تہذیب وتمدن، رہن سہن، رسم ورواج، تہوار، میلے، کھاناپینا اور علاقائی زبانین وغیرہ کسی بھی معاشرے کی شناخت ہوتی ہیں۔ زندہ معاشرے اپنے رسوم و رواج کو زندہ رکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً انہیں انسانی شعوری کے ارتقاء سے ہم آہنگ بھی کرتے رہتے ہیں۔ رسوم و رواج اور ثقافتی شناخت کے اظہار کے لئے میلوں اور تہواروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پاکستانی اپنی ثقافتی، نسلی، لسانی اور مذہبی تنوع کے اعتبار سے منفرد مقام کا حامل ہے۔ دیکھاجائے تو پاکستان اور ہندوستان شائد دنیا کے سب سے زیادہ متنوع معاشرے ہیں۔ یہاں رہائش پذیر اقوام اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف تہوار اور تقریبات منعقدکرتی رہتی ہیں۔
دیکھاجائے تو پاکستان اور ہندوستان شائد دنیا کے سب سے زیادہ متنوع معاشرے ہیں۔ یہاں رہائش پذیر اقوام اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف تہوار اور تقریبات منعقد کرتی رہتی ہیں۔
بہار کی رُت جوانی، خوشی اور رنگوں کی رُت ہے، پھول کھلتے ہی ہندو ہولی مناتے ہیں اور پنجابی بسنت۔ مارچ کے وسط میں گلگت بلتستان، چترال، خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کے بعض مقامات پر موسم بہار کا آغاز جشن نوروز سے کیاجاتاہے۔ نوروز فارسی زبان کے الفاظ ‘نو’ یعنی نیا او ‘روز’ یعنی دن کا مرکب ہے۔ اگرچہ تاریخی حوالوں میں نوروز کی ابتدأ سے متعلق کوئی متفق علیہ نقطہء نظر موجود نہیں البتہ قدیم تہذیبوں کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ جشن نوروز ہزاروں برسوں سے بابلی اورفارسی تہذیب کا اہم جز رہا ہے۔
بابلی تہذیب کا جشن بہاراں:
تاریخ میں نوروز سے متعلق کئی ایک روایات دستیاب ہیں۔ نامور ترقی پسند مصنف سبط حسن اپنی مایہ ناز تصنیف "ماضی کے مزار” میں ان تہواروں کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں "قدیم زمانے میں سب سے اہم موسمی تیوہار نوروز کا تھا۔ یہ تیوہار ہر جگہ موسم بہار کی آمد پر منایاجاتا تھا، اس موقع پر پرانی قومین افزائش سے متعلق رسمیں اداکرتی تھیں۔ تخلیق کائنات کا عقیدہ دراصل انہیں رسموں کی ترقی یافتہ شکل ہے”۔ (صفحہ نمبر 122)
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ دریائے نیل اور فرات کی وادیوں میں ہزاروں برس قبل پنپنے والی بابلی تہذیب نے اپنے بعد آنے والی تمام تہذیبوں، عقیدوں اور مذاہب پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ تخلیق کائنات کی اس داستان کا تعلق بھی قریب قریب بابلی تہذیب سے ہے۔ محترم سبط حسن لکھتے ہیں "وادی دجلہ وفرات میں تین موسمی تیوہار بڑی عقیدت اورجوش سے منائے جاتے تھے اول نوروز کا تیوہار جسے اہل عکاد وسومیر ’اکی تو‘ کہتے تھے۔ اکی تو ان کا سب سے بڑا تیوہار تھا جو سردیوں کی بارش کے بعد اپریل (ماہ نسان) میں منایا جاتا تھا۔ ایک اور تیوہار تشری کے نام سے ستمبر میں فصل کاٹنے پر منایا جاتا تھا۔ شہری ریاستوں کے سومیری دور میں اکی تو اور تشری دونوں نوروز کے تیوہار سمجھے جاتے تھے۔کسی جگہ لوگ اکی تو کو نوروز کے طورپر مناتے تھے اور کسی جگہ تشری کو۔ اُر اور اریک میں تو نوروز کا تیوہار نسان یعنی موسم بہار میں منایاجانے لگا۔
یوں تو نوروز کا تیوہار پورے ملک میں منایا جاتا تھا لیکن بابل کے جشن نوروز کی شان وشوکت کا کوئی جواب نہ تھا، کیونکہ مردک کا سب سے بڑا معبد جسے الساغ الٰہ کہتے تھے بابل ہی میں تھا
نوروز کے تیوہاروں کے تین اہم عنصر تھے۔ اول تخلیق کائنات کا ڈرامہ جس میں بادشاہ ہیروکا کردار ادا کرتے تھے۔ دوسرے بادشاہ کی ازسرِ نو تاجپوشی اور تیسرے سب سے بڑے دیوتا مردک اور اس کی بیوی کی شادی”۔ (سبط حسن۔ماضی کے مزار،ص 125)
یوں تو نوروز کا تیوہار پورے ملک میں منایا جاتا تھا لیکن بابل کے جشن نوروز کی شان وشوکت کا کوئی جواب نہ تھا، کیونکہ مردک کا سب سے بڑا معبد جسے الساغ الٰہ کہتے تھے بابل ہی میں تھا اور بادشاہ اس تیوہار کی رسموں میں بہ نفس نفیس شریک ہوتا تھا۔
نوروز کا تیوہار ماہ نسان (اپریل) میں گیارہ دن تک منایا جاتا تھا۔ ابتدائی آٹھ دن سوگ کے ہوتے تھے کیونکہ عکادی عقیدے کے مطابق شر اور تخریب کی طاقتیں انہیں تاریخوں میں مردک پر غالب آتی تھیں اور اسے اسیر کر کے پاتال میں لے گئی تھیں۔ اور تب مردک کا بیٹا نینو باپ کو چھڑا کر لایا تھا۔ دوسری تاریخ کو جب دوگھڑی رات باقی رہتی تھی تو اری گلو (مہاپروہت) اٹھ کر دریائے فرات کے پانی سے غسل کرتا اور نیا لباس پہن کر بعل دیوتا کے روبرو کھڑا ہوتا تھا” (سبط حسن ،ماضی کے مزار،ص 126)۔ جناب سبط حسن آگے جاکربابلی جشن نوروز کی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں۔ "جشن کے آخری رات بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی تھی۔ سارے شہر میں چراغاں کیا جاتا تھا لنگر جاری ہوتے تھے۔ اور شاہی محل میں شاندار ضیافت دی جاتی تھی۔ بارہویں تاریخ کو سب دیوی دیوتا اپنے اپنے شہروں میں واپس چلے جاتے تھے اور پروہت اپنی عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے یوں جشن نوروز ختم ہو جاتا تھا”۔ (سبط حسن ،ماضی کے مزار،ص132)
نوروز سے متعلق فارسی نظریہ:
ایرانی روایات کے مطابق اسی دن کائنات نے تخلیق کے بعد اپنی حرکت شروع کی تھی۔ اسی وجہ سے نوروز کو زمین کی پیدائش کا دن بھی قرار دیا جاتا ہے۔
عمومی خیال یہ ہے کہ نوروز زرتشتیوں کا مذہبی تہوار تھا۔ اس مذہب کے پیروکار اس دن آگ جلا کر رقص و مستی کرتے تھے جو ان کی عبادت تھی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ مارچ بالخصوص 21 مارچ کے بعد بہار کی آمد ہوتی ہے اور نوروز بھی آمدبہار کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔
ایرانی کلینڈر کے مطابق 21 مارچ کو زمین سورج کے گرد اپناایک چکر پورا کرتی ہے اور اسی طرح ایک شمسی سال مکمل ہوتا ہے۔ ایرانی روایات کے مطابق اسی دن کائنات نے تخلیق کے بعد اپنی حرکت شروع کی تھی۔ اسی وجہ سے نوروز کو زمین کی پیدائش کا دن بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اردو، فارسی اور بروشسکی زبان کے نامور ادیب اور شاعر علامہ نصیر الدین نصیر ہنزائی اسے اشعار کی زبان میں یوں بیان کرتے ہیں:
ہوئی جس دن زمین پیدا وہی نوروز ارضی تھا
کہ ہر تارا ہے ایک دنیا یہی ہے مژدۂ نوروز
کہ ہر تارا ہے ایک دنیا یہی ہے مژدۂ نوروز
عراقی کردستان کے مایہ ناز مصنف یاسین عارف سمیت دوسرے فارسی داستان گوؤں کاخیال ہے کہ زمانہ قدیم میں اس خطے میں ضحاک نام کا ایک جابر حکمران گزرا ہے۔ ظلم وجبر کی وجہ سے اس کے شانوں پر آدم خور سانپ اگ آئے تھے ۔اپنے اقتدار کے خلاف بغاوت کے ڈر سے ضحاک نے معزرین کو اکھٹا کیا۔ ضحاک کی جانب سے اپنی نیک نامی کی دستاویز پر دستخط لینے کی اس تقریب میں کاوہ نامی لوہار نے بادشاہ پر اپنے اٹھارہ میں سے سترہ بیٹوں کے قتل کا الزام لگایا اور اٹھارہویں بیٹے کے مقید ہونے کا انکشاف کیا۔ ضحاک نے لوہار کے بیٹے کو رہا کر دیا لیکن اپنی پارسائی کی دستاویز پر دستخط لینے میں ناکام رہا۔ کاوہ کی پیروی کرتے ہوئے بہت سے افراد نے پہاڑوں کا رخ کیا جہاں ایک پیش گوئی کے مطابق ضحاک کے اقتدار کا خاتمہ کرنے والا ’فریدون‘ مقیم تھا۔ فریدون کی قیادت میں ضحاک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد لوگوں نے عوام کو آگاہ کرنے کے لئے اونچے اونچے ٹیلوں پر چڑھ کر آگ لگا دی، اور ضحاک کی ہلاکت کی خوشی میں ناچنے لگے۔ کرد نوروز کو اسی فتح کے جشن کے طور پر مناتے ہیں۔ جناب سبط حسن رقمطراز ہیں "سانپ سے ایرانیوں کی دشمنی ضحاک کی داستان میں بہت واضح ہو جاتی ہے۔ بادشاہ ضحاک کے شانوں پر ظلم کے باعث دو آدم خور سانپ نکل آئے تھے آخر ایک ایرانی ہیرو انہیں ہلاک کرتا ہے اور ملک کو بادشاہ کے مظالم سے نجات دلواتا ہے” (سبط حسن ،ماضی کے مزار۔ص322)۔
فارسی لوک داستانوں میں یہ بھی لکھاہے کہ جب نامور بادشاہ جمشید نے فارسی سلطنت کی بنیاد رکھی تو اس دن کو نیا دن قرار دیا اس کے بعد ہر سال نوروز کا تہوار جوش وخروش سے منایا جانے لگا۔ نامور ایرانی مفکر ڈاکٹر علی شریعتی لکھتے ہیں کہ "نوروز کائنات کے جشن، زمین کی خوشی، سورج اور آسمان کی تخلیق کادن۔ وہ عظیم فاتح دن جبکہ ہر ایک مظہر پیدا ہوا”۔
نوروز کا سب سے بڑا جشن ایران کے جنوبی شہر شیراز میں تخت جمشید کے مقام پر منایا جاتا ہے۔ اس دن ایران کے مختلف حصوں سے لوگوں کی بڑی تعداد شیراز اور اصفہان کی جانب سفر کرتی ہے۔
نوروز کا سب سے بڑا جشن ایران کے جنوبی شہر شیراز میں تخت جمشید کے مقام پر منایا جاتا ہے۔ اس دن ایران کے مختلف حصوں سے لوگوں کی بڑی تعداد شیراز اور اصفہان کی جانب سفر کرتی ہے۔ ایران کے علاوہ بہت سے دیگر ممالک میں نوروز کو سرکاری طورپر منایا جاتا ہے۔ افعانستان، آزربائجان، جارجیا، کوسوو، کرغزستان، ازبکستان، عراق، قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان، عراقی تر کستان وغیرہ میں نوروز کے دن سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ ہندوستان میں مغلوں کے دور حکومت میں نوروز سرکاری طورپر منایا جاتا تھا۔ مورخ ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق "چونکہ عربی تہوار ثقافتی طورپر اتنے رنگین اور دلکش نہیں تھے جتنے کہ ایران و ہندوستان کے۔ لازمی طورپر مسلمان ان سے متاثر ہوئے اور تبدیلی مذہب کے بعد بھی لوگ یہ تہوار بطور ورثہ اپنے ساتھ لائے۔ انہوں نے ان تہواروں اور رسوم کوجاری رکھا۔ اس لئے مسلمان بادشاہوں کے دربار میں نوروز کا تہوار بڑی شان وشوکت کے ساتھ منایا جاتا رہا” (المیہ تاریخ ،ص۹۹)۔
پاکستان کے شمالی علاقوں ( گلگت بلتستان اور چترال) میں اب بھی جشن نوروز ثقافتی اور مذہبی عقیدت واحترام سے منایا جاتا ہے۔
جشنِ نوروز کا آغاز آج سے ہزاروں برس قبل ہوا، ثقافتی پھیلاو کے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے اب یہ تہوار بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی نے 2010ء میں نورو ز کو عالمی تہوار قرا ر دیا ۔ جس کی مناسبت سے ایران نے پہلے عالمی نوروز منعقدہ تہران 27مارچ 2010 کو سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کی موجودگی میں خصوصی ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ اقوام متحدہ نے 28ستمبر سے 2 اکتوبر 2009ء کو دبئی میں منعقدہ اپنے ایک اجلاس میں نوروز کو سرکاری طورپر یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کا حصہ تسلیم کیا۔ 30مارچ 2009ء کو کینڈین پارلیمان نے اپنے اجلاس میں بل پاس کرتے ہوئے نوروز کو قومی کیلنڈر میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکہ کے ایوان نمائندگان نے ایک بل کی منظوری دی ہے جس میں نوروز کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔
وقت کی ضرورت ہے کہ ہم عرب پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی کا شکار ہو کر اپنی شناخت بھول جانے کی بجائے اپنے سماج میں متنوع ثقافتی روایات و اقدار کو زندہ کر کے دنیا میں امن، بھائی چارگی، محبت، اخوت اور تکثیریت پر مبنی معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں۔
Leave a Reply