تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی کی توجیہہ، جواز اور ضرورت سے آگاہ کیے بغیر یہ فیصلہ اپنی جگہ ناقابل فہم بھی ہے اور ابہام کا باعث بھی۔
تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی کی توجیہہ، جواز اور ضرورت سے آگاہ کیے بغیر یہ فیصلہ اپنی جگہ ناقابل فہم بھی ہے اور ابہام کا باعث بھی۔ پاکستانی تعلیمی اداروں میں جاری تبلیغی سرگرمیاں اگرچہ قابل اعتراض رہی ہیں اور شدت پسندی میں اضافے کا باعث بھی بنی ہیں، ان پر پابندی ضروری بھی ہے لیکن اس ضمن میں عائد کی جانے والی پابندیاں کس طرح، کن ثبوتوں کی بنیاد پر اور کس طریق کار کے تحت عائد کی جاتی ہیں یا کی جانی چاہیئں اس حوالے سے کوئی وضاحت سرکاری طور پر موجود نہیں۔ یہ بحث بھی کی جا سکتی ہے کہ کیا واقعی مخصوص تبلیغی تنظیموں جیسے تنظیم اسلامی اور حزب التحریر کی سرگرمیاں پاکستانی تعلیمی اداروں کے اساتذہ، عملے اور طلبہ کو شدت پسندی کی جانب مائل کرنے کا باعث بنتی رہی ہیں یا نہیں، یہ بھی درست ہے کہ بعض کالعدم جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیمیں بھی تعلیمی اداروں کے عملے اور طلبہ میں اثرورسوخ رکھتی ہیں لیکن بہت سے ایسی تبلیغی تنظیمیں بھی تعلیمی اداروں میں سرگرم رہی ہیں جو مذہبی احیاء اور اصلاح کی داعی ہیں اور ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ یہ قیاس آرائی بھی کی جا سکتی ہے دروس ہائے قرآن اور مذہبی تبلیغی جماعتوں سے متاثر ہونے والے بہت سے پڑھے لکھے نوجوان شدت پسندی کی جانب مائل ہوئے ہیں لیکن یہ تمام معاملہ ریاست کی سطح پر غیر جمہوری اندازمیں شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے افراتفری کے عالم میں کیے جانے والے دیگر اقدامات جیسا ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق یہ پابندی چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کے بعد تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے حکمت عملی کے تحت لگائی گئی ہے۔ اس پابندی کے نتیجے میں تبلیغی جماعت کے اراکین کے تعلیمی اداروں میں قیام اور تبلیغ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس حوالے سے جاری کیے گئے حکم نامے میں یونیورسٹی انتظامیہ کو عملے میں موجود دہشت گرد تنظیموں سے ہمدردی رکھنے والے افراد کے حوالے سے انتظامیہ کو آگاہ کرنے کا ذمہ دار بھی قرار دیا گیا ہے۔ یہ تبلیغی جماعت پر عائد کی گئی ایسی پہلی پابندی ہے۔ تبلیغی جماعت کو عام طور پر غیر سیاسی اور پرامن خیال کیا جاتا ہے۔ اس پابندی کے ضمن میں پنجاب حکومت کو کئی پہلووں پر پائے جانے والے ابہام پر وضاحت دینے کی ضرورت ہے، حکومت کو یہ واضح کرنا ہو گا کہ یہ پابندی کیوں عائد کی گئی ہے اور کس جواز کے تحت تبلیغی جماعت اور ان کی سرگرمیوں کو پابندی کی زد میں لایا گیا ہے۔ اگر یہ پابندی اس جماعت کے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط کے باعث اٹھایا گیا ہے تو اس حوالے سے کیا قانونی چارہ جوئی کی گئی ہے اور کیا ضابطے کی کارروائی مکمل کی گئی ہے یا نہیں؟ اگر یہ پابندی تبلیغی جماعت کی تبلیغی فکر کے باعث عائد کی گئی ہے تو کیا اس جماعت کے تبلیغی اجتماعات میں بھی اس فکر کے پرچار کے حوالے سے کوئی سدباب کیا گیا ہے یا نہیں؟ یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ کیا یہ پابندی کسی ایک جماعت کے اراکین کے لیے مخصوص ہے یا پھر تمام فرقوں کی تبلیغی سرگرمیاں اس کی زد میں آئیں گی؟
اگر یہ پابندی اس جماعت کے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط کے باعث اٹھایا گیا ہے تو اس حوالے سے کیا قانونی چارہ جوئی کی گئی ہے اور کیا ضابطے کی کارروائی مکمل کی گئی ہے یا نہیں؟
یہ امر بھی وضاحت طلب ہے کہ ایسے طلبہ جو تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں اور تبلیغی جماعتوں کا حصہ ہیں ان کی حیثیت کیا ہو گی؟ یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ کیا ہمہ قسم تبلیغی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے جو ایک بنیادی انسانی آزادیوں کے منافی ہے یا صرف ایسے افکار کی ترویج پر پابندی کا نفاذ کیا گیا ہے جو تشدد اور دہشت گردی کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ پابندی اگر ضابطے کی کارروائی مکمل کیے بغیر عائد کی گئی ہے تو آئین پاکستان، انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور تعلیم و تدریس کی روح کے بھی منافی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ اس بنیادی انسانی حق کے منافی ہے جو ہر فرد کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تبلیغ و ترویج کی اجازت دینے سے متعلق ہے۔ اس پابندی کا جواز صرف اس صورت میں ممکن ہے اگر یہ ایسے مذہبی نظریات کی ترویج پر پابندی ہے جو تشدد اور دہشت گردی کی ترویج کا باعث بنتے ہیں، لیکن اس صورت میں بھی یہ اطمینان کرنا ضروری ہے کہ کیا واقعی پابندی کا شکار ہونے والی جماعت ایسے نظریات کو بطور ایک جماعت نظریاتی طور پر تبلیغ کا محور بنائے ہوئے ہے یا نہیں۔
