جاوید ہاشمی کی عظمت یہ ہے کہ وہ اپنی غلطیاں دہراتے نہیں، انہوں نے ایک آمر ضیاء الحق کا ساتھ دیا مگر پھر تمام عمر آمروں کی مخالفت کی، مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور مشرف دور میں بغاوت کے مقدمات کا سامنا کیا، مسلم لیگ نواز کو چھوڑا تو تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔حکومت گرانے کی کوششوں اور پارلیمان پر حملہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنی ہی جماعت سے بغاوت کی۔ جاوید ہاشمی جہاں گئے حریت فکر اور جمہوری سیاست کی ایک نئی داستان چھوڑ کر آئے ۔
جاوید ہاشمی کی انتخابی ہار اصل میں جمہوریت کی جیت اورتحریک انصاف کی ہار ہے جسے قومی اسمبلی میں نشست یا اگلے انتخابات میں حکومت مل بھی جائے تو وہ جاوید ہاشمی کےبولے سچ کے آئینہ میں ہمیشہ داغدار نظر آئیں گے۔
وہ لوگ جو سمجھتے ہیں انتخابی معرکہ میں شکست سے جاوید ہاشمی کی سیاست ختم ہو چکی ہے یہ بھو ل رہے ہیں کہ جو سیاسی روایات جاوید ہاشمی قائم کر رہے ہیں وہ آنے والی کئی دہائیوں تک جمہوریت اور پارلیمان کی برتری قائم رکھنے کا پہلا سنگ میل ثابت ہوں گی۔جاوید ہاشمی کی انتخابی ہار میں اگر کسی کی ہار ہے تو موجودہ سیاسی جماعتوں کی ہار ہے جو ایک سچے جمہوریت پسند کو اپنی جماعتوں اور پارلیمان میں قبول نہیں کر سکے۔ اگر یہ ہار ہے تو ان ووٹرز کی جوجمہوریت، پارلیمان اور ضمیر کی آزادی کی سیاست کرنے والوں کی جگہ خاندانی وابستگی اور مفادات کی سیاست کرنے والوں پر ترجیح دیتے ہیں۔
پارلیمانی سیاست کے لئے جدوجہد، اپنی جماعت سے اختلاف ،فوج کی مداخلت سے حکومت گرانے کے خلاف مزاحمت اورانتخابات میں شکست تسلیم کرنے کا اعزاز کسی سیاستدان کے حصہ میں نہیں آیا۔ آج اگر جاوید ہاشمی سیاست چھوڑ بھی دیں توجاوید ہاشمی کی فوجی مداخلت اورجمہوری جماعتوں کے آمرانہ طرز سیاست کے خلاف قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
پارلیمانی سیاست کے لئے جدوجہد، اپنی جماعت سے اختلاف ،فوج کی مداخلت سے حکومت گرانے کے خلاف مزاحمت اورانتخابات میں شکست تسلیم کرنے کا اعزاز کسی سیاستدان کے حصہ میں نہیں آیا۔ آج اگر جاوید ہاشمی سیاست چھوڑ بھی دیں توجاوید ہاشمی کی فوجی مداخلت اورجمہوری جماعتوں کے آمرانہ طرز سیاست کے خلاف قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
جاوید ہاشمی خاموش ہو بھی جائیں تو ان کا پیغام ہر جماعت ہر سیاستدان ہر ووٹر کے کانوں میں گونجتا رہے گا۔عمران خان اور نواز شریف جیسے سیاستدان جو جاوید ہاشمی سے سیاست نہیں سیکھ سکے انہیں کم سے کم انتخابات میں شکست تسلیم کرنے کا ڈھنگ ضرور سیکھنا چاہئے۔ جاوید ہاشمی نہ عمران خان ہیں نہ نواز شریف، نہ آصف زرداری نہ پرویز مشرف بلکہ وہ ان سب کے لئے وہ موسیٰ ہیں جس کا وعدہ ہر فرعون صفت سے کیا گیا ہے، جاوید ہاشمی آمرانہ طرز عمل کے خلاف بغاوت کی علامت ہیں۔
عمران خان سمیت تحریک انصاف جاوید ہاشمی کو بدنام کر کے مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں لیکن عزت اور احترام نہیں، جاوید ہاشمی کی انتخابی ہار اصل میں جمہوریت کی جیت اورتحریک انصاف کی ہار ہے جسے قومی اسمبلی میں نشست یا اگلے انتخابات میں حکومت مل بھی جائے تو وہ جاوید ہاشمی کےبولے سچ کے آئینہ میں ہمیشہ داغدار نظر آئیں گے۔ نواز شریف اگر پانچ سال حکومت مکمل کر بھی لیں تب بھی وہ جاوید ہاشمی کی خاپنے طرز حکمرانی پر کی گئی تنقید کا جواب نہیں دے پائیں گے۔
عمران خان سمیت تحریک انصاف جاوید ہاشمی کو بدنام کر کے مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں لیکن عزت اور احترام نہیں، جاوید ہاشمی کی انتخابی ہار اصل میں جمہوریت کی جیت اورتحریک انصاف کی ہار ہے جسے قومی اسمبلی میں نشست یا اگلے انتخابات میں حکومت مل بھی جائے تو وہ جاوید ہاشمی کےبولے سچ کے آئینہ میں ہمیشہ داغدار نظر آئیں گے۔ نواز شریف اگر پانچ سال حکومت مکمل کر بھی لیں تب بھی وہ جاوید ہاشمی کی خاپنے طرز حکمرانی پر کی گئی تنقید کا جواب نہیں دے پائیں گے۔
جاوید ہاشمی کے انکشافات کے بعد عمران خان اور تحریک انصاف اب مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں،انتخابات جیت سکتے ہیں اور حکومت بنا سکتے ہیں مگر اب وہ کبھی اپنی غیر متنازعہ حیثیت بحال نہیں کر سکیں گے۔
عمران خان، الطاف حسین، آصف زرداری اور نواز شریف سمیت تمام ایسے سیاستدان جو شخصی اور آمرانہ طرز سیاست اور حکمرانی کے قائل ہیں اب ہمہ وقت کسی نہ کسی باغی، کسی نہ کسی جاوید ہاشمی اور کسی نہ کسی ضمیر پسند کی آمد سے خوف زدہ رہیں گے۔ نئے پاکستان بنانے والوں اور پرانے پاکستان کے باشندوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ باغی کو داغی کہنے والوں کےاپنے داغ نمایاں ہوں گے، فوج کے گھوڑوں پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے خواہاں جب بھی مسند اقتدار پر براجمان ہوں گے ان کے ضمیر انہیں ملامت ضرور کروں گے کیوں کہ سیاسی شہیدوں، انالحق کہنے ، دار پر چڑھنے اور علم اٹھانے والوں کی فہرست جب بھی مرتب کی جائے گی جاوید ہاشمی کانام اس میں ضرور ہوں گا۔ جاوید ہاشمی کے انکشافات کے بعد عمران خان اور تحریک انصاف اب مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں،انتخابات جیت سکتے ہیں اور حکومت بنا سکتے ہیں مگر اب وہ کبھی اپنی غیر متنازعہ حیثیت بحال نہیں کر سکیں گے۔ جاوید ہاشمی پر الزامات لگانے والے خان صاحب کے حواری خان صاحب کے شخصیت پرست حلقہ اور مداحوں کو تو مطمئن کرسکتے ہیں مگر کسی جمہوریت پسند اور روشن دماغ فرد کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتے۔ اب جب عمران خان اور تحریک انصاف جلسوں کی ناکامی کے بعد پھر دھرنے دینے جائیں گےتو بہت سے اور جاوید ہاشمی سامنے آئیں گے۔ ایک وقت آئے گا جب عمران خان اور نواز شریف کے آمرانہ اور شخصی طرز حکومت اور طریق سیاست کے خلاف بہت سی آوازیں اٹھیں گی، جب بہت سے کارکن حکومت گرانے اور فوج کو آواز دینے کے خلاف اپنی ہی جماعت سے بغاوت کریں گے، عمران خان کو قدم قدم پر ایک نئے جاوید ہاشمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دراصل جاوید هاشمی اسی دن هار گیا تها جس دن اس نے جماعتِ اسلامی سے اپنا راسته جدا کیا تها.اب هارے هوئے شخص کو کیا کها جائے.چپ هی بهلی هے.
love to read.