تھر میں ہر سال قحط سالی اور غربت کی وجہ سے سینکڑوں بچے لقمہ اجل بنتے ہیں لیکن آفرین ہے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی پر جن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ رواں سال اب تک تھر میں 32 بچے غذا کی کمی اور گندا پانی پینےکی وجہ سے مختلف امراض کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ بچے غذائی کمی اور مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر مرتے ہیں۔ یہ معصوم بچے خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے والوں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں اور اس ناکردہ جرم کی پاداش میں غذا کی کمی یا پینے کا صاف پانی نہ ہونے کے باعث ہر سال اس صحرا میں لقمہ اجل بنتے ہیں۔ غریب اور پسماندہ ترین علاقے کے بچوں کے مرنے سے سندھ حکومت یا وفاقی حکومت کو بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ البتہ میڈیا پر خبر آنے کی وجہ سے اکثر ارباب اختیار اور ارباب اقتدار ان علاقوں کا فوری دورہ کر کے سمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری پوری ہو چکی ہے۔
رواں سال اب تک تھر میں 32 بچے غذا کی کمی اور گندا پانی پینےکی وجہ سے مختلف امراض کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
خوراک وہ بنیادی ضرورت ہے جس کی فراہمی ہر ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے شاید سیاسی رہنما اور حکومتیں محض چند بڑے شہروں کو ہی پاکستان سمجھتے ہیں۔ ایک طرف تھر میں پیٹ کی بھوک سے مرتے بچے اور دوسری جانب اقتدار کی بھوک میں ایک دوسرے سے لڑتے سیاسی گدھ۔۔۔۔۔ یہ گدھ اقتصادی راہداری کے منصوبے پر تو کل جماعتی کانفرنس بلا سکتے ہیں لیکن انسانوں کی جان بچانے کے لیے ایک پریس کانفرنس سے بڑھ کر کچھ نہیں کرتے۔
صوبائی اور وفاقی حکومتیں تاحال سیلاب، زلزلے یا خشک سالی جیسی قدرتی آفات کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی سے کام کرنے کو تیار نہیں۔ سرکاری ادارے ایسے سانحات کے حقیقی اعدادوشمار اور اپنی ناہلی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تھر میں متاثرہ افراد کی بحالی اور غربت دور کرنے کے منصوبے شروع کرنے کی بجائے پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس مسئلے کو چھپانے کے لیے ہسپتال میں داخل بچوں کو زبردستی گھر بھیجنا شروع کر دیا ہے تا کہ سرکاری ہسپتالوں میں اموات کم سے کم ظاہر ہوں۔ مٹھی ہسپتال کی انتظامیہ سے متعلق یہ تکلیف دہ انکشاف کہ وہ سندھ حکومت کے دباو پر والدین کو مریض بچوں کو گھر لے جانے پر مجبور کر رہے ہیں، پیپلز پارٹی حکومت کے انسانیت کش رویے کا ننگا اظہار ہے۔
صوبائی اور وفاقی حکومتیں تاحال سیلاب، زلزلے یا خشک سالی جیسی قدرتی آفات کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی سے کام کرنے کو تیار نہیں۔ سرکاری ادارے ایسے سانحات کے حقیقی اعدادوشمار اور اپنی ناہلی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تھر میں متاثرہ افراد کی بحالی اور غربت دور کرنے کے منصوبے شروع کرنے کی بجائے پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس مسئلے کو چھپانے کے لیے ہسپتال میں داخل بچوں کو زبردستی گھر بھیجنا شروع کر دیا ہے تا کہ سرکاری ہسپتالوں میں اموات کم سے کم ظاہر ہوں۔ مٹھی ہسپتال کی انتظامیہ سے متعلق یہ تکلیف دہ انکشاف کہ وہ سندھ حکومت کے دباو پر والدین کو مریض بچوں کو گھر لے جانے پر مجبور کر رہے ہیں، پیپلز پارٹی حکومت کے انسانیت کش رویے کا ننگا اظہار ہے۔
سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں مرنے والے بچے سیاسی جماعتوں کی سیاسی محاذآرائی کے لیے ایندھن کا کام تو دیتے ہیں لیکن ان کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی سیاسی جماعت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ پیپلز پارٹی تو خیر آنکھیں اور کان بند کر کے اندرون سندھ بھٹو کو زندہ رکھنے میں مصروف ہے لیکن وفاقی حکومت بھی اس معاملے میں بے حسی کا شکار ہے۔ تھر کے بچوں کی اموات پر کوئی نوٹس اس لیے نہیں لیا گیا کیونکہ تھر مسلم لیگ نون کے ووٹ بینک میں کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تھر اموات پر وزیر اعظم پاکستان محض افسوس ظاہر کرنے اور بیانات دینے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔ اب میاں نواز شریف کو کیسے سمجھایا جائے کہ وہ پورے پاکستان کے وزیر اعظم ہیں محض پنجاب کے نہیں۔ جہاں انسانی جان کی حفاظت کی بات آتی ہے وہاں یہ بحث کرنا کہ ان بچوں کی جان بچانا صوبائی معاملہ ہے وفاقی نہیں انتہائی نازیبا اور شرمناک ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات لگا کر یا ذمہ داری ڈال کر موت کے منہ میں جانے والے ان بچوں کو واپس نہیں لایا جا سکتا۔
تھر میں متاثرہ افراد کی بحالی اور غربت دور کرنے کے منصوبے شروع کرنے کی بجائے پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس مسئلے کو چھپانے کے لیے ہسپتال میں داخل بچوں کو زبردستی گھر بھیجنا شروع کر دیا ہے تا کہ سرکاری ہسپتالوں میں اموات کم سے کم ظاہر ہوں۔
پیپلز پارٹی کے نوجوان سربراہ بلاول بھٹو اس موقع پر بھی ہمیشہ کی طرح سندھ سے غائب ہیں اور تخت لاہور کو فتح کرنے کے لیے لاہور میں موجود ہیں۔ پنجاب اور وفاقی حکومت کو روزانہ طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے انہیں شرم کیوں نہیں آتی۔ ایک طرف ان کے صوبے میں بچے قحط سے بیماریوں کا شکار ہو کر مر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ اپنے محل نما بنگلوں سے سیاسی بیانات داغنے میں مصروف ہیں۔ ایک ایسی سیاسی جماعت کا چیئرمین جس کا سیاسی وجود انہی غریب لوگوں کے ووٹوں کی مرہون منت ہے اس نازک مسئلے کو حل کرنے اور تھر پر توجہ دینے کی بجائے پنجاب سے سیایسی لڑائی لڑنے میں مصروف ہے۔ غالباً ابھی تک پیپلز پارٹی کو یہ ادراک نہیں ہوا کہ تھر جیسے المیے پاکستان بھر میں ان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے۔
ہر سانحے کے سیاسی پہلو پر اس کا انسانی پہلو مقدم ہوتا ہے، اسی انسانیت کی بناء پر ہم ایک دوسرے کا دکھ درد بلا تفریق محسوس کرتے ہیں، دوسرے کی تکلیف کی شدت سمجھتے ہیں اور مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کی موجودہ روش کو دیکھتے ہوئے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس جماعت کی قیادت انسانی ہمدردی کے جذبے سے عاری ہے۔ بچے طالبان کے ہاتھوں مریں یا بھوک کے ہاتھوں، دونوں ہی صورتوں میں ان کی موت ناقابل قبول ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ طالبان گولیوں سے بھونتے ہیں جبکہ بھوک کی صورت میں یہ بچے استحصالی نظام کے جبر کی بنا پر موت سےدوچار ہوتے ہیں۔ تھر میں ہونے والی اموات ہمارے موجودہ انتظامی بندوبست کی غیر فعالیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس انتظام کے تحت ایک طرف اربوں روپے سیاسی تشہیر پر خرچ کر دیئے جاتے ہیں اور دوسری جانب غرباء کے بچے پینے کے صاف پانی سے لے کر روٹی کے لقموں تک کو ترستے دکھائی دیتے ہیں۔ امیر اور غریب میں بڑھتی خلیج اس نظام اور ہماری قیادت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
