پاکستان اپنے قیام سے لے کر آج تک مختلف گروہوں اور طبقوں کے درمیان طاقت، اقتداراور مفادات کی جنگ کے باعث شدید مشکلات کا شکار رہا ہے۔ یہاں ابتدا سے ہی وہ بنیادی ذمہ داریاں بھلا دی گئی تھیں جو ریاست کو اپنے شہریوں کے لیے نبھانی تھیں اور جن کا وعدہ مملکت کے قیام کے وقت کیا گیا تھا۔ عوام کو اقتدار میںشراکت اور انتخاب کے حق سے محروم کر کے اس پرایسے گروہوں کی اجارہ داری قائم کر دی گئی جنہوں نے طاقت اور اختیار کواپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ حقیقی سیاسی طاقت جو عوام کی ملکیت ہونا چاہیے تھی،عسکری اداروں،مذہبی پیشواوں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں رہی ہے۔ فیصلہ سازی جو عوام کے اختیار سے عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے تھی انہی مقتدر گروہوں کی من منشاء کے مطابق کی گئی ہے ۔
شہریوں کو اقتدار سے دور رکھتے ہوئے مقتدر اشرافیہ اور عسکری حکومتوں نے ریاستی ڈھانچے اور ریاستی اداروں کو بری طرح تباہ کیاہے۔ سرمائے اور وسائل کو چند خاندانوں کی ملکیت بنا دیا گیا ہے جس سے طبقاتی خلیج میں اضافہ ہوا ہے۔
مفادات کے حصول کی اس کشمکش میں عوامی فلاح و بہبود کا ریاستی تصور ایک سکیورٹی سٹیٹ کے قیام سے دھندلا کر رہ گیا ہے۔ مستحکم اور موثر جمہوریت کی عدم موجودگی میں شفاف انتخابات، جوابدہی اور اختیارات کی تقسیم کا نظام قائم نہیں کیا جا سکا۔ شہری نہ صرف بنیادی سہولیات سے محروم ہیں بلکہ اس محرومی کی اصل وجوہ جاننے، ذمہ داروں کا تعین کرنے اور انصاف حاصل کرنے سے بھی قاصر ہیں۔عوام کواقتدار کے ایوانوں سے دور رکھنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کے باعث آج وطن عزیز تباہی کے دھانے پر کھڑا ہو اہے۔
شہریوں کو اقتدار سے دور رکھتے ہوئے مقتدر اشرافیہ اور عسکری حکومتوں نے ریاستی ڈھانچے اور ریاستی اداروں کو بری طرح تباہ کیاہے۔ سرمائے اور وسائل کو چند خاندانوں کی ملکیت بنا دیا گیا ہے جس سے طبقاتی خلیج میں اضافہ ہوا ہے۔اس سارے دورانیے میں اجتماعی طور پر ایسے رویے فروغ پائے جو کسی صورت جمہوریت اور ریاست کے حق میں نہیں تھے ۔ اقتدار پر قابض گروہوں نے جان بوجھ کر جمہوریت اور جمہوری رویوں کو پنپنے کا موقع نہیں دیا اور اقتدار کو عوام کی جھولی میں ڈالنے کی بجائے عوام سے دوررکھا گیا ہے ۔ شہریوں کے بنیادی حقوق سے ہی ان کو محروم رکھا گیا ہے جس کے باعث شہری ریاست اور جمہوریت سے متنفر ہو چکے ہیں۔
مقتدر طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوریت کے لیے درکار بنیادی دھانچے کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ طلبہ تنظیموں، مزدور یونین اور مقامی حکومتوں کے نظام کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملاجس کے نتیجے میں سیاسی عمل پر بھی سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور مذہبی پیشواوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی ۔ سیاسی عمل اور سیاستدانوں کو متنازعہ اور غیر مقبول بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف سیاسی عمل پر عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوئی ہے بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شہریوں کی سیاسی عمل سے بیگانگی اور لاتعلقی بھی بڑھی ہے۔
عقل ، علم اور شعور کی بنیاد پر بات کرنے کے رواج کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ میں اظہار رائے پر قدغنیں عائد کرنے سے جمہوری مکالمہ کی روایت ختم ہوئی ہے۔مقتدر طبقات کے مفادات کی خاطر شہریوں کا سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال کیا گیا۔ ریاست کو ان معاملات میں شامل کیا گیا جو مہذب معاشروں میں شہریوں کے انفرادی معاملات ہوا کرتے ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کو اپنے عزائم پورا کرنے کی غرض سے مفلوج کیا گیا۔پاکستان میں شہری آزادیوں، سہولتوں اور حقوق کی فراہمی کی ابتر صورت حال ماضی میں کیے گئے غیر جمہوری فیصلوں کی وجہ سے ہے۔
