Laaltain

جدید ادبی اظہاریہ اور تصوف کے فقدان کی گاتھا

12 ستمبر, 2016
Picture of تالیف حیدر

تالیف حیدر

وحید اختر نے خواجہ میر درد پر تحریر کردہ اپنی کتاب کے مقدمے میں تصوف کے متعلق یہ اعتراف کیا ہے کہ :

 

“میں نے جن صاحب کی نگرانی میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی، ان سے ملاقات ہونے سے قبل میں تصوف کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا، جس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ مجھےتصوف کے متعلق یہ ادراک حاصل نہیں تھا کہ اس میں دنیا بھر کا فلسفہ پوشیدہ ہے۔”

 

اردو کی وہ روایت جس کو تاریخ کے حوالے سے اردو ادب کی سب سے مستحکم روایت کہا جا سکتا ہے وہ تصوف کی روایت ہی ہے
گزشتہ ایک صدی سے اردو ادب کی جو صورت حال ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اردو زبان میں تصوف کو صحیح طرح سے جاننے اور اس علم کی گیرائیت پر نگاہ رکھنے والے دن بدن ہمارے درمیان سے اٹھتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے اردو ادب تصوف کی معنی خیز دنیا سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے، اردو ادب سے تصوف کے مضامین کے دور ہونے کے دو واضح نشانات ہمیں اردو ادب کی تاریخ کے حوالے سے ملتے ہیں ۔

 

تقریباً اسی ،پچاسی سال قبل اردو ادب کے منظر نامہ پر ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق ان دو تحریکوں کا آغاز ہوا، جس کی وجہ سے اردو ادب میں تخلیقی سطح پر تصوف کا عمل دخل کم ہوتا گیا، لیکن اس سے ما قبل کے ادب کا اگر ہم ایک جائزہ لیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کی ادبی کارگزاریوں سے پہلے جس طرح کی شاعری ہماری زبان میں ہورہی تھی اس میں تصوف کے عناصر واضح اور معیاری انداز میں نظر آتے تھے۔یہاں یہ نکتہ ہمیں سوجھائی دیتا ہے کہ سن 1936 جو اردو ادب کی تاریخ کا ایک یاد گار برس ہے وہ کئی ایک وجوہات کی بنا پر اس زبان اور اس کے ادب کا Turning Pointکہا جا سکتا ہے، جس سن میں بعض سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے اردو والوں میں سے چند ایک لوگوں نے اس زبان کے ادب کو نیا رخ دینے کے لئے ایک تحریک کا آغاز کیا اور اس کے ذریعے اردو زبان اور اس کے ادب کو از سر نو مرتب کرنے کی بنا ڈالی، ترقی پسند تحریک نے آزادی سے قبل اپنے سیاسی اور ادبی منشور کی جس طرح تشہیر کی اس سے اردو ادب تخلیق کرنے والوں کی ایک بڑی جماعت نے اس تحریک کے افکار و نظریات کو وقت کی اہم ضرورت تسلیم کرتے ہوئے اس کو اپنی کاوشات کا محور بنا لیا، یہ سلسلہ آزادی ہند کے چند روز بعد تک چلا اور پھر جدیدیت کی نئی ترجمانی کے تحت اردو کا ادب ترقی پسندیت کے منشور سے الگ ہٹ کر ایک نئی راہ پر چل نکلا، اردو کی ان دوتحریکوں سے قبل اردو زبان میں ادب کی تخلیقی سطح جس نوع کی تھی کیا وجوہات ہیں کہ اس ادبی سطح پر تخلیق کیا جانے والا ادب آج بھی اردو زبان کا اصل اور قیمتی اثاثہ تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ واقعہ ہے کہ اس ادب میں تصوف کی روایت بدرجہ اتم موجود تھی جبکہ ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کی جدید حکمتوں کے سبب اردو زبان و ادب سے تصوف کی روایت تقریباً خاتم ہوتی چلی گئی۔

 

