Laaltain

توہین رسالت کی سزا کی شرعی حیثیت

7 نومبر، 2014
توہین رسالت کی سزا کا جو قانون ریاست پاکستان میں نافذ ہے، اُس کا کوئی ماخذ قرآن و حدیث میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔اِس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ قانون کہاں سے اخذ کیا گیا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں بعض اہل علم نے فرمایا ہے کہ یہ سورۂ مائدہ (۵) کی آیات ۳۳۔۳۴ سے ماخوذ ہو سکتا ہے۔ اُن کا ارشاد ہے کہ مائدہ کی اِن آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کی سزا بیان فرمائی ہے اور اُس کے رسول کی توہین و تحقیر بھی محاربہ ہی کی ایک صورت ہے۔ آیات یہ ہیں:

 

اِنَّمَا جَزآؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ، ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ، اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ، فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.

 

“جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول سے لڑیں گے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کریں گے، اُن کی سزا پھر یہی ہے کہ عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں یا سولی پر چڑھا ئے جائیں یا اُن کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیں یا اُنھیں علاقہ بدر کر دیا جائے۔ یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے ایک بڑا عذاب ہے، مگر اُن کے لیے نہیں جو تمھارے قابو پانے سے پہلے توبہ کر لیں۔ سو (اُن پر زیادتی نہ کرو اور) اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔” سورہ المائدہ ، آیت نمبر 33-34
قرآن اِس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ موت کی سزا کسی شخص کو دو ہی صورتوں میں دی جا سکتی ہے: ایک یہ کہ وہ کسی کو قتل کر دے، دوسرے یہ کہ ملک میں فساد برپا کرے اور لوگوں کی جان، مال اور آبرو کے لیے خطرہ بن جائے۔

 

اِس قانون کے ماخذ سے متعلق دوسرے نقطہ ہاے نظر کی طرح یہ راے بھی ہمارے نزدیک محل نظر ہے۔ اولاً، اِس لیے کہ آیت میں ’یُحَارِبُوْنَ‘کا لفظ ہے۔ یہ لفظ تقاضا کرتا ہے کہ آیت میں جو سزائیں بیان ہوئی ہیں، وہ اُسی صورت میں دی جائیں جب مجرم سرکشی کے ساتھ توہین پر اصرار کرے؛فساد انگیزی پر اتر آئے؛ دعوت، تبلیغ، تلقین و نصیحت اور بار بار کی تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے، بلکہ مقابلے کے لیے کھڑا ہو جائے۔ آدمی الزام سے انکار کرے یا اپنی بات کی وضاحت کر دے اور اُس پر اصرار نہ کرے تو لفظ کے کسی مفہوم میں بھی اِسے محاربہ یا فساد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ثانیاً، اِس لیے کہ اقرار و اصرار کے بعد بھی مجرم قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے توبہ اور رجوع کر لے تو قرآن کا ارشاد ہے کہ اُس پر حکم کا اطلاق نہیں ہو گا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ توبہ کرلینے والوں کو یہ سزائیں نہیں دی جا سکتیں۔ اِس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ کارروائی سے پہلے اُنھیں توبہ و اصلاح کی دعوت دینی چاہیے اور بار بار توجہ دلانی چاہیے کہ وہ خدا و رسول کے ماننے والے ہیں تو اپنی عاقبت برباد نہ کریں اور اُن کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں اور ماننے والے نہیں ہیں تو مسلمانوں کے جذبات کا احترام کریں اور اِس جرم شنیع سے باز آجائیں۔ ثالثاً، اِس لیے کہ آیت کی رو سے یہ ضروری نہیں ہے کہ اُنھیں قتل ہی کیا جائے۔ اُس میں یہ گنجایش رکھی گئی ہے کہ جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات تقاضا کرتے ہوں تو عدالت اُسے کم تر سزا بھی دے سکتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اِس طرح کے مجرموں کو علاقہ بدر کر دیا جائے۔ اِس وقت جو قانون نافذ ہے، اِن میں سے کوئی بات بھی اُس میں ملحوظ نہیں رکھی گئی۔ وہ مجردشہادت پر سزا دیتا ہے، اُس میں انکار یا اقرار کو بھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کا آیت تقاضا کرتی ہے، سرکشی اور اصرار بھی ضروری نہیں ہے، دعوت و تبلیغ اور اِس کے نتیجے میں توبہ اور اصلاح کی بھی گنجایش نہیں ہے، اُس کی رو سے قتل کے سوا کوئی دوسری سزا بھی نہیں دی جا سکتی۔ علما اگر آیت محاربہ کو قانون کا ماخذ مان کر اُس کے مطابق ترمیم کے لیے راضی ہو جائیں تو اِس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں وہ تمام اعتراضات ختم ہو جائیں گے جو اِس وقت اِس قانون پر کیے جا رہے ہیں۔ قرآن اِس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ موت کی سزا کسی شخص کو دو ہی صورتوں میں دی جا سکتی ہے: ایک یہ کہ وہ کسی کو قتل کر دے، دوسرے یہ کہ ملک میں فساد برپا کرے اور لوگوں کی جان، مال اور آبرو کے لیے خطرہ بن جائے۔ آیت محاربہ کے مطابق ترمیم کر دی جائے تو قرآن کا یہ تقاضا پورا ہو جائے گا۔ پھر یہی نہیں، قانون بڑی حد تک اُس نقطۂ نظر کے قریب بھی ہو جائے گا جو فقہ اسلامی کے جلیل القدر امام ابو حنیفہ اور جلیل ا لقدر محدث امام بخاری نے اختیار فرمایا ہے۔ ہمارے نزدیک یہی نقطۂ نظر اِس معاملے میں قرین صواب ہے۔ ریاست پاکستان میں احناف کی اکثریت ہے، لیکن باعث تعجب ہے کہ قانون سازی کے موقع پر اُن کی راے یکسر نظر انداز کر دی گئی ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ قانون قرآن کے بھی خلاف ہے، حدیث کے بھی خلاف ہے اور فقہاے احناف کی راے کے بھی خلاف ہے۔ اِسے لازماً تبدیل ہونا چاہیے۔ یہ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔

 

توہین رسالت کی سزا کے جو واقعات بالعموم نقل کیے جاتے ہیں، اُن کی حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے۔ ابو رافع اُن لوگوں میں سے تھا جو غزوۂ خندق میں قبائل کو مدینہ پر چڑھا لانے کے مجرم تھے۔ ابن اسحاق کے الفاظ میں ، ’فیمن حزب الاحزاب علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘۔کعب بن اشرف کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد اُس نے مکہ جا کر قریش کے مقتولین کے مرثیے کہے جن میں انتقام کی ترغیب تھی ، مسلمان عورتوں کا نام لے کر تشبیب لکھی اور مسلمانوں کو اذیت پہنچائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں رہتے ہوئے آپ کے خلاف لوگوں کو بر انگیختہ کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ بعض روایتوں کے مطابق آپ کو دھوکے سے قتل کر دینا چاہا۔ عبداللہ بن خطل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کی تحصیل کے لیے بھیجا۔ اُس کے ساتھ ایک انصاری اور ایک مسلمان خادم بھی تھا۔ راستے میں حکم عدولی پر اُس نے خادم کو قتل کر دیا اور مرتد ہو کر مکہ بھاگ گیا۔ پھر یہی نہیں، یہ تینوں خدا کے رسول کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود آپ کی تکذیب پر مصر رہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ قانون قرآن میں جگہ جگہ بیان فرمایا ہے کہ رسولوں کے براہ راست مخاطبین عذاب کی زد میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ معاندت پر اتر آئیں تو قتل بھی کیے جا سکتے ہیں۔ اِس سے واضح ہے کہ یہ محض توہین کے مجرم نہیں تھے، بلکہ اِن سب جرائم کے مرتکب بھی ہوئے تھے۔ لہٰذا اِنھی کی پاداش میں قتل کیے گئے۔ عبداللہ بن خطل ایک خونی مجرم تھا۔ اُس کے بارے میں اِسی بنا پر حکم دیا گیا کہ کعبے کے پردوں میں بھی چھپا ہوا ہو تو اُسے قتل کر دیا جائے۔ اِسی طرح کے مجرم تھے جن کا ذکر سورۂ احزاب میں ہوا ہے۔ خدا کے پیغمبر سے مسلمانوں کو برگشتہ اور بدگمان کرنے اور اسلام اور مسلمانوں کی اخلاقی ساکھ بالکل برباد کر دینے کے لیے یہ اُن کی خانگی زندگی کے بارے میں افسانے تراشتے، بہتان لگاتے اور اسکینڈل پیدا کرتے تھے، ازواج مطہرات سے نکاح کے ارمان ظاہر کرتے تھے، مسلمانوں میں گھبراہٹ پھیلانے اور اُن کے حوصلے پست کرنے کے لیے طرح طرح کی افواہیں اڑاتے تھے، مسلمان عورتیں جب رات کی تاریکی میں یا صبح منہ اندھیرے رفع حاجت کے لیے نکلتی تھیں تو اُن کے درپے آزار ہوتے اور اِس پر گرفت کی جاتی تو اِس طرح کے بہانے تراش کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے تھے کہ ہم نے تو فلاں اور فلاں کی لونڈی سمجھ کر اُن سے فلاں بات معلوم کرنا چاہی تھی۔ اِن کے بارے میں یہ سب چیزیں قرآن کے اشارات سے بھی واضح ہیں اور روایتوں میں بھی صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ چنانچہ فرمایا کہ مسلمان عورتیں اپنی کوئی چادر اوپر ڈال کر باہر نکلیں تاکہ لونڈیوں سے الگ پہچانی جائیں اور اُن کو ستانے کے لیے یہ اِس طرح کے بہانے نہ تراش سکیں۔ نیز فرمایا کہ یہ اشرار بھی متنبہ ہو جائیں کہ اِن حرکتوں سے باز نہ آئے تو عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں گے:

 

لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَآ اِلَّا قَلِیْلًا، مَّلْعُوْنِیْنَ، اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا.

 

ترجمہ: “یہ منافق اگر (اِس کے بعد بھی) اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور وہ بھی جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ بھی جو مدینہ میں جھوٹ اڑانے والے ہیں تو ہم اِن کے خلاف تمھیں اٹھا کھڑا کریں گے۔ پھر وہ مشکل ہی سے تمھارے ساتھ رہ سکیں گے۔ اِن پر پھٹکار ہو گی، جہاں ملیں گے پکڑے جائیں گے اور عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں گے۔” سورہ الاحزاب، آیت نمبر 60-61
کعب بن اشرف کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد اُس نے مکہ جا کر قریش کے مقتولین کے مرثیے کہے جن میں انتقام کی ترغیب تھی ، مسلمان عورتوں کا نام لے کر تشبیب لکھی اور مسلمانوں کو اذیت پہنچائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں رہتے ہوئے آپ کے خلاف لوگوں کو بر انگیختہ کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ بعض روایتوں کے مطابق آپ کو دھوکے سے قتل کر دینا چاہا۔

 

