ملک کے سب سے اہم شہر میں میدان سجاتھا، تمام مجمع پر سحر طاری تھا ایک جادو گر اپنے جادو کے حصار میں کھڑا منتر پھونک رہا تھا۔ وہاں موجود ہزاروں کی تعداد میں اس کے چیلے دیوانہ وار جھوم رہے تھے،جادو گر نے اپنی شعلہ بیانی اور حُسنِ کلام سے چیلوں کے جذبات بلند از آسمان کئے ہوئے تھے۔ وہ اپنے سحر سے لوگوں کے دل و دماغ پر قابض ہو کر انہیں نئی دنیا کی سیر کر ارہا تھا۔ وہ الفاظ کی دیوی کو جذبات کی طلسمی پوشاک پہنا کر ایک نئے انداز سے اپنے چیلوں کے سامنے لا رہا تھا اور چیلے اس ہوشربا طلسم سے مسحور ہو کر اس دیوی کے سامنے جھکے جا رہے تھے۔ جادو گر کہہ رہا تھا جھومو، نا چو گاؤ کہ منزل آنے والی ہے، وہ دن دور نہیں جب تم سب فلاح پاؤ گے، اس سیاہ رات کی صبح طلوع ہونے کو ہے، پھر ہر جگہ تم ہی تم ہوگے، تمہاری بادشاہی، حکمرانی ہوگی۔ یہ چور لٹیرے جو تمہارے حکمران بنے بیٹھے ہیں ان کی عیاشیوں کے دن گنے جا چکے ہیں۔ ان سب سے تم لوگوں کی محرومیوں کا انتقام لیا جائے گا۔ تمہارے خواب کی تعبیر کا وقت بس آن ہی پہنچا ہے۔ جادو گر یہ کہہ کر اپنے طلسمی حصار میں واپس چلا گیا اس کے چیلے الفاظ کی دیوی سے سحر زدہ ہو کر اپنی آنکھوں میں ایک نئی دنیا کے خواب سجا کر خوبوں کی تعبیر کی موعودساعت کا انتظار کرنے لگے،لیکن رات ڈھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ان کا انتظار طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا تھا لیکن اب بھی وہ فسوں کے حصار میں تھے، وہ حصار جس کی حدود صرف اس میدان تک تھیں اور اس میدان سے باہر موسم ویسا ہی سرد تھا۔ ہوا کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں کر رہی تھی۔ چیلے ہوش وخرد سے بیگانہ اپنے ساحر کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن جادو گر کی نظریں اپنے چیلوں سے پرے اور اس میدان کے باہر کی دنیا دیکھ رہی تھی جہاں کوئی امید افزا پیغام نہیں تھا۔ جادو گر اپنی تمام شکتیاں بروئے کار لا رہا تھا مگر اس کی شکتیاں موسم میں کسی بھی قسم کی تبدیل لانے میں کامیاب نہیں ہو رہی تھیں۔ اتنے میں کچھ غیبی طاقتیں اس کے پاس آئیں اور جا دو گر سے کہا” تمہاری شکتیاں ابھی کمزور ہیں تم جن سے لڑنے نکلے ہو ان کے پاس تم سے زیادہ شکتی ہے۔ تمہارا گیان ابھی ادھورا ہے۔ تمہیں اور تپسیا کی ضرورت ہے تب ہی تم ان سے جیت پاؤ گے۔” جادو گر بھی جان چکا تھا کہ ان شکتیوں کے ساتھ وہ کامیاب نہیں ہو سکتا لہذا وہ ایک بار پھر اس نے اپنے طلسمی حصار سے اپنے چیلوں کو پکارا ”مبارک ہو مبارک ہو ہم جس مقصد سے آئے تھے وہ پورا ہو گیا۔ ہماری جدوجہد کامیاب ہوئی۔ ہم اب بس اپنی مطلوبہ منزل سے ایک قدم دور ہیں اور جلد ہی وہ ہمارے قدموں میں ہوگی۔ اب ہم خوشیاں مناتے ہوئے بلند سروں کے ساتھ واپس جائیں گے۔ “چیلے اپنے گرو کے حکم پر لفظ بہ لفظ عمل کرتے ہوئے مطمئن و شاداں واپس لوٹ آئے، مگر جادو گر خوش نہیں تھا۔ وہ تو اس زعم میں تھا کہ اس کے پاس ایسی قوت اور شکتیاں ہیں جن کی مدد سے وہ کسی کو بھی اپنے زیرِ اثر لا سکتا ہے، کسی کا بھی تختہ الٹ سکتا ہے۔ مگر کیا ہوا کہ اس کی شکتیاں، اس کا جادو، اس کا طلسم کمزور پڑ گیا۔ اسے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے اب اور کشٹ کرنا تھا اسے اور طاقت حاصل کرنی تھی۔ پس یہ سوچ کر جادو گر نے اپنا مال اسباب سمیٹا اپنے چیلوں اور ملک کو چھوڑ کر دور کسی جادو نگری میں شکتیوں کے حصول کے لئے نکل پڑا۔
