تم جانتے ہو
مرد اسے دیکھ کر غیبت بھری سرگوشیاں کرنے لگتے ہیں
اور عورتیں حسد بھری کن اکھیوں سے ایک نظر ڈال کر منہ موڑ لیتی ہیں
مگر میں اسے مبہوت ہوکر دیکھتی رہتی ہوں
میں اس خوبصورت عورت کی طرح بننا چاہتی ہوں
جس کی آنکھوں سے قوس قزح پھوٹتی ہے
اور ہونٹوں پر ستارے جگمگاتے ہیں
اس کی صراحی دار گردن کی تمکنت کو
بہاریں رک کر دیکھتی ہیں
میں ہمیشہ یونہی رہنا چاہتی ہوں
جیسے وہ عورت
سیب کی ابھی ابھی تراشی قاش کے جیسی خوشبودار ہے
اس کے بدن سے پھوٹتی حدت
جذب کر لینا چاہتی ہے زمین اور آسمان
وہ اپنی پوروں سے پگھلا سکتی ہے برف
برسا سکتی ہے کچی مٹی کی کورے پن سے لبریز سوندھی بارش
وہ ہوا کے سانس جذب کر لیتی ہے
دھڑکنے لگتی ہے منظروں کے آئینے میں
اوجھل ہو جاتی ہے آئینے کے عکس سے
اور تمھارے بدن کا ہیولی’ بن جاتی ہے
پوروں کے طلسم سے
ان دیکھے راستے تحریر کرتی ہے
بدن کی پگڈنڈیوں کو
دل کے قدموں سے عبور کر لیتی ہے
اور بھولنے نہیں دیتی
مسافر کو راستہ
میں اس خوبصورت عورت کی طرح کیوں بننا چاہتی ہوں؟
تم جانتے ہو !
اور عورتیں حسد بھری کن اکھیوں سے ایک نظر ڈال کر منہ موڑ لیتی ہیں
مگر میں اسے مبہوت ہوکر دیکھتی رہتی ہوں
میں اس خوبصورت عورت کی طرح بننا چاہتی ہوں
جس کی آنکھوں سے قوس قزح پھوٹتی ہے
اور ہونٹوں پر ستارے جگمگاتے ہیں
اس کی صراحی دار گردن کی تمکنت کو
بہاریں رک کر دیکھتی ہیں
میں ہمیشہ یونہی رہنا چاہتی ہوں
جیسے وہ عورت
سیب کی ابھی ابھی تراشی قاش کے جیسی خوشبودار ہے
اس کے بدن سے پھوٹتی حدت
جذب کر لینا چاہتی ہے زمین اور آسمان
وہ اپنی پوروں سے پگھلا سکتی ہے برف
برسا سکتی ہے کچی مٹی کی کورے پن سے لبریز سوندھی بارش
وہ ہوا کے سانس جذب کر لیتی ہے
دھڑکنے لگتی ہے منظروں کے آئینے میں
اوجھل ہو جاتی ہے آئینے کے عکس سے
اور تمھارے بدن کا ہیولی’ بن جاتی ہے
پوروں کے طلسم سے
ان دیکھے راستے تحریر کرتی ہے
بدن کی پگڈنڈیوں کو
دل کے قدموں سے عبور کر لیتی ہے
اور بھولنے نہیں دیتی
مسافر کو راستہ
میں اس خوبصورت عورت کی طرح کیوں بننا چاہتی ہوں؟
تم جانتے ہو !
Image: Vladimir Benfialov