کہتے ہیں بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے کیونکہ جمہوریت میں طاقت عوام کے اعتماد سے قائم اداروں میں مرتکز ہوتی ہے جبکہ آمریت میں ہر شے کا محور و مرکز ایک فرد ہوا کرتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ چند بنیادی اجزائے ترکیبی کی عدم موجودگی سے جمہوریت پر بھی شخصی حکومت کا گمان ہونے لگے اور منتخب حکمران اپنی عادات میں آمروں سے مشابہہ لگتے ہوں۔ مگر پھر بھی جمہوریت میں اتنا اطمینان ضرور رہتا ہے کہ حکمرانی کے منہ زور گھوڑے کی لگام اناڑی ہی سہی لیکن کسی سوار نے تھام رکھی ہے۔ برطانوی و امریکی ہر دو طرز کی جمہوریتوں میں یہ سوار عوام کے منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل پارلیمان ہوا کرتی ہے۔

اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے کہ جب جب جمہوریت پر شب خون کامیاب ہوئے، وجہ پارلیمان کی کمزوری ہی رہی۔ اور جب جب جمہوریت کا نیا پودا لگایا گیا، پارلیمان ہی نے اس کی آبیاری کی۔
پاکستانی جمہوریت کا قصہ بھی بڑا الجھا ہوا ہے۔ آزادی کے پہلے تئیس برس کسی نے عوام سے براہ راست پوچھنا مناسب نہیں سمجھا کہ وہ کسے اپنا نمائندہ سمجھتے ہیں اور زمام اقتدار کس کے ہاتھوں میں سونپنا چاہتے ہیں۔ سن ستر میں اگر انتخابات ہو ہی گئے تو اکثریت کی رائے کو مقدم نہیں جانا گیا اور عوامی لیگ کو حکومت نہ بنانے دی گئی۔ نتیجتاً انہوں نے علیحدہ ملک بنا ڈالا۔ باقی ماندہ ملک میں ابھی جمہوریت سات سال کی ہوئی تھی کہ زندہ درگور کر دی گئی اور وردی ٹوپی والے حضرات دوبارہ مسلط ہو گئے۔ پھر آٹھ سال بعد غیر جماعتی انتخابات کی صورت میں آمرانہ اقتدار کا حلالہ کرایا گیا۔ لیکن خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ اقتدار کو لونڈی بنا کر رکھنے والے حاکم کی قضا آگئی اور پھر سے جمہوری تماشا لگ گیا۔ چونکہ سیاسی و جمہوری روایات کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا سو اگلے گیارہ سال دو جماعتوں نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں گزار ے۔ اسی چھینا جھپٹی میں جمہوریت ابھی سن بلوغ تک پہنچ ہی رہی تھی کہ پھر تلوار چل گئی۔ اس تازہ واردات کو تین سال گزرے کہ شمشیر زن نے انتخابات کرا کے ایک جمہوری بچہ گود لے لیا۔ مگر یہ لے پالک فرعون کے گھر میں موسی کی مانند تھا۔ اس نے اپنے سرپرست کی ناک میں وہ دم کیا کہ اسے جمہوریت کو ایک اور جنم لینے کی اجازت دینا ہی پڑی۔ نومولود کو ابتدائی سالوں سے ہی کئی اقسام کے امراض کا سامنا رہا مگر ساتویں برس میں داخل ہوتے ہی اسے انقلاب کے دست لگ گئے ہیں ۔ زندگی و موت کی جنگ لڑتی یہ جمہوریت عین ممکن تھا کہ بیماری کے پہلے ہفتے میں ہی دم توڑ دیتی لیکن اس بار اسے ایسا آئی سی یو میسر ہے جہاں جدید تحقیق کی روشنی میں تیار کردہ سیاسی بالغ نظری کے سیرپ اور اتفاق رائے کی گولیاں کھلا کر اسے شفایاب کرنے کی ہرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔ گو مرض کی شدت میں وقتی اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے تاہم اب بیمار کی حالت خاصی بہتر بتائی جاتی ہے ۔

جہاں ملک کی افواج نے سرحدوں کے دفاع میں ہر ممکن کوتاہی برتی ، وہاں یہی پارلیمان وفاق پاکستان کی زنجیر ثابت ہوئی۔
اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے کہ جب جب جمہوریت پر شب خون کامیاب ہوئے، وجہ پارلیمان کی کمزوری ہی رہی۔ اور جب جب جمہوریت کا نیا پودا لگایا گیا، پارلیمان ہی نے اس کی آبیاری کی۔ انیس سو پچاسی میں فوجی آمر کی سرپرستی میں قائم قومی اسمبلی سے بھی جب پوچھا گیا کہ فوجی اقتدار جائز ہے تو صدر مجلس جناب فخر امام صاحب نے فیصلہ صادر کیا کہ یہ غیر آئینی ہے۔ اور پھر جنرل ضیا الحق کو مارشل لا ہٹانا پڑا۔ دو ہزار دو میں بھی فوجی حکمران نے کمال مہربانی سے انتخابات کرا کے مجلس شوری بحال کردی۔ مگر اول روز سے اراکین نے شور مچا دیا کہ وہ صرف انیس سو تہتر کے آئین کے تحت حلف لیں گے اور انہیں ایل ایف او منظور نہیں۔ سب سے پہلی آواز متحدہ مجلس عمل کے حافظ حسین احمد نے اٹھائی۔ جی ہاں وہی متحدہ مجلس عمل جو اگرچہ حزب اختلاف کا حصہ تھی مگر جسے جنرل صاحب کا حلیف بتایا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ پارلیمان ہی کا اعجاز ہے کہ انکاریوں سے بھی حق کی شہادت دلوا دے۔ دوہزارآٹھ کے انتخابات کے بعد صدر زرداری نے بھی پارلیمنٹ کو اپنی طاقت بنالیا اور اپنے خلاف ہونے والی ہر سازش کا جواب پارلیمنٹ سے دلوایا۔ پھل یہ ملا کہ ایک وزیراعظم کو ضرور رخصت ہونا پڑا لیکن جمہوریت قائم رہی۔ اب پھر وہی پارلیمنٹ جمہوریت کی ڈھال بنی ہر خطرے کے سامنے سینہ سپر ہے۔

ملک عزیز میں چلن عام ہے کہ فوج کے بحیثیت ادارہ کیے برے کاموں پر تنقید کی جائے تو جواب ملتا ہے کہ یہ چند جرنیلوں کی غلط کاریاں ہیں اس لیے فوج کو برا بھلا نہ کہا جائے۔ جبکہ اس کے عین برعکس سیاستدانوں کی انفرادی غلطیوں کی پاداش میں پارلیمان کے ادارے کو ہدف پر رکھ لیا جاتا ہے۔ جہاں ملک کی افواج نے سرحدوں کے دفاع میں ہر ممکن کوتاہی برتی ، وہاں یہی پارلیمان وفاق پاکستان کی زنجیر ثابت ہوئی۔ پاکستان آرمی کے کور کمانڈرز متفقہ طور پر غلط فیصلے کرتے ہیں اور ملک کو ان کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہےلیکن تاریخ گواہ ہے کہ حکومتوں کے غلط فیصلوں پر پارلیمان میں ان کی وہ گت بنائی جاتی ہے کہ انہیں اپنی کارکردگی پر نظرثانی کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود پارلیمان پر جعلی ہونے کی تہمت لگائی جاتی ہے اور جرنیلوں کو حب الوطنی کی سند عطا کی جاتی ہے۔ پاکستان کے انتخابی نظام اور سیاسی ثقافت پر لگائے جانے والے کئی الزامات مبنی بر حقیقت ہیں۔ لیکن طالع آزماوں کو بار بار کے تجربے سے بھی سمجھ نہیں آتا کہ ان مسائل کا مختصرالمدت کوئی حل کارآمد ثابت ہوا اور نہ آئندہ ہونے والا ہے۔ پاکستانی جمہوریت کو حقیقی جمہوریت بننے کے لیے ابھی کئی صبر آزما مراحل سے گزرنا ہے اورسینچنے کا یہ عمل پارلیمنٹ کے انکیوبیٹر سے باہر کسی طور مکمل نہیں ہوسکتا ۔

One Response

  1. Nawaz

    انسان شروع سے لیکر اپنے مسائل کے حل کے لیے همیشه هی متفکر رها هے اور ان مسائل کے حل کے لیے کئی قوانین بنا چکا هے.تاریخ کا مطالعه کرنے سے پته چلتا هے که انسان نے کئی قسم کے نظاموں کا تجربه کیا هے.اور آج بهی هر ملک میں یا تو جمهوری نظام قائم هے یا شخصی یعنی بادشاهتی نظام قائم هے اور یا دونوں کا مجموعه جیسا که انگلینڈ اور بلجیم میں هے.
    اگران تمام نظاموں کا بغورمطالعه کیا جائے تو پته چلتا هے که کوئی بهی انسان کا بنایا هوا نظام مکمل طور پرا س کے مسائل کا حل دینے سے عاجز هے.اسکی بنیادی وجه صاف ظاهر هے که انسان اس دنیا کا خالق نهیں اور وه اس کائنات کے اسرار ورموز سے پوری طرح واقف نهیں تو لهذا وه کیسے وه کام کر سکتا هے جس کا اسکو علم نهیں.
    کوئی بهی نظام خواه وه اپنی ساخت میں کتنا هی اچها کیوں نه هو جب تک اس کو چلانے والے انسان اچهے نهیں هوں گے وه اچها نظام بهی انسانیت کی کوئی بهی خدمت کرنے سے قاصر هو گا.
    تو لهذا اسلام نے همیں ایک ایسا نظام دیا جو حقیقی جمهوری نظام هے.اس جمهوری نظام میں تقوی اورعدل کو بنیادی حثیت حاصل هے.مسلمانوں کو سربراه بننے کے لیے یه شرطِ اول هے که وه اس نشت کے طمع و لالچ سے پاک هو اور تقوی کے اعلی مقام پر فائز هو.اگر کوئی بهی اس نشت کا طلب گار پایا گیا تو وه اس نشت کے لیے نا اهل تصور کا جائے گا.اوردوسری طرف اس کو منتخب کرنے والے بهی ایسے هونے ضروری قراری دیے گئے هیں جو متقی اور امین هوں اوراهل الرائے هوں.
    اگر هم واقعی هی مسلمان هیں تو آج سے عهد کریں که هم اس بات کا پرچار کریں گے که همیں وه جمهوریت چاهیے جس پر همارے سلف صالحین نے عمل کر کے دنیا کو عدل و انصاف سے بهر دیا تها.

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: