پشاور میں سکول پر حملہ صرف ایک حملہ یا بچوں کی ہلاکت نہیں بلکہ ہمارے مستقبل پر حملہ ہے۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران سکولوں پر ایک ہزار سے حملے کر کے طالبان نے واضح کردیاہے کہ ان کا پشت پناہ کوئی بھی ہو ان کا ہدف ایک ہی ہے؛ ہماری آنے والی نسلوں کو تعلیم سے محروم رکھنا۔ طالبان کے خلاف رائے عامہ ہموار ہونے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اس شدت پسندی سے تنگ ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی آنے والی نسلوں کو تحفظ ملے۔ عمران خان اور نواز شریف جیسے دائیں بازو کے طالبان کی جانب جھکاو رکھنے والے رہنماوں کا طالبان کے خلاف کارروائی پر متفق ہوجانا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی سیاسی قیادت کو خطرے کا ادراک ہے لیکن کیا شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات واقعی کافی ہیں؟
اگر طالبان بندوق کے زور پر ہمارے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا جواب بندوق سے دینے کے ساتھ ساتھ کتاب اور قلم سے دینا بھی ضروری ہے۔
پاکستانیوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ شدت پسندی کا واحد جواب تعلیم اور صرف تعلیم ہے۔ اب وقت ہے کہ ہر بچے کو سکول جانے، پڑھنے اور آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے۔ اگر طالبان بندوق کے زور پر ہمارے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا جواب بندوق سے دینے کے ساتھ ساتھ کتاب اور قلم سے دینا بھی ضروری ہے۔ اگر وہ سکول دھماکے سے اڑانا چاہتے ہیں تو ہمیں سکول تعمیر کرنے ہوں گے۔ اگرجنگجو لڑکیوں کو سکول جانے سے روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر بچی کو بستہ اور یونیفارم پہنا کر سکول کا راستہ دکھانا ہوگا۔ اگر وہ ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں اپنے مدارس اور پراپیگنڈا سے فرقہ واریت اور شدت پسندی کا زہر انڈیلنا چاہتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھمانا چاہتے ہیں تو ہمیں ہرشدت پسند فکر کا جواب دینا ہوگا، اظہار رائے کی آزادی اور جمہوری اقدار کو پروان چڑھانا ہوگا۔
ہمارے دشمن اپنا حوصلہ تب ہی ہار جائیں گے جب ہر بچہ سکول جائے گا ، آج ہمیں نہ مزید چھاونیوں کی ضرورت ہے نہ ایف سولہ کی ،اب ہمیں سکولوں ، قلم اور کتابوں کی ضروت ہے۔
یہ وقت ہے کہ اب ہم اپنے مدارس کے نصاب پر غور کریں، جمعہ کے خطبہ کے متن کا جائزہ لیں اور فرقہ وارانہ تکفیری لٹریچر کی نگرانی کریں۔ریاست کو محض دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گرد تیار کرنے والے مدارس اور نظریات کو ختم کرنے پر اہنے وسائل صرف کرنا ہوں گے۔ لوگوں کو دہشت گردوں کے ساتھ دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کو بھی مسترد کرنا ہوگا۔ یہی موقع ہے کہ سازشی مفروضوں کی بجائے تحقیق کے چلن کو عام کیا جائے، مذہبی علماء کی اندھی تقلید کی بجائے سوال کرنے کی روش پروان چڑھائی جائے اور جہادی جماعتوں کو دیے جانے والے چندے کا رخ فلاح کی طرف موڑا جائے۔ اب ضروری ہے کہ اوریا مقبول جان اور زید حامد جیسے طالبان پسند "مبلغین” کی جگہ روشن خیال اور ترقی پسند دانشوروں کی بات سنی جائے۔
پاکستانی ریاست کواندرونی اور بیرونی خطرات سے دفاع کے لیے نہ ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت ہے نہ لاکھوں فوجیوں کی بلکہ پڑھے لکھے، ہنر مند اور باصلاحیت نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ہمارے دشمن اپنا حوصلہ تب ہی ہار جائیں گے جب ہر بچہ سکول جائے گا ، آج ہمیں نہ مزید چھاونیوں کی ضرورت ہے نہ ایف سولہ کی ،اب ہمیں سکولوں ، قلم اور کتابوں کی ضروت ہے۔ ہمیں جس جہاد کی ضرورت ہے وہ بندوقوں اور تلواروں کا جہاد نہیں بلکہ ا-ب-پ کا جہاد ہے، ہمیں جس جنگ کو لڑنا ہے وہ طالبان کے خلاف نہیں بلکہ ان مدارس اور ان مذہبی تشریحات کے خلاف جنگ ہے جو طالبان پیدا کرتے ہیں۔
Leave a Reply