اِن کے علاوہ جو واقعات سنائے جاتے ہیں، وہ اگرچہ سند کے لحاظ سے ناقابل التفات ہیں، لیکن بالفرض ہوئے ہوں تو اُن کی نوعیت بھی یہی سمجھنی چاہیے کہ منکرین کے سب و شتم سے اُن کی معاندت پوری طرح ظاہر ہو جانے کے بعد رسولوں کی تکذیب کا وہ قانون اُن پر نافذکر دیا گیا جو قرآن میں ایک سنت الٰہی کی حیثیت سے مذکور ہے۔ بعض مقتولین کے خون کو ہدر قرار دینے کی وجہ بھی یہی تھی۔ ’ لا یقتل مسلم بکافر‘ اِسی کا بیان ہے۔ علما اِن حقائق سے واقف ہیں، لیکن اِس کے باوجود اُن کا اصرار ہے کہ اِن واقعات سے وہ توہین رسالت کا قانون اخذ کریں گے۔ یہاں ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اُس قصے سے بھی استدلال کرنا چاہے جو سیدنا عمر کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تسلیم نہ کرنے پر اُنھوں نے ایک شخص کی گردن اڑا دی تھی۔ ہمارے علما یہ واقعہ منبروں پر سناتے اور لوگوں کو بالواسطہ ترغیب دیتے ہیں کہ توہین رسالت کے مرتکبین کے ساتھ وہ بھی یہی سلوک کریں، مگر حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے پہلے، دوسرے ، یہاں تک کہ تیسرے درجے کی کتابیں بھی اِس واقعے سے خالی ہیں۔ ابن جریر طبری ہر طرح کی تفسیری روایتیں نقل کر دیتے ہیں، مگر اُنھوں نے بھی اِسے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔یہ ایک غریب اور مرسل روایت ہے جسے بعض مفسرین نے اپنی تفسیروں میں نقل ضرور کیا ہے ،لیکن جن لوگوں کو علم حدیث سے کچھ بہرہ حاصل ہے ، اُنھوں نے وضاحت کر دی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اِس کی سند بالکل واہی ہے اور ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم کی سندوں میں اِس کا راوی ابن لہیعہ ضعیف ہے۔اِس کے بارے میں یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ مفسرین سورۂ نساء (۴) کی آیت ۶۵ کی شان نزول کے طور پر یہی واقعہ بیان کرتے ہیں۔ نساء کی یہ آیت اگرچہ کسی شان نزول کی محتاج نہیں ہے، تاہم جو واقعہ امام بخاری اور دوسرے ائمۂ محدثین نے اِس کی شان نزول کے طور پر بیان کیا ہے اور جسے مفسرین بالعموم نقل کرتے ہیں، وہ اِس کے برخلاف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر کا ایک انصاری سے پانی پر اختلاف ہو گیا۔ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ زبیر اپنے کھیت کو سیراب کرکے باقی پانی اُس کے لیے چھوڑ دیں گے۔ اِس پر انصاری نے فوراً کہا: یا رسول اللہ، اِس لیے نا کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ یہ صریح بے انصافی اور اقرباپروری کا اتہام اور انتہائی گستاخی کی بات تھی۔ چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، مگر آپ نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنی بات مزید وضاحت کے ساتھ دہرا دی اور فرمایا کہ کھیت کی منڈیر تک پانی روک کر باقی اُس کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ علماکو حسن انتخاب کی داد دینی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو و درگذر اور رأفت و رحمت کی یہ روایت تو اُنھوں نے نظر انداز کر دی ہے، دراں حالیکہ یہ بخاری و مسلم میں مذکور ہے اور حضرت عمر کے گردن ماردینے کی ضعیف اور ناقابل التفات روایت ہر جگہ نہایت ذوق و شوق کے ساتھ سنا رہے ہیں۔

 

توہین رسالت کی سزا کے بارے میں جمہور فقہا کی راے کیا خاص اِس سزا سے متعلق قرآن و حدیث کے کسی حکم پر مبنی ہے؟ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔ مسلمانوں کے لیے اِس کی بنا ارتداد اور ذمیوں کے لیے نقض عہد پر قائم کی گئی ہے۔ فقہا یہ کہتے ہیں کہ مسلمان اگر توہین رسالت کا ارتکاب کرے گا تو مرتد ہو جائے گا اور مرتد کی سزا قتل ہے۔ اِسی طرح غیر مسلم ذمی اِس کا مرتکب ہو گا تو اُس کے لیے عقد ذمہ کی امان ختم ہو جائے گی اور اِس کے نتیجے میں اُسے بھی قتل کر دیا جائے گا۔ اِس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ سورۂ توبہ (۹)کی آیت ۲۹ میں غیر مسلم اہل کتاب کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے محکوم اور زیردست بن کر رہنے کے لیے تیار نہ ہوں تو اُنھیں قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ اگر کوئی ذمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سب و شتم کا رویہ اختیار کرتا ہے تو اِس کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ سرکشی پر اتر آیا ہے اور محکوم اور زیردست بن کر رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ فقہ اسلامی میں اِس استدلال کی ابتدا غالباً عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اِس راے سے ہوئی ہے، اُن کا ارشاد ہے:

 

ایما مسلم سب اللّٰہ ورسولہ او سب احدًا من الانبیاء، فقد کذب برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وھی ردۃ یستتاب، فان رجع والاقتل، وایما معاہد عاند فسب اللّٰہ او سب احدًا من الانبیاء وجھر بہ،فقد نقض العھد فاقتلوہ.

 

“جو مسلمان اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یا نبیوں میں سے کسی دوسرے نبی پر سب و شتم کرے گا، وہ رسول اللہ کی تکذیب کا مرتکب ہو گا۔ یہ ارتداد ہے جس پر اُس سے توبہ کا تقاضا کیا جائے گا۔ اگر رجوع کر لیتا ہے تو چھوڑ دیا جائے گا اور نہیں کرتا تو قتل کر دیا جائے گا۔ اِسی طرح غیرمسلم معاہدین میں سے کوئی شخص اگر معاند ہو کر اللہ یا اللہ کے کسی پیغمبر پر علانیہ سب و شتم کرتا ہے تو عہد ذمہ کو توڑنے کا مجرم ہو گا، تم اُسے بھی قتل کر دو گے۔” زاد المعاد، ابن قیم 379/4

 

منکرین حق کے خلاف جنگ اور اِس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے اُنھیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اِس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اُس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔

 

