[blockquote style=”3″]
ادارتی نوٹ:فہیم عباس بصری اور تحریری فنون میں صنف اور روایت کے قائل نہیں۔ ذیل میں ان کے تین خاکے اور تین نثری نظمیں شیئر کی جارہی ہیں اگرچہ یہ نثری نظمیں اور خاکے روایتی تکنیکی سانچوں اور ساختیات پر مکمل طور پر پورے نہیں اترتے تاہم انہیں اظہار کے نئے پیرائے تلاش کرنے کی ایک کوشش کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔
Online
بھوک سے بے حال انگلیاں کی بورڈ پر ناچ رہی ہیں
آنکھوں کی رگیں لال ہو کہ جم گئی ہیں
سکرین کی تھرکتی روشنی
ذہن پہ سائے نچا رہی ہے
بدن میں چیونٹیاں اچھل رہی ہیں
اک پیاس ہے جو بجھتی نہیں
آنکھوں کی رگیں لال ہو کہ جم گئی ہیں
سکرین کی تھرکتی روشنی
ذہن پہ سائے نچا رہی ہے
بدن میں چیونٹیاں اچھل رہی ہیں
اک پیاس ہے جو بجھتی نہیں
ننگی روشنی
گلیوں میں ہر دکان پہ اک ننگا بدن لٹکا ہواہے
بھوکا،تڑپتا بدن
سڑکوں پہ ، فٹ پاتھ پہ،ہر تاریک ختم ہوتی تنگ گلی کے اختتام پہ
ہرجگہ اک ننگا بدن رکھا ہے
میں بھی ا ک بدن ہوں
ننگا۔۔بھوکا۔۔۔

ان سڑکوں،ان تاریک گلیوں میں میں وحشت زدہ ننگے پا وں پھرتا ہوں
آنکھیں
روشنی کو ننگا دیکھتی ہیں
پا وں گھسٹتا ہے
ہاتھ مسلتا ہے
جھٹکتا ہے
بھوک مٹتی ہے اور مٹ کے بھی نہیں مٹتی
بھوکا،تڑپتا بدن
سڑکوں پہ ، فٹ پاتھ پہ،ہر تاریک ختم ہوتی تنگ گلی کے اختتام پہ
ہرجگہ اک ننگا بدن رکھا ہے
میں بھی ا ک بدن ہوں
ننگا۔۔بھوکا۔۔۔

ان سڑکوں،ان تاریک گلیوں میں میں وحشت زدہ ننگے پا وں پھرتا ہوں
آنکھیں
روشنی کو ننگا دیکھتی ہیں
پا وں گھسٹتا ہے
ہاتھ مسلتا ہے
جھٹکتا ہے
بھوک مٹتی ہے اور مٹ کے بھی نہیں مٹتی
گھوڑا
اک نحیف سفید سا گھوڑا
سڑک کنارے سرجھکائے چلتا ہے
پاس ہی دکان پہ کوئی کباب لائے
اپنے محبوب کی یاد میں گنگناتا ہے
گھوڑا نظر اٹھا کہ اس کی طرف دیکھتا ہے
سر جھٹک کے تھکے قدموں سے چلتا ہے
شہر کی روشن اندھیری سڑکیں کشادگی کی حد تک تنگ ہیں
سفید دھبہ سیاہی سے مٹ جاتا ہے
سڑک کنارے سرجھکائے چلتا ہے
پاس ہی دکان پہ کوئی کباب لائے
اپنے محبوب کی یاد میں گنگناتا ہے
گھوڑا نظر اٹھا کہ اس کی طرف دیکھتا ہے
سر جھٹک کے تھکے قدموں سے چلتا ہے
شہر کی روشن اندھیری سڑکیں کشادگی کی حد تک تنگ ہیں
سفید دھبہ سیاہی سے مٹ جاتا ہے
Leave a Reply