یہ اس سلسلے کا پانچواں مضمون ہے، اے وطن کے سجیلے جوانو کا پہلا ،دوسرا، تیسرااور چوتھا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

زمانہ جدید میں جمہوری بندوبست سیاسی لغت میں داخل ہوا تو یہ بات واضح کر دی گئی کہ داخلی و خارجی مسائل سے نبٹنے کیلئے فوج استعمال کرنے کا اختیار منتخب سیاسی قیادت کی صوابدید پر ہے ۔ امریکہ میں لڑی جانی والی سول وار ہو یا بیسویں صدی کی پہلی اور دوسری جنگ عظیم، یہ بندوبست یونہی قائم رہا اور اسکی خلاف ورزی کرنے پر سیاسی قیادت نے فوجی قیادت کی باز پرس کی۔ روس جیسا طاقت ور اور وسیع وعریض ملک سنہ1905ء میں برپا ہونے والی جنگ میں جاپان جیسے قلیل الجثہ ملک کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوا۔اس صورت حال کے پیش نظر روسی فوج کی اعلیٰ کمان نے تین سو سے زائد جرنیلوں اور لگ بھگ چار سو کرنیلوں کو فارغ کردیاتو کسی سورما کے کان پر جوں تک نہ رینگی(حالانکہ روس میں جمہوری بندوبست قائم نہیں تھا)۔ کوریا کی جنگ کے دوران امریکی جرنیل میک آرتھر نے امریکی صدر کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چین کو ایٹمی حملے کی دھمکی دے ڈالی جس کی پاداش میں صدر نے جنرل میک آرتھرکو فوری وطن واپسی کا حکم دیا لیکن پاکستانی جرنیلوں نے سیاسی قیادت کو کبھی یہ موقع ہی نہیں دیا۔
سولہ دسمبر 71ء کو ہتھیار ڈالے گئے اور اسکے چند ہی روز بعد راولپنڈی میں یہ بحث جاری تھی کہ جنگ میں شجاعت دکھانے پر جو تمغے دیے جانے تھے ان کا ڈیزائن کچھ ایسا رکھا جائے کہ رقص کے دوران کہیں ہم رقص کو چبھ نہ جائے۔
تمغوں کا ڈیزائن کیسا ہو؟
پاکستان میں اب تک فوجی جرنیلوں کا احتساب ممکن نہیں ہو سکا یہی وجہ ہے کہ وہ مشرقی پاکستان کے دفاع میں ناکام رہے اور بعدازاں ان فوجی افسران نے تزویراتی گہرائی جیسی ناکام دفاعی حکمت عملی اپنانے کی حماقت کی۔ بنگال میں ہونے والی خوفناک ناکامی اور بھارت کے آگے ہتھیار ڈالنے کے باوجود پاکستانی جرنیل اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ کند ذہنی کا یہ عالم تھا کہ سولہ دسمبر 71ء کو ہتھیار ڈالے گئے اور اسکے چند ہی روز بعد راولپنڈی میں یہ بحث جاری تھی کہ جنگ میں شجاعت دکھانے پر جو تمغے دیے جانے تھے ان کا ڈیزائن کچھ ایسا رکھا جائے کہ رقص کے دوران کہیں ہم رقص کو چبھ نہ جائے۔ بھارتی منصوبہ سازوں نے آپریشن جبرالٹر کو چند بنیادی تبدیلیوں کے ساتھ بنگال میں استعمال کیا تھا اور پاکستانی جرنیلوں کو انہی کی چالوں میں مات دی تھی۔ بھٹو صاحب نے یحییٰ خان کے رخصت ہونے پر اقتدار سنبھالا توبنگال میں جرنیلوں کی کارکردگی کے متعلق جسٹس محمود الرحمان کمیشن بنانے کی ’غلطی‘ کی، اس کمیشن کی رپورٹ سرکاری طور پر آج تک منظر عام پر نہیں لائی گئی لیکن اس کے بیشتر حصے اب غیر سرکاری ذرائع سے دستیاب ہیں۔
تزویراتی گہرائی کیا ہے؟
