تشدد ہر صورت غلط اور قابل مذمت ہے ۔ لاہور میں دو مسیحی عبادت گاہوں پردہشت گرد حملے کے بعد احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ اور دوافراد کے سرعام قتل اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کا دفاع ممکن نہیں تاہم اس جرم کو عقیدے کی بنیاد پر سوچا سمجھا اور ارادی عمل قرار دیا جانا نامناسب ہے۔ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں دوافراد کی بہیمانہ ہلاکت یہ ظاہرکرتی ہےکہ ریاستی ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اقلیتوں اور محروم طبقات کے تحفظ اورفراہمی انصاف میں ناکام ہیں، اور اس ناکامی کے باعث قانون کو ہاتھ میں لینے کے رحجان میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس واقعہ سے متعلق یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسیحی ، شیعہ ، بریلوی اور احمدی آبادیوں اور عبادت گاہوں اور عوامی مقامات پر حملے مذہب کی بنیاد پر سرگرم دہشت گردوں کی کارروائیاں ہیں لیکن ہجوم کا اشتعال میں آ کر دوافراد کو قتل کرنا مذہبی محرکات کے تحت نہیں بلکہ فوری اشتعال کے تحت تھا۔ اس عمل کی نہ تو حمایت کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ایسا کرنے والوں سے ہمدردی کی جاسکتی ہے تاہم اس بنیاد پر مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کو بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عقیدے کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف احتجاج کے دوران انسانی جان اور املاک کو نقصان پہنچانے سے محض ان دہشت گردگروہوں کے ہاتھ ہی مضبوط ہوں گے جو پاکستانی معاشرے کو مذہبی تشدد اور منافرت کے ذریعے کم زور اور تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
عقیدے کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف احتجاج کے دوران انسانی جان اور املاک کو نقصان پہنچانے سے محض ان دہشت گردگروہوں کے ہاتھ ہی مضبوط ہوں گے جو پاکستانی معاشرے کو مذہبی تشدد اور منافرت کے ذریعے کم زور اور تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
لاہور سانحہ کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے محرکات کا درست تعین کیا جائے اورمسیحی عبادت گاہوں پر حملے کی شدت اور اقلیتوں کے خلاف جاری مذہبی تشدد کو دوافراد کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے باعث پس پشت نہ ڈال دیا جائے۔ مشتعل ہجوم کا متشدد ردعمل غلط ہے لیکن کئی دہائیوں کی محرومی،نظام انصاف کی عدم فعالیت اور ریاست کی سطح پر نظرانداز کیے جانے کے باعث ہے اور اسے اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ مشتعل ہجوم اگرچہ مسیحی عقائد کا حامل تھا تاہم ان کا ردعمل مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ احساس محرومی، ریاست کی سطح پر نظر انداز کیے جانے اور عدم تحفظ کے باعث تھا۔ اس واقعہ کے تناظر میں گوجرہ کے مسیحیوں پر کیے جانے والے حملوں، احمدیوں اور اہل تشیع کے خلاف حملوں اور مسیحی جوڑے کو زندہ جلائے جانے جیسے واقعات سے متعلق حقائق کو مسخ کرنا مناسب نہیں اور نہ ہی اس واقعے مذہبی دہشت گردی اور مذہبی منافرت پر مبنی جرائم کے ہم پلہ قراردیاجاسکتا ہے۔ مشتعل ہجوم ، مشتعل مذہبی گروہوں اور مذہبی محرکات کے تحت دہشت گردی کرنے والوں کے درمیان فرق کو بھلا دینے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاسکتے۔
مشتعل مسیحی ہجوم کے ہاتھوں دوافراد کی ہلاکت کی بنیاد پر اس واقعہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش اور اسے مسلم بمقابلہ غیر مسلم صورت دینے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔
مسیحی برادری پر اس سے قبل مذہبی بنیادوں پر مسیحی برادی پر کیے جانے والے حملوں کے تناظر میں یہ ضروری ہے کہ اس انسانیت سوز اور دلخراش واقعے کواقلیتوں کے خلاف مزید اشتعال پھیلانے اور مذہبی منافرت کی بنیاد پر منظم اور انفرادی جرائم کا جواز بننے سے بھی روکا جائے۔ مشتعل مسیحی ہجوم کے ہاتھوں دوافراد کی ہلاکت کی بنیاد پر اس واقعہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش اور اسے مسلم بمقابلہ غیر مسلم صورت دینے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔
مذہبی محرکات کے تحت کی جانے والی دہشت گردی اور ریاست کی جانب سے ماضی میں مذہبی دہشت گردی کی سرپرستی کے باعث معاشرہ میں مذہبی شناخت کی بنیاد پر عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔ ریاستی اور سیاسی مفادات کے تحت ملک کے اندر تکفیری گروہوں، فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیموں اور اقلیتوں کے خلاف منافرت کی داعی مذہبی تحریکوں کی سرپرستی، حمایت، ہمدردی یا ان کی جانب سے آنکھیں بند رکھنے کی پالیسی کے باعث معاشرتی گروہوں کے مابین عقیدے کی بنیاد پر عدم اعتماد، نفرت اور اشتعال میں اضافہ ہوا ہے۔ریاست کو معاشرے میں تمام مذہبی گروہوں کو یکساں آزادی فراہم کرنے اور مذہبی منافرت سے پاک سماجی میل جول کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہوگا۔ ریاست کو یہ واضح پیغام دینا ہوگا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں خواہ مذہبی بنیادوں پر کارروائیاں کرنے والے دہشت گرد ہوں یا اشتعال میں آکر املاک اور انسانی جانوں کا ضیاع کرنے والے ہجوم ہوں سب قانون کے سامنے جوابدہ ہیں اور سب کو اپنے جرائم کا حساب دینا ہوگا۔
مذہبی محرکات کے تحت کی جانے والی دہشت گردی اور ریاست کی جانب سے ماضی میں مذہبی دہشت گردی کی سرپرستی کے باعث معاشرہ میں مذہبی شناخت کی بنیاد پر عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔ ریاستی اور سیاسی مفادات کے تحت ملک کے اندر تکفیری گروہوں، فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیموں اور اقلیتوں کے خلاف منافرت کی داعی مذہبی تحریکوں کی سرپرستی، حمایت، ہمدردی یا ان کی جانب سے آنکھیں بند رکھنے کی پالیسی کے باعث معاشرتی گروہوں کے مابین عقیدے کی بنیاد پر عدم اعتماد، نفرت اور اشتعال میں اضافہ ہوا ہے۔ریاست کو معاشرے میں تمام مذہبی گروہوں کو یکساں آزادی فراہم کرنے اور مذہبی منافرت سے پاک سماجی میل جول کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہوگا۔ ریاست کو یہ واضح پیغام دینا ہوگا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں خواہ مذہبی بنیادوں پر کارروائیاں کرنے والے دہشت گرد ہوں یا اشتعال میں آکر املاک اور انسانی جانوں کا ضیاع کرنے والے ہجوم ہوں سب قانون کے سامنے جوابدہ ہیں اور سب کو اپنے جرائم کا حساب دینا ہوگا۔