فقہا کے نزدیک سزا کی بنیاد یہی ہے، لیکن قرآن و حدیث پرتدبر سے واضح ہو جاتا ہے کہ دور صحابہ کے بعد یہ بنیاد ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے۔ ہم نے اپنی کتابوں، ’’میزان‘‘ اور ’’برہان‘‘ میں پوری طرح مبرہن کر دیا ہے کہ ارتداد کی سزا اُنھی لوگوں کے ساتھ خاص تھی جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست اتمام حجت کیا اور آپ پر ایمان لانے کے بعد وہ کفر کی طرف پلٹ گئے۔ اُن کے بارے میں خدا کا فیصلہ یہی تھا کہ اگر کفر پر قائم رہیں گے تو اُس کی سزا بھی موت ہے اور ایمان لے آنے کے بعد دوبارہ کفر اختیار کریں گے تو اُس کی سزا بھی موت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’من بدل دینہ فاقتلوہ‘ (جو شخص اپنا دین تبدیل کرے ، اُسے قتل کر دو) اُنھی سے متعلق ہے۔ اُن کے لیے یہ سزا اُس سنت الٰہی کے مطابق مقرر کی گئی تھی جو قرآن میں رسولوں کے براہ راست مخاطبین سے متعلق بیان ہوئی ہے۔ زمانۂ رسالت کے بعد پیدا ہونے والے مسلمانوں سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ نقض عہد کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اب دنیا میں نہ کوئی ذمی ہے، نہ کسی کو ذمی بنایا جا سکتا ہے۔ سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۲۹ اتمام حجت کے اُسی قانون کی فرع ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ چنانچہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اِس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے اُنھیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اِس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اُس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ مسلمان ریاستوں کے غیر مسلم شہری نہ اصلاً مباح الدم ہیں، نہ ذمی ہیں اور نہ کسی امان کے تحت رہ رہے ہیں جس کے اُٹھ جانے کی صورت میں اُن کے بارے میں قتل کا حکم دیا جائے۔ یہ سب چیزیں اب قصۂ ماضی ہیں۔ اِنھیں کسی لحاظ سے بھی بناے استدلال نہیں بنایا جا سکتا۔ اِس کے بعد دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں: ایک یہ کہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کو سامنے رکھ کر قانون سازی کی جائے اور تعزیر کے طور پر کوئی سزا مقرر کر دی جائے۔ دوسرے یہ کہ سورۂ مائدہ (۵) کی آیات ۳۳۔۳۴ کو قانون سازی کی بنیاد بنایا جائے۔ یہی دوسری صورت ہے جس کے بارے میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ مائدہ کی اِن آیتوں کو بنیاد بنا کر قانون سازی کی جائے گی تو یہ تین چیزیں لازماً ملحوظ رکھنا ہوں گی، قرآن کے الفاظ اِس کا تقاضا کرتے ہیں: ۱۔ توہین کے مرتکب کو توبہ و اصلاح کی دعوت دی جائے گی اور باربار توجہ دلائی جائے گی کہ وہ خدا اور رسول کا ماننے والا ہے تو اپنی عاقبت برباد نہ کرے اور اُن کے سامنے سرتسلیم خم کر دے اور ماننے والا نہیں ہے تو مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرے اور اِس جرم شنیع سے باز آجائے۔ ۲۔ اُس کے خلاف مقدمہ صرف اُس صورت میں قائم کیا جائے گا، جب وہ توبہ اور رجوع سے انکار کر دے؛ سرکشی کے ساتھ توہین پر اصرار کرے؛ فساد انگیزی پر اتر آئے؛ دعوت، تبلیغ، تلقین و نصیحت اور باربار کی تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے، بلکہ مقابلے کے لیے کھڑا ہو جائے۔ ۳۔ سزا میں گنجایش رکھی جائے گی کہ جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات تقاضا کرتے ہوں تو قتل جیسی انتہائی سزا کے بجاے اُسے کوئی کم تر سزا بھی دی جا سکتی ہے۔

 

[spacer color=”BCBCBC” icon=”fa-times” style=”2″]

(پاکستان میں توہین مذہب کے قوانینی کی شرعی حیثیت پر یہ مضمون معروف عالم دین اور دانش ورجاوید احمد غامدی نے تصنیف کیا ہے اور ان کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے۔ ہم غامدی صاحب اور ان کے ادارہ المورد کے عملہ کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے یہ مضمون لالٹین کے قارئین کے لئے اپ لوڈ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ )
یہ مضمون جاوید احمد غامدی صاحب کی ویب سائٹ پر پڑھنے کیلیے مندررجہ ذیل لنکس پر کلک کریں:

http://www.javedahmadghamidi.com/muqamaat/view/punishment-for-blasphemy-against-the-prophet-sws-part-1/ur

http://www.javedahmadghamidi.com/muqamaat/view/punishment-for-blasphemy-against-the-prophet-sws-part-2/ur

http://www.javedahmadghamidi.com/muqamaat/view/punishment-for-blasphemy-against-the-prophet-sws-part-3/ur

5 Responses

  1. جاوید احمد غامدی کا مضمون “توهینِ رسالت کی سزا کی شرعی حثیت” پڑها.پڑه کرحیرانگی بهی هوئی اور دکه بهی هوا.حیرانگی اس بات کی که ایسے انسان کو ایک عالم اور علامه کے طور پر پیش کیا جا رها هے جو انسان قرآن وحدیث کا سطعی علم بهی نهیں رکهتا.اور دکه اس بات پر هے که یه انسان جو منه میں آتا هے.که دیتا هے مگر عالمِ اسلام کے علماء کے کانوں تک جوں تک نهیں رینگتی.
    موصوف توهینِ رسالت کے پاکستان میں مروجه قانون کو یه که کر ٹکهرا رها هے که قرآن و حدیث میں اس کی کوئی دلیل نهیں.اوپر سے موصوف سورت مائده کی آیات ۳۳؛۳۴کی طرف توجه دلواتا هے اور کهتا هے که ان آیات کا سرے سے اس قانون سے کوئی تعلق نهیں لیکن اگر تعلق هو بهی تو اس وقت تک گستاخِ رسول کو سزا نهیں دی جا سکتی جب تک وه اپنی گستاخی میں فساد کی حد کو نه پهنچ جائے اور پهر بهی اسے فوراََ سزا نه دی جائے بلکه جب وه یه گستاخی بار بار کرے تو تب اس کو سزا دی جائے اور یه بهی کهتا هے که ضروری نهیں که اسے سزائے موت دی جائے بلکه جو سزائیں اس آیت میں بیان کی گئی وه بهی دی جا سکتی هیں.موصوف اپنے الفاظوں کو قلابازیاں کهلا کر همارے ذهنوں کو بهی قلا بازیاں کهلانے کی بهر پور کوشش کرتا هے.
    میں غامدی صاحب سے چند سوال کرتا هوں:
    کیا غامدی صاحب نے کبهی آرٹیکل چه (۶) کو توڑنے کی سزا سزائے هے کے خاتمه کی کبهی بات کی؟جو که ایک عام انسان کا بنایا هوا آئین هے.اور جس کی بعض شکیں اسلام اور عام انسانی حقوق کے بهی خلاف هیں جیسا که صدر اور گورنرز کو استثناء حاصل هے.
    کیا غامدی صاحب نے سورت نساء کی آیت نمبر ۶۵کا مطالعه کیا اور اس کا شانِ نزول پڑها؟جس میں جو کوئی حضوراکرم صلی الله علیه وسلم کے فیصله کرنے کے بعد اس میں شک کرے اور کسی اور سے فیصله کروانے جائے اور کوئی اوربهی حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنه هوں.تو ایسے گستاخ کی سزا کیا هوئی هم سب جانتے هیں.اسی آیت میں یه بتایا گیا که جو رسول الله صلی الله علیه وسلم کے حکم میں دل میں حرج بهی لائے تو وه ایماندار نهیں ره سکتا چه جائے که الله اور رسول کے احکام کو اپنی غلط توجیهوں سے هی رد کر دیا جائے.اور لوگوں کو طرح طرح کی کهانیاں سنا کر گمراه کیا جائے.
    میں نے فیملی پلاننگ کا مضمون بهی پڑها تها جس میں ایسی آیات کا حواله دیا گیا جن کا اس مضمون سے کوئی تعلق نهیں تها اور اس مضمون میں بهی ایک ایسی هی ناپاک کوشش کی گئی هے.غامدی کی زبان ایسے قوانین کے خلاف کیوں نهیں کهلتی جو انسان کے بنائے هوئے قوانین کو توڑنے پردی جاتی هیں.کسی ملک کے بادشاه کی گستاخی کیسزا موت هو تو غامدی خوشامدی ثابت هوتا هے اور اگر بات هو سرورکونین کی تو اسے انسانیت کا درد ستانے لگتا هے.اگر یه کهتا که اس سزا کو نافذ کرنے کے لیے عدل کے تقاضے پورے هونے چاهیں تو بات سمجه میں آتی هے لیکن سرے سے گستاخِ رسول کی سزا کو یه که کر ختم کروانا که قرآن و حدیث میں اس کی کوئی دلیل نهیں اس سے بڑا ظلم کوئی اور نهیں.
    غامدی کا طرزِ عمل ان یهودی علماء کی طرح هے جو آیات کو معمولی داموں پیچتے تهے اور بعض آیات کو مانتے اور بعض کا کفر کرتے تهے.
    میں جاوید احمد غامدی کو اپنے عقیده کوصحیح کرنے کی نصیحت کرتا هوں اور رسول اکرم صلی الله علیه وسلم سے گستاخی کرنے کے جرم کی توبه کی تاکید کرتا هوں .اگر باربار کی واعظ اورنصیحت اثر نهیں کرے گی تو پهر قانونِ اسلام حرکت میں آئے گا

  2. بہت بہترین اور چشم کشا مضمون ہے۔ توہین رسالت کے ضمن میں اسلامی نقطہ نظر کی صراحت اتنے حقیقی انداز میں کی گئی ہے کہ یہ دعویٰ کہ اسلام دین فطرت ہے سچ ثابت ہو جاتا ہے۔ ہمارے توہین رسالت کے قانون میں تبدیلیاں ضروری ہیں یہ غامدی صاحب کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ جان کر بھی ادراک ہوتا ہے کہ ہمارا قانون مجرد شہادت پہ سزا سناتا ہے۔ ملزم کو صفائی کا کوئی بھی موقع دیے بغیر۔ انتہائی حیرت کا مقام ہے۔ مسلمان کبھی بھی انتہا پسند نہیں رہے۔ اسلام ایک معتدل مزاج دین ہے جو انسانی فطرت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ ویسے عام زندگی میں ہم اسلامی تعلیمات کو چاہے پس پشت ڈال دیں چاہے لیکن محض عورت اور دوسروں پر گرفت کرنے کے معاملے میں کیوں یک دم ہم سب کی دینی غیرت جاگ اٹھتی ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسلام کو اپنائیں تو پوری طرح سمجھ کے۔ صرف دوسروں کو ایذا دینے کے واسطے کیوں

  3. ملا کہیں کا بھی ہو وہ تھوڑا سا واپسی کا راستہ چھوڑتا ہے، یہی کچھ جاوید غامدی صاحب نے بھی کیا ہے، محارب کو توہین کے ساتھ جوڑنا سوائے لوگوں کو خوش کرنے کے اور کیا ہے کہ دیکھئے کچھ تو گنجائش رکھی۔ اس آیت کو سادے الفاظ میں پڑھیے سوائے اس کے اور کیا لکھا ہے کہ جو جنگ کرے اس کی سزا بتائی گئی ہے۔ ہاں ایک حرب کا ذریعہ ہے پراپگنڈا کا محاذ لیکن وہ بھی اسی صورت کہ جنگ بھڑکانے کی کوشش کی جائے، عربی بدوی معاشرے میں یہ بھی خطرناک ہوتا تھا اور ایسے جنگ بھڑکانے کی مثالیں بھی ملتیں ہیں۔ آخر ان ملاؤں سے قول سدید کیوں نہیں نکلتا۔۔۔
    نہیں کوئی آیت توہین رسالت کا حکم نہیں دیتی
    نہیں کوئی آیت ارتداد کی سزا قتل نہیں دیتی
    نہیں حدیث میں سوائے اسکے کہ کسی نے ایسے جرم کیے ہوں کہ اسکی سزا قتل بنتی ہے (قتل و فساد) ورنہ کسی شخص کو قتل کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہی حال ارتداد کا ہے۔
    قرآن بھرا پڑا ہے کہ تجھ سے تمسخر کرتے ہیں، پچھلوں سے بھی کیا تھا، صبر کر، جہاں بھی سزا سنائی یہی کہ ہم سزا دیں گے، کوئی دنیوی سزا نہیں ہے۔ ایسے ہی مومنوں کو کہا کہ جب بھی یہ تمسخر کریں تو “سلام ” (جی ہاں کافروں کو جو تمسخر کر رہے ہیں) کہ کے اٹھ آؤ۔
    آخر یہ ملّا کھل کے سچ کیوں نہیں بولتے!!!

  4. آپ نے غامدی صاحب کی علمی حقیقت تو واضح کرنے کی پوری کوشش کی لیکن آپ کے جواب میں کچھ بھی علمی استدلال موجود نہیں. آپ نے یہ الزام تو لگا دیا کہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ قرآن میں اس قانون کی کوئی بنیاد نہیں، تو بھائی میرے اسکے جواب میں آپ کو قرآن کی وہ آئیت پیش کرنی چاہیے تھی جس میں یہ حکم موجود ہو، لیکن مجھے آپ کے جواب میں ایسی کوئی بات نہیں مل سکی…. کسی پہ خالی اعتراض کرنا دنیا کا آسان ترین کام ہے لیکن صرف اعتراض کرنا کافی نہیں، اسکے لئے کوئی حوالہ بھی تو دیں

    سورہٴ مائدہ کی جن آیات کا ذکر آپ نے کیا ہے انکا ترجمہ پیش ہے:

    “جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا (بھاری) عذاب تیار ہے”

    تو بھائی جی، اس آئیت میں کہاں توہین رسالت کی بات ہو رہی ہے؟ ٢ باتیں ہیں یہاں:

    ١- وہ لوگ جو الله اور الله کے رسول سے لڑائی کریں
    ٢- ملک میں فساد پیدا کریں

    اب اگر کوئی یہ کہے کہ توہین رسالت بھی ملک میں فساد پیدا کرنا ہی ہے تو یہ تو الگ بات ہے، اور اسکا ذکر غامدی صاحب نے بھی کیا ہے لیکن اس آئیت میں اصلاّ تو توہین رسالت کا کوئی ذکر نہیں. اگر یہ بات مان بھی لی جائے تب بھی سزا میں 4 چیزیں بیان ہوئی ہیں جبکہ پاکستان کے مروجہ قانون میں صرف ١….. باقی ٣ کہاں گئیں؟

    اب آتے ہیں آپ کے سوالات کی طرف:

    ١-
    کیا غامدی صاحب نے کبهی آرٹیکل چه (۶) کو توڑنے کی سزا سزائے هے کے خاتمه کی کبهی بات کی؟جو که ایک عام انسان کا بنایا هوا آئین هے.اور جس کی بعض شکیں اسلام اور عام انسانی حقوق کے بهی خلاف هیں جیسا که صدر اور گورنرز کو استثناء حاصل هے.

    جواب: آپ نے اگر نہیں سنی تو اسمیں کوئی اور بندہ کیا کرسکتا ہے

    ٢. کیا غامدی صاحب نے سورت نساء کی آیت نمبر ۶۵کا مطالعه کیا اور اس کا شانِ نزول پڑها

    جواب:

    آئیت کا ترجمہ یہ ہے:

    “تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے”

    اسمیں کہاں کہا گیا ہے کہ جو بات نا مانیں اسکو قتل کر دو؟

    رہی بات اسکے شان نزول کی تو وہ بھی دیکھ لیتے ہیں:

    جو واقعہ امام بخاری اور دوسرے ائمہ محدثین نے اِس کی شان نزول کے طور پر بیان کیا ہے اور جسے مفسرین بالعموم نقل کرتے ہیں، وہ اِس کے برخلاف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر کا ایک انصاری سے پانی پر اختلاف ہو گیا۔ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ زبیر اپنے کھیت کو سیراب کرکے باقی پانی اُس کے لیے چھوڑ دیں گے۔ اِس پر انصاری نے فوراً کہا: یا رسول اللہ، اِس لیے نا کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ یہ صریح بے انصافی اور اقرباپروری کا اتہام اور انتہائی گستاخی کی بات تھی۔ چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، مگر آپ نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنی بات مزید وضاحت کے ساتھ دہرا دی اور فرمایا کہ کھیت کی منڈیر تک پانی روک کر باقی اُس کے لیے چھوڑ دیا جائے

    یہاں کچھ مفسرین نے الگ واقعہ بیان کیا ہے جسکا حوالہ آپ نے دینے کی کوشش کی ہے لیکن وہ ایک غریب اور مرسل روایت ہے، اور امام بخاری نے اسکو نہیں لیا بلکہ اوپر والا واقعہ لکھا ہے. صرف امام بخاری ہی نہیں بلکہ امام مسلم، امام مالک، ابو داود، نسائی کسی نے بھی اسکو اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا…. اب آپ ہی باتیں کہ میں کس کی بات مانوں؟ امام بخاری و مسلم یا پھر کوئی اور؟

    باقی باتیں آپ کی صرف بدتمیزی سے بھری ہوئی ہیں اس لئے انکا جواب دینے کی ضرورت نہیں.

    آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ چلیں آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ غامدی صاحب تو بھٹکے ہوے ہیں، علماء یہود کی طرح آیات کو بیچ رہے ہیں، لیکن امام ابو حنیفہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا انکے بارے میں بھی ایسے ہی الفاظ استعمال کریں گے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