ساڑھے چھ کروڑ کے قریب بچے اس ملک میں سانس لیتے ہیں جن میں سے ہر تیسرا بچہ کسی نہ کسی صورت میں غذائی کمی کا شکار ہے۔
پاکستان میں اس وقت بچوں کی تعداد کل آبادی کا قریب 37 فیصد ہے، یعنی ساڑھے چھ کروڑ کے قریب بچے اس ملک میں سانس لیتے ہیں جن میں سے ہر تیسرا بچہ کسی نہ کسی صورت میں غذائی کمی کا شکار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ترقی کے بلندوبانگ دعووں کے باوجود ابھی تک غربت کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے دعوے شاید بڑے شہروں تک موثر ہیں، چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں یہ دعوے زمین پر دکھائی نہیں دیتے۔ غذائی کمی کے یہ خوفناک اعدادوشمار ہماری ترقیاتی ترجیحات کے غلط تعین کی تصویر کشی کے لیے کافی ہیں۔ صحت، تعلیم اور روزگار کے منصوبوں کو سفری سہولیات کے منصوبوں پر ترجیح دینا ہو گی۔ تھر جیسے سانحات میں ہونے والی اموات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو اپنی کارکردگی اور ترقیاتی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔
تھر کے مسئلے پر غیر سرکاری تنظیمیں بھی خاموش ہیں۔ بچوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو تھر کے بچوں کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی کرنے اور آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس معاشرے کا حصہ ہونے کے ناطے ہم سب پر بھی اس سانحے کی شدت کم کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ فوڈ بینک نامی امریکی این جی او جیسے کسی منصوبے کی شروعات عام شہری کر سکتے ہیں۔ فوڈ بنک امریکہ میں چند نوجوانوں نے شروع کی تھی اور ان کا مقصد ہوٹلوں میں بچ جانے والے کھانے کو ضائع کرنے کی بجائے محفوظ بنا کر ان افراد تک پہنچانا تھا جو اپنے لیے کھانا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس این جی او نے لاکھوں افراد کو کھانا پہنچایا اور آج یہ دنیا کے کئی ممالک میں کام کر رہی ہے۔ تھر میں ہونے والی اموات میں کمی کے لیے ایسے ہی منصوبوں کی ضرورت ہے۔
حکومتی سطح پر تھر کی بحالی کے لیے صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو ایسے منصوبے بنانے اور ان منصوبوں پر عملدرآمد کی ضرورت ہے جن سے وہاں کے لوگوں کو روزگار میسر آ سکے اور پانی کی مستقل دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے، کیونکہ محض وقتی امداد سے یہ مسئلہ کبھی بھی مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہو گا۔ مشہور چینی کہاوت ہے کہ اگر آپ کسی کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو اسے مچھلی مت دیجئے بلکہ مچھلی پکڑنے کے لیے ڈور اور کانٹا دیجئے تا کہ وہ مستقل بنیادوں پر رزق حاصل کر سکے۔ اب ارباب اختیار کو بھی تھر کے حوالے سے پریس کانفرنسوں اور زبانی مذمت چھوڑ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ کوئلے اور نایاب و قیمتی.پتھروں کے ذخائر سے مالا مال اس علاقے کو با آسانی خوشحال بنایا جا سکتا ہے اور بچوں اور آنے والی نسلوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے، کیونکہ بچے ہمارا آنے والا کل بھی ہیں اور آج بھی۔۔۔ ہمیں اپنے حال میں سرمایہ کاری کرکے اپنے آنےوالے کل کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے، آخر کو تھر میں بسنے والے بچے بھی تو ہمارے ہی بچے ہیں۔
Image: Express Tribune
One Response
بہت عمدہ اور حقیقت پر مبنی تحریر