سماجی اور معاشرتی تعلقات کے لئے تعصب غالباً خطرناک ترین رویہ ہے ،دیکھا جائے تو دنیا کہ کوئی خطہ یا معاشرہ تعصب سے پاک نہیں زندگی میں کبھی نہ کبھی ہر انسان کو اپنی شناخت کی وجہ سے تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے،ہم میں سے بیشتر افراد اپنی مذہبی،نسلی یا قومی شناخت کی بنیاد پر تعصب کہ شکار ہوتے ہی۔سوال یہ ہے کہ آخر تعصب کیو ں برتا جاتا ہے؟معنوی اعتبار سے تعصب کہ مطلب کسی فرد یا گروہ سےمتعلق اس کی جنس، رنگت، عقیدے ، پس منظریا قومیت کی بناء پررائےقائم کرلینا ہے
آباواجداد سے منتقل کئے گئے تعصبات کو آنے والی نسل بنا جانچ پرکھ کے قبول کر لیتی ہے۔تقسیم سے قبل ہندو اور سکھ آبادیوں سے متعلق جو تعصبات پاکستانیوں کو منتقل کئے گئے ہیں اب یہاں کی مقامی اقلیتوں سے نفرت اور علیحدگی کی وجہ بن چکے ہیں۔
اوراس فیصلے یا رائے میں تبدیلی کے امکان کوختم کر دینا ہے، اس کا مطلب ہے کہ مخصوص پس منظر کے حامل ہر فرد کو اس کی شناخت کی بنیاد پر جانچا اور پرکھا جائے گا اور اس ضمن میں حقائق کی بنیاد پر مزیدتفتیش یا تحقیق کی کوئی گنجائش نہیں۔
تعصب کی سب سے اہم وجہ وسائل یا اختیارات کی تقسیم کی لڑائی ہے جس کی بنیاد پر وسائل اور اختیارات تک رسائی نہ رکھنے والا گروہ اپنی ضروریات پوری نہ ہونے کی بناء پر وسائل اور اقتدار پر قابض لوگوں کے خلاف تعصب کو جنم دیتا ہے اور آنے والی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں۔وسائل سے محروم یہ مایوس اور جھنجھلایا ہوا طبقہ تعصب اور نفرت کے اظہار کے لئے تشددکا راستہ بھی اختیار کرسکتا ہے اور مخالف گروہ کے کمزور افرادکو نشانہ بناسکتا ہے جیسے ریاست کے استحصال کے خلاف بلوچ مزاحمت کاروں کا پنجابی آباد کاروں پر حملہ کرنا ایسی ہی ایک صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ معاشرہ اپنی معاشی اور سیاسی پیچیدگی تعصب کی شکل میں اگلی نسلوں تک منتقل کرتا ہے جو بہت حد تک ان تعصبات کو عقائد کی طرح تسلیم کرتے ہوئے اس نفرت کے وارث بن جاتے ہیں۔
ماہرین نفسیات اور سماجی سائنس دانوں کے مطابق تعصب نوجوان طبقے میں آسانی اور تیزی سے سرایت کرتا ہے،آباواجداد سے منتقل کئے گئے تعصبات کو آنے والی نسل بنا جانچ پرکھ کے قبول کر لیتی ہے۔تقسیم سے قبل ہندو اور سکھ آبادیوں سے متعلق جو تعصبات پاکستانیوں کو منتقل کئے گئے ہیں اب یہاں کی مقامی اقلیتوں سے نفرت اور علیحدگی کی وجہ بن چکے ہیں۔ بچے بہت جلد اپنے والدین اور معاشرے کے سکھائے تعصب اختیار کر لیتے ہیں اور پھر جلد ہی وہ خود براہ راست یا بالواسطہ تعصب کے فروغ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
تعصب کی سب سے اہم وجہ وسائل یا اختیارات کی تقسیم کی لڑائی ہے جس کی بنیاد پر وسائل اور اختیارات تک رسائی نہ رکھنے والا گروہ اپنی ضروریات پوری نہ ہونے کی بناء پر وسائل اور اقتدار پر قابض لوگوں کے خلاف تعصب کو جنم دیتا ہے اور آنے والی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں۔وسائل سے محروم یہ مایوس اور جھنجھلایا ہوا طبقہ تعصب اور نفرت کے اظہار کے لئے تشددکا راستہ بھی اختیار کرسکتا ہے اور مخالف گروہ کے کمزور افرادکو نشانہ بناسکتا ہے جیسے ریاست کے استحصال کے خلاف بلوچ مزاحمت کاروں کا پنجابی آباد کاروں پر حملہ کرنا ایسی ہی ایک صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ معاشرہ اپنی معاشی اور سیاسی پیچیدگی تعصب کی شکل میں اگلی نسلوں تک منتقل کرتا ہے جو بہت حد تک ان تعصبات کو عقائد کی طرح تسلیم کرتے ہوئے اس نفرت کے وارث بن جاتے ہیں۔
