محترم جرنیل اعظم صاحب
نائن زیرو آپریشن کا نتیجہ نکلے نہ نکلے ہمت دکھانے پرآپ کو مبارک باد۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پولیس نے پہلی مرتبہ 1987 میں الطاف بھائی کے گھر چھاپہ مارا تھا۔ انیس سو بانوے اور چھیانوے میں بھی پاک فوج ایم کیو ایم کے قلعے پر چڑھائی کر چکی ہے اور جناح پور کا نقشہ بھی اسےانہی چھاپوں کے دوران برآمد ہوا تھا۔ ایک جرنیل اور آپ سا جرنیل تار یخ سے کیسے نا واقف ہو سکتا ہے۔ بس یاد دہانی کے لئے عرض کرتا جاؤں جب ایم کیو ایم کراچی میں پروان چڑھ رہی تھی تب آپ کے ایک پیش روجنرل ضیا نے نہ صرف آنکھیں بند رکھیں بلکہ خفیہ طریقے سے اس کی مدد بھی کرتے رہے۔ اور عالی جناب تو اس بات سے واقف ہی ہوں گے کہ فوج جس چیز کی بنیاد رکھ دے وہ صدیوں تک قائم رہتی ہےاور گستاخی معاف اپنے بنائے مضبوط ڈھانچے کو گرانا تو شاید فوج کے اپنے ہاتھ میں بھی نہیں رہتا۔
بس یاد دہانی کے لئے عرض کرتا جاؤں جب ایم کیو ایم کراچی میں پروان چڑھ رہی تھی تب آپ کے ایک پیش روجنرل ضیا نے نہ صرف آنکھیں بند رکھیں بلکہ خفیہ طریقے سے اس کی مدد بھی کرتے رہے۔
لیکن سیاست دانوں کا معاملہ جرنیلوں سے الگ ہے،جو غلطی محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی اس کا ازالہ کوئی اور نہیں صرف آصف علی زرداری ہی کر سکتے تھے تو انہوں نے دو ہزار آٹھ میں نائن زیرو حا ضری دے کر ماضی کو دفن کردیا۔ آپ وزیر اعظم پاکستان کی طبیعت سے(بہت اچھی طرح) واقف ہوں گے وہ جب بھی آتے ہیں ادھر ادھر افراتفری مچاتے رہتے ہیں اور ہر بار کراچی میں "دہشت گردی” کے خاتمے کے لیے خاکی وردی والوں کو بھیجتے ہیں اس کے باوجود سینیٹ الیکشن میں حمایت کے لیے الطاف بھائی سے رابطے کرتے رہے۔لیکن جرنیل ایک ہی غلطی باربار دہرانے کے عادی ہیں، پہلے ضیاء صاحب نے الطاف بھائی کی نیا پار لگائی اور پھر مشرف صاحب نے ان سے دل لگی کی۔ بارہ مئی کے دل دہلا دینے والا واقعے کی تفصیلات بھی آپ کی نظروں سے گزری ہوں گی جب وکیلوں کو کراچی میں زندہ جلایا جا رہا تھا تو تب جنرل مشرف ا سلام آباد میں مکے لہرا کر عوامی طاقت کا مظا ہرہ کر رہے تھے۔
آپ صرف پاکستان کے نہیں بلکہ امت مسلمہ کے بھی سپہ سالار ہیں اس حساب سے جناب کی ذمہ داریاں بھی بڑی ہیں۔ جنرل ضیا کی خود ساختہ مذہبی سوچ نے ملک میں ایسی فضا قائم کی کہ اس پاکیزگی میں وطن عزیز کو اسلام کی” اصل روح "تو نہ مل سکی لیکن لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی، جیش محمد جیسے چھوٹے چھوٹے تحفے قوم کو جبری وصول کرنا پڑے۔ پنتیس سال گز رنے کے باوجود قوم ان تحفوں کا بدلہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے بھی نہیں دے سکی۔ جہادیوں کی جو پنیری جنرل ضیا کے دور میں پروان چڑھی وہ اب تن آور درخت بن چکی ہے ۔اُس دور میں پلنے والے سانپوں نے اب اپنے ہی بچوں کو ڈسنا شروع کر دیا ہے۔
فوج کی وطن کے لیے قربا نیوں کا ہر کوئی معترف ہے اورفوج کی حب الوطنی پر کسی دیوانے کو ہی شک ہو سکتا ہے لیکن زندگی میں اگر آپ کوموقع ملے تو جن لوگوں نے ناسور دشمنوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا ان کے ذہنوں پر بھی ایک چھاپے کا حکم صادر فرما دیں۔ جناب اعلی جو کچھ پاک فوج کے ادواراقتدار میں وطن کے ساتھ ہوا اس کے بعد تو ایم کیو ایم کی کاروائیاں معمولی لگتی ہیں۔اگر آپ نے دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو انسانوں کو مارنے ، پکڑنےسے کچھ نہیں ہو گا۔ ملک کو امن کا گہوارہ بنا نا ہے تو اس سوچ اور نظریے کو بدلنا پڑے گاجو عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی وجہ ہیں۔ انسانوں کی پھانسی چڑھانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، جناب نظریے کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کیجیے ۔
جناب اعلی جو کچھ پاک فوج کے ادواراقتدار میں وطن کے ساتھ ہوا اس کے بعد تو ایم کیو ایم کی کاروائیاں معمولی لگتی ہیں۔
ریٹائرمنٹ سے قبل انیس سو سنتالیس سے لے کر آج تک فوج نے جو کو تاہیاں کی ہیں ان کی جانچ کے لئے بھی ایک آزاد اور مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنا دیں۔ فوج بجٹ کا تیس فیصد ملک کے دفاع کے لیے عوام سے وصول کرتی ہے اس کا احتساب بھی توضروری ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ خود اس احتساب کا آغاز اپنی ذات سے کریں۔جناب عام عوام کی طرح میں بھی سیاست دانوں، وکیلوں اور ججوں سے سخت مایوس ہو چکا ہوں۔ افتخار چوہدری صاحب، عمران خان صاحب اور نواز شریف صاحب؛ جس کسی کو بھی ہم نے موقع دیا ہے اس نے ہمیں مایوس کیا ہے۔ ان سب کے لیے ہم نے ڈنڈے کھائے، جیلیں بھگتائیں، دھرنے دیے لیکن ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آیا ۔ سنا ہے سب فیصلے آپ کے ہاں ہوتے ہیں اور سب کرداروں کی ڈوریاں آپ ہلاتے ہیں تو کر دیجے وہ کام جو کوئی بھی جرنیل نہ کر سکا۔
نوٹ: میری حب الوطنی پر شک نہ کیا جائے،میرے والد اور آباؤ اجداد کی قبریں اسی ملک میں ہیں۔ میں اتنا ہی محب وطن ہوں جتنا شبیر شریف شہید تھے۔
 
فقط
ایک عام شہری
محمد نوید عالم

Leave a Reply