خاک دان اور آدھے سیارے پر جیسے شعری مجموعوں کے خالق ثروت حسین کی اٹھارہویں برسی کے موقع پر گل زیب خاکوانی کی نظم۔
نظر تک جا رہا ہے گو سفینہ
نظر کی کیا کوئی حدِ نظر ہے ؟
سفر کی کیا کوئی حدِ سفر ہے ؟
کوئی منزل ؟ کوئی سرحد ؟
ازل کے بعد اور پہلے ابد سے
خیال ِ بیکراں کا اک کنارہ
نہیں گر ۔۔۔۔ تو خدارا
یہ پھر آنات اتنے مختصر کیوں ؟
جہان ِ مختتم کے خاکیوں کی مُٹھیوں میں ۔۔۔ پڑے لمحات آخر مختصر کیوں ؟
مِرے لفظوں میں اَن دیکھا تصور کانپتا ہے
عجب عجلت میں کار ِ زندگی کار ِ ہُنر درپیش ہے مجھکو
فقط میں ہی نہیں سب خاکیوں کا مسلہ ہے ۔۔۔ سبھی عجلت میں رہتے ہیں
مگر یہ کون سوچے گا
مگر یہ کون سمجھے گا
محبت عشق اور چاہت سبھی فرصت کے پیشے ہیں
مگر یہ کون سمجھے گا کہ عجلت کاٹ دیتی ہے ۔
مِرے شجر ِ تخیل کو۔۔۔۔۔۔۔۔ مِرے فکرو نظر کے تانے بانے کو ۔۔۔ تسلسل کو
تسلسُل ٹوٹتے رہنے سے سب کچھ ٹوٹ جاتا ہے
مِرے شجر ِ تخیل کی گلاب آثار ٹہنی پر ہنر قایم نہیں رہتا بلاخر ٹوٹ جاتا ہے۔
اے رب ِ حرف و معنی
مِرے لفظوں میں ان دیکھا تصور کانپتا ہے
مجھے معدوم ہو جانے کا ڈر ہے
یقیں میرے
اگر نخل ِ تصور کا جہاں نامختتم ہے
خیال و خواب خواہش کی کوئی سرحد نہیں ہے
تو پھر اس وقت کا اور مختصر آنات کا غم کیوں ؟
جہان ِ مختتم کے خاکیوں کی مُٹھیوں میں
سسکتے کانپتے چند مختصر لمحات ِ فانی کا ۔۔۔ سنو پھر المیہ کیسا
سفر منسوخ ہوجانے کی مدت کون دیکھے
بدن جائے اماں ہرگز نہیں ہے
کہ منزل خاک داں ہر گز نہیں ہے نظر تک سلسلہ ہے جستجو کا
نہیں حد ِ سفر میرے سفر کی
خیال و خواب و خواہش کا جہاں نا مختتم ہے
نظر کی کیا کوئی حدِ نظر ہے ؟
سفر کی کیا کوئی حدِ سفر ہے ؟
کوئی منزل ؟ کوئی سرحد ؟
ازل کے بعد اور پہلے ابد سے
خیال ِ بیکراں کا اک کنارہ
نہیں گر ۔۔۔۔ تو خدارا
یہ پھر آنات اتنے مختصر کیوں ؟
جہان ِ مختتم کے خاکیوں کی مُٹھیوں میں ۔۔۔ پڑے لمحات آخر مختصر کیوں ؟
مِرے لفظوں میں اَن دیکھا تصور کانپتا ہے
عجب عجلت میں کار ِ زندگی کار ِ ہُنر درپیش ہے مجھکو
فقط میں ہی نہیں سب خاکیوں کا مسلہ ہے ۔۔۔ سبھی عجلت میں رہتے ہیں
مگر یہ کون سوچے گا
مگر یہ کون سمجھے گا
محبت عشق اور چاہت سبھی فرصت کے پیشے ہیں
مگر یہ کون سمجھے گا کہ عجلت کاٹ دیتی ہے ۔
مِرے شجر ِ تخیل کو۔۔۔۔۔۔۔۔ مِرے فکرو نظر کے تانے بانے کو ۔۔۔ تسلسل کو
تسلسُل ٹوٹتے رہنے سے سب کچھ ٹوٹ جاتا ہے
مِرے شجر ِ تخیل کی گلاب آثار ٹہنی پر ہنر قایم نہیں رہتا بلاخر ٹوٹ جاتا ہے۔
اے رب ِ حرف و معنی
مِرے لفظوں میں ان دیکھا تصور کانپتا ہے
مجھے معدوم ہو جانے کا ڈر ہے
یقیں میرے
اگر نخل ِ تصور کا جہاں نامختتم ہے
خیال و خواب خواہش کی کوئی سرحد نہیں ہے
تو پھر اس وقت کا اور مختصر آنات کا غم کیوں ؟
جہان ِ مختتم کے خاکیوں کی مُٹھیوں میں
سسکتے کانپتے چند مختصر لمحات ِ فانی کا ۔۔۔ سنو پھر المیہ کیسا
سفر منسوخ ہوجانے کی مدت کون دیکھے
بدن جائے اماں ہرگز نہیں ہے
کہ منزل خاک داں ہر گز نہیں ہے نظر تک سلسلہ ہے جستجو کا
نہیں حد ِ سفر میرے سفر کی
خیال و خواب و خواہش کا جہاں نا مختتم ہے
One Response
add a like button