تزویراتی گہرائی (Strategic Depth)کی اصطلاح پاک افغان تعلقات اور جہادی گروہوں کی سرپرستی کے حق میں دلیل کے طور پر استعمال کی جاتی رہی ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کو تزویراتی گہرائی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے اس لیے اس نظریے کے ارتقاء اور اس کی مختلف صورتوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ سنہ 1917 ء میں سوویت یونین کی تشکیل کے بعدملک کی جنگی حکمت عملی تبدیل کرنے پر غور کیا جانے لگا۔ روسی افواج اپنی کثرت کے باوجود جاپان،پولینڈ ا ور پہلی جنگ عظیم میں شکست کھا چکی تھیں اور ان ناکامیوں کے پیش نظر نئی حکمت عملی بنائی گئی۔نئی حکمت عملی میں روس کا دفاع مختلف حصاروں یا سطحوں پر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس منصوبے کا اہم جز یہ تھا کہ جارح فوج اور روس کے اہم شہری مراکز کے درمیان اتنا فاصلہ رکھا جائے کہ اگر دشمن پہلے حصار کو پار کر بھی لے تو اہم شہروں تک پہنچنے میں اسے کچھ وقت لگے اس حکمت عملی کو تزویراتی گہرائی (Strategic Depth)کہا گیا۔ پاکستانی فوج نے بنگال میں بھارت سے شکست کھانے کے بعد اس حکمت عملی کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔ جغرافیائی طور پر پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ روس کے برعکس ہمارے اہم شہری مراکز سرحدوں سے زیادہ فاصلے پر واقع نہیں لہذٰا ہماری فوج ایک سے زیادہ دفاعی حصار نہیں بنا سکتی۔ پاکستانی منصوبہ سازوں کے لیے تزویراتی گہرائی سے مراد فوج کی بھارت سے سرحدی شکست کی صورت میں پسپائی اختیار کر کے افغانستان میں پناہ لینے اور پھر وہاں سے بھارتی افواج کے خلاف جوابی حملے کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس مقصد کیلئے فوج نے افغانستان میں پاکستان کی مرضی کی حکومت قائم کرنے کی کوشش شروع کی(جو کہ چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی جاری ہے)۔
پاکستانی منصوبہ سازوں کے لیے تزویراتی گہرائی سے مراد فوج کی بھارت سے سرحدی شکست کی صورت میں پسپائی اختیار کر کے افغانستان میں پناہ لینے اور پھر وہاں سے بھارتی افواج کے خلاف جوابی حملے کرنے کی صلاحیت ہے۔
افغانستان سیل، گلبدین حکمت یار اور پروفیسر ربانی
جنرل خالد محمود عارف (کے ایم عارف) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جولائی یا اگست 1973 ء میں پاکستان کی وزارت خارجہ میں ایک ’افغانستان سیل‘ بنایا گیا جس میں وزیر اعظم بھٹو، خارجہ سیکرٹری، آئی ایس آئی اور ایف سی کے سربراہ شریک تھے ۔ اس سیل کا کام افغانستان کے اندرونی معاملات پر نظر رکھنا اور وہاں موجود پاکستان کے حامیوں کوشہ دینا تھا۔ اسی دور میں پاکستانی اہل کار گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی سے متعارف ہوئے۔ پروفیسر ربانی کی جماعت اسلامی اور حکمت یار کی حزب اسلامی مقامی سطح پر چھوٹی جماعتیں مانی جاتی تھیں۔ پاکستانی حکومت نے افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کمزور کرنے کی خاطر ان جماعتوں کی پشت پناہی شروع کردی۔ برہان الدین ربانی نے پشاور میں ڈیرے ڈال لیے اور اس کی جماعت کے ارکان کو وہاں عسکری تربیت دی گئی۔ جواب میں افغان حکومت نے بلوچستان میں جاری گوریلا گروہوں کو پناہ اور اسلحہ مہیا کرنا شروع کیا۔ یاد رہے کہ یہ کارروائی روس کے افغانستان پر حملے سے کئی سال قبل شروع ہو چکی تھی۔
ملکی دفاع سے جہاد فی سبیل اللہ تک
اکہتر کی جنگ کے بعد پاکستانی افواج کی سیکولر اقدار بری طرح متاثر ہوئیں۔ جنگ میں ناکامی کی زمہ داری اعلیٰ عسکری و سیاسی قیادت کی نااہلی کی بجائے اخلاق باختگی اور مذہب سے دوری کو قرار دیا گیا جس کے بعد فوج میں بتدریج مذہبی شدت پسندی کا عنصر بڑھنے لگا۔ بھارت سے شکست کھانے کے بعد پاکستانی فوج کے ایک بریگیڈیئر ایس کے ملک نے مذہبی نقطہ نگاہ سے جنگی حکمت عملی کے متعلق ایک کتاب The Quranic Concept of Warلکھی جو سنہ1975 ء میں پہلی دفعہ شائع ہوئی۔ اس کتاب میں یہ بتایا گیا کہ دشمن کے خلاف باقاعدہ جنگ سے پہلے ہی چالیں چلنا شروع کردینا چاہیے اور ہمارا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ بریگیڈیئر صاحب نے اس کتاب میں یہ بھی لکھا کہ جنگ کا اصل مقصد دشمن کے دل میں اپنی دہشت پیدا کرنا ہے اور اس مقصد کیلئے ہر قسم کا حربہ استعمال کرنا جائز ہے۔بعدازاں جنرل ضیاء نے حکومت سنبھالنے پر اس کتاب کو سرکاری طور پر شائع کروایا اور اس کا دیباچہ بھی لکھا۔یہ کتاب فوجی لائبریریوں کے علاوہ افغان جنگجوؤں میں بھی تقسیم کی گئی۔اس دور میں پاکستانی فوج نے ملکی دفاع کی جگہ جہاد فی سبیل اللہ کو اپنا مقصد بنایا اور فوج کے سربراہ تقریبات میں مودودی صاحب کی کتب تقسیم کرتے پھرتے( واضح رہے کہ مودودی صاحب نے جنگی حکمت عملی پر کوئی کتاب نہیں لکھی)۔
جب پشاور جہادیوں کا مستقر تھا
سنہ 1979ء میں روسی فوج کے افغانستان پر حملے کے بعد امریکی امداد کی بھرمار شروع ہوئی اور اس امداد کی بدولت پاکستانی جاسوسی اداروں نے افغانستان میں جہاد کے نام پر جنگ لڑی۔اس جنگ کی کوکھ سے دنیا کو تہہ وبالا کرنے والے عفریت نمودار ہوئے۔مئی 1988میں افغان جنگ کے خاتمے تک عرب جنگجووں پر مشتمل جماعت ’القاعدہ‘پشاور میں جنم لے چکی تھی۔جد ہ اور مکہ یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے بعد فلسطین سے تعلق رکھنے والے دانشور عبداللہ عظام نے پہلی افغان جنگ کے دوران پشاور میں ’مکتبہ الخدمت‘ بنایا جہاں افغانستان جانے والے سعودی رضا کار کچھ دیر قیام کرتے۔ اسکا قائم کردہ مکتبہ، افغان جنگ کو جہاد کے طور پر ترویج دینے کیلئے پمفلٹ اور اخبارات کے مضامین بھی چھاپتا تھا۔سعودی دفتر خارجہ کے اندازے کے مطابق لگ بھگ دس ہزار سعودی شہری اس جنگ میں حصہ لینے کی غرض سے پاکستان آئے۔
جنرل مشرف ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز بنا تو اس نے بینظیر حکومت کی اجازت سے پاکستانی گروہوں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کر کے کشمیر بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔
پہلی دفاعی لائن
افغانستان میں اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کے بعد تزویراتی گہرائی کا ایک نیا باب سامنے آیا۔ افغان جنگ کے خاتمے پر فوجی طالع آزماؤں نے یہ فیصلہ کیا کہ غیر رسمی لشکروں کو کشمیر بھیجا جائے اور یہ لشکر پاکستان کی پہلی دفاعی لائن تشکیل دیں۔ اس مقصد کیلئے پہلے افغان جنگ سے فراغت پانے والوں کو کشمیر بھیجا گیا اور بعد میں نئی فصل تیار کرنے کی غرض سے آزاد کشمیر میں تربیت گاہیں قائم کی گئیں اور کشمیر میں مقامی انتخابات میں حکومتی دھاندلی کے باعث شروع ہونے والی تحریک کی آڑ میں سنہ 1989 ء میں جہاد کا آغاز کر دیا گیا۔جنرل مشرف ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز بنا تو اس نے بینظیر حکومت کی اجازت سے پاکستانی گروہوں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کر کے کشمیر بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ کشمیر میں پاکستانی جہادی گروہوں کی مداخلت کے شواہد سامنے آمنے کے باعث حکومت عالمی دباؤ کا شکار ہوگئی۔ جولائی 1995ء میں حرکت الانصار نامی گروہ نے چھے غیر ملکی سیاحوں کو مقبوضہ کشمیر میں اغوا کیا اور مولانا مسعود اظہر سمیت اپنے دیگر ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو پوری دنیا کی نگاہیں کشمیر میں جاری خانہ جنگی اور اس میں پاکستانی کردار پر مرکوز ہو گئیں۔ اس دوران پاکستانی افواج نے نہ صرف پاکستانیوں اور افغانوں کو تربیت دی بلکہ مشرق وسطی، وسط ایشیا اور یورپ کے نوجوانوں کو بھی جہادی تربیت فراہم کی۔ بینظیر بھٹو کے مطابق انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ جاوید اشرف قاضی سے دریافت کیا کہ ہم غیر ملکی دہشت گردوں کو اپنے کیمپوں میں تربیت دے کر کشمیر کیوں بھیج رہے ہیں تو جواب ملا ’کیونکہ بھارتی افواج نے سب کشمیری مار دیے ہیں‘
خانہ جنگی سے طالبان تک
افغانستان میں روس کے خلاف جنگ ختم ہوئی تو مجاہدین حکومت کے حصول کی کشمکش میں مبتلا ہوگئے۔ پاکستانی حساس اداروں نے اس خانہ جنگی کے دوران پہلے پہل مفاہمت کی کوشش کی لیکن پے درپے جھڑپوں سے تنگ آکر انہوں نے پاکستانی مدرسوں سے تعلیم یافتہ افغان نوجوانوں پر مشتمل گروہ طالبان کی حمایت کا فیصلہ کیا اور اس گروہ نے ستمبر 1996ء میں کابل فتح کر لیا۔ طالبان کی صفوں میں پاکستان جہادی گروہ سپاہ صحابہ، لشکر طیبہ اور جیش محمد شامل تھے۔
قندھار کے علاقے میوند میں فضل اللہ نامی افغان مجاہد کے لشکر میں شمولیت اختیارکرنے والے ملاّ عمر کی قیادت میں طالبان نے روسی افواج کے انخلا ء کے بعد پیدا ہونے والے انتشار کا فائدہ اٹھایا۔ پہلی افغان جنگ کے خاتمے پر مجاہدین کے سات بڑے گروہ مرکزی حکومت کے لالچ میں جنگ وجدل برپا کیے ہوئے تھے اور عام افغان شہری اس انتشار کے باعث پریشان تھے۔ کاروبار زندگی معطل تھا اور مختلف مسلح گروہوں نے شاہراہوں کے گرد چیک پوسٹیں قائم کر رکھی تھیں جہاں سے گزرنے والوں کو بلا تفریق لوٹ مار کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
ہرات پر حملے کے دوران پاکستانی کمانڈو طالبان کے شانہ بشانہ موجود تھے، ہرات شہر فتح کرنے پر پاکستانی حکومت کی جانب سے کرنل امام کو ہرات کونصل خانے کا سفیر مقرر کیا گیا۔
جب ہم طالبان کے ساتھ مل کر لڑے
سن 1994ء میں قندھار کے مغربی علاقوں میں موجود اہم مجاہدین نے فیصلہ کیا کہ ان چیک پوسٹوں سے نجات حاصل کی جائے اور شر پسند عناصر کا قلع قمع کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے مولوی پسنائی نامی ایک قاضی مقرر کیا گیا اور کچھ لشکر بنائے گئے۔ ان میں سے ایک لشکر کی سربراہی ملا عمر کو سونپی گئی۔ اس لشکر نے بارہ دن کی قلیل مدت میں قندھار کے گرد موجود چیک پوسٹوں کو ختم کیا۔ اس کے بعد ملا عمر نے دیگر لشکروں کے ساتھ مل کر قندھار شہر سے بھتہ خوروں اور شرپسندوں کو پاک کیا۔ اس موقع پر میجر گل اور کرنل امام، پاکستانی مدرسوں میں زیر تعلیم افغان طلباء پر مشتمل پاکستانی کمک کے ہمراہ طالبان کو آن ملے۔ کرنل امام نے افغان جنگ کے دوران ہزاروں افغان مجاہدین کی فوجی تربیت کی تھی اور افغانیوں کے لیے وہ ایک جانی پہچانی شخصیت تھے۔ کچھ عرصے بعد پاکستانی کمانڈو دستوں نے قندھار پر طالبان کی فتح کے بعد اہم مقامات کی کمان سنبھال لی۔ ہرات پر حملے کے دوران پاکستانی کمانڈو طالبان کے شانہ بشانہ موجود تھے، ہرات شہر فتح کرنے پر پاکستانی حکومت کی جانب سے کرنل امام کو ہرات کونصل خانے کا سفیر مقرر کیا گیا۔ اپریل 1996ء میں ملا عمر نے ملک بھر سے علماء کو قندھار بلایا اور وہاں خرقہ شریف اوڑھ کر اپنے آپ کو امیر المومنین کا خطاب عطا کیا۔ کابل پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستان ہدایات کے مطابق طالبان نے سابق صدر نجیب اللہ کو رسی سے باندھ کر کابل کی گلیوں میں رگیدا اور پھر آریانا اسکوئر میں سرعام پھانسی پر لٹکا دیا۔طالبان نے مزار شریف پر حملہ کیا تو انکی صفوں میں لشکر جھنگوی کے دہشت گرد شامل تھے اور شہر پر قبضے کے بعد ایرانی سفارت کاروں کو قتل کرنے میں یہی دہشت گرد ملوث تھے۔
2001 میں امریکی کارروائی کے بعد ملا عمر ایک پاکستانی ملا کے ہمراہ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر فرار ہوا اور مصدقہ وغیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کوئٹہ میں رہائش پذیر ہے۔
کشمیر پالیسی میں تبدیلی
نوے کی دہائی میں پاکستان اپنی مغربی اور مشرقی سرحدوں پر تزویراتی گہرائی قائم کرنے میں وقتی طور پر کامیاب ہو چکا تھا۔ پاکستان کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے باوجود اس زمانے میں بھی طالبان کی جانب سے پاکستانی ریاست کے زیر انتظام قبائلی علاقوں اور موجودہ خیبر پختونخواہ میں پاکستانی ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کا عمل جاری تھا۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ پاکستانی سرپرستی کے باوجود طالبان پاکستانی ریاست اور اس کے جمہوری نظام کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ رفتہ رفتہ افغانستان القاعدہ اور دیگر جہادی گروہوں کی تربیت گاہ بن گیا جہاں سے عالمگیر اسلامی جہاد کا آغاز کیا گیا۔ سانحہ گیارہ ستمبر نے ان منصوبوں پر پانی پھیر دیا اور پاکستان کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کا موقع ملا۔2001 میں امریکی کارروائی کے بعد ملا عمر ایک پاکستانی ملا کے ہمراہ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر فرار ہوا اور مصدقہ وغیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کوئٹہ میں رہائش پذیر ہے۔گیارہ ستمبر2001کے کچھ عرصے بعد ہی دسمبر کے مہینے میں پاکستانی دہشت گردوں نے بھارت کی پارلیمنٹ پر حملہ کردیا جسکے نتیجے میں پاک بھارت تعلقات میں ایک نئی دراڑ پڑ گئی۔ مشرف نے بین الاقوامی حالات کے پیش نظر فوج کی کشمیر پالیسی تبدیل کرنے کی کوشش کی تو فوج کے اندر ہی سے مزاحمت دیکھنے کو ملی اور اس پر یکے بعد دیگرے قاتلانہ حملے ہوئے۔ پاکستانی فوج کی جانب سے کشمیر جہاد کی پشت پناہی روکنے سے کشمیری جہادی بھی تحریک طالبان پاکستان کا حصہ بنے ہیں۔ پاکستانی فوج کے جہادی اثاثے آج پاکستان کے خلاف ہی برسرپیکار ہیں اور افغانستان کی طرز پر ہی اپنی ریاست قائم کرنے کے لیے مصروف جہاد ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ
گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان نے کشمیر میں سرگرم مسلح گروہوں کو کارروائی کرنے سے روکے رکھا لیکن اپنے ہی وطن میں افغان طالبان اور ان کے حمایتی گروہوں کو کھلی چھوٹ دی۔ ہمارے عسکری ادارے یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے کہ افغان طالبان نہ صرف پاکستانی طالبان کی سرپرستی کر رہے ہیں بلکہ عالمی جہادی گروہوں سے بھی روابط استوار کر چکے ہیں۔ اس صورت حال کا ایک منطقی نتیجہ لال مسجد آپریشن کی صورت میں سامنے آیا جب حکومت کے سابقہ حلیف جہادیوں نے حکومتی رٹ کو سرِعام چیلنج کرنا شروع کردیا اور اپنی شریعت قائم کرنے کا اعلان کیا۔اس موقعے پر پاکستانی فوج نے لال مسجد کے خلاف کارروائی میں سخت مزاحمت کا سامنا کیا اور کئی روز ہ مسلح تصادم کے بعد مسجد کو بازیاب کروایا۔
یہ ہماری تزویراتی گہرائی کی پالیسی ہی تھی جس کے باعث ہماری فوج نے کئی سال تک فاٹا میں فوجی آپریشن کرنے سے گریز کیا اور تین دفعہ مقامی دہشت گردوں سے امن معاہدے کئے۔ یہ معاہدے اس امید کی بنیاد پر کیے گئے کہ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں پاکستان دوست حکومت یا ایسی حکومت جس پر پاکستان اثر انداز ہو سکے، قائم کی جائے گی اور اس مقصد میں حقانی نیٹ ورک اور اس قماش کے دیگر گروہ ہماری مدد کریں گے۔
تاریخ نے ثابت کیا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران تزویراتی گہرائی کی پالیسی نے روس کو کچھ خاص فائدہ نہیں پہنچایا اور اس ناکام پالیسی کو اپنا کر پاکستان نے بھی کوئی قابلِ ذکر فائدہ حاصل نہیں کیا۔ عسکری اداروں سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ وہ کب تک تزویراتی گہرائی جیسی ناکام دفاعی حکمت عملی اپنائے رکھیں گے اور نقصان اٹھاتے رہیں گے؟

[spacer color=”BCBCBC” icon=”fa-times” style=”2″]

کتابیات
اس مضمون کی تیاری کے دوران درج ذیل کتب سے مدد لی گئی ہے:
  1. Guns of August, Barbara Tuchman

  2. Pakistan: Between Mosque and Military, Husain Haqqani

  3. Working with Zia, General KM Arif

  4. The Quranic Concept of War, Brigadier S.K.Malik

  5. The Wrong Enemy: Carlotta Gall

  6. Pakistan Army’s Way of War: C.Christine Fair

Leave a Reply