Laaltain

جنت میرے کس کم دی؟

10 نومبر، 2014
اللہ والاچورنگی پر سگنل کی سرخ بتی روشن ہوئی، تمام گاڑیاں آہستہ آہستہ ہو کر رک گئیں۔ اس جوڑے کی موٹر سائیکل بھی سائیڈ لین میں کھڑی ہوگئی۔آگے بائیک کی ٹنکی پر بیٹھا ان کا پانچ چھ سالہ بچہ ٹھنکنے لگا :

 

’’پاپا ! پرندے ۔پاپا! پنجروں میں پرندے، وہ دیکھئے۔‘‘
میاں بیوی دونوں کی نظریں ایک ساتھ بچے کے ہاتھ کی سیدھ میں اٹھیں۔ وہاں ایک نو عمر لڑکا جالی کے گھریلو ساختہ پنجروں میں درجنوں بلبلیں، مینائیں اور چند طوطے بند کئے کھڑا تھا اور ان کو امید بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ شاید بچے کی فرمائش پر اس کا باپ اسے ایک دو پرندے خرید کر دلا دے اور اس کی روزی کا کچھ سامان ہو جائے۔ اس کی امید بر آئی۔ موٹر سائیکل پر بیٹھے شخص نے ہیلمٹ اتار کر ہینڈل میں پھنسایا اور پرندے والے کو بلا لیا۔

 

’’ہاں میاں! کیا حساب لگا رکھا ہے؟‘‘

 

’’صاحب! طوطا 20 روپے کا ایک، مینا 10 روپے کی ایک اور بلبلیں 10 روپے کی جوڑی۔‘‘

 

بائیک والے نے اپنی بیوی کی جانب دیکھا، جس نے شوہر کی نظروں کا مطلب سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور مسکرا کر اپنے بچے کے سر پر تھپکی دی۔

 

’’بھئی ! ایک ایک یا جوڑی کا حساب نہیں بتاؤ۔ یہ بتاو کہ سب پرندوں کا کیا لو گے؟‘‘

 

یہ سن کر پرندوں والے اور بائیک پر بیٹھے بچے کے چہروں پر ایک ساتھ مسرت و انبساط کی ریکھائیں نمایاں ہوگئیں۔
پرندوں والے نے تینوں پنجروں میں موجود پرندوں کی جلدی جلدی گنتی کی اور بولا :

 

’’صاحب ! 2 سو 30 روپے بنتے ہیں سب کے۔ آپ 2 سو روپے دے دو اور سب لے لو۔‘‘

 

بائیک والے نے جیب سے بٹوا نکالنے کی تیاری کی تو پیچھے سے مختلف گاڑیوں کے ہارن چیخنے لگے۔ کیوں کہ سگنل گرین ہو چکا تھا۔ کسی بے صبرے ڈرائیور نے اس پرجملہ بھی دے مارا کہ پرندوں کے شوقین ذرا سائیڈ پر ہو کر سودا کرلو نا۔

 

اس جملے کو بائیک والے نے طنز کے بجائے مشورہ جانتے ہوئے اپنی ٹانگوں سے بائیک کو دھکیل کر سائیڈ پر کیا اور پھر اطمینان سے بٹوا نکال کر اس سے برآمد ہونے والی رقم گنی۔ پھر بیوی سے پوچھا :
’’تمھارے پاس 40 روپے ہیں؟‘‘

 

بیوی نے جواب دینے کے بجائے پرس کی زپ کھول کر 50 کا ایک نوٹ نکالا اور شوہر کو دیا۔ جس نے گن کر 2 سو روپے پرندےوالے کو دیئے جس کے جواب میں اس نے تینوں پنجرے بائیک والے کے حوالے کر دئیے۔ جس نے خود2پنجرے سنبھالے اور ایک پنجرہ اپنے بیٹے کے حوالے کیا۔ بچے نے خوشی سے کھلکھلاتے ہوئے پنجرہ لیا اور جالی کا منہ کھول کر اپنے سر سے اونچا کردیا۔ اس طرح منہ کھلنے پر اندر موجود سارے پرندے پھڑپھڑاتے ہوئے اڑ گئے اور بچے کے منہ سے کلکار نکل گئی۔ اس کے بعد اس نے باپ سے دوسرا اور پھر تیسرا پنجرہ لے کر سارے پرندے فضا میں آزاد کردیئے اور انہیں آزاد فضا میں اڑتا دیکھ کر وہ تینوں مسکرانے لگے۔ خالی پنجرے پرندوں والے لڑکے کو واپس کردیئے گئے جس نے تشکر سے فوراً سلام جھاڑ دیا۔

 

سگنل اپنی لہو رنگ آنکھ سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ آدمی بائیک کو دوبارہ روڈ پر دھکیل لایا اور سگنل کی سرخی کے سبزی میں تبدیل ہونے کا انتظار کرنے لگا۔

 

جلد ہی بتی سبز ہوگئی اور اس نے کک مار کر بائیک اسٹارٹ کی اور ٹریفک کے دھارے کے ساتھ آگے بڑھا۔ اسی وقت سندھی مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی سے آنے والا ایک ٹرک ڈرائیور اپنی جانب کی سرخ روشنی کی پروا کئے بغیر گاڑی آگے بڑھاتا چلا آیا۔

 

روڈ پر بریکیں لگنے اور ’’ارے ۔۔۔ ارے‘‘ کی چند چیخیں گونجیں اور دھڑام سے دھماکہ ہوا۔

 

بائیک اپنے تینوں سواروں سمیت ٹرک کے نیچے آچکی تھی۔ ٹرک ڈرائیور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو چکا تھا۔
سگنل ایک بار پھر سرخ تھا اور سڑک بھی۔

