jism-o-zubaan-ki-maut-2نوجوان ہزارہ سماجی کارکن سجاد چنگیزی سے لالٹین کی بات چیت

 

اپنے پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیں، اور یہ بھی کہ آپ ایکٹیوزم کی طرف کیسے مائل ہوئے؟
کوئٹہ میں آباد ہزارہ قبیلے کی ایک مڈل کلاس فیملی سے میرا تعلق ہے- میں ایک مزدور کا پُر فخر بیٹا ہوں – کوئٹہ ہی میں گورنمنٹ ہزارہ سوسائٹی ھائی سکول سے میٹرک اور تعمیر نو پبلک کالج سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا ۔ صوبہ بھر میں میری پوزیشن اگرچہ بارہویں تھی تاہم انٹری ٹیسٹ میںاول آنے کی وجہ سے یو ای ٹی لاہور میں پورے بلوچستان کے لیئے مختص الیکٹریکل انجنئیرنگ کی واحد نشست میرے حصے میں آئی۔ اپنے سکول اور کالج کا نمائندہ مقرّر رہنے کے بعد لاہور میں میں نے لٹریری سوسائٹی میں شمولیت اختیار کی ۔ لاہور میں پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ پنجاب میں بلوچستان کے لوگوں سے متعلق بہت سے بے بنیاد اور غلط مفروضات ہیں جنہیں چیلنج کرنے کی ضرورت ہے ۔ لاہور آکر مجھے پتہ چلا کہ  بیچارے احمدی کون لوگ ہیں ، بریلوی دیوبندی کیا چیزیں ہیں اور پیر فقیر اور مزارات سے وابستہ کیا روایات ہیں – انھی سالوں میں بلوچستان میں ہماری کمیونٹی کو زیادہ تواتر سے انتہا پسندی کا نشانہ بنایا جانے لگا ، خصوصا حسین علی یوسفی کی شہادت نے، جو ایک معروف مزاحیہ ڈرامہ نگار اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین بھی تھے، مجھے بہت متاثر کیا ۔ مشینوں میں نسبتا کم دلچسپی اور ان متقاضی سماجی حالات کی وجہ سے مجھے لامحالہ سڑکوں پر آنا پڑا ۔
میرے دوست جبسریاب روڈ، سپنی روڈ، ارباب کرم خان روڈ، ھزارگنجی، جناح روڈ اور علمدار روڈ کی گلیوں کو خون سے سرخ کردیں تو ایف سکس اور جناح ایونیو کے محفوظ چوراہوں پہ تھوڑا سا شور کرنا فرض بنتا ہے۔

 

ہزارہ برادری کے ایک  نمائندے کی حیثیت سے آپ اپنی برادری پر بیتنے والے ظلم و ستم کے المیے کو کیسے بیان کریں گے؟
ایک ہزارہ ہونے کے ناطے تشدّد ، قتل و غارتگری کے یہ سال شاید میری زندگی میں سالہا ئے افسوس بن کر رہیں گے – غالب کی دلّی جس طرح آشوب کا شہر بن گئی تھی، اسی طرح ہمارا پیا را کوئٹہ آج لہولہا ن ہے ۔ یہ صرف میری داستان نہیں ، ہر ایک ہزارہ کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار دہشت گردی کا نشانہ بن چکا ہے۔ حالات کی وجہ سے لوگ پاکستان سے باہر پناہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔ جن گلیوں میں ہم پلے بڑھے، اب ویران ہیں ۔ دوست یا تو پاکستان سے باہر جا چکے ہیں یا لشکر جھنگوی کی گولیوں کا ناانہ بن کر قبرستان – سب سے زیادہ افسوس مجھے اس بات کا ہے کہ ہماری کمیونٹی نسلوں کی مسلسل محنت کے بعد ابھی ابھی اعلی تعلیم ، افسرانہ نوکریوں اور درمیانے درجے کے کاروبار کی طرف بڑھ رہی تھی کہ مسلسل اور یکطرفہ تشدد کے ذریعے ہمیں نا قابل ِ تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے – نہ صرف ایک ہزارہ ہونے کے ناتے بلکہ ‘پیس اینڈ کانفلکٹ سٹڈیز ‘ کے طالبعلم کی حیثیت سے بھی میں ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ ہونیوالے یکطرفہ قتل و غارت کو ‘ نسل کُشی ‘ سمجھتا ہوں-

دہشت گردی، فرقہ واریت اور نسل کشی کی حکومتی سر پرستی یا بے حسی کے رویے میں کوئی تبدیلی کی امید دیکھتے ہیں یا نہیں؟ اور کیا آپ کی نظر میں اس مسئلے پر عوامی رائے ہموار ہو رہی ہے؟

حکومت جان بوجھ کر بے حس ہے البتہ اس سب کا تعلق حکومت سے زیادہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ہے ۔ کیا خبر 2014 میں امریکی فوج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد خطے میں کیا تبدیلی آئےگی تب تک تو طالبان اور لشکر ِ جھنگوی سمیت دیگر جہادی اور فرقہ ورانہ گروہوں کو ہماری اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل رہے گی اور اسلامائزیشن کو بلوچ نیشنلزم کے تدارک کی دوا کے طور پر بلوچستان میں فروغ دیتے رہیں گے – عوامی رائے کا جہاں تک تعلق ہے ، حالیہ ملک گیر پُرامن مظاہروں کے ذریعے پاکستان کے انسان دوست اور روشن خیال عوام نے ہزارہ کمیو نٹی سے یکجہتی کا جس طرح اظہار کیا ہے اس سے میری امید کافی بڑھ چکی ہے۔بزبان ِ ناصر ؛
؎’کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی’

حالیہ دھماکوں کے بعد ہونے والے مظاہروں کو منظم کرنے میں آپ پیش پیش تھے، ان مظاہروں میں کیا نئی بات تھی؟ اور کیا یہ مظاہرے ایک بڑی تحریک کی شکل اختیار کر پائیں گے؟

فیصلہ کن اور بڑی تحریک تو مشکل ہے ، جس کی وجہ پاکستانی سماج اور سیاست کا ہنگامہ خیز سٹیج ہے – اس قدر افراتفری کے عالم میں ہزارہ کمیو نٹی تو درکنار پوری بلوچ قوم کی آواز دب جاتی ہے ۔ البتہ پیس سٹڈیز کا ایک طالبعلم ہونے کے ناتے میں ‘عدم تشدّد ‘ کا قائل ہوں ؛مارٹن لوتھر کنگ ، موہن داس کرم چند گاندھی اور نیلسن منڈیلا کو قابل ِ تقلید شخصیات سمجھتا ہوں اور اسی لئے حالیہ مظاہروں کا میرا پسندیدہ پہلو یہی ہے کہ ایک ٹائر تک نہ جلا، کسی کی گاڑی نذرِ آتش نہیں ہوئی، سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچایا گیا ۔ کسی جارحانہ معاشی یا سیاسی دباؤ کی غیر موجودگی میں ہماری کمیونٹی نے خالصتاً اخلاقی بنیادوں پر یہ جنگ لڑی اور جلد ہی نہ صرف شیعہ کمیونٹی بلکہ پاکستان کے تمام انسان دوست حلقوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا – عوامی سطح پر پہلی دفعہ لوگوں نے اس دس سالہ یکطرفہ تشد د کو ‘ فرقہ واریت’ کے بجائے ‘نسل کُشی’ تسلیم کیا اور حتی کہ دائیں بازو کی جماعتوں نے بھی ‘لشکر جھنگوی’ کا نام لےکر ان کی مزمت کی جیسا کی پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی – 200 ملین لوگوں کے اس ملک میں جہاں ہماری کُل آبادی 6 لاکھ ہے ، ہزارہ کمیونٹی کے لیےکسی بھی صوبے کے سب سے زیادہ زیر ِ تنقید سیاستداناور اتنے ہی ڈھیٹ وزیر اعلیٰ کی برطرفیایک اہم سنگِ میل ہے –

کیا صوبے میں گورنر راج اس مسئلے کا موثر حل ہے؟ اور کیا یہ فیصلہ ہزارہ برادری کے مطالبات کی عکاسی کرتا ہے؟

گورنر راج اس مسئلے کا حل تو خیر نہیں البتہ ہزارہ کمیو نٹی کے متفقہ مطالبات میں سے ایک تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اسلم رئیسانی بلاشبہ ‘ناقابل ِ برادشت’ ہو چکے تھے – مستونگ میں 16 شیعہ زائرین کے قتل عام کے بعد کسی منصبی یا اخلاقی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انھوں نے متاثرہ کمیونٹی کو ٹشو پیپرز بھجوانے کا لطیفہ کسا تھا – جو چیز ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ بلوچ ، پشتون اور ہزارہ نیشنلسٹ اور سیکولر جماعتیں (اگرچہ جمیعت علمائے اسلام کا ووٹ بینک بھی پشتون علاقوں میں کم نہیں) ہی بلوچستان کے عوام کےحقیقی نمائداے ہیں ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ان جماعتوں میں سیاسی روابط ہی نہیں ، تعاون تو بعد کی بات ہے ۔ اور اگر ہو بھی تو اسٹیبلشمنٹ ان کو نا قابل ِ اعتماد سمجھ کر اہم کرسیوں اور میزوں سے دور رکھتی ہے- نیشنلسٹ، سیکولر اور جمہوری جماعتوں کی غیر موجودگی میں یہ خلا چاہے گورنر پُر کرے یا کوئی اسلم رئیسانی ، بلوچستان کے ستم دیدہ لوگوں کے دن نہیں پھرنے والے ۔

ان دھماکوں میں ایک نوجوان سماجی کارکن عرفان (خودی) علی کی بھی شہادت ہوئی، وہ آپ کے دوست بھی تھے۔ عرفان کی زندگی میں ہمارے لیے کیا سبق ہے؟

عرفان بھائی ایک دوست کے علاوہ انسانی حقوق کی جدوجہد میں ایک سرگرم اور قابل ِ تقلید شخصیت تھے – اُن سے میری پہلی ملاقات اکتوبر 2011 میں خودی پاکستان کے ‘انٹرنیشنل یوتھ کانفرنس – اسلام آباد’ میں ہوئی اور اس کے بعد ہم مختلف فورمز پر ساتھ ساتھ کام کرتے رہے – اُن کی زندگی کا سب سے روشن پہلو میرے نزدیک یہ ہے کہ مظلوم کمیونٹی کی نفسیاتی علیحدگی پسندی اور گوشہ نشینی کے برخلاف انہوں نے دیگر اقوام میں گھل مل کر دوست بنانے کو اپنی زندگی کا اصول بنا لیا۔ خلوص اور انسان دوستی پر مبنی ان کے ان گنت روابط اور رشتوں کی وجہ سے ان کی شہادت پر ہزارہ سے زیادہ غیر ہزارہ اور شیعہ سےکہیں زیادہ غیر شیعہ آنکھیں اشکبار تھیں –

نوجوانوں یا اس تحریر کے قاری کے لیے کوئی پیغام؟

اب جبکہ آہن گر کی دکاں پر تند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن، جسم و زباں کی موت سے پہلے ، جب یہ تھوڑا وقت بہت ہے ، اتنا کہوں گا کہ جس غیر اخلاقی تحریک کا آغاز احمدیوں کو ٹارگٹ کرنےسے کیا گیا تھا ، وہ میرے خون پر نہیں رُکے گی ۔ اسلامائزیشن کے علمبردار یہ قاتل میرے قتل کے بعد جفا سے توبہ نہیں کرنے والے، کیونکہ اسلامزم اور اسلامائزیشن (یہ دین ِ اسلام سے مختلف شے ہے ) کا بنیادی مسئلہ ہی یہی ہے کہ سماج اور ریاست کبھی بھی ‘کافی مسلمان’ نہیں ہو ں گے اور تکفیر کے جِن کو ہمیشہ خون کی طلب رہے گی –کل احمدیوں کا خون ہوا ، آج میرا ہو رہا ہے ، کل کس کی باری ہو گی ۔ ۔ ۔ اس کے لیے آپ کو بہر حال سوچنا ہو گا ۔

Leave a Reply