اردو کی کلاسیکل مثنویات ہوں یا قصائد ،رباعیات ہوں یا قطعات، نظم ہو یا نثر ہر میدان میں ہمیں تصوف کی اصطلاحات سر گرداں نظر آتی ہیں
یہاں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اردو کی وہ روایت جس کو تاریخ کے حوالے سے اردو ادب کی سب سے مستحکم روایت کہا جا سکتا ہے وہ تصوف کی روایت ہی ہے، حالاں کہ اردو ادب میں اور بھی کئی ایک روایتیں ہیں جو اس روایت کے ہم پلا نظر آتی ہیں، لیکن شمالی ہند دکن، گجرات، بہاراوریوپی وغیرہ کی قدیم ادبی روایات پر نگاہ کی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ تصوف سے زیادہ قدیم اور متواتر کوئی روایت نہیں۔ علی گڑھ تحریک جس عہد میں منظر عام پر آئی اس عہد میں بھی تصوف کو فروغ نصیب ہوا، کیوں کہ معاشرے کو جس انداز میں well cultured اور well Behavedبنانے کی باتیں اصلاحی اور نیچری تحریک کے تحت کی گئیں ان کو تصوف کی تعلیمات سے الگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق سےما قبل اردو زبان کا واحد ایک مرکز ایسا تھا جہاں تصوف کے مضامین خال خال بندھے ہیں اور وہ ہے لکھنو، لیکن پھر بھی وہاں کے بعض شعرا کے یہاں تصوف کی اصطلاحات نظم ہوتی نظر آجاتی ہیں، وہ بھی اس عہد میں جب کہ لکھنو تمام تر عیاشیوں کا گڑھ بنا ہوا تھا اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اردو زبان کا اس روایت سے بہت گہرا تعلق ہے، لہذا یہ حاصل آتا ہے کہ تصوف نے 1936 سے قبل اردو کی تمام تخلیقات پر حکمرانی کی ہے،اس برس سے قبل تصوف کی اثر آفرینی کا یہ عالم تھا کہ اردو کی کلاسیکل مثنویات ہوں یا قصائد، رباعیات ہوں یا قطعات، نظم ہو یا نثر ہر میدان میں ہمیں تصوف کی اصطلاحات سر گرداں نظر آتی ہیں، گیسو دار ز بندہ نواز سے لے کر اصغر گونڈوی تک اردو کی ایک لمبی تاریخ ہے جس میں تصوف کی تعلیمات اور اس کے افکار و نظریات نے طرح طرح سے ادب میں خود کو زندہ رکھا ہے، صوفیانہ فکر نے اردو کی تقریباً تین سو سالہ تاریخ پر اپنے اثرات مرتب کئے ہیں جس کے بر عکس اسی، پچاسی سالوں میں اردو کی ادبی افق سے تصوف دھیرے دھیرے غائب ہوتا جا رہا ہے۔

 

