سانحہ پشاور کے تناظر میں تعلیمی اداروں کو درپیش خطرات کے پیش نظر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے درس گاہوں کے تحفظ کے لیے سکیورٹی کی فراہمی، پولیس گشت میں اضافہ اور چاردیواریوں کی تعمیر سمیت متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ ذیل میں لالٹین قارئین کی دلچسپی کے لیے ان اقدامات کی تفصیل فراہم کی جارہی ہے۔
موبائل ایپ اور ایمرجنسی سروس کا آغاز
اسلام آباد اور خیبر پختونخواہ پولیس نے سکولوں کے تحفظ کے لیے ون کلک موبائل ایپس متعارف کرائی ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ نظام پشاور اور اسلام آباد کے سکولوں کے لیے متعارف کرایا گیا ہے تاہم خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت اس سروس کا دائرہ کار پورے صوبے تک بڑھانے کی خواہا ں ہے۔ اسلام آباد میں متعارف کرائی جانے والی سروس پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ایک نجی سافٹ وئیر ڈویلپر کمپنی Pure Push کے اشتراک سے متعارف کرائی ہے۔ اس سروس کے تحت اسلام آباد کے تمام سکولوں اور ہسپتالوں پر حملے کی صورت میں محظ ایک کلک سے متعلقہ تھانوں اور پولیس یونٹس کو فوری مدد کا پیغام بھیجا جا سکتا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے ایک سافٹ وئیر ڈویلپر اسد اقبال نے گوگل ارتھ سے منسلک ایک ایسی ایپ بھی تیار کی ہے جو والدین کو طلبہ کے محل وقوع سے خودبخود ایک پیغام کے ذریعہ آگاہ کرتی ہے۔ یہ موبائل ایپس مفت ڈاون لوڈ کی جا سکتی ہیں۔ انسداددہشت گردی کے قومی ادارے نیکٹا نے بھی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے مفت ہیلپ لائن 1717 متعارف کرائی ہے،دہشت گرد حملے کی صورت میں اس ہیلپ لائن کے ذریعے فوری مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔
اساتذہ کو لائسنس یافتہ اسلحہ رکھنے کی اجازت
خیبر پختونخواہ حکومت نے صوبے بھر کے سکولوں کے تحفظ کے لیے اساتذہ کو لائسنس یافتہ اسلحہ سکول حدود میں رکھنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مقصد دہشت گردوں کے حملے کی صورت میں حملہ آوروں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد پہنچنے تک الجھائے رکھنا ہے۔ حکومت نے یہ اقدام صوبے میں پولیس اہلکاروں کی کمی کے باعث اٹھایا ہے۔ صوبائی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید بھی کی جارہی ہے اور اساتذہ تنظیموں نے بھی ا س پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بعض حلقوں کے خیال میں اس مقصد کے لیے اضافی محافظ بھرتی کیے جانے چاہئیں۔
طلبہ کو شہری دفاع کی تربیت کی فراہمی
پنجاب حکومت کالج طلبہ کو شہری دفاع یا National Cadet Corps کی تربیت فراہم کرنے اک سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع کر نے کی خواہاں ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود کے مطابق کالج کے طلباو طالبات کو شہری دفاع، ریسکیو 1122 اور دیگر اداروں کی مدد سے بنیادی شہری دفاع کی تربیت فراہم کی جائے گی۔ اس تربیت کا مقصد دہشت گردوں کے حملوں کی صورت میں ساتھی طلبہ اور اساتذہ کا تحفظ اور سلامتی یقینی بنانا ہے۔
تعلیمی اداروں میں حفاظتی انتظامات
پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں کے لیے کم سے کم آٹھ فٹ اونچی چاردیوار، مسلح محافظوں کی تعیناتی، خاردار تار اور کلوز سرکٹ کیمروں کی تنصیب، تمام عملے کے مکمل کوائف کا ریکارڈ رکھنے جیسے اقدامات لازم قرار دیے گئے ہیں۔
غیر ملکی طلبہ کی نگرانی
افغانستان، چین اور خلیجی ریاستوں کے طلبہ کے دہشت گرد تنظیموں سے روابط کے پیش نظر غیر ملکی طلبہ کے کوائف کی چھان بین شروع کی جارہی ہے۔ وزارت داخلہ نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے غیر ملکی طلبہ سے متعلق تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ ایچ ای سی کے مطابق پاکستان میں 6900 کے قریب غیر ملکی طلبہ مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ ان طلبہ کا تعلق افغانستان، چین، سعودی عرب اور خلیجی اور افریقی ریاستوں سے ہے۔
طلبہ کو این سی سی کی ٹریننگ دینے سے مستقبل بعید میں دہشت گردی کے خطرات بہت زیادہ ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ دہشت گرد ایسے طلبہ کو ہی جن کو اسلحہ استعمال کرنا آتا ہو اور انکی برین واشنگ کی جا سکتی ہو اپنے ساتھ ملا نے میں زیادہ آسانی محسوس کریں گے۔ دوسرے نمبر پر این سی سی کی ٹریننگ کے وقت ایک طالب علم کی عمر ایسی ہوتی ہے کہ وہ منفی سرگرمیوں کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں۔ اگر طلباء کو این سی سی کی تریننگ دینی ہی ہے تو پھر ان کی ہر حرکت پر ، ملنے جلنے والے پر اور ہر طالب علم کے دوستوں اور گردونواح پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