 

چاروں سڑکوں پر رکنے والی گاڑیاں ایک دوسرے میں اُلجھ کر رہ گئی تھیں۔ ہر طرف سے لوگ اُمڈے چلے آرہے تھے۔
کونے پر گولائی نما بنی پولیس چوکی سے دو سپاہی بھی بھاگے بھاگے آئے۔ انہوں نے پہلے تو اپنی رائفلیں ہلا ہلا کر جائے حادثہ سے لوگوں کو اِدھر اُدھر ہٹایا۔ پھر حادثے کا جائزہ لیا اور افسوس سے نفی میں سر ہلانے لگے۔
’’بچارے! تینوں مر گئے۔ اور وہ حرامی دیکھا کیسے لوگوں کے بیچ سے راستہ بناتا بھاگ گیا۔ میں ادھر سارجنٹ کو چیخ کر بولا بھی تھا کہ وہ بھاگا جارہا ہے ڈرائیور، پیچھا کرو۔ مگر یہ ۔۔۔ ٹریفک والے خود کو پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں۔ بھتے کے 10 روپوں کے لئے گاڑی کے پیچھے نرسری تک بھاگے چلے جائیں گے۔ حادثے کے وقت فوراً گم ہو جائیں گے۔‘‘

 

ان کے لمبے تبصروں پر غصے میں آکر ایک بڑے میاں نے انہیں بے نقط سنائیں کہ پہلے حادثے کا شکار ہونے والوں کے لئے کچھ کرو پھر اپنی بکواس کرنا۔

 

’’چاچا! کیا کریں؟ یہ تو تینوں بچارے اوپر چلے گئے، یہ سگنل پار صدر پی ایس کا علاقہ ہے، ادھر کی نفری آئے گی تو وہ ان کو اٹھائیں گے۔ ہمارا کام نہیں ہے یہ۔‘‘

 

’’اچھا اچھا۔ قانون مت جھاڑو زیادہ۔ بندے کا اتاپتہ دیکھو تو گھر والوں کو اطلاع دی جائے۔‘‘ اسی بوڑھے نے افسوس سے ’’چچ ۔۔۔چچ ۔۔۔ چ‘‘ کرتے ہوئے کہا۔

 

’’ویسے ہیں یہ جنتی ۔۔۔ ابھی کیسے اس رام لال کے چھورے سے سارے پرندے خرید کر آزاد کئے؟ یہ جنتی آدمی کی نشانی ہے۔‘‘ ایک سپاہی نے تبصرہ کیا۔

 

’’ابے چپ بے ! جنتی کی اولاد نہ ہووے تے۔ تجھے پتہ تو کچھ ہوندا نئیں، ایسے ہی بکواس کر دیتا ہے۔ پتہ وی ہے اے کون ہیں؟‘‘

 

(ارے چپ، جنتی کی اولاد نہ ہو تو، تجھے کچھ پتہ نہیں ہوتا اور یونہی بکواس کرتے رہتے ہو۔ پتہ بھی ہے یہ کون ہیں؟)

 

دوسرا سپاہی جو مرنے والے کی جیب سے بٹوا اور دیگر کاغذات نکال کر معائنہ کر رہا تھا، اس نے اپنے ساتھی کو گھر کا :

 

’’ایسے ہی جنت بانٹتا پھرتا ہے سالا، عقل تو اسے ہے نئیں۔‘‘

 

’’پر ہوا کیا؟ میں نے ان کو پرندے خرید کر اڑاتے دیکھا تھا ، اس لئےیہ بات کر رہا تھا۔ ثواب کا کام کیا بچارے نے۔۔۔ مرنے سے پہلے۔‘‘

 

’’آہو، مگر فیر وی ایہہ جنتی نئیں ہو سکدے۔‘‘

 

(ہاں مگر پھر بھی یہ جنتی نہیں ہو سکتے۔)

 

’’پرکیوں۔ تم کب سے مفتی لگے ہو ادھر کے؟‘‘

 

’’ابے! مفتی کا ماما! ایس واسطے کہ اس بندے کا نام لکھیا اے تیرتھ داس اور ۔۔۔ زنانی کے پرس میں اودا شناشی کارڈ بھی ہے، اوس کا نام اے سوشیلا داس۔ وڈا آیا جنت ونڈن والا۔‘‘

 

( ابے مفتی کا ماما، اس لئے کہ اس بندے کا نام تیرتھ داس ہے اور اس کی بیوی کے پرس سے ملنے والے شناختی کارڈ پر اس کا نام سوشیلا داس لکھا ہے، بڑا آیا جنت بانٹنے والا۔)

4 Responses

  1. Very true subject. I also faced the same. Once on thesudden death of one of my non-Muslim colleague I was sad and was praying for his salvation A person asked me not to pray for Salvation. Then he told me the reason that my prayer is useless because my colleague was non Muslim.

  2. very right. once i was sad on the death of a non-Muslim colleague and was praying for his salvation than a person asked me that your prayer is useless because he was Non-Muslim.

    Our people think that being Muslim only they have the certificate of Jannat. Not only Muslims many religion teach in this way. Jews also claim the salvation is reserved only for them.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

4 Responses

  1. Very true subject. I also faced the same. Once on thesudden death of one of my non-Muslim colleague I was sad and was praying for his salvation A person asked me not to pray for Salvation. Then he told me the reason that my prayer is useless because my colleague was non Muslim.

  2. very right. once i was sad on the death of a non-Muslim colleague and was praying for his salvation than a person asked me that your prayer is useless because he was Non-Muslim.

    Our people think that being Muslim only they have the certificate of Jannat. Not only Muslims many religion teach in this way. Jews also claim the salvation is reserved only for them.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *