ویلنٹائن ڈے کا ذکر جب بھی آتا ہے تو اکثر لوگوں کو شرم و حیا یاد آجاتی ہے اور سب لوگ ایک ثقافتی جوش وجذبے سے یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے سے ہماری ثقافت کو خطرہ ہے ، تو ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ ہماری ثقافت ہے کیا جس کو صرف چند پریمی جوڑوں کی ملاقات سے خطرہ ہے۔ ذرا تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ چھپ کر ملنے سے ثقافت کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ چھپ کر ملنے سے ہماری حیا کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں اسی لیے تو ہیر رانجھا،سسی پنوں، سوہنی مہینوال کو سب لوگ احترام سے یاد کرتے ہیں کیونکہ وہ ویلنٹائن ڈے کے علاوہ چھپ چھپ کر ملتے تھے۔ہماری ثقافت کا یہی تو ایک درخشاں پہلو ہے کہ یہاں چھپا کر برائی کرنا اور اسے ہمیشہ چھپاتے رہنا عین سماج کی خدمت ہے ،لیکن اس برائی کو ختم کرنے کے لیے اس پر بات کرنا جرم ہے، اسی لیے ہمارے یہاں منٹو کو ایک حقیقت پسند ادیب کے بجائے فحش نگار جبکہ نسیم حجازی کے رومانوی اور نیم تاریخی ناولوں کو اسلام اور ادب کی خدمت تصور کیا جاتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے محض ایک مغربی تہوار ہی نہیں بلکہ محبت کرنے اور اپنے جیون ساتھی کے انتخاب کے حق کی آزادی کو تسلیم کرنابھی ہے، لیکن اس دن کو فحاشی قرار دے کر نوجوانوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزارنے کا فیصلہ کرنا اور محبت کرنا جرم ہے۔
مجھے یہ بات ہمیشہ عجیب لگتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عبادت گاہوں پر حملہ کرنا ثقافت پر حملہ نہیں سمجھا جاتا، کمسن بچوں کے ساتھ جنسی بد سلوکی پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے،کم سنی کی شادی کو کوئی ظلم نہیں سمجھتا، اسی ملک میں عورتوں کے ساتھ سر بازاربدسلوکی پر کسی کو ثقافت یاد نہیں آتی، نفرتیں پھیلانے سے کسی کے ایمان پر حرف نہیں آتا ،ہاں حرف آتا ہے تو صرف اس بات پر کہ اگر کوئی جوڑا پارک میں ہاتھ پکڑ کر بیٹھ جائے۔ نوجوانوں کی ضرورتوں اور جذبات کے اظہار کے لیے ہماری ثقافت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے سوائے اس کے کہ صبر کرو۔ ویلنٹائن ڈے محض ایک مغربی تہوار ہی نہیں بلکہ محبت کرنے اور اپنے جیون ساتھی کے انتخاب کے حق کی آزادی کو تسلیم کرنابھی ہے، لیکن اس دن کو فحاشی قرار دے کر نوجوانوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزارنے کا فیصلہ کرنا اور محبت کرنا جرم ہے۔
ہماری ثقافتی گھٹن کے بارے میں معروف دانشور ارشد محمود نے خوب لکھا ہے کہ ہمارے ہاں میاں بیوی ایسے زندگی گزارتے ہیں جیسے بہن بھائی ہوں، کبھی (Affection) کا اظہار نہیں کرتے، اور جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ ماں باپ نے ہمیں پیدا کب کیا ہے، اور ہماری ثقافت میں تمام قدرتی عوامل جیسے زچگی اور پیدائش وغیرہ کے ذکر کو شرمناک سمجھا جاتا ہے بلکہ اگر خالق کائنات ہم سے ان معاملات میں مشورہ لیتا تو ہم کوئی حیا دار مشورہ دیتے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہماری تربیت ایسی ہوئی ہے کہ ہم زندہ رہنا اور خوش ہونا نہیں جانتے، ہمارے معاشرے میں ہر شخص کے چہرے پر بارہ ہی بجے ہوتے ہیں ہر وقت اسے معاشی اور ثقافتی گھٹن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خوشی کے تمام ذرائع ہم نے آہستہ آہستہ ختم کردیے ہیں، اچھا اور معیاری ادب نہ لکھا جاتا ہے اور نہ پڑھا جاتا ہے،اس وقت سب سے زیادہ بکنے والا اردو ناول "جب زندگی شروع ہوگی” ہے جس میں صرف قیامت کا منظر ہے، کوئی معیاری فلم نہیں بن رہی اور سینما ختم ہوچکے ہیں۔ تھیٹر، موسیقی، رقص،اور مصوری وغیرہ دردناک موت کا شکار ہوئے ہیں،پارک ،تفریحی مقامات اور کھیل کے میدان ختم ہوگئے ہیں، نوجوانوں کا قومی کھیل صرف خواتین کو "تاڑنا "اور ہراساں کرنا رہ گیا ہے۔ نوجوان نسل کی ذہنی گھٹن کی ایک اہم وجہ میل جول اور اطہار کے خاطر خواہ مواقع نہ ہونا ہے۔ پاکستان کی اکثریت معیاری تفریح اور میل جول کے مواقع سے محروم ہے، بیٹھنے، کھیلنے اور گھومنے پھرنے کے مقامات مفقود اور عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔
دنیا بھر میں لوگ تہوار جوش وخروش سے مناتے ہیں،ایسے موقعوں پر کھیل کھیلتے ہیں، کنسرٹ منعقد کرتے ، ناچتے گاتے ہیں، پکنک مناتے ہیں، ہمارے ہاں موجودہ تہواروں کو ہی ختم کرنے کی رسم جاری ہے، صرف بسنت تھی اب وہ بھی نہیں ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ ہم خوشی کے تہواروں پر بھی خوش نہیں ہو پاتے۔عید کے روز سب عید کے کپڑے پہنتے ہیں اور عید کی نماز کے بعد کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، یعنی ہمارے نزدیک صرف کھانا اور نئے کپڑے پہننا ہی خوشی ہے۔
ہماری ثقافتی گھٹن کے بارے میں معروف دانشور ارشد محمود نے خوب لکھا ہے کہ ہمارے ہاں میاں بیوی ایسے زندگی گزارتے ہیں جیسے بہن بھائی ہوں، کبھی (Affection) کا اظہار نہیں کرتے، اور جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ ماں باپ نے ہمیں پیدا کب کیا ہے، اور ہماری ثقافت میں تمام قدرتی عوامل جیسے زچگی اور پیدائش وغیرہ کے ذکر کو شرمناک سمجھا جاتا ہے بلکہ اگر خالق کائنات ہم سے ان معاملات میں مشورہ لیتا تو ہم کوئی حیا دار مشورہ دیتے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہماری تربیت ایسی ہوئی ہے کہ ہم زندہ رہنا اور خوش ہونا نہیں جانتے، ہمارے معاشرے میں ہر شخص کے چہرے پر بارہ ہی بجے ہوتے ہیں ہر وقت اسے معاشی اور ثقافتی گھٹن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خوشی کے تمام ذرائع ہم نے آہستہ آہستہ ختم کردیے ہیں، اچھا اور معیاری ادب نہ لکھا جاتا ہے اور نہ پڑھا جاتا ہے،اس وقت سب سے زیادہ بکنے والا اردو ناول "جب زندگی شروع ہوگی” ہے جس میں صرف قیامت کا منظر ہے، کوئی معیاری فلم نہیں بن رہی اور سینما ختم ہوچکے ہیں۔ تھیٹر، موسیقی، رقص،اور مصوری وغیرہ دردناک موت کا شکار ہوئے ہیں،پارک ،تفریحی مقامات اور کھیل کے میدان ختم ہوگئے ہیں، نوجوانوں کا قومی کھیل صرف خواتین کو "تاڑنا "اور ہراساں کرنا رہ گیا ہے۔ نوجوان نسل کی ذہنی گھٹن کی ایک اہم وجہ میل جول اور اطہار کے خاطر خواہ مواقع نہ ہونا ہے۔ پاکستان کی اکثریت معیاری تفریح اور میل جول کے مواقع سے محروم ہے، بیٹھنے، کھیلنے اور گھومنے پھرنے کے مقامات مفقود اور عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔
دنیا بھر میں لوگ تہوار جوش وخروش سے مناتے ہیں،ایسے موقعوں پر کھیل کھیلتے ہیں، کنسرٹ منعقد کرتے ، ناچتے گاتے ہیں، پکنک مناتے ہیں، ہمارے ہاں موجودہ تہواروں کو ہی ختم کرنے کی رسم جاری ہے، صرف بسنت تھی اب وہ بھی نہیں ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ ہم خوشی کے تہواروں پر بھی خوش نہیں ہو پاتے۔عید کے روز سب عید کے کپڑے پہنتے ہیں اور عید کی نماز کے بعد کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، یعنی ہمارے نزدیک صرف کھانا اور نئے کپڑے پہننا ہی خوشی ہے۔
زندگی اور خوشی کے تمام ذرائع اپنی ثقافت سے نکالنے کے بعد اب ہم اس مقام پر موجود ہیں کہ ہمارا سماج بے مقصدیت اور خالی پن کا شکار ہوچکا ہے ، ہماری زندگی سے نفاست، شائستگی، لطافت، اور برداشت ختم ہوچکی ہے
زندگی اور خوشی کے تمام ذرائع اپنی ثقافت سے نکالنے کے بعد اب ہم اس مقام پر موجود ہیں کہ ہمارا سماج بے مقصدیت اور خالی پن کا شکار ہوچکا ہے ، ہماری زندگی سے نفاست، شائستگی، لطافت، اور برداشت ختم ہوچکی ہے ، یہی خالی پن ہمیں شدت پسندی کی طرف لے کر جارہا ہے، اب ہماری ثقافت کا صرف یہ رہ گئی ہے کہ کسی نہ کسی بات پر جلوس نکالیں،دھرنا دیں ، نجی اور ملکی املاک کا نقصان کریں، ساری رات مسجد کا لاؤڈ سپیکر آن کرکے فرقہ وارانہ تقریریں کریں، مسجد کے منبر پر بیٹھ کر مخالفیں کی مٹی پلیت کریں، کام کرنے والی خواتین کو ہراساں کریں یا ان کی کردار کشی کریں، سکول کے بچوں کو زبح کریں اور مذہب سے اس کو ثابت کریں، مسجدوں،اور مارکیٹوں پر حملہ کریں اور اسے بہادری کہیں، عورتوں کو اغواء کریں اور انھیں لونڈیاں بنا کر فخر کا اظہار کریں، اور ہماری تفریح یہ ہے کہ لوگوں کے زبح ہونے اور زندہ جلائے جانے کی ویڈیوز کو تفریح کے طور پر دیکھیں۔
Ali Raza! I’ve read your articles, and I liked them. Your writings are simple and meaningful; whereas it seems that the major purpose of many articles on laaltain.com is expression of art, and not some sort of reform or statement of writer’s position.
Quite groundless article…:/
aap ne bohat khoob likha lekin kuch "tanqeedi jumle” be tehqeeq lage.
Jee han Islam me shadi se pehle mohabbat ki ijazat nahi, Chup kar milna bhi jaiz nahi Or aap jis tafreeh ki baat kar rahe hain Concert, picnics, dance kia waqai wohi tafreeh hai?
Or Eid pe sirf nae kapray nahe balke toote rishton ko bhi nae andaaz se shru kia jata hai, galay laga kar tamam shikwe door kie jate hain.
Shayad aap "WEST” ke culture se bohat mutaasir hain, lekin jaan len wahan inhi parties ke baad "AFTER PARTIES” ka ehtimaam or Valentine Day ke baad kitne Nojawan Ghair Ikhlaaqi harkaat ki waja se apni zindagi barbaad karte hain. Ye ilzaam nahi fact hai. Google per losing Virginity on 14 feb report dekhi ja sakti hai.
Agree with every bit of your writing.
well,,,,,,,,,,,,,,,,,, will you allow any one to go on valentine with your daughter, sister,,,,,,,,will you allow any one to go for picnic with any one,,,,,,,,,,to sit in park,,,,,,,,,or tis is only for the daughters and sisters of others,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,shame on you……
you have no knowledge about islamic culture,,,,,,,it give real protection not only to ladies but to all ,,,,,,,,,,,,,