5 Responses

  1. جاوید احمد غامدی کا مضمون “توهینِ رسالت کی سزا کی شرعی حثیت” پڑها.پڑه کرحیرانگی بهی هوئی اور دکه بهی هوا.حیرانگی اس بات کی که ایسے انسان کو ایک عالم اور علامه کے طور پر پیش کیا جا رها هے جو انسان قرآن وحدیث کا سطعی علم بهی نهیں رکهتا.اور دکه اس بات پر هے که یه انسان جو منه میں آتا هے.که دیتا هے مگر عالمِ اسلام کے علماء کے کانوں تک جوں تک نهیں رینگتی.
    موصوف توهینِ رسالت کے پاکستان میں مروجه قانون کو یه که کر ٹکهرا رها هے که قرآن و حدیث میں اس کی کوئی دلیل نهیں.اوپر سے موصوف سورت مائده کی آیات ۳۳؛۳۴کی طرف توجه دلواتا هے اور کهتا هے که ان آیات کا سرے سے اس قانون سے کوئی تعلق نهیں لیکن اگر تعلق هو بهی تو اس وقت تک گستاخِ رسول کو سزا نهیں دی جا سکتی جب تک وه اپنی گستاخی میں فساد کی حد کو نه پهنچ جائے اور پهر بهی اسے فوراََ سزا نه دی جائے بلکه جب وه یه گستاخی بار بار کرے تو تب اس کو سزا دی جائے اور یه بهی کهتا هے که ضروری نهیں که اسے سزائے موت دی جائے بلکه جو سزائیں اس آیت میں بیان کی گئی وه بهی دی جا سکتی هیں.موصوف اپنے الفاظوں کو قلابازیاں کهلا کر همارے ذهنوں کو بهی قلا بازیاں کهلانے کی بهر پور کوشش کرتا هے.
    میں غامدی صاحب سے چند سوال کرتا هوں:
    کیا غامدی صاحب نے کبهی آرٹیکل چه (۶) کو توڑنے کی سزا سزائے هے کے خاتمه کی کبهی بات کی؟جو که ایک عام انسان کا بنایا هوا آئین هے.اور جس کی بعض شکیں اسلام اور عام انسانی حقوق کے بهی خلاف هیں جیسا که صدر اور گورنرز کو استثناء حاصل هے.
    کیا غامدی صاحب نے سورت نساء کی آیت نمبر ۶۵کا مطالعه کیا اور اس کا شانِ نزول پڑها؟جس میں جو کوئی حضوراکرم صلی الله علیه وسلم کے فیصله کرنے کے بعد اس میں شک کرے اور کسی اور سے فیصله کروانے جائے اور کوئی اوربهی حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنه هوں.تو ایسے گستاخ کی سزا کیا هوئی هم سب جانتے هیں.اسی آیت میں یه بتایا گیا که جو رسول الله صلی الله علیه وسلم کے حکم میں دل میں حرج بهی لائے تو وه ایماندار نهیں ره سکتا چه جائے که الله اور رسول کے احکام کو اپنی غلط توجیهوں سے هی رد کر دیا جائے.اور لوگوں کو طرح طرح کی کهانیاں سنا کر گمراه کیا جائے.
    میں نے فیملی پلاننگ کا مضمون بهی پڑها تها جس میں ایسی آیات کا حواله دیا گیا جن کا اس مضمون سے کوئی تعلق نهیں تها اور اس مضمون میں بهی ایک ایسی هی ناپاک کوشش کی گئی هے.غامدی کی زبان ایسے قوانین کے خلاف کیوں نهیں کهلتی جو انسان کے بنائے هوئے قوانین کو توڑنے پردی جاتی هیں.کسی ملک کے بادشاه کی گستاخی کیسزا موت هو تو غامدی خوشامدی ثابت هوتا هے اور اگر بات هو سرورکونین کی تو اسے انسانیت کا درد ستانے لگتا هے.اگر یه کهتا که اس سزا کو نافذ کرنے کے لیے عدل کے تقاضے پورے هونے چاهیں تو بات سمجه میں آتی هے لیکن سرے سے گستاخِ رسول کی سزا کو یه که کر ختم کروانا که قرآن و حدیث میں اس کی کوئی دلیل نهیں اس سے بڑا ظلم کوئی اور نهیں.
    غامدی کا طرزِ عمل ان یهودی علماء کی طرح هے جو آیات کو معمولی داموں پیچتے تهے اور بعض آیات کو مانتے اور بعض کا کفر کرتے تهے.
    میں جاوید احمد غامدی کو اپنے عقیده کوصحیح کرنے کی نصیحت کرتا هوں اور رسول اکرم صلی الله علیه وسلم سے گستاخی کرنے کے جرم کی توبه کی تاکید کرتا هوں .اگر باربار کی واعظ اورنصیحت اثر نهیں کرے گی تو پهر قانونِ اسلام حرکت میں آئے گا

  2. بہت بہترین اور چشم کشا مضمون ہے۔ توہین رسالت کے ضمن میں اسلامی نقطہ نظر کی صراحت اتنے حقیقی انداز میں کی گئی ہے کہ یہ دعویٰ کہ اسلام دین فطرت ہے سچ ثابت ہو جاتا ہے۔ ہمارے توہین رسالت کے قانون میں تبدیلیاں ضروری ہیں یہ غامدی صاحب کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ جان کر بھی ادراک ہوتا ہے کہ ہمارا قانون مجرد شہادت پہ سزا سناتا ہے۔ ملزم کو صفائی کا کوئی بھی موقع دیے بغیر۔ انتہائی حیرت کا مقام ہے۔ مسلمان کبھی بھی انتہا پسند نہیں رہے۔ اسلام ایک معتدل مزاج دین ہے جو انسانی فطرت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ ویسے عام زندگی میں ہم اسلامی تعلیمات کو چاہے پس پشت ڈال دیں چاہے لیکن محض عورت اور دوسروں پر گرفت کرنے کے معاملے میں کیوں یک دم ہم سب کی دینی غیرت جاگ اٹھتی ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسلام کو اپنائیں تو پوری طرح سمجھ کے۔ صرف دوسروں کو ایذا دینے کے واسطے کیوں