ماضی میں کی گئی غلطیوں کا ازالہ آج بھی کیا جا سکتا ہے اور انہیں دہرانے کی بجائے ان سے سبق سیکھتے ہوئے ایک فلاحی ریاست کے قیام کا جمہوری راستہ اپنایا جا سکتا ہے۔ ریاست کو یہ یاد دہانی کرائی جا نی چاہیے کہ اس کا بنیادی فریضہ شہریوں کو حقوق، تحفظ ، سہولیات اور آزادیوں کی فراہمی ہے۔ریاست اور شہریوں کے مابین حقوق اور ذمہ داریوں کا دوطرفہ تعلق ریاست کے استحکام اور شہری فلاح پر مبنی ہونا چاہیے۔ ریاست کو اپنے شہریوں کو وہ بنیادی حقوق اور آزادیاں فراہم کرنی ہوں گی جو انسان ہونے کی حیثیت سےسبھی انسانوں کو بین الاقوامی اعلامیوں میں حاصل ہیں۔ ہمیں عقل ، علم اور شعور کی بنیاد پر ریاست کے لیے ایک جمہوری مستقبل کاتعین کرنا ہوگا۔ اقتدار کو اس کے اصل مالکوں(عوام) کی جھولی میں ڈالنا ہوگا، تما م فیصلے عوام کی امنگوں اور منشاء سے کرنے ہونگے۔ ہمیں برابری اور مساوات کی بات کرنی ہوگی، امن اور رواداری کی بات کرنی ہوگی۔
پاکستان میں شہری حقوق کی صورت حال کے حوالے سے سب سے بڑا چیلنج تمام شہریوں کی سہولیات تک یکساں رسائی اور امتیازی سلوک کا خاتمہ ہے۔ تمام طبقوں ، فرقوں، مذاہب اور فکر کے لوگوں کے اس ملک کا مساوی درجے کا شہری قرار دیا جانا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جو ریاست اور شہریوں کے مابین حائل خلیج کو دور کرتے ہوئے مسائل سے نجات، ترقی ، امن اور خوشحالی کاباعث بن سکتا ہے۔ وطنِ عزیز کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے لیے ریاست سے مذہب اور ثقافت کے نفاذ کا اختیار واپس لینا ہو گا ۔ریاست کی توجہ سکیورٹی کے ساتھ ساتھ فلاح پر مبذول کر انے سے ہم ایک ایسی ریاست بنا سکتے ہیں جہاں تمام شہریوں کو برابری کا درجہ حاصل ہو، جہاں امن ہو خوشحالی ہو اور طبقاتی تفریق کم سے کم ہو۔
شفاف انتخابات، منتخب نمائندوں اور اداروں کی جوابدہی اور اختیارات کی تقسیم کا موثر نظام ہی پاکستان میں شہریت سے متعلق مسائل کا واحد حل ہے اور یہ سب تب ہی ممکن ہے جب اس ملک میں جمہوری عمل کا تسلسل برقرار رکھا جائے۔
پاکستان میں اقلیتی شہریوں سے دوسرے اور تیسرے درجے کا سلوک ختم کرنے کے لیے اقلیتوں کو ان کی اپنی لسانی،علاقائی، مذہبی، مسلکی اور صنفی شناخت برقرار رکھتے ہوئے قومی دھارے میں شامل کرنا ہو گا ۔ریاست کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر بھی دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری ہونے کے تصور کو ختم کرنا ہوگا۔ کسی مخصوص عقیدے ،قومیت یا مذہب کی بنیاد پر اقلیت یا اکثریت کا مروجہ تصور بھی بدلنے کی ضرورت ہے ۔ریاست میں بسنے والے تمام افراد کو امتیازی سلوک سے بچانا ، کثرت رائے سے کیے جانے والے فیصلوں میں اقلیت کے حقِ رائے دہی اور تخصیص کا احترام بھی ضروری ہے۔قانون سازی میں انسانی مساوات اور تکثیریت کو تسلیم کرتے ہوئے قانون کے نفاذ اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ تمام ریاستی ادارے آئینی حدود میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں سر انجام دیں اور اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ تمام شہریوں کی معاشی مواقع تک یکساں رسائی یقینی بنانے کے لیے ریاست کو اپنی طاقت استعمال کرنا ہوگی تاکہ چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کو ختم کیا جا سکے۔ شفاف انتخابات، منتخب نمائندوں اور اداروں کی جوابدہی اور اختیارات کی تقسیم کا موثر نظام ہی پاکستان میں شہریت سے متعلق مسائل کا واحد حل ہے اور یہ سب تب ہی ممکن ہے جب اس ملک میں جمہوری عمل کا تسلسل برقرار رکھا جائے۔

Leave a Reply