اردو ادب میں تصوف کے اثرات جوں جوں ختم ہوئے، تصوف کی اصطلاحات کے بر عکس جنسیات کی اصطلاحیں ادبی تخلیقات کا حصہ بنانا شروع ہو گئیں
جہاں ایک طرف ترقی پسند تحریک نے تصوف کو اپنے سیاسی نعرے کے تحت دبایا تو دوسری جانب حلقہ ارباب ذوق نے اس کی عملی تردید کی۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اردو ادب میں تصوف کے اثرات جوں جوں ختم ہوئے، تصوف کی اصطلاحات کے بر عکس جنسیات کی اصطلاحیں ادبی تخلیقات کا حصہ بنانا شروع ہو گئیں، اردو میں جنسیت کے مضامین احیا عشق کے مضامین کو دبانے اور ختم کرنے کے لئے وجود میں آتے گئے، عشق کا مضمون جو کئی سو برسوں سےاردو شاعری کا یا پھر یہ کہہ لیا جائے کہ غزل کا بنیادی خیال رہا ہےوہ جنسیت کا لبادہ اوڑھ کر منظر نامے کی صورت اختیار کرتاگیا، غزل کے بالمقابل جنسیات کے لئے نظم جیسی صنف کوعروج ملنا شروع ہوا، اس لئے بھی حلقہ ارباب ذوق نے نظم کے ارتقا پر زیادہ زور دیا۔ میراجی کی شاعری جس کو اردو کی جنسی شاعری کا نقطہ عروج قرار دیا جا سکتا ہے، اس نے اردو زبان و ادب میں جس عشق کی روایت کا غیر شعوری انداز میں انقطا ع کیا، اس نے اردو کی نئی شعریات کو تصوف کے افکار سے دور کرنے کا بنیادی کارنامہ انجام دیا ہے۔ میرا جی اور ن۔ م راشد سے یہ سلسلہ شروع ہوا تو بعد ازاں اردو شاعری کا نقطہ ارتکاز بن گیا، اس نے اردو کی بعد کی نسل میں اس چلن کو عام کر کے ادب کو خالص جنسی مضامین کی آماجگاہ بنا دیا۔ میرا جی اور راشد کے تتبع نے اردو کے کئی ایک تخلیق کاروں کو جنسیات کی نذر کر دیا جس سے تصوف کے مضامین تو اردو شاعری سے عنقا ہوئے ہی، عوام کا ذوق بھی بدلتا چلا گیا، اس بات کی دلیل اس سے ملتی ہے کہ وہ عوام جو کبھی دلی اور حیدر آباد کے مشاعروں میں تصوف کی اصطلاحات پر سر دھنتی تھی وہ ان حضرات کی شاعری کے چلن کے بعد بدنیات کے مضامین سے مسرور ہونے لگی۔ جس زمانے میں یہ رواج اپنے عروج پر تھا ہم دیکھتے ہیں کہ غزل کہیں پردے میں چھپتی چلی جا رہی تھی، جنسیات سے فحشیات اور فحشیات سے زٹلیات جیسے ادبی مضامین جو کبھی اردو زبان میں اکثریت میں نہیں رہے تھے تصوف کے پس پردہ جاتے ہی بڑھتے چلے گئے اور جلد ہی اردو میں ایک دبستان کی حیثیت سے نمایاں ہوئے۔ تصوف جو اصلاح باطن، تکلف، رواداری، عشق اور خلوص نیت کی بات کرتا تھا اس کو فرسودہ ٹھہرا کر اردو میں ایک نئے باب کی بنا ڈالی گئی، اس طرح دوسرے راستے سے تصوف کو اردو ادب سے دور کئے جانے کا سامان مہیہ ہوا۔ اس بات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ ادب کے بڑے ذہن ہر عہد میں جس طور کو ادب میں رائج کرتے ہیں آنے والا زمانہ انہیں تصورات پر عمل پیرا ہو جاتا ہے، ویسے بھی اردو ادب میں اجتہاد کی روایت کم ہی رہی ہے اور تقلید کا گراف اتنا بڑھا ہو اہے کہ اگر کوئی اچھا شاعر بھی کسی خاص نظریہ کے زمانہ عروج میں کچھ الگ انداز میں بات کہنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو ہمارے یہاں قابل قبول تسلیم نہیں کیا جاتا، بہر کیف اردو کو تصوف سے دور کرنے میں ان دونوں چیزوں نے بہت اہم رول ادا کیا ہے، جس میں پہلی ہے ترقی پسند تحریک اور دوسری میراجی اور ن۔ م راشد کی تخلیقات کی نقل جلی۔

 

میرا جی اور راشد کے تتبع نے اردو کے کئی ایک تخلیق کاروں کو جنسیات کی نذر کر دیا جس سے تصوف کے مضامین تو اردو شاعری سے عنقا ہوئے ہی، عوام کا ذوق بھی بدلتا چلا گیا
تیسری ایک سب سے بڑھی وجہ یہ ہے کہ اردو زبان میں لکھنے والوں میں مطالعے کا ذوق ختم ہوتا چلا گیا، اس وجہ سے بھی تصوف کیا ہے؟ اس کا ادراک لوگوں کو نہ ہو سکا۔ تصوف جیسے عمیق فلسفے کو وہ لوگ سمجھنے سے بھی قاصر تھے جنہوں نے اردو کے کلاسیکل ادب تک کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ اس نئے ادبی طرز نے جہاں تصوف کو ادب سے ختم کرنے میں ایک کلیدی کردار نبھایا وہیں ادب اور تصوف ان دونوں کی معنویت سے عدم واقفیت نے بھی اہم رول ادا کیا ہے۔ یہاں میں ایک اہم نکتے کی جانب اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ نئی نظم کی صورت میں اردو ادب کو جو ہئیت نصیب ہوئی تھی اس ہئیت میں مواد کی جلوہ سامانیوں سے تصوف کے مضامین کی انشراح کو مزید فروغ نصیب ہو سکتا تھا، جس سے اردو کی نئی شاعری کو اور ہماری ایک مستحکم روایت کو عروج حاصل ہوتا، لیکن افسوس کہ اردو والوں نے اس جانب نگاہ نہ کی، اب سے چند برسوں قبل راقم نے اس ضمن میں پیش قدمی کی تھی جس سلسلے کا آغاز کرتے ہوئے ساقی فاروقی کی ایک نظم جس کا عنوان تھا “خالی بورے میں زخمی بلا” اس کی صوفیانہ تشریح کی تاکہ تصوف اور ادب کا رشتہ بحال ہونے کے امکانات پیدا ہو سکیں۔

Image: Haku Shah

ہمارے لیے لکھیں۔