سندھ جہاں لاڑکانہ میں شہید بے نظیر میڈیکل یونیورسٹی موجود ہے اب سرکاری سطح پربلاول میڈیکل کالج برائے طلبا کے قیام کا فیصلہ تعلیم سے متعلق اس سیاسی ایجنڈے کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے جس کے تحت نظام تعلیم کو سیاسی جماعتوں کا ووٹ بنک بڑھانے کا ایک ذریعہ سمجھا گیا ہے اور نصاب اور تعلیمی اداروں کو سیاسی نظریات کے تحت بنایا اور چلایا جاتا رہاہے۔ سیاسی ایجندے کے تحت نظامِ تعلیم کی تشکیل اور تنظیم کا عمل محض اداروں کے ناموں تک محدود نہیں بلکہ یہ نصاب میں انتخابی نعروں، سیاسی نظریات اور قائدین کی سوانح کی شمولیت سے لے کر سیاسی تقرریوں اور بھرتیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں برسراقتدار جماعت تحریک انصاف اور اس کی حلیف جماعت اسلامی کی ایماء پر صوبہ کے نصاب میں اتحادِ عالم اسلام اور کرپشن کی روک تھام سے متعلق مذہبی مواد کی شمولیت کے سیاسی مقاصد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔نصابی کتب میں ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے ابواب میں مسلم لیگ کے علاوہ دیگرسیاسی جماعتوں کےکردار کو دانستہ نظر انداز کرنے سے پنجاب میں مسلم لیگ نواز کو سیاسی فائدہ ہوا ہے۔
خیبر پختونخواہ میں برسراقتدار جماعت تحریک انصاف اور اس کی حلیف جماعت اسلامی کی ایماء پر صوبہ کے نصاب میں اتحادِ عالم اسلام اور کرپشن کی روک تھام سے متعلق مذہبی مواد کی شمولیت کے سیاسی مقاصد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔نصابی کتب میں ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے ابواب میں مسلم لیگ کے علاوہ دیگرسیاسی جماعتوں کےکردار کو دانستہ نظر انداز کرنے سے پنجاب میں مسلم لیگ نواز کو سیاسی فائدہ ہوا ہے۔
تقسیم کے بعد سے اب تک قوم پرستی، اشتراکیت، جمہوریت اور انسانی حقوق کے تصورات کو اس انداز میں پیش کیا جاتا رہا ہے کہ وہ مقتدر طبقات کے اقتدار اور آمرانہ رویہ کا جوازفراہم کر سکیں ۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے نصاب میں ہندوستان مخالف پراپیگنڈا اور مسخ شدہ تاریخ کی تدریس کے ذریعہ ایک ایسی نسل کی ذہن سازی کی گئی جو مستقبل میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا ووٹ بنک بنی ۔ نصابی کتب میں اسی کی دہائی میں بائیں بازو کی اشتراکی اور ترقی پسند فکر کا مقابلہ کرنے کے لئےدائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی مذہبی اور قدامت پرست فکر کو نصاب کا حصہ بنایا جس کے باعث نوے کی دہائی میں مسلم لیگ نوازاور جماعت اسلامی جیسی جماعتیں ووٹ حاصل کرتی آئی ہیں، یہی نصاب پڑھنےوالی نسل اب تحریک انصاف کاووٹ بنک بنتی دکھائی دے رہی ہے۔اس نسل کو پڑھائے جانے والے نصاب میں جہاں قوم پرست رہنماوں اور ترقی پسند دانشوروں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہیں فوج کے کردار پر تنقید کے فقدان سے فوج کی سیاسی حیثیت مضبوط کی گئی ہے اور فوجی آمروں کی مداخلت کے خلاف عوامی ردعمل کم زور ہوا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے نجی شعبہ میں قائم کئے جانے والے تعلیمی ادارے بھی سیاسی جماعتوں کی افرادی قوت بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔ منہاج القرآن کے طلبہ علامہ طاہرالقادری کے انقلابی ایجنڈے کی اہم ترین افرادی قوت ہیں،اسی طرح منصورہ میں قائم تعلیمی ادارے اور دارارقم سکول سسٹم ایک ایسی افرادی قوت کی تشکیل میں مصروف ہے جو جماعت اسلامی کے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنا سکے۔ گو کہ سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی جانب سے تعلیمی اداروں کا قیام خوش آئند امر ہے تاہم ان تعلیمی اداروں کے ذریعہ سیاسی مقاصد کا حصول ایک تشویش ناک امر ہے۔
فوجی آمروں اورجمہوری جماعتوں کے ادواراقتدار میں اپنے ووٹ بنک کو برقراررکھنے کے لئے محکمہ تعلیم میں کی گئی سیاسی بھرتیوں کے باعث بھی تعلیمی اداروں کا ماحول متاثرہواہے۔ یونیورسٹی وائس چانسلرز کے انتخاب میں سیاسی وابستگی کو مدنظر رکھنا پاکستان میں اب ایک عام چلن ہے۔ اسی کی دہائی میں پاکستان بھر میں جماعت اسلامی سے وابستہ اساتذہ بھرتی کئے گئے اور اشتراکیت پسند یا پیپلز پارٹی سے وابستہ مدرسین کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا گیا۔سیاسی جماعتوں کے علاوہ تعلیمی اداروں میں سابق فوجی سربراہوں کی تعیناتی کا سلسلہ مشرف دور تک جاری رہا ہے۔
ایک قومیت کی تشکیل کے عسکری ایجنڈے، مسلم اتحاد کی قدامت پرست فکر اور مسلم اکثریتی نقطہ نظر کی تدریس کا عمل اگر روکا نہیں گیا تو پاکستان میں فکری مباحث، تکثیریت پسند سماجی اقدار،اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ، شہری اور سیاسی شعور کی بیداری اور جمہوری نظام کے استحکام جیسے مقاصد کبھی حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔

Leave a Reply