ماہرین نفسیات اور سماجی سائنس دانوں کے مطابق تعصب نوجوان طبقے میں آسانی اور تیزی سے سرایت کرتا ہے،آباواجداد سے منتقل کئے گئے تعصبات کو آنے والی نسل بنا جانچ پرکھ کے قبول کر لیتی ہے۔تقسیم سے قبل ہندو اور سکھ آبادیوں سے متعلق جو تعصبات پاکستانیوں کو منتقل کئے گئے ہیں اب یہاں کی مقامی اقلیتوں سے نفرت اور علیحدگی کی وجہ بن چکے ہیں۔ بچے بہت جلد اپنے والدین اور معاشرے کے سکھائے تعصب اختیار کر لیتے ہیں اور پھر جلد ہی وہ خود براہ راست یا بالواسطہ تعصب کے فروغ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
تعصبات عقائد، فنون، زبان، روایات اور لطائف کی صورت میں منتقل ہوتے ہیں اور انہیں زندہ رکھنے کے لئے عموماً ہر نسل نئے ہیروز اور ولن تراشتی ہے جس کی واضح مثال امریکہ اور ترقی یافتہ یورپ کے خلاف پائے جانے والی تعصب کی بنیاد پر ملالہ یوسفزئی کی جگہ عافیہ صدیقی کو ہیرو سمجھنا ہے۔
تعصبات عقائد، فنون، زبان، روایات اور لطائف کی صورت میں منتقل ہوتے ہیں اور انہیں زندہ رکھنے کے لئے عموماً ہر نسل نئے ہیروز اور ولن تراشتی ہے جس کی واضح مثال امریکہ اور ترقی یافتہ یورپ کے خلاف پائے جانے والی تعصب کی بنیاد پر ملالہ یوسفزئی کی جگہ عافیہ صدیقی کو ہیرو سمجھنا ہے۔ نفرت انگیزمواد کے ذریعہ ہر گروہ خاص مقصد یا محرک کے تحت غلط بیانی، الزامات، شکوک و شبہات اور تاریخ کی ہئیت کذائی کر کے اس کی اثر پزیرائی میں اضافہ کرتا ہے۔ مسلم معاشروں خصوصا پاکستان میں تعصب محرومیوں کا انتقام لینے کاواحد طریقہ ہے جس کی بنیاد پر تشدد اور نفرت انگیز مواد کی اشاعت کو معاشرتی تحفظ حاصل ہے۔
شناخت کی بنیاد پر انسانوں کی درجہ بندی اور ان کے متعلق تعصبات راسخ کرنے سے ہر گروہ میں ضمنی گروہ پیدا ہوتے ہیں اور تعصب کا دائرہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے، یہ تقسیم فرقہ بندی، صوبائیت اور سیاسی دھڑے بندیوں کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے جس کا نقصان سب سے زیادہ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو ہوتا ہے۔ اسی تعصب کی بنیاد پر کسی ایک فرد کا عمل پورے گروہ کی شناخت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ تعصب کا شکار افراد بعض اوقات لاشعوری طور پر ان مفروضوں کو تسلیم کر لیتے ہیں جو ان کے خلاف پھیلائے گئے ہوں جس سے اپنی شناخت اور پہچان سے بغاوت کے جذبات جنم لیتے ہیں جیسے تقسیم سے قبل برصغیر کے افراد انگریز آقاوں کے زیر اثر اپنے ہندوستانی پن سے متنفر ہو چکے تھے، اس اعتبار سے تعصب کا شکار افرادبیک وقت ظالم بھی ہوتے ہیں اور مظلوم بھی۔
شناخت کی بنیاد پر انسانوں کی درجہ بندی اور ان کے متعلق تعصبات راسخ کرنے سے ہر گروہ میں ضمنی گروہ پیدا ہوتے ہیں اور تعصب کا دائرہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے، یہ تقسیم فرقہ بندی، صوبائیت اور سیاسی دھڑے بندیوں کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے جس کا نقصان سب سے زیادہ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو ہوتا ہے۔ اسی تعصب کی بنیاد پر کسی ایک فرد کا عمل پورے گروہ کی شناخت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ تعصب کا شکار افراد بعض اوقات لاشعوری طور پر ان مفروضوں کو تسلیم کر لیتے ہیں جو ان کے خلاف پھیلائے گئے ہوں جس سے اپنی شناخت اور پہچان سے بغاوت کے جذبات جنم لیتے ہیں جیسے تقسیم سے قبل برصغیر کے افراد انگریز آقاوں کے زیر اثر اپنے ہندوستانی پن سے متنفر ہو چکے تھے، اس اعتبار سے تعصب کا شکار افرادبیک وقت ظالم بھی ہوتے ہیں اور مظلوم بھی۔