Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے

test-ghori

test-ghori

10 اگست, 2016

[blockquote style=”3″]

Virtual Textual Practical Criticism “قاری اساس تنقید” کی مجموعی تھیوری کے تحت وہ طریقِ کار ہے، جس میں طلبہ کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ کسی نظم یا نظمیہ فارمیٹ کے متن پر عملی تنقید کیسے لکھی جائے۔ اس کے لیے شاعر کے نام کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔ (اگر ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن اس کے نجی حالات، سیاسی یا مذہبی خیالات، ہم عصر شاعری کی نہج یا ہم عصر شعرا کا تتبع یا مخالفت وغیرہم کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جانا ضروری ہے، گویا کہ آپ کو علم ہی نہیں ہے کہ یہ نظم کس شاعر کی ہے)۔صرف سامنے رکھے ہوئے متن پر ہی انحصار کرنے کے لیے یہ طریق ِ کار اختیار کیا جائے۔ متن میں مشمولہ تمام Proper and Common Nouns اسماء کے ہم معنی الفاظ، یعنی homonyms یا ان کے متبادل الفاظ کی فہرست تیار کر لی جائے۔ اب ہر اس اسم (اسم، اسم ِ ضمیر، اسم معرفہ، نکرہ، آلہ، تصغیر، تکبیر، وغیرہ) کے سامنے بنائی گئی فہرست کے ہر ایک لفظ کو استعمال کیے گئے لفظ کی جگہ پر رکھ کر دیکھا جائے کہ کون سا لفظ شاعر کی منشا یا مطلب کو براہ راست یا استعارہ یا علامت کے طور پر زیادہ واضح طور پر پیش کر سکتا ہے۔ اب تنقید لکھتے ہوئے ان الفاظ کو زیر ِ بحث لایا جائے اور آخری پیرا گراف میں اپنی findings تفصیل سے لکھی جائیں۔ اس طریق کار کے تحت تنقید کا مضمون یورپ اور امریکہ میں پڑھایا جا رہا۔ یہ منظوم سلسلہ “خامہ بدست غالب” غالب کے کلام کو Virtual Textual Practical Criticism کے تحت سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ ستیہ پال آنند

[/blockquote]

غالب کے اشعار پر ستیہ پال آنند کی نظموں پر مشتل سلسلے ‘خامہ بدست غالب‘ میں شامل مزید نظمیں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

شعر

ہے وہی بد مستیءِ ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ
جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے

الفاظ کی فہرست

عذر خواہی: حیلہ جوئی، ادعا، کچھ لیپا پوتی
عذر : عذرِ لنگ بھی، تلبیس بھی، تحریف بھی، اور
عذر:کج فہمی، غلط تشریح، ژولیدہ جُگَت، جھوٹا بہانہ!

نظم

کیسی یہ
تلطیف ہے ؟ اس استعارے کا اشارہ کس طرف ہے؟
کیا ہے وہ ؟ (یا کون ہے؟) ’’ذرّہ‘‘ کہ جس کی
داستاں بد مستیوں کی ایسے دہرائی گئی ہے
جیسے ہر کوئی اسے پہچانتا ہو!

ذرّہ، یعنی رائی بھر اک جسمیہ،اک برقیہ، ریزہ، تراشہ
اربوں کھربوں کے تعدد میں فقط اکلوتا خلیہ
ذرّیت، احفاد، آل اولاد، وارث ۔۔۔۔
سلسلہ موروثیت، ابنِ فلاں، ابنِ فلاں
اک فرد، یعنی آب و خاک و ریح کا پُتلی تماشا!

کیسی ہیں بدمستیاں یہ؟ جن کی خاطر
عذر خواہی اہم ہے اس کے لیے جو
جلوہ گر خود ہے زمیں تا آسماں ۔۔۔۔۔
جس کا ظہورہ قطعی، بیّن تو ہے پر اشہر و واضح نہیں ہے!
یہ سناتن، جاودانی، امر روپی دائمی اللہ ہے جو عذر خواہ ہے
اِس بشر، پل چھن کے باسی، آدمی کی
شیطنت کا، ناروا بد مستیوں کا!

کیوں بھلا؟ پوچھیں براہِ راست غالبؔ سے ہی
آخروجہ کیا تھی؟
اس لیے شاید کہ اس’بد مست‘ کا خالق وہی ہے
“جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے”
غفران کا عادی ہے جو۔۔
اور مغفرت جس کا طریقِ کار ہے۔۔۔۔
پر یہ بشارت
جانے کیوں گنجینہِ معنی کا مالک
غالبِ لفّاظ شاید دیتے دیتے رُک گیا ہے