جھومو، نا چو گاؤ کہ منزل آنے والی ہے، وہ دن دور نہیں جب تم سب فلاح پاؤ گے، اس سیاہ رات کی صبح طلوع ہونے کو ہے، پھر ہر جگہ تم ہی تم ہوگے، تمہاری بادشاہی، حکمرانی ہوگی۔ یہ چور لٹیرے جو تمہارے حکمران بنے بیٹھے ہیں ان کی عیاشیوں کے دن گنے جا چکے ہیں۔ ان سب سے تم لوگوں کی محرومیوں کا انتقام لیا جائے گا۔ تمہارے خواب کی تعبیر کا وقت بس آن ہی پہنچا ہے۔
جادو گر جادو نگری پہنچ کر سال بھر کڑی تپسیا کرتا رہا، کئی دوسرے طاقتور جادوگروں سے ملا اور نئے جادو، ٹونے اور منتر سیکھے۔ برس بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد اسے لگا کہ اب اس نے تمام ضروری شکتیاں حاصل کر لیں ہیں اب وہ ایک شکتی شالی اور مہان جادو گر ہے۔ جادو نگری میں اس کی لگن اور کڑی تپسیا کو دیکھتے ہوئے اسے ایک خآص اور بہت بڑی شکتی ودیعت کی گئی لیکن اسے بتا دیا گیا کہ یہ شکتی ایک خاص وقت اور موقع پر ہی کارآمد ہوگی ۔ جادو گر اس شکتی کو پا کر بہت خوش ہوا اسے لگا کہ اس شکتی کی بدولت سفلتا اس کی جھولی میں آ گری ہے۔ غیبی طاقتوں نے جادو گر کو اپنی نئی طاقتیں آزمانے کا اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی جادو گر کو اپنے چیلوں کی یاد آئی۔ جادو گر نے جادو نگری سے اپنے چیلوں کو پیغام بھیجا کہ متحد ہو جاؤ ہمارا جو خواب ادھورا رہ گیا تھا اس کی تکمیل کا وقت آن پہنچا ہے، ہم پھر نئے جذبے اور طاقت کے ساتھ ظلم کی سیاہ طاقتوں سے ٹکرائیں گے۔ پھر وہیں میدان سجے گا۔ وہیں ظالم نظام کے پاسبانوں کے سر کچلے جائیں گے، اسی جگہ پر اس سیاہ رات کا سورج طلوع ہوگا اور روشنی کی کرنیں پھوٹیں گی۔ میں آ رہا ہوں میرے استقبال کے لئے جمع ہو جاؤ۔ اپنے گرو کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے چیلے اپنی اپنی پناہ گاہوں سے نکل کر جمع ہونا شروع ہو گئے۔ وہ پر جوش تھے ،ان کا گرو جادو نگری سے نئی شکتیاں ساتھ لیکر آرہا تھا انہیں لگتا تھا کہ اب کی بار ان کا گرو جو اَوربھی مہان اور شکتی شالی ہو گیا ہے ان تمام “کالی طاقتوں” کو نیست ونابود کر دے گا۔ ہر طرف “نور” کی بارش ہوگی جس سے سارا دیس جگمگا اٹھے گا۔
چیلوں کے شور غل اور جادو گر کی نئی شکتیوں سے مغلوب ہو کر “کالی طاقتوں” سے ناراض کچھ گرو بھی جادو گر کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔ چیلوں کے ساتھ مل کر انہوں نے ملک میں ایسا ماحول بنا دیا جس سے ملک پر قابض ” بدی” کی طاقتوں کو بھی پریشانی لاحق ہو گئی۔ انہیں لگا کہ جادو نگری سے آنے والا یہ جادو گر کہیں سچ مچ اتنا طاقتور نہ ہو گیا ہو کہ ان کا قلع قمع کر دے۔ اسی سوچ کے کارن”بدی” کی طاقتوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے انہوں نے جادو گر کے چیلوں کو روکنے کی کوشش کی مگر چیلے تو سحر ذدہ تھے وہ کہاں رُکنے والے تھے اس پر “بدی” کی طاقتوں نے ان سحر زدہ چیلوں پر حملہ کر کے کئی چیلوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور کئی جاں بلب اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے۔