  3. ملا کہیں کا بھی ہو وہ تھوڑا سا واپسی کا راستہ چھوڑتا ہے، یہی کچھ جاوید غامدی صاحب نے بھی کیا ہے، محارب کو توہین کے ساتھ جوڑنا سوائے لوگوں کو خوش کرنے کے اور کیا ہے کہ دیکھئے کچھ تو گنجائش رکھی۔ اس آیت کو سادے الفاظ میں پڑھیے سوائے اس کے اور کیا لکھا ہے کہ جو جنگ کرے اس کی سزا بتائی گئی ہے۔ ہاں ایک حرب کا ذریعہ ہے پراپگنڈا کا محاذ لیکن وہ بھی اسی صورت کہ جنگ بھڑکانے کی کوشش کی جائے، عربی بدوی معاشرے میں یہ بھی خطرناک ہوتا تھا اور ایسے جنگ بھڑکانے کی مثالیں بھی ملتیں ہیں۔ آخر ان ملاؤں سے قول سدید کیوں نہیں نکلتا۔۔۔
    نہیں کوئی آیت توہین رسالت کا حکم نہیں دیتی
    نہیں کوئی آیت ارتداد کی سزا قتل نہیں دیتی
    نہیں حدیث میں سوائے اسکے کہ کسی نے ایسے جرم کیے ہوں کہ اسکی سزا قتل بنتی ہے (قتل و فساد) ورنہ کسی شخص کو قتل کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہی حال ارتداد کا ہے۔
    قرآن بھرا پڑا ہے کہ تجھ سے تمسخر کرتے ہیں، پچھلوں سے بھی کیا تھا، صبر کر، جہاں بھی سزا سنائی یہی کہ ہم سزا دیں گے، کوئی دنیوی سزا نہیں ہے۔ ایسے ہی مومنوں کو کہا کہ جب بھی یہ تمسخر کریں تو “سلام ” (جی ہاں کافروں کو جو تمسخر کر رہے ہیں) کہ کے اٹھ آؤ۔
    آخر یہ ملّا کھل کے سچ کیوں نہیں بولتے!!!

  4. آپ نے غامدی صاحب کی علمی حقیقت تو واضح کرنے کی پوری کوشش کی لیکن آپ کے جواب میں کچھ بھی علمی استدلال موجود نہیں. آپ نے یہ الزام تو لگا دیا کہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ قرآن میں اس قانون کی کوئی بنیاد نہیں، تو بھائی میرے اسکے جواب میں آپ کو قرآن کی وہ آئیت پیش کرنی چاہیے تھی جس میں یہ حکم موجود ہو، لیکن مجھے آپ کے جواب میں ایسی کوئی بات نہیں مل سکی…. کسی پہ خالی اعتراض کرنا دنیا کا آسان ترین کام ہے لیکن صرف اعتراض کرنا کافی نہیں، اسکے لئے کوئی حوالہ بھی تو دیں

    سورہٴ مائدہ کی جن آیات کا ذکر آپ نے کیا ہے انکا ترجمہ پیش ہے:

    “جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا (بھاری) عذاب تیار ہے”

    تو بھائی جی، اس آئیت میں کہاں توہین رسالت کی بات ہو رہی ہے؟ ٢ باتیں ہیں یہاں:

    ١- وہ لوگ جو الله اور الله کے رسول سے لڑائی کریں
    ٢- ملک میں فساد پیدا کریں

    اب اگر کوئی یہ کہے کہ توہین رسالت بھی ملک میں فساد پیدا کرنا ہی ہے تو یہ تو الگ بات ہے، اور اسکا ذکر غامدی صاحب نے بھی کیا ہے لیکن اس آئیت میں اصلاّ تو توہین رسالت کا کوئی ذکر نہیں. اگر یہ بات مان بھی لی جائے تب بھی سزا میں 4 چیزیں بیان ہوئی ہیں جبکہ پاکستان کے مروجہ قانون میں صرف ١….. باقی ٣ کہاں گئیں؟

    اب آتے ہیں آپ کے سوالات کی طرف:

    ١-
    کیا غامدی صاحب نے کبهی آرٹیکل چه (۶) کو توڑنے کی سزا سزائے هے کے خاتمه کی کبهی بات کی؟جو که ایک عام انسان کا بنایا هوا آئین هے.اور جس کی بعض شکیں اسلام اور عام انسانی حقوق کے بهی خلاف هیں جیسا که صدر اور گورنرز کو استثناء حاصل هے.

    جواب: آپ نے اگر نہیں سنی تو اسمیں کوئی اور بندہ کیا کرسکتا ہے

    ٢. کیا غامدی صاحب نے سورت نساء کی آیت نمبر ۶۵کا مطالعه کیا اور اس کا شانِ نزول پڑها

    جواب:

    آئیت کا ترجمہ یہ ہے:

    “تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے”

    اسمیں کہاں کہا گیا ہے کہ جو بات نا مانیں اسکو قتل کر دو؟

    رہی بات اسکے شان نزول کی تو وہ بھی دیکھ لیتے ہیں:

    جو واقعہ امام بخاری اور دوسرے ائمہ محدثین نے اِس کی شان نزول کے طور پر بیان کیا ہے اور جسے مفسرین بالعموم نقل کرتے ہیں، وہ اِس کے برخلاف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر کا ایک انصاری سے پانی پر اختلاف ہو گیا۔ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ زبیر اپنے کھیت کو سیراب کرکے باقی پانی اُس کے لیے چھوڑ دیں گے۔ اِس پر انصاری نے فوراً کہا: یا رسول اللہ، اِس لیے نا کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ یہ صریح بے انصافی اور اقرباپروری کا اتہام اور انتہائی گستاخی کی بات تھی۔ چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، مگر آپ نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنی بات مزید وضاحت کے ساتھ دہرا دی اور فرمایا کہ کھیت کی منڈیر تک پانی روک کر باقی اُس کے لیے چھوڑ دیا جائے

    یہاں کچھ مفسرین نے الگ واقعہ بیان کیا ہے جسکا حوالہ آپ نے دینے کی کوشش کی ہے لیکن وہ ایک غریب اور مرسل روایت ہے، اور امام بخاری نے اسکو نہیں لیا بلکہ اوپر والا واقعہ لکھا ہے. صرف امام بخاری ہی نہیں بلکہ امام مسلم، امام مالک، ابو داود، نسائی کسی نے بھی اسکو اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا…. اب آپ ہی باتیں کہ میں کس کی بات مانوں؟ امام بخاری و مسلم یا پھر کوئی اور؟

    باقی باتیں آپ کی صرف بدتمیزی سے بھری ہوئی ہیں اس لئے انکا جواب دینے کی ضرورت نہیں.

    آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ چلیں آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ غامدی صاحب تو بھٹکے ہوے ہیں، علماء یہود کی طرح آیات کو بیچ رہے ہیں، لیکن امام ابو حنیفہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا انکے بارے میں بھی ایسے ہی الفاظ استعمال کریں گے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *