر مگ بھر بھر کر پانی ڈال رہی تھی تو یکایک روتے ہوئے وہ دوہتڑ اس کی کمر پر مارنے لگے جس پر یہ اور شدت سے رونے لگی۔ اتنا درد تو اسے جھاڑیوں کے کنارے بھی نہیں ہوا تھا۔ رات اس کی ماں دودھ میں ہلدی ڈال کر لائی اور اس کو پیار سے سہلانے لگی۔ وہ اس کو ہلدی ملا دودھ پلا رہی تھی حالانکہ وہ جانتی تھی کہ اس سے زخم مندمل نہیں ہونے والے۔
اُسے بخار ہو گیا اور وہ دو دن تک بھیک مانگنے نہ جاسکی۔ بس وہ سارا دن جھونپڑی میں پڑی چھت کے پردے کو گھورتی رہتی جیسے وہاں اوپر کوئی درد شناس رہتا ہو۔ اب وہ قدرے خوفزدہ سی رہنے لگی ۔ اُسے لگتا تھا کہ وہ یکایک بہت بڑی ہو گئی ہے بالکل اپنی ماں جتنی۔ اس کے سینے کے دونوں طرف چھوٹی چھوٹی گٹھلیاں نمودار ہو رہی تھیں۔ جب وہ پیٹ کے بل سونے کے لئے لیٹتی تو ان میں ہلکا ہلکا لذت بھرا درد جاگ جاتا۔ وقت کے ساتھ درد اور گٹھلیوں کے سائز میں اضافہ ہو رہا تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنی ماں سے نظر بچا کر ان کو انگلیوں سے دباتی تو میٹھی سے ٹیس سارے بدن میں دوڑ جاتی اور یہ تن سی جاتی۔ کبھی کبھی تو ان میں سے لیس دار پانی بھی نکلتا جس کو انگلیوں کی پوروں سے لگا کر وہ ان کی چپچپاہٹ محسوس کرتی۔
وہ کئی دنوں سے محسوس کر رہی تھی کہ بلدیہ کے فلیٹس کے نیچے کھڑا ایک نوجوان آتے جاتے اکثر اسے بہت پیار سے دیکھتا ہے۔ رات اکثر وہ خواب میں آتا۔ یہ ایک پینگ پر بیٹھی ہوتی اور وہ اُسے جُھلا رہا ہوتا۔ یہاں تک کہ جھولا کہیں بہت اوپر آسمانوں میں تیرنے لگتا۔ وہ لڑکا یکایک نیچے سے غائب ہو جاتا اور اسے یوں لگتا کہ وہ آسمان سے گرنے والی ہے۔ اس کا دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگتا اور اس کی اآنکھ کُھل جاتی۔ وہ پسینے سے شرابور ہوتی اور چور نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھتی۔ ایسی راتوں میں پھر اسے صبح تک نیند نہ آتی۔ اس کا دل کرتا کہ وہ جھونپڑی کا پردا ہٹا کر کھلی ہوا میں تاروں بھرے آسمان کے نیچے جا بیٹھے۔ایک دن جب اس کی ماں اس کے ساتھ نہیں تھی اور یہ بلدیہ کے فلیٹس کے نیچے سے جا رہی تھی اُس لڑکے نے اسے اشارے سے اپنے پیچھے بلایا۔ یہ چپ چاپ اُس کے پیچھے چلنے لگی۔ وہ فلیٹس کے نیچے پانی کی موٹر والے ایک کمرے میں داخل ہو گیا اور اسے اشارہ کیا۔ جب یہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں مکمل تاریکی تھی اسے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ کنڈی لگنے کی آوازآئی پھر کسی نے اسے دیوار کی طرف دھکیلا۔ اس کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو چکی تھی حلق خشک ہو رہا تھا ۔ اس کو کسی نے مضبوطی سے بھینچ لیا۔ اس کو اپنی شلوار نیچے کی جانب سرکتی ہوئی محسوس ہوئی پھر اس نے کسی گرم چیز کا لمس اپنی رانوں پر محسوس کیا۔ مسلسل رگڑ سے کمرے کی کھردری دیوار سے چپکی اس کی کمر چھلی جا رہی تھی۔ اس نے اپنی رانوں پر نمی محسوس کی۔ اس کی شلور کو کھینچ کر اوپر کر دیا گیا۔ کنڈی کھلنے کی آواز آئی۔ لڑکے نے ایک کاغذ اس کی مٹھی میں تھمایا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا تھا کہ اُسے کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا۔ جب وہ باہر نکلی تو سورج کی تیز روشنی اسے آنکھوں میں چبھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ جب اُس کے اوسان کچھ بحال ہوئے تو اس نے کچھ دیر پہلے گزرے لمحوں کو یاد کیا۔ پھر اس کی توجہ مڑتی ہوئی اس کی بند مٹھی پہ جا ٹکی۔ اس نے ہتھیلی کو کھولا تو مڑے تڑے ہوئے بیس روپے اس کے پسینے سے گیلے ہو رہے تھے۔ وہ حیران نظروں سے ان پیسوں کی طرف دیکھتی رہی۔ جھولا زمین پر آ چکا تھا۔ وہ مزید پسینے میں ڈوب گئی۔ وہ عجیب کھسیانے انداز میں قہقے مار کر ہنسنے لگی۔ پھر اس نے غصے سے وہ پیسے زمین پہ دے مارے اور پیروں سے زور زور سے اُسے کچلنے لگی۔ اس کی آنکھوں کے نامعلوم گوشوں سے آنسووں کا سیلاب بہہ نکلا تھا۔ وہ باقاعدہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔ اس کے پیروں کے نیچے اس کی محبت بیس روپے کی شکل میں کچلی پڑی تھی۔ وہ کافی دیر تک وہیں بیٹھی رہی پھر چلنے لگی۔ کچھ دور جانے کے بعد وہ یکایک کچھ سوچ کر رُکی واپس مڑی اور وہ بیس روپے اُٹھا لئے۔
ایک دکان کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے ایک دن برئیزئر لٹکتے ہوئے دیکھے۔ اس کے دل میں ان کو خریدنے کی خواہش پیدا ہوئی ۔ اگلے دو دن وہ بھیک میں سے کچھ پیسے بچا کر اس دکان میں داخل ہوئی ۔ اُسے آج پہلی دفعہ مانگتے ہوئے جھجک محسوس ہو رہی تھی۔ بالاخر اس نے دکان دار سے کہا “بھائی صاحب ایک باڈی دے دیں۔ دکاندر نے اسے ٹٹولتے ہوئے کہا کہ” بی بی سائز کیا ہے تمہارا”۔ یہ گم صم کھڑی رہی دوکاندار نے کچھ دیر مزید ٹٹولا پھر شاید اسے رحم آ گیا۔ وہ بولا ” کتنے والا چاہے سو یا دو سو یا پانچ سو”۔ اس نے سامنے کاونٹر کر پیسے پھیلائے جو کہ کل ملا کر پچھتر روپے بنے۔ یہ بولی ” میرے پاس تو پچھتر ہی ہیں”۔ ” لاو دو” دکان دار نے پیسے رکھے اور ایک کالے رنگ کا برئزئر تھما دیا۔ جس کو اس نے دکان سے باہر نکلتے ہی اپنے نیفے میں اڑوسا اور تیز تیز قدموں کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔ اپنی جھونپڑی میں گھستے ہی اس نے دیکھا کہ ماں نہیں ہے اس نے جلدی سے قمیص اتاری اور کافی کوشش کے بعد برئزئر پہن لیا۔ اب وہ ٹہل ٹہل کر چل رہی تھی۔ وہ عجیب سی خوشی محسوس کر رہی تھی۔ پھر ایک دن جب وہ واپس لوٹی تو اس نے دیکھا کہ اس کی ماں اور دو بہنیں غائب ہیں۔ وہ کئی دن تک انہیں ڈھونڈتی رہی لیکن وہ اسے نہ ملیں۔ اس نے پولیس والے سے بھی کہا۔ پہلے تو پولیس والے نے کہا ” بھاگ گئی ہو گی تیری ماں کسی یار کے ساتھ “۔ جب اس نے بہت زیادہ منت سماجت کی تو پولیس والے نے بیلٹ اوپر کرتے ہوئے اس کے چہرے کو مایوسی سے دیکھا اور کہا۔ “پانچ ہزار لگیں گے اور تو کچھ ہے نہیں تمہارے پاس دینے کو”۔ بہرحال اس رات کے بعد کچھ راتوں تک تو اس کو اکیلے ڈر لگتا رہا ۔ پھر اسے رہنا آ گیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس نے کامیاب بھیک مانگنے کا طریقہ سیکھ لیا تھا۔ وہ مسلسل مانگتی رہتی یہاں تک کے سامنے والا شخص مجبور ہو کر کچھ نہ کچھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیتا۔ اب وہ بھیک حاصل کرنے کے مخصوص ٹھکانوں کا اچھی طرح دورہ کر چکی تھی جن میں ٹرکوں کے اندر، پلیٹ فارم پر مال گاڑی کے بند ڈبوں کے اندر، لاری اڈے کی غلیظ لیٹرینوں میں، قبرستان میں قبروں کی اوٹ میں، کھیتوں میں، خشک نالوں میں ، یہاں تک کے مسجد کے طہارت خانوں میں۔ اس نے ہر جگہ سے اپنے حصے کی بھیک وصول کی اور لوگوں کے حصے کی بھیک ان کو بانٹی۔ لوگوں کی دریا دلی رنگ لائی اور یہ حاملہ ہو گئی۔ جوں جوں اس کا پیٹ بڑھتا جا رہا تھا ملنے والی بھیک کی مقدار کم ہوتی جا رہی تھی۔ اب یہ زیادہ چلنے سے تھک جاتی تھی۔ اکثر تو پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہ ہوتا تھا۔ اس کا رنگ مزید سیاہ ہو گیا تھا۔ آنکھوں کے نیچے حلقے آنکھوں کی رنگت اختیار کر چکے تھے۔ وہ تین دفعہ چلتے چلتے بے ہوش ہو کر گڑ پڑی ۔ ایک شام جب وہ واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ نالے کے کنارے موجود جھونپڑیوں میں سے ایک بھی باقی نہیں رہی تھی۔ سب لوگ چلے گئے تھے کیوں کہ نالا اپنی حدوں سے باہر نکل کر اس میدان تک آ گیا تھا جہاں یہ لوگ آباد تھے۔ وہ نالے کے کنارے پھسلن سے بچتی بچاتی نسبتاً خشک جگہ پر تقریباً گڑ پڑی۔ وہ رات بھر یہی پڑی رہی۔ صبح اس کے پیٹ میں شدید درد ہو رہا تھا۔ وقفے وقفے سے درد کی ٹیسیں اس کے بدن میں ابھرتی پھر ڈوب جاتیں۔ دن کے تقریباً گیارہ بجے اس نے ایک بچی کو جنم دیا۔ وہ اتنی اکیلی تھی کہ بچی کا ناڑو کاٹنے کے لئے بھی کوئی موجود نہ تھا۔۔ دن کے وقت کھیس بیچنے والی ایک خاتون یہاں سے گزری اس نے اس کی مدد کی بچی کو کھیس اڑایا، اس کا لباس بدلا۔ وہ بھاگ کر کہیں سے زچہ بچہ کے لئے دودھ لے کر آئی۔ جب یہ قدرے بحال ہوئی تو اُس نے کہا۔ “بہن اللہ تمہیں ہمت دے مجھے جانا ہے۔ میرا گھر والا میرا نتظار کر رہا ہو گا”۔ وہ جاتے ہوئے سو روپے کا ایک نوٹ بھی اس کی مٹھی میں تھما گئی۔ خاتون کی دی ہوئی رقم اور دودھ تو دو دن میں ختم ہو گئے۔
بچی تو کہیں سے نازل ہو گئی تھی مگر اسے دودھ نہ اترا تھا۔ وہ بچی کو کبھی ایک چھاتی تو کبھی دوسری چھاتی سے لگاتی وہ کچھ دیر تک نپل کو اس امید پر چوستی رہتی کہ شاید دودھ آ جائے۔ پھر منہ ہٹا کر زور زور رونے لگتی۔ بچی کو سینے سے لگائے وہ روز دودھ کی تلاش میں بھیک مانگنے لگتی۔ ایسے ہی مانگتے ہوئے وہ حاجی صدیق کریانہ سٹور پر پہنچی۔ حاجی نے اسے اندر بلایا دوکان کا شٹر نیچے کیا۔ پھر یکایک اسے کوئی خیال آیا تو اس نے پوچھا “بچی کتنے عرصے کی ہے”۔ “جی ہفتہ بھر کی تو ہو گی ” اس نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔ حاجی صاحب کی آنکھوں میں مایوسی بھر آئی۔ قریب تھا کہ وہ شٹر اوپر کر کے اسے جانے کو کہتا ایک خیال اس کے زہن میں کوندا۔ وہ واپس مڑا اس کو سر دبا کر نیچے کیا۔ اس نے تھوڑی سی مزاحمت دکھائی تو اُس نے سختی کے ساتھ اس کا سر نیچے کرتے ہوئے کہا “چل منہ میں لےلے۔۔۔ بڑی آئی پاک باز کہیں کی” اس نے ایک نظر حاجی صاحب کی طرف دیکھا پھر جلدی سے اپنی قمیص کا پلو بچی کی آنکھوں کے اوپر ڈال دیا۔تھوڑی دیر بعد حاجی صاحب نے دوکان کاشٹر اوپر کیا دائیں بائیں دیکھ کر جلدی سے پچاس روپے ان کو تھما کر دوکان سے باہر نکالا۔ یہ آگے نکلے تو حاجی صدیق کو یاد آیا کہ آج تو جمعہ ہے وہ جلدی سے دوکان بند کر کے غسل کے لئے گھر کو روانہ ہو گیا۔ اسے یہ پریشانی بھی لاحق تھی کہ صبح تو وہ نہا کر آیا تھا اب بیگم سے کیا بہانہ کرے گا۔ یکایک اس کی نظر سامنے کیچڑ پر پڑی اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
وہ اپنی بچی کو اٹھائے جب سڑک پر پہنچی تو اسے احساس ہوا کہ وہ جلدی میں جوتے پہننا بھول آئی تھی۔ گرم تارکول اس کے پاوں کو بری طرح سے جلا رہا تھا۔ ۔ وہ سڑک کے کنارے موجود گندگی کے اوپر چلنے لگی یہ نسبتاً ٹھنڈی محسوس ہو رہی تھی۔ یکایک اس کے پاوں کے نیچے کانچ کا ایک بڑا سا ٹکڑا آیا۔ یہ بے قابو ہو کر نیچے گری۔ بچی کو بچاتے ہوئے اس کی کہنی پوری قوت سے فٹ پاتھ سے جا ٹکرائی۔ کچھ دیر وہ وہیں پڑی رہی پھر ہمت کر کے اُٹھ بیٹھی۔ پاوں کے آنگھوٹھے سے خون بہہ رہا تھا۔ کہنی کے آگے بازو جھول رہا تھا شاید ہڈی ٹوٹ چکی تھی۔ اس نے بچی کو ایک نظر دیکھا۔ وہ رو نہیں رہی تھی۔کافی دیر بعد وہ نالے کے پل کے اوپر سے گزر رہی تھی اس نے نیچے دیکھا کیچڑ زدہ پانی میں اسے اپنا عکس واضح نظر آ رہا تھا وہ نظر ہٹانا چاہتی تھی لیکن اسے نظر آ ہی گیا کہ کیچڑ میں اس کی بچی کا عکس بھی اتنا ہی واضح تھا۔
Image: Ernst Barlach