یہ معصوم بچہ، والدین کے ہمراہ اپنا گھر بار، مال ومتاع، تمام قیمتی اشیاء بیچ کر، اپنا شہر، ملک،بچپن، دوست احباب، اپنی چھوٹی سی دنیا کی تمام خوشیاں چهوڑ کر ایک ایسی دھرتی کی تلاش میں نکلا تھا، جہاں انہیں زندہ رہنے کی آزادی ہو۔
دریا کنارے پُرسکوں انداز میں سویا ہوا، اوندھا پڑا، ہر فکر سے آزاد، یہ معصوم سا بچہ، پانی پی رہا ہے، شاید پیاسا ہوگا؟؟
نہیں ۔ ۔ نہیں ۔ ۔
شاید رزق کی تلاش میں آیا ہوگا،بھوکا ہوگا؟؟
نہیں یہ بھوکا بھی نہیں۔
پھر تو یہ سمگلر ہوگا،کسی نے مارا ہوگا؟؟ اتنا کم سن سا سمگلر ؟؟
نہیں یہ سمگلر کیسے ہو سکتا ہے؟
پھر شاید بہتر نوکری یا ملازمت کے لیے یورپ جارہا ہو گا کہ سمندر کی نذر ہوگیا !!
مہاجر؟ مہاجر کون؟
دہشت گرد؟
نہیں !!
غریب، فقیر؟
نہیں!!
معذور، بیمار، ذہنی مریض؟
وہ بھی نہیں!!
پیسے کا بھوکا کسی سرمایہ دارکا بیٹا؟
نہیں !!
تو پھر یہ معصوم سا بچہ کون تھا؟
اپنی ماں کی آنکھوں کا تارا، باپ کا پیارا یہ معصوم بچہ، والدین کے ہمراہ اپناگھر بار، مال ومتاع، تمام قیمتی اشیاء بیچ کر، اپنا شہر، ملک،بچپن، دوست احباب، اپنی چھوٹی سی دنیا کی تمام خوشیاں چھوڑ کر ایک ایسی دھرتی کی تلاش میں نکلا تھا، جہاں انہیں زندہ رہنے کی آزادی ہو۔ محبت کی ایک وادی ہو۔خوشیاں سب کی سانجھی ہوں۔لیکن اس بچے کو ہرگز یہ معلوم نہ تھا کہ اس رستے پر قدم قدم پر خطرہ ہے۔ بھوکے پیاسے، گرتے پڑتے، چلتے چلتے دشوار سرحد تک جانا ہوتا ہے۔جہاں خاردار تاریں ہوتی ہیں، اسلحہ تھامے محافظ اور ممنوعہ جاگیریں ہوتی ہیں۔ جب تیز آہنی خاردارتاروں سے نہ چاہتے ہوئے بھی چل کر گزرنا ہوتا ہے تو جسم پر خراشیں پڑتی ہیں۔پھر انہیں تنگ وتاریک آہنی اور مضبوط کنٹینروں جہاں سانس لینا بھی محال ہوتا ہے میں لمبا سفر کرنا ہوتا ہے۔ ان قید خانوں میں امید صرف اک روزن سے آتی روشنی کی ایک کرن کی مانند ہوتی ہے۔
مگر جو بیمار ہو وہ کس طرح سے سانس لیتا ہے؟
جس پردردِ قلب یا فالج کا حملہ ہو و ہ کیسے درد سہتا ہے؟
ارے یہ کیا؟
نہیں ۔ ۔ نہیں ۔ ۔
شاید رزق کی تلاش میں آیا ہوگا،بھوکا ہوگا؟؟
نہیں یہ بھوکا بھی نہیں۔
پھر تو یہ سمگلر ہوگا،کسی نے مارا ہوگا؟؟ اتنا کم سن سا سمگلر ؟؟
نہیں یہ سمگلر کیسے ہو سکتا ہے؟
پھر شاید بہتر نوکری یا ملازمت کے لیے یورپ جارہا ہو گا کہ سمندر کی نذر ہوگیا !!
مہاجر؟ مہاجر کون؟
دہشت گرد؟
نہیں !!
غریب، فقیر؟
نہیں!!
معذور، بیمار، ذہنی مریض؟
وہ بھی نہیں!!
پیسے کا بھوکا کسی سرمایہ دارکا بیٹا؟
نہیں !!
تو پھر یہ معصوم سا بچہ کون تھا؟
اپنی ماں کی آنکھوں کا تارا، باپ کا پیارا یہ معصوم بچہ، والدین کے ہمراہ اپناگھر بار، مال ومتاع، تمام قیمتی اشیاء بیچ کر، اپنا شہر، ملک،بچپن، دوست احباب، اپنی چھوٹی سی دنیا کی تمام خوشیاں چھوڑ کر ایک ایسی دھرتی کی تلاش میں نکلا تھا، جہاں انہیں زندہ رہنے کی آزادی ہو۔ محبت کی ایک وادی ہو۔خوشیاں سب کی سانجھی ہوں۔لیکن اس بچے کو ہرگز یہ معلوم نہ تھا کہ اس رستے پر قدم قدم پر خطرہ ہے۔ بھوکے پیاسے، گرتے پڑتے، چلتے چلتے دشوار سرحد تک جانا ہوتا ہے۔جہاں خاردار تاریں ہوتی ہیں، اسلحہ تھامے محافظ اور ممنوعہ جاگیریں ہوتی ہیں۔ جب تیز آہنی خاردارتاروں سے نہ چاہتے ہوئے بھی چل کر گزرنا ہوتا ہے تو جسم پر خراشیں پڑتی ہیں۔پھر انہیں تنگ وتاریک آہنی اور مضبوط کنٹینروں جہاں سانس لینا بھی محال ہوتا ہے میں لمبا سفر کرنا ہوتا ہے۔ ان قید خانوں میں امید صرف اک روزن سے آتی روشنی کی ایک کرن کی مانند ہوتی ہے۔
مگر جو بیمار ہو وہ کس طرح سے سانس لیتا ہے؟
جس پردردِ قلب یا فالج کا حملہ ہو و ہ کیسے درد سہتا ہے؟
ارے یہ کیا؟
دہشت،خوف اور جنگ کے خطرے سے بھگ کر آئے ہیں صاحب، جان کے لالے پڑے ہیں صاحب،انسان ہونے کے ناطے ہم پناہ اور امن کے لیے آئے ہیں!
سمندر؟
انہوں نے تو سمندر خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔
اتنا پانی! پھر لوگ پیاسے کیوں مرتے ہیں؟
اچھا! پانی نمکین جو ہے! جان لیوا پانی!
وہ دیکھو جزیرہ، وہ دیکھو شہر کی روشنیاں صاف دکھائی دے رہی ہیں! مگر پھر کیا ہوتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ پہنچ گئے، کچھ پہنچ کر مر گئے کچھ ساحل تک بھی نہ پہنچے بلکہ دل میں اک روشن مستقبل کی امیدلیے ڈوب گئے۔ کچھ کے چہروں پر خوشی کی چمک کہ زندہ ہیں،کچھ گریہ و فغاں میں مگن کہ عزیز ساتھ چھوڑ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالٹ! ہالٹ!!!!
کون ہو تم لوگ؟
ہم انسان ہیں صاحب!
کیوں اور کس لئے آئے ہو؟
دہشت،خوف اور جنگ کے خطرے سے بھاگ کر آئے ہیں صاحب، جان کے لالے پڑے ہیں صاحب،انسان ہونے کے ناطے ہم پناہ اور امن کے لیے آئے ہیں!
کہاں سے آئے ہو ؟
زمین، جنگل ، پہاڑ، برف، دریا، سمندر پار کر کے آئے صاحب !
کس ملک سے ہو؟
انہوں نے تو سمندر خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔
اتنا پانی! پھر لوگ پیاسے کیوں مرتے ہیں؟
اچھا! پانی نمکین جو ہے! جان لیوا پانی!
وہ دیکھو جزیرہ، وہ دیکھو شہر کی روشنیاں صاف دکھائی دے رہی ہیں! مگر پھر کیا ہوتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ پہنچ گئے، کچھ پہنچ کر مر گئے کچھ ساحل تک بھی نہ پہنچے بلکہ دل میں اک روشن مستقبل کی امیدلیے ڈوب گئے۔ کچھ کے چہروں پر خوشی کی چمک کہ زندہ ہیں،کچھ گریہ و فغاں میں مگن کہ عزیز ساتھ چھوڑ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالٹ! ہالٹ!!!!
کون ہو تم لوگ؟
ہم انسان ہیں صاحب!
کیوں اور کس لئے آئے ہو؟
دہشت،خوف اور جنگ کے خطرے سے بھاگ کر آئے ہیں صاحب، جان کے لالے پڑے ہیں صاحب،انسان ہونے کے ناطے ہم پناہ اور امن کے لیے آئے ہیں!
کہاں سے آئے ہو ؟
زمین، جنگل ، پہاڑ، برف، دریا، سمندر پار کر کے آئے صاحب !
کس ملک سے ہو؟
ایلان کردی اپنے قد، عمر اور وزن کے برابر زندہ رہنے کے لیے اس کرہ ارض پر کہیں بھی زمین کا ایک ٹکڑا چاہتا تھا، لیکن اسے کہیں جائے امان نہ ملی اور وہ سمندر کی بے رحم موجوں میں کھوگیا شاید دنیا تنگ پڑ گئی ہے
اسی کرہ ارض سے ہیں صاحب! مگر وہاں انسان ہی انسان کو کھانے کے درپے ہیں۔۔۔ بہت بے رحم اور خونخوار درندے ہیں وہاں!
تم پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہو؟
جی صاحب ۔میں پروفیسر ہوں، یہ ایک ہنر مند ہے،یہ جو ساتھ کھرا ہے تاجر ہے، یہ لڑکا کالج کا لائق طالب علم ہے!
تمہیں معلوم ہے تم سب جس انداز میں ہماری سرحد پار کر کے آئے ہو، یہ غیر قانونی ہے۔ تم قانون توڑ کر آئے ہو۔ تم سب مجرم ہو۔
نہیں صاحب! یہ غیرقانونی نہیں، ہم نے کوئی جرم نہیں کیا، ہم مجرم نہیں۔
کیا آپ نے یہ نہیں سنا صاحب کہ تھامس پین کہتا تھا "یہ دنیا میرا ملک ہے،ساری انسانیت میری برادری اور اچھائی کرنا میرا مذہب ہے”۔
ہم تھامس پین کے مذہب اور قبیلے کے لوگ ہیں صاحبَ!! مگر ہم پورے نہیں ہیں، کچھ کو موت نے آلیا۔ جس تعداد میں چلے تھے، ان میں سے بہت سوں کو مشکلوں نے کھا لیا صاحب!!
اب ذرا اس بچے کو ہی دیکھ لیجئے صاحب!
وزن: 1 غنچہ پھول
قد: 2 فٹ
عمر :3 سال
ایلان کردی اپنے قد، عمر اور وزن کے برابر زندہ رہنے کے لیے اس کرہ ارض پر کہیں بھی زمین کا ایک ٹکڑا چاہتاتھا، لیکن اسے کہیں جائے امان نہ ملی اور وہ سمندر کی بے رحم موجوں میں کھوگیا شاید دنیا تنگ پڑ گئی ہے۔
مگر وہ صاحب !
وہ دنیا بھر کے اسلحہ ساز کارخانوں کے مالکان، خونخوار جنگجو،سیاست دان، مہاجر کمیٹیوں کے سربراہ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھو! انسانیت اب بھی زندہ ہے۔
دیکھو! دنیا بھر میں ٹرین اسٹیشنوں، ہوائی اڈوں، ساحل سمندر کے کناروں، بس اسٹاپوں،تمہاری کھینچی سرحدی لکیروں پر انسان مہاجروں کو پانی کی بوتلوں، پھولوں،تحفوں، بچوں کے کھلونوں کے ساتھ خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔
تم سب ہار گئے۔۔۔۔ انسانیت جیت گئی!!!
تم پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہو؟
جی صاحب ۔میں پروفیسر ہوں، یہ ایک ہنر مند ہے،یہ جو ساتھ کھرا ہے تاجر ہے، یہ لڑکا کالج کا لائق طالب علم ہے!
تمہیں معلوم ہے تم سب جس انداز میں ہماری سرحد پار کر کے آئے ہو، یہ غیر قانونی ہے۔ تم قانون توڑ کر آئے ہو۔ تم سب مجرم ہو۔
نہیں صاحب! یہ غیرقانونی نہیں، ہم نے کوئی جرم نہیں کیا، ہم مجرم نہیں۔
کیا آپ نے یہ نہیں سنا صاحب کہ تھامس پین کہتا تھا "یہ دنیا میرا ملک ہے،ساری انسانیت میری برادری اور اچھائی کرنا میرا مذہب ہے”۔
ہم تھامس پین کے مذہب اور قبیلے کے لوگ ہیں صاحبَ!! مگر ہم پورے نہیں ہیں، کچھ کو موت نے آلیا۔ جس تعداد میں چلے تھے، ان میں سے بہت سوں کو مشکلوں نے کھا لیا صاحب!!
اب ذرا اس بچے کو ہی دیکھ لیجئے صاحب!
وزن: 1 غنچہ پھول
قد: 2 فٹ
عمر :3 سال
ایلان کردی اپنے قد، عمر اور وزن کے برابر زندہ رہنے کے لیے اس کرہ ارض پر کہیں بھی زمین کا ایک ٹکڑا چاہتاتھا، لیکن اسے کہیں جائے امان نہ ملی اور وہ سمندر کی بے رحم موجوں میں کھوگیا شاید دنیا تنگ پڑ گئی ہے۔
مگر وہ صاحب !
وہ دنیا بھر کے اسلحہ ساز کارخانوں کے مالکان، خونخوار جنگجو،سیاست دان، مہاجر کمیٹیوں کے سربراہ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھو! انسانیت اب بھی زندہ ہے۔
دیکھو! دنیا بھر میں ٹرین اسٹیشنوں، ہوائی اڈوں، ساحل سمندر کے کناروں، بس اسٹاپوں،تمہاری کھینچی سرحدی لکیروں پر انسان مہاجروں کو پانی کی بوتلوں، پھولوں،تحفوں، بچوں کے کھلونوں کے ساتھ خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔
تم سب ہار گئے۔۔۔۔ انسانیت جیت گئی!!!
بہت خوبصورت اور پر اثر تحریر ہے لیکن یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ تحریر ڈاکٹر امجد صاحب کی نہیں بلکہ لیاقت علی کی ہے جو 6 ستمبر کو فیس بک پر شائع ہوئی تھی https://www.facebook.com/liaqatdawar/posts/892756430772513 ۔ مجھے نہیں معلوم کہ ڈاکٹر موصوف نے کیا سوچ کراسے اپنے نام سے شائع کروایا ؟ امید ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کرنے کے ساتھ اس تحریرکو اس کے اصل مصنف کے نام سے شائع کروائیں گے تاکہ حق بہ حقدار رسد ۔