یہ پابندی کہیں زیادہ معقول اور منصفانہ قرار دی جا سکتی تھی اگر عوام الناس کو اس پابندی کی وجوہ اور ضرورت سے بھی آگاہ کیا جاتا، یہ پابندی ایک زیادہ قابل فہم اور قابل ستائش انداز میں عائد کی جا سکتی تھی اگر اس حوالےسے زیادہ جمہوری رویہ اپنایا جاتا۔ بادی النظر میں یہ پابندی اسی فکر کی عکاس ہے جو ہر پشتون کو طالبان کا ہمدرد قرار دیتی ہے اور ہر قبائلی کو تحریک طالبان کا سہولت کار سمجھ کر تلاشی لینے پر اکساتی ہے۔ یہ ممکن ہے (اور شاید ایسا ہے بھی) کہ تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں سے متاثر ہونے والے افراد بعد ازاں دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوتے ہوں لیکن اس انداز میں پابندی کا نفاذ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کے پاس کسی بھی مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ وہ اس پر پابندی عائد کر دے۔
ہمیں یہ پیغام دینا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے تمام نظریات کے حامل افراد کو مکالمے اور آزادانہ اظہار رائے کا حق دیتے ہوئے تعلیم دینے کے قائل ہیں جہاں تمام قومیتوں، فرقوں، مذہبوں اور سیاسی وابستگیوں کے حامل کھل کر اپنا نقطہ نظر بیان کر سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے سرکاری سطح پر اس حوالے سے کوئی وضاحت دستیاب نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس پابندی کو غیر منصفانہ اور کسی حد تک بنیادی انسانی آزادیوں کے منافی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یقیناً ہمیں شدت پسند نظریات اور ان کی ترویج کے خلاف قانون سازی کرنی ہے اور ہر سطح پر جہادی فکر اور تشدد کی تبلیغ کو روکنا ہے لیکن یہ عمل منصفانہ، انسانی حقوق کو یقینی بناتے ہوئے اور آئینی تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیئے۔ یہ پابندی اگر ضروری بھی ہے تو بھی اس سے زیادہ اہم معاملہ تعلیمی اداروں اور نظام تعلیم میں مکالمے اور سوال کی روایت کو زندہ کرناہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ریاست نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کے ذریعے ایک محدود مذہبی فکر کو مسلط کرے اور چند تبلیغی عناصر پر پابندی عائد کر کے نوجوان طالب علموں کو شدت پسندی کی جانب مائل ہونے سے روکنے میں کامیاب ہو جائے۔ سوال کرنے کی آزادی اور مکالمے کی علمی روایت کے بغیر تکفیری فکر اور جہادی بیانیے کا سدباب ممکن نہیں۔ ہمیں تبلیغی عناصر پر پابندی سے زیادہ اپنے نوجوانوں کو مروجہ مذہبی تشریحات اور قومی بیانیے کو سوال کی کسوٹی پر پرکھنے کی ہمت کفر دینا ہو گی، نظریات اور عقائد سے بالاتر ہو کر خوف سے عاری جرات تحقیق کی حوصلہ افزائی کرناہو گی اور ہمیں آزادی اظہار کے ان اخلاقی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کے درودیوار کو نظریاتی جبر سے رہا کرنا ہو گا جو ہماری علمی روایات کو گہنا رہا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ شدت پسند فکر آزادی اظہار رائے پر ایسی مبہم پابندیوں کے نفاذ سے ہی اپنی جگہ بناتی ہے۔
یہ پابندی اگر ضروری ہے تو اس حوالے سے ابہام دور کیا جانا، ضابطے کی کارروائی مکمل کرنا، انسانی آزادیوں کو یقینی بنانا اور مکالمے کی روایات کو تحفظ دینا ضروری ہے۔ ہمیں پابندی سے زیادہ نوجوانوں کو مذہبی فکر پر سوال اٹھانے اور تحقیق کرنے کی روش اپنانے پر آمادہ کرنا ہے۔ ہمیں یہ پیغام دینا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے تمام نظریات کے حامل افراد کو مکالمے اور آزادانہ اظہار رائے کا حق دیتے ہوئے تعلیم دینے کے قائل ہیں جہاں تمام قومیتوں، فرقوں، مذہبوں اور سیاسی وابستگیوں کے حامل کھل کر اپنا نقطہ نظر بیان کر سکتے ہیں۔ مکالمے کی آزادی یقینی بنائے بغیر، کمرہ جماعت کو اختلاف رائے کے لیے محفوظ بنائے بغیر اور طلبہ کو آزادی اظہار رائے کے مروجہ اصولوں کی تربیت دیے بغیر محض ایک یا تمام تبلیغی جماعتوں پر پابندی لگانا یا نہ لگانا ہمارے حبس زدہ تعلیمی نظام کے لیے کسی طرح سود مند ثابت نہیں ہو گا۔