چیلوں کے شور غل اور جادو گر کی نئی شکتیوں سے مغلوب ہو کر “کالی طاقتوں” سے ناراض کچھ گرو بھی جادو گر کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔ چیلوں کے ساتھ مل کر انہوں نے ملک میں ایسا ماحول بنا دیا جس سے ملک پر قابض ” بدی” کی طاقتوں کو بھی پریشانی لاحق ہو گئی۔ انہیں لگا کہ جادو نگری سے آنے والا یہ جادو گر کہیں سچ مچ اتنا طاقتور نہ ہو گیا ہو کہ ان کا قلع قمع کر دے۔ اسی سوچ کے کارن”بدی” کی طاقتوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے انہوں نے جادو گر کے چیلوں کو روکنے کی کوشش کی مگر چیلے تو سحر ذدہ تھے وہ کہاں رُکنے والے تھے اس پر “بدی” کی طاقتوں نے ان سحر زدہ چیلوں پر حملہ کر کے کئی چیلوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور کئی جاں بلب اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے۔
ادھر جادو گر کے چیلے اس کے سحر میں گرفتار اپنی آنکھوں میں روشنیوں کے خواب بن رہے تھے لیکن جادو گر اس خاص شکتی کے بغیر نہ ہی کوئی میدان سجا سکتا تھا اور نہ ہی بدی کی طاقتوں پر غالب آسکتا تھا۔ اب جادو گر سوچ میں تھا کہ وہ اپنے چیلوں کی آنکھوں کو کونسا نیا منظر دِکھائے جس سے ان کی آنکھوں کو دکھلایا گیا خواب دھندلا جائے۔
اپنے چیلوں کے خون سے جادو گر نے اپنے جسم میں اور طاقت اور گرمی محسوس کی اور وہ طاقت کے اسی گمان میں اُڑن کھٹولے پر بیٹھا اور جادو نگری سے اپنے چیلوں کے دیس کا سفر شروع کر دیا۔ ادھر “بدی” کی طاقتیں اپنا جال بچھا رہی تھیں انہیں معلوم تھا کہ جادو گر کا جادو صرف ملک کے اسی شہر میں کار گر ثابت ہو سکتا ہے اس کے علاوہ انہیں جادو گر کی اس کمزوری کا بھی پتا تھا کہ جادو گر کی آدھی طاقت اڑن کھٹولے پر بیٹھتے ہی سلب ہو جاتی ہے۔ جیسے ہی جادو گر کا اڑن کھٹولا “بدی” کی طاقتوں کے دیس میں داخل ہوا تو انہوں نے اس کا رخ اپنے مظبوط چکرویو کی طرف موڑ دیا جہاں وہ اسے آسانی سے قابو کر سکتے تھے۔ جادو گر یہ جان کر پریشان ہو گیا،اس کی آدھی شکتیاں سلب ہو چکی تھی وہ ہوا میں کچھ نہیں کر سکتا تھا لیکن اسے ایک اطمینان تھا کہ زمین پر پہنچتے ہی اس کی ساری قوتیں واپس آجائیں گی اور پھر وہ ان “بدی” کی طاقتوں سے نمٹ لے گا۔ زمین پر پہنچتے ہی جادو گر کی ساری شکتیاں اسے واپس مل گئیں مگر جادو گر اپنی سب سے بڑی شکتی کا انتظار کر رہا تھا جس کے اثرے پر وہ جادو نگری سے یہاں تک آیا تھا۔ وہ شکتی ابھی تک اس کی مدد کو نہیں آ رہی تھی ، جادو گر منتر پھونکتا رہا مگر بے سود۔ جادو گر کی شکتی نے اسے ایک بار پھر دھوکا دے دیا تھا۔ اسے جس شکتی کی ضرورت تھی وہ اس وقت کسی اور راون سے الجھی ہوئی تھی۔ جادو گر کے کانوں میں ایک آواز گونجی کہ ہم نے کہا تھا کہ وہ خاص شکتی ہے جو خاص وقت پر ہی تمہارے کام آئے گی۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا۔ جادو گر اپنے جادو کے زعم میں وقت کا سندیسہ نہ پڑھ سکا۔
ادھر جادو گر کے چیلے اس کے سحر میں گرفتار اپنی آنکھوں میں روشنیوں کے خواب بن رہے تھے لیکن جادو گر اس خاص شکتی کے بغیر نہ ہی کوئی میدان سجا سکتا تھا اور نہ ہی بدی کی طاقتوں پر غالب آسکتا تھا۔ اب جادو گر سوچ میں تھا کہ وہ اپنے چیلوں کی آنکھوں کو کونسا نیا منظر دِکھائے جس سے ان کی آنکھوں کو دکھلایا گیا خواب دھندلا جائے۔
ادھر جادو گر کے چیلے اس کے سحر میں گرفتار اپنی آنکھوں میں روشنیوں کے خواب بن رہے تھے لیکن جادو گر اس خاص شکتی کے بغیر نہ ہی کوئی میدان سجا سکتا تھا اور نہ ہی بدی کی طاقتوں پر غالب آسکتا تھا۔ اب جادو گر سوچ میں تھا کہ وہ اپنے چیلوں کی آنکھوں کو کونسا نیا منظر دِکھائے جس سے ان کی آنکھوں کو دکھلایا گیا خواب دھندلا جائے۔
One Response
wah, Buhat a’ala